Nai Baat:
2025-01-18@07:55:14 GMT

مذاکرات ٹھس، عمران، بشریٰ کرپٹ قرار پا گئے

اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT

مذاکرات ٹھس، عمران، بشریٰ کرپٹ قرار پا گئے

پی ٹی آئی نے تحریری مطالبات پیش کر دیئے ہیں۔ 9مئی اور 26نومبر کے حادثات کی تحقیقات کے لئے تحقیقاتی کمیشن بنایا جائے جس کی سربراہی چیف جسٹس آف پاکستان کریں اور عمران خان کو رہا کیا جائے۔ انکوائری کمیشن کے مطالبے اور ملاقات کے بعد رانا ثناءاللہ اور عرفان صدیقی نے پریس کانفرنس کی جبکہ دوسری طرف صاحبزادہ حامد رضا نے مذاکرات کے حوالے سے پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ دونوں فریقین کی گفتگو سے کوئی تازہ ہوا کا جھونکا نہیں آیا۔ الزام تراشیاں ہوئیں، دونوں نے ایک دوسرے کو مذاکرات سے بھاگنے کا طعنہ دیا۔ پی ٹی آئی کی غیر سنجیدگی کھل کر سامنے آ گئی ہے، ان کے مطالبات اور ان پر حکومت کا تبصرہ واضح کر رہا ہے کہ مذاکرات کی بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیں آ رہی ہے۔ دونوں فریق ہی اپنی اپنی سیاست کے اسیر نظر آ رہے ہیں۔ پی ٹی آئی اپنی گیم کر رہی ہے، پی ٹی آئی میں بہت سے گروہ اپنی اپنی گیم بنانے میں مصروف ہیں۔ ویسے تو پارٹی عمران خان کی ہے، عمران خان ہی پارٹی ہیں لیکن عمران خان جیل میں ہیں اور ان پر مختلف قسم کی پابندیاں ہیں۔ وہ کھل کھلا کر پارٹی کی رہنمائی نہیں کر پا رہے ہیں۔ انہوں نے بیرسٹر گوہر کو پارٹی سربراہ نامزد تو کر دیا ہے لیکن وہ پارٹی سربراہی کر پا رہے ہیں اور نہ ہی انہیں کھل کر پارٹی چلانے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ وہ عمران خان کی پراکسی بلکہ پیامبر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ پارٹی پر ان کی گرفت نہیں ہے گو ان کا تعلق وکلاءبرادری سے ہے لیکن یہاں تو پارٹی کے وکلاءہی تقسیم نظر آ رہے ہیں۔ انصاف لائرز فورم ہی دو گروپوں میں بٹ چکا ہے۔ عمران خان کی زوجہ بشریٰ بی بی بھی عمران خان کی حقیقی نمائندگی کا دعویٰ کرتی ہیں۔ 26نومبر کے دھاوے کی قیادت کرتے ہوئے انہوں نے عمران خان کی ہدایت کے برعکس، اسلام آباد ڈی چوک کی طرف پیش قدمی جاری رکھی اور بالآخر انہیں وہاں سے بھاگنا پڑا۔ وہ 26نومبر کے دھاوے سے قبل پشاور میں پارٹی لیڈر کے طور پر ایکٹ کرتی رہیں۔ ایم پی ایز اور ایم این ایز کو فرداً فرداً ہدایات جاری کرتی رہیں، انہیں بندے لانے کے لئے دھمکاتی رہیں پھر مارچ کی قیادت کرکے اور عمران خان کی ہدایات کے برعکس ڈی چوک کی طرف چلی گئیں۔ انہوں نے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وہ عمران خان کی حقیقی پراکسی ہی نہیں ہیں بلکہ وہی اصل رہنما ہیں۔ ایسے میں گوہر صاحب یا سلمان اکرم راجہ صاحب کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔ بشریٰ بی بی ہی عمران خان کو چلاتی رہی ہیں۔ 44ماہی دور حکمرانی میں بھی بشریٰ بی بی درپردہ معاملات پر غالب تھیں۔ پی ٹی آئی کے مطالبات حکومت کے لئے کسی طور بھی قابل قبول نظر نہیں آ رہے ہیں۔ صاحبزادہ حامد رضا نے
