Jasarat News:
2025-04-13@19:51:59 GMT

اب پروٹوکول کون دے گا

اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT

اب پروٹوکول کون دے گا

اچھے، نفیس، مخلص اور ہر ایک کے ساتھ مسکرا کر ملنے والے جاوید شہزاد بھی رخصت ہوگئے، ان کی ایک خوبی غالباً ان کے جانے کے بعد بھی انہی کا اثاثہ رہے گی کہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا، سب کو پروٹوکول دیتے تھے، مسکرا کر ملنا ان کی خوبی تھی۔ ان کے جانے کا دکھ بھی اس لیے بہت زیادہ ہے کہ ابھی جانے کی ان کی عمر ہی کیا تھی، مگر ہمارا یقین اور ایمان ہے کہ اللہ نے زندگی دی ہے اور وہی مالک اور خالق ہے ہم سب اسی کے فیصلے پر راضی ہیں اور راضی رہنا اور ہونا بھی چاہیے کہ یہی اللہ کی شان ہے کہ اس سے ہر وقت راضی رہا جائے، اسی سے مانگا جائے۔ دنیا میں کوئی انسان کسی کو کچھ نہیں دے سکتا، چاہے وہ ہمدرد اور مخلص جتنا بڑا بھی دعویٰ کرلے، کسی کو کچھ نہیں دے سکتا۔ جاوید شہزاد نے جن کے لیے جان ماری تھی ان میں بے شمار ایسے ہیں جو اسے کندھا دینے بھے نہیں آئے، کیوں نہیں آئے یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے، جاوید شہزاد قاضی کا بیٹا تھا، جنازے میں صرف رضا شاہ تشریف لائے، وہ مسلم لیگ کا بھی شیدائی تھا، لیکن راولپنڈی مسلم لیگ(ن) کا کوئی چھوٹا بڑا راہنماء کندھا دینے نہیں پہنچا، شیخ رشید احمد، جنہیں راولپنڈی کی گلیاں، چوراہے، سڑکیں، محلے اپنا بھائی سمجھتے ہیں، وہ جنازے میں شریک تھے، زمرد خان بھی، لطیف شاہ، پیمرا کے چیئرمین سلیم بیگ بھی، ابن رضوی، حافظ نسیم خلیل، حافظ طاہر خلیل، نواز رضا، محسن رضا خان، اسلم خان، انور رضا، صدیق ساجد غرض بہت سے دوست، سبھی کندھا دینے پہنچے، کچھ تاخیر سے پہنچے مگر یہ دعا کے لیے حاضر ہوئے، ان سب نے خرم شہزاد کا ہاتھ تھاما، پرسہ دیا، آئی ایس پی آر سے بریگیڈئر غضنفر اقبال بھی جنازے میں شریک ہوئے۔

ایک صحافی کی زندگی بھی کیا، جیتا جاگتا ہو تو سب اس کے آگے پیچھے ہوتے ہیں، مگر جب رخصت ہوجاتا ہے تو ایک بڑی تعداد ہے جس کے بارے کہا جاسکتا ہے کہ مرے تھے جن کے لیے وہ رہے وضو کرتے، یہ موبائل فون، یہ وٹس ایپ بھی کیا چیز ہے، کوئی پڑھتا ہے کوئی نہیں پڑھتا، کسی کے فون کی گھنٹی بجتی رہتی ہے اور وہ کہتا ہے یار چھوڑو بات میں سن لیں گے، لیکن ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ اگر آپ کے فون استعمال کرتے ہیں تو پھر اسے استعمال بھی کریں، جاوید شہزاد کی والدہ ماجدہ کئی سال قبل انتقال کرگئی تھیں، انہوں نے اپنے محلے میں رہنے والے ایک اخبار نویس ’’راہنماء‘‘ کو ٹیکسٹ میسج کردیا والدہ انتقال کرگئی ہیں اور نماز جنازہ شام کو ادا کی جائے، ان صاحب نے یہ میسج ہی رات دو بجے دیکھا کہ میں اپنے میسج رات کو ہی دیکھتا ہوں، یوں ایک ہی محلے میں رہنے والے بلکہ گھر سے دو چار گلیوں کا فاصلہ ہی تھا، مگر وہ صاحب نماز جنازہ میں شریک نہیں ہوسکے، یہ بات لکھنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اگر کسی کو فون رکھنے کا شوق ہے اور پھر اسے استعمال بھی کرے، اس اخبار نویس راہنماء کا نام نہ پوچھیں تو بہتر ہے، جاوید کی عمر غالباً پچاس پچپن ہوگی، مگر یہ عمر ہی کیا ہے لیکن بہر حال ان دنوں جیسے حالات صحافت کے اس سے برے حالات کبھی نہیں تھی، برے حالات اس لیے ڈرائیونگ سیٹ پر کنڈیکٹر بٹھا دیے گئے ہیں جس گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر کنڈیکٹر بٹھادیے جائیں گے یہ گاڑی ضرور حادثے کا شکار ہوتی ہے ہماری ملکی صحافت بھی ان دنوں ایسی ہی کیفیت سے گزر رہی ہے، اخبار نویسوں کے معاوضوں کا برا حال ہے، آئی ٹی این ای چلے جائو تو رش، خدا کی پناہ اتنے سائلین تو ضلع کچہری میں نہیں ہوتے، اور کچھ قصور پی ایف یو جیز کا بھی ہے، ان کے راہنمائوں نے دکان داری بنا رکھی ہے، اگر یہ تنظیمیں کام کریں تو مجال ہے کوئی کسی اخبار نویس کے ساتھ ہیرا پھیرا کرے، ممکن ہی نہیں، یہ راہنماء اب صرف اپنے عہدوں کے لیے رہ گئے ہیں…

