Nai Baat:
2025-01-18@07:56:53 GMT

لاحاصل بات چیت

اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT

لاحاصل بات چیت

حکومت اور حزبِ اختلاف کے مابین روابط میں پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ اعلانیہ ملاقاتیں ہونے کے ساتھ چیت کا عمل شروع ہو چکا ہے جس کاتسلسل رہنے سے سیاسی کشیدگی ختم ہوسکتی ہے لیکن دونوں طرف کی اعلیٰ قیادت میں دوریوں اور براہ راست روابط نہ ہونے کی وجہ سے نتائج کے حوالہ سے اچھی توقعات نہیںخیر اولیں بیٹھک بے نتیجہ سہی دونوں طرف سے ملاقاتیں جاری رکھنا حوصلہ افزا عمل ہے قومی اسمبلی کے سپیکر سردار ایاز صادق بظاہر غیر جانبدار ہیں لیکن بات چیت پر آمادگی کو حکومت کی اخلاقی فتح ثابت کرنے کے لیے کوشاں ہےں بہتر تویہی ہے کہ مسائل کا حل منتخب ممبران مل بیٹھ کر تلاش کریں مگر بات چیت جاری رکھنے اور مزید ملاقاتوں پر اتفاق کے باوجود دونوں طرف موجود بداعتمادی مذاکراتی عمل کولاحاصل ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔
بات چیت میں شامل شخصیات کو اگر اختیارات کے حوالے سے دیکھیں توکوئی بھی کسی قسم کا اہم فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتا اس لیے اتفاق کی توقع تو نہیں لیکن حکومت کی یہ ہی بڑی کامیابی ہے کہ جو جماعت اُسے منتخب تسلیم کرنے سے انکاری تھی اورصرف مقتدرہ سے بات چیت کی خواہشمند تھی وہی بات چیت کی میز پر آ گئی ہے اور بائیس نکاتی مطالبات کی فہرست پیش کردی ہے جب بات چیت میں شامل افراد کے پاس حتمی فیصلے کا اختیار نہیں تو بات چیت کے عمل کو محض تبادلہ خیال ہی کہہ سکتے ہیں کیونکہ ہر ملاقات کا اعلیٰ قیادت سے پوچھ کر بتانے پر اختتام ہوتا ہے حکومتی جماعتیں اپنی بہتری اسی میں سمجھتی ہیں کہ حزبِ اختلاف اور مقتدرہ میں افہام و تفہیم نہ ہو جبکہ حزبِ اختلاف کی کوشش ہے کہ مقتدرہ کو یقین دلا دیا جائے کہ جنہیں حکمرانی کا اعزازدے رکھا ہے وہ محض ایک بوجھ ہیں اور ملک کو درپیش مسائل حل کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں اور مقبول قیادت نہ صرف ملکی مسائل حل کر سکتی ہے بلکہ مقتدرہ پر بڑھتے عوامی دباﺅ کو کم کرنے میں مددگارثابت ہو سکتی ہے بات چیت کے ساتھ مقتدرہ سے حزبِ اختلاف بیک چینل روابط کر رہی ہے قومی سلامتی کو درپیش خطرات کے تناظر میں حزبِ اختلاف کی عسکری قیادت سے ہونے والی ملاقاتوں سے سلسلہ جنبانی بحال ہو چکا بیرسٹر گوہر کی عسکری قیادت سے ملاقات کی خود عمران خان تصدیق کر چکے لیکن کیا نو مئی واقعات کے حوالے سے غم و غصے ختم ہو چکا ہے؟ اِس سوال کا ہاں میں جواب دینا مشکل ہے۔
تحریری مطالبات میں حزبِ اختلاف نے غیر متوقع لچک کا مظاہرہ کیا نہ صرف گزشتہ برس کے آٹھ فروری کے انتخابی نتائج کے دوران دھاندلی الزامات سے کنارہ کش ہو گئی ہے بلکہ چھبیسویں آئینی ترمیم کے خاتمے کا مطالبہ بھی ترک کر دیا ہے جس سے فارم سینتالیس کا شور ختم ہو گیا مگر سیاسی صورتحال ایسی ہے کہ چھوٹی موٹی لچک بات چیت کے عمل کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے بے معنی ہو چکی نو مئی اور چھبیس نومبر واقعات پر عدالتی کمیشن کی تشکیل پر عدم اتفاق ہے پہلے بات چیت کی حکومتی پیشکش کو حزبِ اختلاف قبول کرنے پر تیار نہیں تھی اب لگتا ہے کہ بات چیت کاحصہ ہونے کے باوجود حکومتی خواہش ہے کہ بات چیت میں مطالباتی فہرست کے نکات پر اتفاق نہ ہو حکومتی صفوں میں بے زاری کی کیفیت ہے اسحاق ڈار نے وضاحت بھی کر دی کہ جمہوری استحکام کے لیے فوج سے بہترین تعلقات ہیں اِس لیے شہباز شریف پانچ برس وزیرِ اعظم رہیں گے یہ وضاحت، اعتراضات ا ورخیالات سے ظاہر ہے کہ بات چیت کے عمل کو لاحاصل رکھناہی حکومتی حکمتِ عملی ہے۔
