Nai Baat:
2025-04-15@06:48:18 GMT

لاحاصل بات چیت

اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT

لاحاصل بات چیت

حکومت اور حزبِ اختلاف کے مابین روابط میں پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ اعلانیہ ملاقاتیں ہونے کے ساتھ چیت کا عمل شروع ہو چکا ہے جس کاتسلسل رہنے سے سیاسی کشیدگی ختم ہوسکتی ہے لیکن دونوں طرف کی اعلیٰ قیادت میں دوریوں اور براہ راست روابط نہ ہونے کی وجہ سے نتائج کے حوالہ سے اچھی توقعات نہیںخیر اولیں بیٹھک بے نتیجہ سہی دونوں طرف سے ملاقاتیں جاری رکھنا حوصلہ افزا عمل ہے قومی اسمبلی کے سپیکر سردار ایاز صادق بظاہر غیر جانبدار ہیں لیکن بات چیت پر آمادگی کو حکومت کی اخلاقی فتح ثابت کرنے کے لیے کوشاں ہےں بہتر تویہی ہے کہ مسائل کا حل منتخب ممبران مل بیٹھ کر تلاش کریں مگر بات چیت جاری رکھنے اور مزید ملاقاتوں پر اتفاق کے باوجود دونوں طرف موجود بداعتمادی مذاکراتی عمل کولاحاصل ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔
بات چیت میں شامل شخصیات کو اگر اختیارات کے حوالے سے دیکھیں توکوئی بھی کسی قسم کا اہم فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتا اس لیے اتفاق کی توقع تو نہیں لیکن حکومت کی یہ ہی بڑی کامیابی ہے کہ جو جماعت اُسے منتخب تسلیم کرنے سے انکاری تھی اورصرف مقتدرہ سے بات چیت کی خواہشمند تھی وہی بات چیت کی میز پر آ گئی ہے اور بائیس نکاتی مطالبات کی فہرست پیش کردی ہے جب بات چیت میں شامل افراد کے پاس حتمی فیصلے کا اختیار نہیں تو بات چیت کے عمل کو محض تبادلہ خیال ہی کہہ سکتے ہیں کیونکہ ہر ملاقات کا اعلیٰ قیادت سے پوچھ کر بتانے پر اختتام ہوتا ہے حکومتی جماعتیں اپنی بہتری اسی میں سمجھتی ہیں کہ حزبِ اختلاف اور مقتدرہ میں افہام و تفہیم نہ ہو جبکہ حزبِ اختلاف کی کوشش ہے کہ مقتدرہ کو یقین دلا دیا جائے کہ جنہیں حکمرانی کا اعزازدے رکھا ہے وہ محض ایک بوجھ ہیں اور ملک کو درپیش مسائل حل کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں اور مقبول قیادت نہ صرف ملکی مسائل حل کر سکتی ہے بلکہ مقتدرہ پر بڑھتے عوامی دباﺅ کو کم کرنے میں مددگارثابت ہو سکتی ہے بات چیت کے ساتھ مقتدرہ سے حزبِ اختلاف بیک چینل روابط کر رہی ہے قومی سلامتی کو درپیش خطرات کے تناظر میں حزبِ اختلاف کی عسکری قیادت سے ہونے والی ملاقاتوں سے سلسلہ جنبانی بحال ہو چکا بیرسٹر گوہر کی عسکری قیادت سے ملاقات کی خود عمران خان تصدیق کر چکے لیکن کیا نو مئی واقعات کے حوالے سے غم و غصے ختم ہو چکا ہے؟ اِس سوال کا ہاں میں جواب دینا مشکل ہے۔
تحریری مطالبات میں حزبِ اختلاف نے غیر متوقع لچک کا مظاہرہ کیا نہ صرف گزشتہ برس کے آٹھ فروری کے انتخابی نتائج کے دوران دھاندلی الزامات سے کنارہ کش ہو گئی ہے بلکہ چھبیسویں آئینی ترمیم کے خاتمے کا مطالبہ بھی ترک کر دیا ہے جس سے فارم سینتالیس کا شور ختم ہو گیا مگر سیاسی صورتحال ایسی ہے کہ چھوٹی موٹی لچک بات چیت کے عمل کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے بے معنی ہو چکی نو مئی اور چھبیس نومبر واقعات پر عدالتی کمیشن کی تشکیل پر عدم اتفاق ہے پہلے بات چیت کی حکومتی پیشکش کو حزبِ اختلاف قبول کرنے پر تیار نہیں تھی اب لگتا ہے کہ بات چیت کاحصہ ہونے کے باوجود حکومتی خواہش ہے کہ بات چیت میں مطالباتی فہرست کے نکات پر اتفاق نہ ہو حکومتی صفوں میں بے زاری کی کیفیت ہے اسحاق ڈار نے وضاحت بھی کر دی کہ جمہوری استحکام کے لیے فوج سے بہترین تعلقات ہیں اِس لیے شہباز شریف پانچ برس وزیرِ اعظم رہیں گے یہ وضاحت، اعتراضات ا ورخیالات سے ظاہر ہے کہ بات چیت کے عمل کو لاحاصل رکھناہی حکومتی حکمتِ عملی ہے۔