اب جدوجد صرف نعروں کی حد رہ گئی ہے، اس جدوجہد کے نتیجے میں چند لوگوں کی جیب بھرتی ہے اور کچھ نہیں ہوتا، یہی کمال ہے اب تنظیموں کا، یہی وجہ ہے کہ جب ایک عامل صحافی اپنی آدھی زندگی گزار چکا ہوتا ہے، اپنی جوانی لٹا چکا ہوتا ہے اسے بوجھ سمجھا جاتا ہے یہ کون ساجج ہے کہ اسے ریٹائرمنٹ پر بھی پٹرول، گیس، بجلی مفت ملتی رہے گی، بس یہی سمجھا جاتا ہے کہ اخبار نویس نے جب پچاس کراس کرلیا تو اسے بوجھ سمجھا جائے، تجربہ گیا باڑھ میں، یہی مادیت ہے اور سید مودودیؒ نے اس پر کیا کیا نہیں لکھا مگر کون ہے آج جو اس پر توجہ دے گا، اب ایک زمانہ آگیا ہے جس کی لاٹھی اس کی بھینس، بہتر یہی ہے کہ اب انسان اپنی پہچان خود کرلے، اپنی خواہشات خود ہی سمیٹ لے، کہ کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے، کیونکہ اب منافع کمانے والے صنعت کار صحافت میں آگئے ہیں اور انہوں نے سب کو اپنے رنگ میں رنگ لیا، بس اب سمجھا جارہا ہے کہ لوٹ مار کرکے کمایا گیا منافع بوجھ نہیں بلکہ کارکن بوجھ ہے، کارکن چونکہ انسان ہے لہٰذا انسان ہی اب بوجھ سمجھا جارہا ہے اسی اب زندگی کے بقیہ برسوں کی طرح آنکھوں کے آنسو بھی اب محدود ہی بچے ہیں جنہیں ہم بہت ہی قریبی لوگوں کے بچھڑنے کے لیے سنبھال کر پلکوں کے کسی تہہ خانے میں رکھ لیتے ہیں ’’سب سیٹ ہے‘‘ سے ’’سب مایہ ہے‘‘ کی ٹرانزیشن ہورہی ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: جاوید شہزاد اخبار نویس ہے اور کے لیے

پڑھیں:

ریٹائرمنٹ کی منصوبہ بندی

ستر سالہ حمید اعظم ساری عمر مختلف نجی کمپنیوں میں ملازمت کرتے رہے۔ بڑھاپا آیا تو وہ بیماریوں میں مبتلا ہو گئے۔ علاج کراتے ہوئے ان کی بیشتر آمدن خرچ ہونے لگی۔ عوارض رفتہ رفتہ اتنے بڑھے کہ وہ ملازمت کرنے سے معذور ہو گئے۔