اگر حکومت مسائل کا شکار ہے تو حزبِ اختلاف کو بھی بدترین دباﺅ کا سامنا ہے اُسے سیاسی اجتماعات کے حوالے سے پابندیوں کا سامنا ہے گزرے برس چھبیس نومبر کو حتمی بلاوے کا اسلام آباد میں جو حشر کیا گیا اُس کا پیغام یہی ہے کہ سب سے بگاڑ کر کچھ حاصل نہیں کیا جا سکتاشاید اسی لیے بات چیت کاکڑوا گھونٹ پیاگیا تاکہ معتوب جماعت ہونے کا تاثر زائل ہو حزبِ اختلاف کے کئی رہنما افہام و تفہیم کی پیشکشیں لیکر جیل میں بند عمران خان کو ملتے تو بانی پی ٹی آئی سب کی سُن کر آخر پرانکارکردیتے جس کی وجہ سے کئی رہنما جماعت کے چیئرمین کی نظروں میں غیر اہم ہوتے گئے اب پسِ پردہ ہونے والی افہام و تفہیم کی کوششیں دم توڑ چکی ہیں بیرسٹر گوہر اور علی امین کی اہم شخصیات سے ملاقاتیں بھی سیاسی کی بجائے قومی سلامتی کے تناظر میں ہوئیں۔ 190 ملین پونڈ کی مبینہ غبن کے مقدمے کا فیصلہ سنانے کی تین بار تاریخ تبدیل کرنا ظاہر کرتا ہے کہ حکومت جاری بات چیت کے عمل پرحاوی رہناچاہتی ہے جو حکومت کے لیے سیاسی حوالے سے نقصان کا موجب ہو سکتی ہے عمران خان اور اُن کی بہنیں ایسا تاثر بنانے میں مصروف ر ہیں کہ مقدمہ جھوٹا اور بے بنیادہے اُن کی طرف سے سزا سنانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے اِس کیس کو مکمل طورپر بے بنیادنہیں کہا جا سکتا جب پرنسپل سیکرٹری اعظم خان، سابق وزیرِ اعلیٰ پرویز خٹک، وفاقی وزیر زبیدہ جلال اور القادر ٹرسٹ کے مالی معاملات کی دیکھ بھال کی ذمہ دار اہم شخصیات کے اعترافی بیان موجود ہیں واقفان حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومت اِس مقدمے کے ذریعے عمران خان کو سیاسی منظر سے ہٹانا جبکہ اسی مقدمے کے دبئی میں مقیم مرکزی کردارکو بچانے کی خواہشمند ہے ایک کیس کے فیصلے میں دو ملزمان سے الگ الگ سلوک آئینی، قانونی اور اخلاقی ہر حوالے سے سمجھ سے بالاتر ہے اب جبکہ عمران خان کو چودہ برس قید اور دس لاکھ جرمانے، بشریٰ بی بی کو سات برس قید اور پانچ لاکھ جرمانے کی سزا سنا دی گئی ہے اِن حالات میں بات چیت کا عمل سیاسی استحکام کی بنیاد نہیں بن سکتا اِس سزا کو عوام میں انتقامی کارروائی ثابت کرنا بہت آسان ہو گا جب سوشل میڈیا پر حکومت کے خلاف اور اپوزیشن کے لیے فضا بہت سازگار ہے۔
چند ایک شعبوں میں کامیابیوں کے باوجود ملکی حالات میں بہتری کا تاثر ناپید ہے ایک طرف تو یہ صورتحال ہے کہ اخراجات میں کمی کے لیے کئی وزارتیں اور شعبے ضم کر دئیے گئے ہیں جس سے دو لاکھ کے قریب آسامیاں ختم کی گئیں مزید یہ کہ بچت کے نام پر ہزاروں افراد کو ملازمتوں سے نکالا جا رہا ہے جس کی وجہ قرضوں کا بوجھ ناقابلِ برداشت ہونا ہے مگر ٹیکس اکٹھے کرنے کا ذمہ دار جو اِدارہ ہدف حاصل کرنے میں مسلسل کئی برس سے ناکام ہے اوراِس ناکامی کو کامیابی میں بدلنے کی بجائے ایف بی آر نے ایک ہزار نئی گاڑیاں خریدنے کے لیے چھ ارب روپے مختص کر دئیے ہیں پنجاب، سندھ، بلوچستان اور کے پی کے میں بھی بچت کے نام پر ایسی شاہ خرچیاں عروج پر ہیں لہٰذا قوی خیال ہے کہ مذاکرات کے دوران عمران خان کو اہلیہ سمیت سزا سنانے اور بچت کی آڑ میں شاہ خرچیاں چند شعبوں کی معمولی کامیابیاں رائیگاں کر سکتی ہیں اب حکومت اور حزبِ اختلاف میں جاری بات چیت کا عمل جاری رہے یا ختم، اِس لاحاصل عمل سے سیاسی منظرنامہ بدلنے کا کوئی امکان نہیں البتہ سیاسی عدمِ استحکام بڑھ سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: بات چیت کے عمل عمران خان کو حوالے سے سکتی ہے کے لیے عمل کو