اگر حکومت مسائل کا شکار ہے تو حزبِ اختلاف کو بھی بدترین دباﺅ کا سامنا ہے اُسے سیاسی اجتماعات کے حوالے سے پابندیوں کا سامنا ہے گزرے برس چھبیس نومبر کو حتمی بلاوے کا اسلام آباد میں جو حشر کیا گیا اُس کا پیغام یہی ہے کہ سب سے بگاڑ کر کچھ حاصل نہیں کیا جا سکتاشاید اسی لیے بات چیت کاکڑوا گھونٹ پیاگیا تاکہ معتوب جماعت ہونے کا تاثر زائل ہو حزبِ اختلاف کے کئی رہنما افہام و تفہیم کی پیشکشیں لیکر جیل میں بند عمران خان کو ملتے تو بانی پی ٹی آئی سب کی سُن کر آخر پرانکارکردیتے جس کی وجہ سے کئی رہنما جماعت کے چیئرمین کی نظروں میں غیر اہم ہوتے گئے اب پسِ پردہ ہونے والی افہام و تفہیم کی کوششیں دم توڑ چکی ہیں بیرسٹر گوہر اور علی امین کی اہم شخصیات سے ملاقاتیں بھی سیاسی کی بجائے قومی سلامتی کے تناظر میں ہوئیں۔ 190 ملین پونڈ کی مبینہ غبن کے مقدمے کا فیصلہ سنانے کی تین بار تاریخ تبدیل کرنا ظاہر کرتا ہے کہ حکومت جاری بات چیت کے عمل پرحاوی رہناچاہتی ہے جو حکومت کے لیے سیاسی حوالے سے نقصان کا موجب ہو سکتی ہے عمران خان اور اُن کی بہنیں ایسا تاثر بنانے میں مصروف ر ہیں کہ مقدمہ جھوٹا اور بے بنیادہے اُن کی طرف سے سزا سنانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے اِس کیس کو مکمل طورپر بے بنیادنہیں کہا جا سکتا جب پرنسپل سیکرٹری اعظم خان، سابق وزیرِ اعلیٰ پرویز خٹک، وفاقی وزیر زبیدہ جلال اور القادر ٹرسٹ کے مالی معاملات کی دیکھ بھال کی ذمہ دار اہم شخصیات کے اعترافی بیان موجود ہیں واقفان حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومت اِس مقدمے کے ذریعے عمران خان کو سیاسی منظر سے ہٹانا جبکہ اسی مقدمے کے دبئی میں مقیم مرکزی کردارکو بچانے کی خواہشمند ہے ایک کیس کے فیصلے میں دو ملزمان سے الگ الگ سلوک آئینی، قانونی اور اخلاقی ہر حوالے سے سمجھ سے بالاتر ہے اب جبکہ عمران خان کو چودہ برس قید اور دس لاکھ جرمانے، بشریٰ بی بی کو سات برس قید اور پانچ لاکھ جرمانے کی سزا سنا دی گئی ہے اِن حالات میں بات چیت کا عمل سیاسی استحکام کی بنیاد نہیں بن سکتا اِس سزا کو عوام میں انتقامی کارروائی ثابت کرنا بہت آسان ہو گا جب سوشل میڈیا پر حکومت کے خلاف اور اپوزیشن کے لیے فضا بہت سازگار ہے۔
چند ایک شعبوں میں کامیابیوں کے باوجود ملکی حالات میں بہتری کا تاثر ناپید ہے ایک طرف تو یہ صورتحال ہے کہ اخراجات میں کمی کے لیے کئی وزارتیں اور شعبے ضم کر دئیے گئے ہیں جس سے دو لاکھ کے قریب آسامیاں ختم کی گئیں مزید یہ کہ بچت کے نام پر ہزاروں افراد کو ملازمتوں سے نکالا جا رہا ہے جس کی وجہ قرضوں کا بوجھ ناقابلِ برداشت ہونا ہے مگر ٹیکس اکٹھے کرنے کا ذمہ دار جو اِدارہ ہدف حاصل کرنے میں مسلسل کئی برس سے ناکام ہے اوراِس ناکامی کو کامیابی میں بدلنے کی بجائے ایف بی آر نے ایک ہزار نئی گاڑیاں خریدنے کے لیے چھ ارب روپے مختص کر دئیے ہیں پنجاب، سندھ، بلوچستان اور کے پی کے میں بھی بچت کے نام پر ایسی شاہ خرچیاں عروج پر ہیں لہٰذا قوی خیال ہے کہ مذاکرات کے دوران عمران خان کو اہلیہ سمیت سزا سنانے اور بچت کی آڑ میں شاہ خرچیاں چند شعبوں کی معمولی کامیابیاں رائیگاں کر سکتی ہیں اب حکومت اور حزبِ اختلاف میں جاری بات چیت کا عمل جاری رہے یا ختم، اِس لاحاصل عمل سے سیاسی منظرنامہ بدلنے کا کوئی امکان نہیں البتہ سیاسی عدمِ استحکام بڑھ سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: بات چیت کے عمل عمران خان کو حوالے سے سکتی ہے کے لیے عمل کو