اب وہ اولاد کے رحم وکرم پر آ گئے ۔ ان سے ایک بڑی غلطی یہ ہوئی تھی کہ نوجوانی میں انھوں نے بالکل نہیں سوچا، بڑھاپے کے لیے مناسب رقم پس انداز کر لی جائے۔ اگر وہ اس وقت ریٹائرمنٹ کا کوئی عمدہ منصوبہ بنا لیتے تو انھیں بڑھاپے میں دوسروں کا محتاج نہیں ہونا پڑتا۔ اسی محتاجی کے باعث بھی اولاد اپنے والدین کو ایدھی سینٹر یا دیگر رفاہی اداروں میں چھوڑ جاتی ہے کہ وہ ان کا خرچ نہیں اٹھا پاتی۔

یہ افسوس ناک امر ہے کہ پاکستان میں اکثر مردوزن نوجوانی یا جوانی میں ایسا کوئی مناسب منصوبہ نہیں بناتے جس کی مدد سے وہ اپنی ریٹائرمنٹ یا بڑھاپے کا عموماً تکلیف دہ اور کٹھن عرصہ کم از کم مالی دشواریوں کے بغیر گزار سکیں۔ جو عاقل اور پیش بیں حضرات ایسا منصوبہ بنا لیں تو ان کا بڑھاپا خوشگواری سے بسر ہوتا ہے کہ وہ کسی پر بوجھ نہیں بنتے۔ اولاد اگر فرماں بردار نہ بھی ہو تو وہ انھیں اپنے ساتھ رکھ لیتی ہے کہ اسے بوڑھے والدین پر کوئی خرچہ نہیں کرنا پڑتا۔ بلکہ اسے توقع ہوتی ہے کہ والدین کی وراثت سے انھیں کچھ دولت مل سکے گی۔

سرکاری ملازمین کو تو پھر پنشن مل جاتی ہے، نجی ملازمت کرنے والوں کو خاص طور پہ بروقت ریٹائرمنٹ کا کوئی نہ کوئی منصوبہ ضرور اپنانا چاہیے۔ اب تو حکومت پاکستان پنشن کے بڑھتے خرچ کی وجہ سے اس نظام میں بھی تبدیلیاں لا رہی ہے۔ لہذا اس وقت جتنے بھی نوجوان اور جوان پاکستانی کام کر رہے ہیں، انھیں اپنے بڑھاپے کے حالات مدنظر رکھ کر لازماً ریٹائرمنٹ کا عمدہ پلان تشکیل دینا چاہیے تاکہ بعد ازاں انھیں پچھتانا نہ پڑے۔ یہ پلان بچت کے ساتھ ساتھ کسی اچھی انشورنس کمپنی اور اسٹاک مارکیٹ کے ذریعے بھی بنائے جا سکتے ہیں۔

ریٹائرمنٹ کی منصوبہ بندی شعوری اور زندگی بھر کا عمل ہے جس کے لیے عزم کی ضرورت ہے۔ آرام دہ اور آزاد ریٹائرمنٹ زندگی کے لیے کافی فنڈز بنانے کی خاطر وقت درکار ہے۔ ہم سب خوشگوار اور پُر سکون ریٹائرڈ زندگی کی خواہش رکھتے ہیں لہٰذا اس کی تیاری کرنا ضروری ہے۔

 زیادہ تر کام کرنے والے پیشہ ور افراد کے پاس ریٹائرمنٹ پلان کی کوئی شکل ہوتی ہے۔ تاہم یہ بات ذہن میں رکھیے ، حقیقی زندگی میں ریٹائرمنٹ اس سے مختلف ہو سکتی ہے جس کا ہم میں سے اکثر نے تصور کیا تھا۔ زیادہ تر ریٹائر ہونے والوں کو تلخ حقیقت کا سامنا ناقص مالیاتی انتظام اور سرمایہ کاری کی وجہ سے ہوتا ہے۔ مارکیٹ میں ریٹائرمنٹ کے بہت سارے منصوبے دستیاب ہیں، لیکن کسی ایک پر انحصار کرنا اچھی حکمت عملی نہیں ۔

 تین اہم عناصر

 پُرسکون ریٹائرڈ زندگی تین اہم عناصر پر منحصر ہے: ریٹائر ہونے والے کی سماجی زندگی، مالی حالت اور عمر۔ مضبوط مالی پوزیشن اور اچھے سماجی حلقے کے ساتھ جلد ریٹائر ہونا ایک مثالی امر ہے۔ہم اس کو کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟

 مالی استحکام

مستحکم پوزیشن میں ریٹائرمنٹ کا منصوبہ بنانے کے لیے مضبوط مالیاتی ریٹائرمنٹ پلان کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں بہت سے مناسب ریٹائرمنٹ انشورنس پلان دستیاب ہیں جو آسانی سے ریٹائر ہونے میں مدد کرنے کے لیے بنے ہیں۔ تاہم اپنے منصوبے کو سمجھداری سے منتخب کرنے کی ضرورت ہے۔ یاد رکھیں،پاکستان میں بہترین ریٹائرمنٹ انشورنس پلان بھی اس وقت آپ کی تمام مالی ضروریات پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہوگا جب آپ ریٹائر ہوں گے۔

دراصل افراط زر یا مہنگائی کا عنصر ایک ایسی چیز ہے جسے جامع ترین ریٹائرمنٹ یا سرمایہ کاری کے منصوبوں میں بھی شامل نہیں کیا جاتا۔ مہنگائی کا مقابلہ کرنے کی منصوبہ بندی مالیاتی مشیر کی مدد سے مرضی کے مطابق بنائے منصوبے کے ذریعے کیجیے۔ بنیادی اصول کے طور پر جامع منصوبے میں حصص اور دیگر اثاثوں میں کچھ سرمایہ کاری شامل ہونی چاہیے۔ اسٹاک کے تناسب میں کچھ ڈیویڈنڈ اسٹاک اور دوسرے گروتھ اسٹاک ہونے چاہئیں۔

سماجی زندگی

سماجی زندگی پہ مکمل قابو پانا مشکل ہے لیکن اسے کسی حد تک کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ ریٹائرمنٹ کی منصوبہ بندی کرنے والے افراد کو 9 سے 5 کے معمول سے آزاد ہونے اور مصروف وقت گزارنے کے بعد سماجی زندگی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں صدقہ یا سماجی کام کرنا ان کی مدد کرتا ہے۔ سماجی اور خیراتی کوششیں مصروفیت بڑھانے میں مدد دیتی ہیں۔ یتیم خانوں میں رضاکارانہ کام کرنا یا غریب بچوں کو مفت جز وقتی ٹیوشن پڑھانا ایک اچھا خیال ہے۔ اس طرح کی کوششوں میں وقت لگانے سے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیے متبادل عمدہ سماجی زندگی میّسر آتی ہے۔

 ریٹائرمنٹ کی عمر

 یہ اوسط عمر 60 سال ہے لیکن یہ ہر شخص میں مختلف ہو سکتی ہے۔ بعض مردو زن تو چالیس پچاس برس کی عمر میں ریٹائرہو جاتے ہیں۔ مگر انھیں کافی سرمایہ بچانا ہوتا ہے تاکہ آباد و خوش ریٹائرڈ زندگی گزار سکیں۔اگر آپ مصروف رہنے کو ترجیح دیتے ہیں، تو آپ ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھا سکتے ہیں تاکہ زیادہ دیر تک کام کا لطف اٹھائیں۔ اپنے کو مصروف رکھنے کے لیے متبادل طرز زندگی کا ہونا ایک اچھا اختیار ہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی کی منصوبہ بندی کرنے کے لیے ضروری ہے۔

ذہن میں رکھیے کہ مالی طور پر مستحکم ریٹائر ہونے والوں کی اکثریت ضروری نہیں کہ امیر ہو اور ان میں سے سبھی زیادہ تنخواہ والی ملازمتوں میں بھی نہیں ہوتے۔ تاہم یہ وہ لوگ ہیں جو مالیات کا اچھا انتظام کرنا جانتے ہیں اور خوشی سے ریٹائر ہونے کے لیے جامع منصوبہ بناتے ہیں۔

ریٹائرڈ زندگی کی تیاری کیسے کریں

ہیلتھ انشورنس ریٹائر ہونے والوں کے لیے لازمی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ چھوٹی عمر میں یہ غیر ضروری ہے۔ لیکن جیسے جیسے عمر بڑھتی ہے اور صحت کے مسائل میں اضافہ ہوتا ہے، مناسب ہیلتھ انشورنس کی اہمیت اجاگرہوتی ہے۔ لہذا مناسب ہیلتھ انشورنس کرانا ضروری ہے۔یوں ریٹائر ہونے والے ہر وقت صحت سے متعلق ہنگامی اخراجات کے لیے تیار رہتے ہیں۔