بڑے واضح الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ کمیشن کی تشکیل کے اصولی اعلان/ فیصلے کے بغیر بات چیت کا اگلا مرحلہ نہیں ہوگا گویا مذاکرات کا ڈرامہ ختم ہی سمجھنا چاہئے۔
دوسری طرف 190ملین پاﺅنڈ کرپشن کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا ہے۔ عمران خان کو 14سال قید اور 10لاکھ روپے جرمانہ جبکہ جرمانے کی عدم ادائیگی کی صورت میں 6ماہ قید بھگتنا ہوگی۔ بشریٰ بی بی کو 7سال قید اور 5لاکھ روپے جرمانہ جبکہ جرمانے کی عدم ادائیگی کے باعث 3ماہ مزید قید بھگتنا ہوگی۔ القادر یونیورسٹی کی زمین بھی ضبط کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ عمران خان کو کرپٹ پریکٹسز میں ملوث ہونے کی سزا دی گئی ہے جبکہ بشریٰ بی بی کو ان کاموں میں معاونت کرنے کی سزا دی گئی ہے۔ یہ کیس اوپن اینڈ شٹ کے زمرے میں آتا ہے۔ 190ملین پاﺅنڈ کیس ایسا کھلا کیس تھا کہ اس میں ملوث افراد کو سزا ہونا لازمی تھی اور عملاً ایسا ہی ہوا۔
ذرا غور کریں ایک القادر ٹرسٹ ہے جس کے دو ٹرسٹیز ہیں۔ عمران خان اور بشریٰ بی بی، اس ٹرسٹ میں آج تک کسی نے کوئی ڈونیشن نہیں دی۔ صرف ملک ریاض نے اراضی ڈونیٹ کی کہ اس پر ایک یونیورسٹی بنائی جا سکے، یہ بالواسطہ ادائیگی تھی، 190ملین پاﺅنڈ کو ملک ریاض کے جرمانے کی ایڈجسٹمنٹ کرنے کے بدلے میں کی گئی۔ 190ملین پاﺅنڈ کرپشن کا مال تھا جو برطانوی عدالت میں ثابت ہوا۔ برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے ملک ریاض کی اس رقم کو کرپشن کی دولت ثابت کیا، اسے ضبط کیا گیا اور پھر یہ حکومت پاکستان کے حوالے کیا گیا کہ یہ رقم پاکستانی عوام کی ہے اور انہیں لوٹائی جا رہی ہے۔ عمران خان نے شہزاد اکبر کے ساتھ مل کر کابینہ کو مکمل اندھیرے میں رکھ کر جھوٹ بول کر یہ رقم ملک ریاض کے جرمانہ اکاﺅنٹ میں ایڈجسٹ کر دی جو رقم پاکستان کے خزانے میں جمع ہونا چاہئے تھی وہ ملک ریاض کے جرمانے کی مد میں جمع کرا دی گئی پھر اس مہربانی کے جواب میں ملک ریاض نے کرپٹ جوڑے کے ٹرسٹ کو 458کنال زمین عطیہ کر دی۔ دونوں فریقین ہی کرپشن میں ملوث رہے ہیں۔ انہوں نے بڑے خوبصورت انداز میں لین دین کیا۔ بشریٰ بی بی ہیرے کی انگوٹھیاں بھی ملک ریاض سے وصول کرتی رہی ہیں۔ زیورات بھی وصول کئے گئے ہیں۔ عمران خان نے سعودی حکومت کا تحفہ گھڑی پیک جس طرح بیچا بلکہ جس طرح توشہ خانے سے نکلوایا وہ بھی ہماری قومی تاریخ کا ایک المناک باب ہے۔ عمران خان اور بشریٰ بی بی جو پاکستان کی قومی سیاست میں کرپٹ ترین جوڑے کے طور پر معروف ہو چکے ہیں۔ کذب اور جھوٹ کی سیاست میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔ پی ٹی آئی اپنی پروپیگنڈہ مشینری کے ذریعے 190ملین پاﺅنڈ کرپشن بارے جھوٹ کی چادر تاننے میں مصروف رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کی اس حوالے سے حکمت عملی بڑی شاندار رہی ہے وہ کسی بھی معاملے میں کچھ اس طرح بیان بازی کرتے ہیں۔ جھوٹ اس طرح پھیلاتے اور اچھالتے ہیں کہ سچ کہیں چھپ جاتا ہے، گم ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف ن لیگ، پیپلزپارٹی وغیرھم تمام تر مالی وسائل رکھنے کے باوجود اس جھوٹ و کذب کا پردہ چاک کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ یہ لوگ سچ کو بھی نمایاں کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ پیپلزپارٹی و ن لیگ مل جل کر حکومت بناتے اور چلاتے رہے ہیں لیکن دونوں کا اخلاص ثابت شدہ نہیں ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھی تو ہیں لیکن ان کا یہ اتحاد مفادات پر مبنی ہے جب نوازشریف اور بے نظیر بھٹو کا میثاق جمہوریت ہوا تھا تو اس کے خدوخال واضح تھے، ٹارگٹس کلیئر تھے اور دونوں بڑے اخلاص کے ساتھ ان پر عمل پیرا بھی ہوئے۔ اس سے جاری سیاسی نظام میں نہ صرف بہتری پیدا ہوئی بلکہ بہتری نظر بھی آئی۔ جمہوری نظام میں بہتری نظر آنے لگی۔ طالع آزما قوتوں کے پروردہ سیاسی رہنماﺅں کی امیدوں پر اوس پڑنے لگی۔ پھر بے نظیر بھٹو کو جبراً منظر سے ہٹا دیا گیا۔ ان کی شہادت کے بعد پیپلزپارٹی کی قیادت زرداری صاحب کے حوالے ہو گئی۔ انہوں نے سیاست میں جو کچھ کیا اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ پیپلزپارٹی سمٹ کر سندھ میں مرتکز ہو چکی ہے۔ زرداری صاحب سب پر بھاری ضرور ہیں لیکن ان کا بھاری پن ان کی پارٹی کو بھی لے بیٹھا ہے۔ پی ٹی آئی بطور پارٹی شاید تتر بتر ہو چکی ہے لیکن اس کی پروپیگنڈہ مشینری فعال و متحرک ہے۔ عمران خان جیل میں ہونے کے باوجود قومی سیاست میں ایک فعال عنصر کے طور پر موجود ہیں۔ ان کی پارٹی کبھی ٹرمپ کارڈ کھیلتی ہے، کبھی سول نافرمانی کارڈ کھیلتی ہے، کبھی آخری بال اور آخری کال دیتی ہے۔ کبھی بشریٰ بی بی لانچ کی جاتی ہے سب کچھ ناکام ہونے کے باوجود عمران خان ملک کو ایک تھریٹ کے طور پر کھڑا ہے۔ اس کی زبان ملک کے خلاف شعلے اگلتی رہتی ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ایسے مجرم کو حکومت کس طرح سہولیات دیتی ہے کہ وہ اپنی پارٹی کی رہنمائی کرے۔ جیل کے دروازے رات کو بھی اور اتوار کو بھی کھول دیئے جاتے ہیں کہ وہ اپنے لوگوں کو ہدایات دے سکیں۔ حکمران عمران خان کی ملک و قوم دشمنی کا پردہ چاک کرنے اور اسے کرپٹ ترین شخص ثابت کرنے میں ویسا کچھ نہیں کر سکے ہیں جیسا کہا جانا چاہئے تھا۔ عدالتوں کے فیصلوں کے ذریعے تو اسے کیفرکردار تک پہنچایا جا رہا ہے لیکن پروپیگنڈہ کے محاذ پر حکمران ناکام نظر آ رہے ہیں۔ سچ ظاہر ہو کر رہتا ہے اور ایسا ہو بھی رہا ہے لیکن سچ کو نمایاں کرنے اور جھوٹے کو بے نقاب کرنے میں جو کاوشیں ہونا چاہئیں وہ نظر نہیں آ رہی ہیں۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: 190ملین پاﺅنڈ عمران خان کی عمران خان کو سیاست میں جرمانے کی پی ٹی آئی کے طور پر آ رہے ہیں انہوں نے ملک ریاض ہیں لیکن ہے لیکن کو بھی نہیں آ رہی ہے