پڑھیں:

این آر او حکومت اور اسٹیبلشمنٹ مانگ رہی ہے ‘ علی محمد خان

اسلام آباد(صباح نیوز)پی ٹی آئی رہنما علی محمد خان نے کہا ہے کہ مذاکرات میں تلخی اس لیے ہے کہ تھوڑا سا مرچ مسالہ بھی ہونا چاہیے۔پارلیمنٹ ہائوس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے علی محمد خان نے کہا کہ اس وقت این آر او حکومت اور اسٹیبلشمنٹ مانگ رہی ہے ۔ ان کو این آر او چاہیے اور این آر او ایک ہی شخص دے سکتا ہے وہ ہے بانی چیئرمین پی ٹی آئی, علی محمد خان کا کہنا تھا کہ تھوڑا سا مرچ مسالہ بھی ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا مسئلہ قوم کی بیٹی کا مسئلہ ہے۔ پی ٹی آئی اس معاملے میں حکومت پاکستان کا بھرپور ساتھ دے گی۔

متعلقہ مضامین

  • 190 ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ آگیا، حکومت کی جیت!
  • مذاکرات تو ہو رہے ہیں، حکومت کا اعتراض غلط نہیں
  • سندھ میں پیپلز پارٹی کا اقتدار
  •                   ایم ڈی کیٹ کی بد ترین ناکامی کا ذمہ دار کون؟
  • حکومت نے مذاکرات کو بھی دیوانی مقدمہ بنا دیا: علی محمد خان
  • یہ وقت ضد اور انا کو چھوڑنے کا ہے!
  • گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
  • کسی بھی ملک سے ادھار تیل نہیں لے رہے، مصدق ملک
  • این آر او حکومت اور اسٹیبلشمنٹ مانگ رہی ہے ‘ علی محمد خان