دوم یقینی بنائیے کہ قرضوں وغیرہ کی ادائیگی کر دی گئی ہے۔یہ عمل آسان لگتا ہے لیکن اس پر عمل درآمد کرنا مشکل ہے۔ سود دینے کی ذمے داریوں کے ساتھ زندگی گزارنا خاص طور پر باقاعدہ آمدنی کے بغیر بہت مشکل ہو سکتا ہے۔ اگر آپ کو اپنی ریٹائرمنٹ کی آمدنی کا بڑا حصہ قرض ادا کرنے پر خرچ کرنا پڑے تو ریٹائرمنٹ میں کم لطف آئے گا۔ اس لیے مشورہ ہے کہ قرض پر مبنی ذمے داریوں کو ختم کریں اور پھر ریٹائر ہو جائیں۔

 وقت کیسے گزارنا ہے ؟

ریٹائرمنٹ کے دوران ایک شخص جتنا زیادہ مصروف رہتا ہے،اسے اتنی ہی کم چیزوں کے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہذا ریٹائرمنٹ کے بعد آپ کیا کریں گے، اس بارے میں منصوبہ بنائیں اور ہفتہ وار یا ماہانہ سرگرمیوں کا شیڈول بنائیں۔ اس کے علاوہ ریٹائرمنٹ کا وقت تعمیری طور پر گزارنے کے لیے کاموں کی فہرست بنائیں۔

آپ کی ریٹائرمنٹ کی جتنی اچھی منصوبہ بندی ہو گی، اتنا ہی بہتر ہوگا۔ پاکستان میں ریٹائرمنٹ کے لیے بہترین سرمایہ کاری کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کریں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد آپ کیا کریں گے ،اس بارے میں منصوبہ بندی کریں اور ایک مضبوط سماجی حلقہ تیار کریں تاکہ آپ کو بھرپور و خوشگوار ریٹائرمنٹ زندگی کے لیے احباب کا ساتھ مل سکے۔

ریٹائرمنٹ پلان کیسے بنایا جائے؟

ریٹائرمنٹ کی منصوبہ بندی میں ریٹائرمنٹ کے لیے اہداف طے کرنا اور مقاصد حاصل کرنے کے لیے درکار اقدامات اور فیصلوں کا اندازہ لگانا شامل ہے۔ اقدامات میں آمدنی کے ذرائع دریافت کرنا، اخراجات کی پیشن گوئی ، بچت اور اثاثہ جات کا انتظام شامل ہیں۔

پاکستان میں رہنے والے زیادہ تر لوگوں کے لیے جو اپنی ریٹائرمنٹ کی منصوبہ بندی نہیں کرتے، ریٹائرمنٹ زندگی کا ایک ناخوشگوار مرحلہ بن جاتا ہے۔محدود آمدنی، زندگی کے بنیادی اخراجات کا انتظام کرنے میں دشواری، بچوں پر انحصار، متعلقہ اخراجات کے ساتھ صحت کی دیکھ بھال کے مسائل، مشکلات کے ساتھ جینا اور بے لطف و بے رس زندگی اس مرحلے کے نمایاں اثرات ہیں۔

ریٹائر ہونے والے ایسے افراد جن کے پاس مناسب آمدنی کا انتظام نہ ہو، خاندان کے افراد کے تعاون سے زندگی گزارنا مشکل ہونے کے ساتھ ساتھ ذلت آمیز بھی ہو سکتا ہے۔جیسا کہ بتایا، پاکستان میں زیادہ تر پرائیویٹ ملازمین کسی ریٹائرمنٹ پلان کا حصہ نہیں ہوتے۔ انھیں اپنے بڑھاپے کی کفالت کے لیے اگلی نسل پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔گو وہ جائیداد سے کرائے کی آمدن اور بینک ڈپازٹس کے منافع پر انحصار کر سکتے ہیں۔