پڑھیں:

190ملین پاﺅنڈ کیس، القادر یونیورسٹی کو بھی وفاقی حکومت کے حوالے کرنے اور بحق سرکار ضبط کرنے کا حکم

راولپنڈی(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔17 جنوری 2025)احتساب عدالت نے 190 ملین پاﺅنڈ کیس میں بانی پی ٹی آئی عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو سزا سنانے کے ساتھ ساتھ القادر یونیورسٹی کو بھی وفاقی حکومت کے حوالے کرنے اور القادر یونیورسٹی کو بحق سرکار ضبط کرنے کا حکم بھی دیا،عدالت نے اپنے فیصلے میں القادر یونیورسٹی کو وفاقی حکومت کے حوالے کرنے کا حکم بھی دیا اور کہا کہ حکومت یونیورسٹی کا انتظام سنبھالے۔

عدالتی فیصلے کے مطابق القادر یونیورسٹی سرکاری کنٹرول میں دے دی گئی ہے جب کہ القادر ٹرسٹ بھی سرکاری کنٹرول میں دے دیا گیا ہے۔ عدالتی فیصلے کے مطابق القادر یونیورسٹی کو بحق سرکار ضبط کر لیا گیا ہے۔ القادر یونیورسٹی پروجیکٹ کی وجہ سے عمران خان اور بشریٰ بی بی کو قانونی مشکلات کا سامنا رہا ہے،دونوں پر اختیارات کے غلط استعمال اور مالی بے ضابطگیوں کے الزامات کی وجہ سے نیب کیسز بنے تھے۔

(جاری ہے)

بانی پی ٹی آئی عمران خان پر الزام عائد کیاگیاتھا کہ عمران خان نے خفیہ معاہدے کو اپنے اثر و رسوخ سے وفاقی کابینہ میں منظور کرایا۔ سابق مشیر برائے احتساب مرزا شہزاد اکبر نے 6 دسمبر 2019 کو نیشنل کرائم ایجنسی کی رازداری ڈیڈ پر دستخط کئے جبکہ بشریٰ بی بی پر بانی پی ٹی آئی کی غیر قانونی سرگرمیوں میں اہم کردار ادا کرنے کا الزام بھی عائد کیا گیا تھا۔

190 ملین پاونڈز ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ کرپشن کی رقم نجی ہاوسنگ سوسائٹی کے جرمانے میں ایڈجسٹ کر کے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا گیاتھا۔ کیس میں وفاقی کابینہ سے حقائق چھپا کر جبری منظوری لینے کا الزام تھا۔قبل ازیں احتساب عدالت نے 190 ملین پاونڈز کیس کامحفوظ کیا گیا فیصلہ سناتے ہوئے بانی پی ٹی آئی عمران خان کو 10 لاکھ روپے جرمانے کی سزا بھی سنائی اور جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں مزید 6 ماہ قید کاٹنے کی سزا سنائی ہے۔

عدالت نے فیصلے میں کہا کہ بشریٰ بی بی پر جرم میں معاونت کا الزام ثابت ہوتا ہے۔ بشری بی بی کو نیب آرڈیننس 10 اے کے تحت 7 سال قید بامشقت کی سزا سنائی سنائی جاتی ہے۔ بشریٰ بی بی کو 5 لاکھ روپے جرمانے کی سزا بھی سنائی گئی اور جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں مزید 3 ماہ قید ہوگی۔خیال رہے کہ عدالت نے فیصلہ گزشتہ برس اٹھارہ دسمبرکو محفوظ کیا تھا تاہم فیصلہ سنانے کیلئے پہلے23 دسمبر، پھر 6 جنوری اور پھر 13 جنوری کی تاریخ دی گئی تاہم فیصلہ نہیں سنایا جاسکا۔بانی پی ٹی آئی عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف القادر ٹرسٹ یونیورسٹی سے جڑے 190 ملین پاونڈ کے ریفرنس کی سماعت ایک سال میں مکمل ہوئی۔ کیس کی 100 سے زائد سماعتیں ہوئیں۔

متعلقہ مضامین

  • پی ٹی آئی کا عمران خان کو سزا کے باوجود حکومت سے مذاکرات جاری رکھنے کا اعلان
  • عمران خان سرٹیفائیڈ کرپٹ سیاستدان ہیں ،برطانوی عدالت سے بھی ان کو سزا مل جائے گی: احسن اقبال
  • احتساب عدالت کا القادر یونیورسٹی کو بھی وفاقی حکومت کے حوالے کرنے کا حکم
  • حکومت کے ساتھ مذاکرات جاری رہیں گے: بیرسٹر گوہر کی وضاحت
  • 190ملین پاﺅنڈ کیس، القادر یونیورسٹی کو بھی وفاقی حکومت کے حوالے کرنے اور بحق سرکار ضبط کرنے کا حکم
  • عمران خان اور بشریٰ بی بی کو سزا
  • ’عمران خان نے پارٹی سے نکالنا ہے تو بے شک نکال دیں‘ شیر افضل مروت
  • شیخ وقاص اکرم علی امین گنڈا پور کی نہیں پارٹی کی ترجمانی کرے:عمران خان
  • مبینہ انتخابی دھاندلی: پاکستان تحریک انصاف کا 8 فروری کو ملک گیر احتجاج کا فیصلہ