پڑھیں:

ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا (آخری حصہ)

حکومت انسانیت کا زریں سبق بھول چکی ہے۔ آنکھوں کے آگے پڑنے والا پردہ ہٹنے کا نام نہیں لیتا ہے۔گویا یہ پردہ آنکھ کے موتیا اور بصارت سے محرومی سے زیادہ خطرناک ہے، ذمے داران حکومت کی غفلت نے لوگوں کو برباد اور ملک کی اساس کو کمزور کر دیا ہے اسی وجہ سے سپر پاور طاقتوں کی نظر ہمارے ملک پر ہے۔

چونکہ ہمارا ملک اتنا کمزور ہے کہ جہاں آئی ایم ایف اپنے فیصلے سناتا اور اپنی بات منواتا ہے۔ جہاں امرا و وزرا کی تنخواہوں میں لاکھوں کا اضافہ کیا جاتا ہے اور بے چارہ محنت کش صرف اور صرف پچیس تیس ہزار سے زیادہ تنخواہ وصول نہیں کرتا۔

اس قدر مہنگائی میں کس طرح وہ اپنے خاندان کی کفالت کر سکتا ہے؟ حکومت کا تحفظ اور خوشحالی کے لیے اقدامات کرنا تو دور کی بات ہے بلکہ اس کی دکھ بیماری اور عید بقر عید کے مواقعوں پر مدد بھی نہیں کی جاتی ہے۔

محنت کشوں کی عید اور رمضان مشکلات اور دکھوں کا باعث ہوتے ہیں، ان کے معصوم بچے عید کے کپڑوں کے لیے ترستے ہیں، نئی چپل خریدنے کا خواب دیکھتے ہیں لیکن ان کے خوابوں کی تعبیر اکثر اوقات اس قدر بھیانک ہوتی ہے کہ دل صدمے سے تڑپ کر رہ جاتا ہے،کبھی یہ بے چارے بلند و بالا عمارات سے مستری یا مزدوری کا کام کرتے ہوئے تو کبھی بجلی کے پول سے گر کر ہلاک ہو جاتے ہیں اور بے شمار مزدور آئے دن کوئلے کی کانوں میں پھنس جاتے ہیں اور واپسی کی کوئی راہ نظر نہیں آتی ہے تب وہ اسی راہ پر جانے پر مجبور ہیں، جہاں سب کو ایک دن جانا ہے۔

ان کے یتیم بچے اور بیوائیں عید، بقرعید منانے کی تو دورکی بات ہے دو وقت کی روٹی میسر نہیں۔ غزہ کے مظلوم اور بے سہارا مسلمان اپنے مسلم بھائیوں سے مدد کے طالب ہیں، چھوٹے چھوٹے معصوم بچے تنہا رہ گئے ہیں۔