ایک بڑا مسئلہ

نجی ملازمتیں کرنے والوں کو ایک بڑا مسئلہ یہ درپیش ہوتا ہے کہ بیشتر زندگی بھر مختلف کمپنیوں میں ملازمت کرتے ہیں۔ اس لیے ایک کمپنی میں ملازمت کرنے سے انھیں ریٹائرمنٹ کے موقع پر جو مالی مدد ملتی ہے، وہ ان کو نہیں مل پاتی۔ جو مردوزن ایک کمپنی میں تاعمر یا طویل عرصہ ملازمت کرتے ہیں ، وہ گریجوٹی یا پراویڈنٹ فنڈ کے حقدار پاتے ہیں۔ گریجوٹی کی ساری رقم کمپنی ادا کرتی ہے۔ جبکہ پراویڈنٹ فنڈ میں ملازم بھی اپنا مالی حصہ ڈالتا ہے۔ رضاکارانہ پنشن اسکیم بھی پراویڈنٹ فنڈ سے مماثلت رکھتی ہے۔ ان دونوں منصوبوں میں رقم عموماً سرمایہ کاری میں لگائی جاتی ہے تاکہ منافع حاصل ہو سکے۔

قانون کے مطابق جس کمپنی میں بیس ملازمین کام کرتے ہیں، اس میں ملازم چھ ماہ کام کرنے کے بعد گریجوٹی پانے کا حق دار بن جاتا ہے۔ اگر کوئی صنعتی ادارہ ہے تو اس میں کم ازکم پچاس ملازمین ہونے چاہئیں ۔ نیز گریجوٹی پانے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ پچھلے ایک سال سے کام کر رہا ہو۔نیز عام طور پر مینجیریل اور ایڈمنسٹریٹیو شعبوں میں کام کرتے ملازمین کو گریجوٹی نہیں دی جاتی۔

پاکستان کے جن نجی اداروں میں کم از کم دس ملازمین کام کرتے ہیں، ان کے لیے لازم ہے کہ وہ ایک سرکاری ادارے ،ای اوبی آئی (Employees' Old-Age Benefits Institution)سے رجسٹرڈ ہوں۔ یہ نجی ملازمین کو پنشن دینے والا سرکاری ادارہ ہے، گو اس کی پنشن کافی کم ہوتی ہے۔ تاہم بالکل نہ ہونے سے کچھ پنشن بھی بڑھاپے میں کام آ جاتی ہے۔ جو ملازمین پندرہ سال تک ادارے سے رجسٹر رہ کر کام کریں، وہ پنشن کے حقدار ہو جاتے ہیں۔

ریٹائرمنٹ کے لیے بچت کیسے کی جائے؟

نوٹ کرنے کے لئے کچھ اہم نکات یہ ہیں:

٭ آمدنی اور اخراجات کا تجزیہ کریں اور یقینی بنائیں کہ آپ اپنی کمائی سے زیادہ بچا سکتے ہیں۔

٭ ایک بجٹ بنائیں جس میں بچت کا مخصوص فیصد شامل ہو اور اس پر عمل کریں۔

٭ اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ ہنگامی حالات کے لیے اپنے ریٹائرمنٹ سیونگ اکاؤنٹ سے رقم نہ نکالیں۔

٭ اگر آپ کے آجر کے پاس رضاکارانہ پنشن سکیم ہے تو اس میں حصہ لیں۔

٭ سرمایہ کاری کے مشیروں سے مشورہ کریں تاکہ اپنی ضروریات کے لیے موزوں سرمایہ کاری کی مصنوعات منتخب کرسکیں۔ موجودہ عمر اور ریٹائرمنٹ کی متوقع عمر موثر حکمت عملی تیار کرنے کے لیے اہم ہے۔ ریٹائرمنٹ کی مدت جتنی لمبی ہوگی، آپ اپنے پورٹ فولیو میں خطرے کی سطح کو اتنا ہی زیادہ برداشت کر سکتے ہیں۔ اسٹاک میں سرمایہ کاری کرکے آپ کمپنی کے جزوی مالک بن جاتے اور کمائی کے ساتھ ساتھ نقصانات میں بھی حصہ لے سکتے ہیں۔ طویل وقت آپ کو اسٹاک مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ برداشت کرنے اور اپنے پورٹ فولیو کو متوازن کرنے کی اجازت دے گا۔