وہ ملبے کے ڈھیر یا پھر ٹوٹے پھوٹے راستوں پر اپنے تباہ و برباد علاقوں میں بیٹھے فریاد کناں ہیں کہ کوئی آئے اور انھیں ان کے نرم وگرم بستروں میں پہنچا دے، جہاں ماں باپ اور بہن بھائی ہوں، رسوئی سے گرم گرم کھانے پکنے کی خوشبوئیں ان کی بھوک کو بڑھا رہی ہوں، اس کے ساتھ ہی ماں پکوان کی تھالی ان کے سامنے لے آئے، اپنے ہاتھوں سے نوالے بنا کر کھلائے اور باپ اپنے کاندھوں پر بٹھا کر دنیا کا نظارہ کرانے باہر لے جائے، وہ کھلونوں سے کھیلیں، چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے فضا میں ہاتھ پھیلائے، پنچھی کی تصویر بنائیں۔ کیا وہ اپنے گھروں میں دوبارہ آباد ہوسکتے ہیں؟ ان کے مرحوم والدین اپنے گھروں کو اور اپنے بچوں کو اپنی آغوش میں چھپانے کے لیے آسکتے ہیں، نہیں ناں!

یہ ہو سکتا ہے اور ہوتا ہی رہتا ہے کہ غزہ کے بے کس و مجبور بچے اپنی ماؤں کے پاس زمانے کی ٹھوکروں کے بعد پہنچ سکتے ہیں، ان مسلمان بچوں کو دوسرے ملکوں میں فروخت یا پھر بے اولاد جوڑے گود لے سکتے ہیں، انھیں بے دردی کے ساتھ مارا جا سکتا ہے، جیساکہ ہو رہا ہے۔ مسلم ممالک کو اس بات کی ذرہ برابر پرواہ نہیں ہے، بس انھیں تو اپنے آپ کو اور اپنے ملک کو بچانا ہے۔

اسی بچانے کی مہم نے امت مسلمہ کو کمزور کر دیا ہے، اتنا کمزور کہ وہ اپنے دشمن کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتے ہیں، اتنی تاب ہی نہیں ہے کہ ایمان کمزور ہو چکا ہے، ان کی اس بزدلی نے ان کے لیے جہنم کے راستوں کو کھول دیا ہے، وہ جہاد جیسے عظیم مقصد اور اللہ کے حکم اور غزوات کو بھلا چکے ہیں۔

انھیں حضرت خالد بن ولید اور جرنیل طارق بن زیاد کی فتوحات اور جنگی مہم یاد نہیں، ایرانیوں کے ہاتھوں رومیوں کی شکست کو بھی فراموش کر دیا ہے کہ کس طرح ایک بڑی طاقت کو زیر کیا گیا، لیکن وہ وقت دور نہیں ہے جب مسلم اتحاد و اخوت کی فضا پروان چڑھے گی اور حق کو فتح حاصل ہوگی۔ حکمرانوں کی حقائق سے چشم پوشی کی بنا پر ملک کا شیرازہ بکھر چکا ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ محض آئی ایم ایف سے قرضے کے حصول کے لیے پاکستان کے اہم اداروں کو فروخت کیا جا رہا ہے، اس بات کی وضاحت حکومت نے ببانگ دہل خود کی ہے۔

حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کو پی آئی اے سمیت پانچ سے سات سرکاری ادارے بیچنے کی یقین دہانی کروا دی ہے، وہ بھی بڑے کروفر کے ساتھ، بلا جھجک قومی اداروں کے نام اور مہینوں کے نام بھی بتا دیے ہیں کہ یہ عمل کن مہینوں میں انجام پائے گا۔

حکومت متعدد ادارے بیچنے کی خواہاںہے۔ ملک میں بجلی و گیس کا بحران قدرتی وسائل ہونے کے باوجود موجود ہے، اب جب کہ حکومت نے فیصلہ کر لیا ہے کہ بجلی کمپنیوں کو فروخت کردیا جائے تاکہ مزید قرضہ ملے اور ملک آگے بڑھے بلکہ حکومت کا خیال ہے کہ بس ملک کسی نہ کسی طرح چلتا رہے، بنا سوچے سمجھے اور بغیر دور اندیشی کے کیے ہوئے فیصلے اکثر اوقات بڑی تباہی و بربادی کا باعث ہوتے ہیں اور آزادی کو قید میں بدلنے کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے جب پرانے قرضے چکانے کے لیے رقم نہیں ہے تو آیندہ لینے والے قرضوں کے لیے کس طرح ادائیگی ممکن ہے؟

حکومت کی نظر صرف اپنے پیروں تک ہے جس پر وہ کھڑی ہے، وہ آگے دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہے، اسے نظر نہیں آ رہا ہے کہ تاحد نگاہ ناکامیوں اور مایوسیوں کا جنگل آباد ہے اور قدموں کے نیچے پاتال ہے، کروڑوں پاکستانیوں کی آزادی سلب کرنے اور انھیں برے انجام تک پہنچانے کی اہم ذمے داری حکومت نے اپنے کاندھوں پر اٹھا لی ہے لیکن وہ یہ بات بھول گئی ہے کہ یہ ملک ان کا بھی ہے، انھیں بھی شکست و ریخت سے گزرنا ہوگا۔ 

کفار نے کبھی بغیر مطلب کے کسی کا ساتھ نہیں دیا ہے، چونکہ وہ جانتے ہیں جو اپنے وطن سے مخلص نہیں ہوتے وہ کسی دوسرے کے لیے بھی وفادار نہیں ہوسکتے ہیں۔

موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے بے شمار پاکستانی یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ان کے آبا و اجداد نے گھر بار چھوڑا، زمینوں و جائیدادوں سے محروم ہوئے ، اپنے والدین، عزیز و اقارب اور بے شمار مہاجرین کو اپنی آنکھوں کے سامنے شہید ہوتے دیکھا، ان کے ایثار و قربانی کا یہ صلہ کہ آج اپنے ہی وطن میں امان حاصل نہیں، نفرت و تعصب کو دانستہ ہوا دینے والے اپنے ملک سے مخلص ہرگز نہیں ہو سکتے۔

ملک میں انتشار پھیلانا دانائی کی علامت ہرگز نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا اپنے ہی ملک اور صوبوں سے نفرت کرنے کے بجائے ان کے حقوق کی ادائیگی لازم ہے۔

نوجوانوں کے لیے تعلیم و ہنر کے مواقع فراہم کرنا اور انھیں ملازمت ان کی صلاحیت کے مطابق فراہم کرنا کسی دوسرے ملک کے حاکموں کا نہیں بلکہ اپنے ہی ملک کے حکمرانوں کا فرض ہے کہ ان کی تعلیم اور ہنر سے فائدہ اٹھا کر ملک کو مضبوط بنانا ناگزیر ہو چکا ہے تاکہ کشکول ٹوٹے اور آئی ایم ایف کی غلامی سے نجات حاصل ہو، اگر ایسا ہو جاتا ہے تب پاکستان میں امن کی فاختہ دوبارہ لوٹ آئے گی اور کوئی بھی پاکستانی محض عید کی خوشیوں سے محرومی کے باعث خودکشی نہیں کرسکے گا (انشا اللہ) اور پھر یہ سوچ جنم لے گی۔

اپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں

ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا

متعلقہ مضامین

  • افغان حکومت کی بے حسی، واپس بھیجے گئے مہاجرین افغانستان رُل گئے
  • پی ٹی آئی میں گروپنگ نہیں البتہ اختلاف رائے ضرور ہے، بیرسٹر گوہر
  • ہمارا نظریاتی و سیاسی اختلاف ہوسکتا ہے لیکن ریاست پر کوئی اختلاف نہیں، گورنر سندھ
  • حکومت کا بجٹ میں اشیائے خوردونوش پر 50 فیصد تک ٹیکس بڑھانے پر غور
  • جنہوں نے 9 مئی کے واقعات کئے وہ قیمت ادا کر رہے ہیں: اسحاق ڈار
  • فتنے سے کوئی ڈیل ممکن نہیں: اسحاق ڈار
  • حکومت اصول پر کمپرومائز نہیں کرے گی، اسحاق ڈار
  • خیبر پختونخوا حکومت ایجوکیشن ایمرجنسی پر کام کر رہی ہے، شہاب علی شاہ
  • نیا وقف قانون:اوقافی جائیدادوں پر شب خون
  • ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا (آخری حصہ)