 ریٹائرمنٹ فنڈ بنانا

آپ ریٹائرمنٹ کے بعد والے اخراجات کے بارے میں اپنی توقعات حقیقت پسندانہ رکھیں جب آمدنی میں کمی آئے گی اور طویل مدتی اخراجات میں اضافہ ہوگا۔ زیادہ تر لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ ریٹائرمنٹ کے بعدان کا سالانہ خرچ کم ہو جائے گا . ایسا مفروضہ اکثر غیر حقیقی ہوتا ہے، خاص طور پر اگر طبی اخراجات مفروضوں میں شامل نہ ہوں۔ہمیشہ ایک قابل اعتماد مالیاتی مشیر سے مالی مشورہ حاصل کریں۔ مالیاتی پیشہ ور مناسب بچت کا منصوبہ تیار کرنے میں آپ کی مدد کر سکتے ہیں۔نیز باقاعدگی سے بچت کی عادت ڈالیں اور ہر سال جتنی رقم بچاتے ہیں ،اُسے بڑھانے کی کوشش کریں۔ یہ اضافہ ترجیحاً مہنگائی کی شرح سے زیادہ ہونا چاہیے۔

نظریہ بامقابلہ حقیقت

یہ واضح رہے ، نظریاتی طور پر ہر کمپنی کے کارکنان گریجوٹی یا اس کے بدلے متبادل وصول کرنے کے حقدار ہیں، ایسا ہمیشہ نہیں ہوتا۔بعض صورتوں میں کمپنی مالی سال کے اختتام پر کنٹریکٹ پر رکھے ملازمین کی ملازمت ختم کر دیتی ہے۔ وہ پھر اگلے مالی سال کے آغاز پر انھیں دوبارہ تعینات کرتی ہے۔ چونکہ گریجوٹی کمپنی میں کام کرنے والے برسوں کی تعداد کا تعین ہے، اس لیے سال کے آخر میں ملازمت ختم اور دوبارہ تعینات کرنے کا مطلب ہے کہ ملازمین کو گریجوٹی کے طور پر ملی کُل رقم اس سے کافی کم ہو گی جو انہیں مستقل ملازمت کی صورت موصول ہوتی۔

 بعض صورتوں میں آجر کوئی گریجوٹی ادا نہیں کرتے یہاں تک کہ جب وہ قانونی طور پر ایسا کرنے کے پابند ہوں۔اس کے برعکس بڑی کمپنیوں میں صورت حال بہتر ہے۔ کچھ کمپنیاں اپنے ان ملازمین کو بھی گریجویٹی، پراویڈنٹ فنڈ اور بہت سے دوسرے الاؤنس پیش کرتی ہیں جو قانونی طور پر گریجویٹی وصول کرنے کے حقدار نہیں ہوتے۔

حرف آخر

مسلم معاشرے میں پائی جانے والی مختلف غیر ضروری روایات میںسے ایک روایت ’ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ نہ کرنا‘ بھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس عمر میں لوگ ریٹائر ہو کر گوشہ نشینی اختیار کرلیتے ہیں ،وہی وقت معاشرے اور ملک کو کچھ واپس دینے کا ہوتا ہے کیوں کہ ریٹائر ہونے کے بعد انسان بہت ساری پابندیوں سے آزاد ہو جاتا ہے اور وہ زیادہ بہتر طریقے سے اپنی دلچسپی کے میدان میں باآسانی خدمات انجام دے سکتا ہے۔جب آدمی خود کو ریٹائر سمجھ کر گھر میں بیٹھ جائے تو وہ ذہنی و جسمانی بیماریوں کا شکار ہو سکتا ہے کہ خود کو بے کار اور دوسروں کے لیے بوجھ سمجھتا ہے ۔قدرت کا اصول ہے کہ جب کوئی انسان اپنے کو بے کار اور دوسروں پر بوجھ سمجھ بیٹھے تو وہ ذہنی، جسمانی اور جذباتی طور پر ختم ہونے لگے گا۔

ایک ایسا آدمی جو روزانہ باقاعدہ تیار ہو کر گھر سے دفتر کے لیے نکلتا ہو لیکن ایک دن اسے اچانک منع کر دیا جائے تو وہ خود کو بے کار، بوڑھا اور مرنے کے قریب سمجھنے لگتا ہے۔ اسی لیے ریٹائرمنٹ کے بعد لوگ ڈپریشن، مایوسی، مختلف طرح کی کشمکش، نفسیاتی الجھن، چڑچڑے پن اورتنہائی وغیرہ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ خصوصاً اس وقت جب بیٹے اور بیٹیاں ان کوپوچھتے نہیں اور ایک کونے میں فالتو سامان کی طرح ڈال دیتے ہیں۔ایسے میں وہ گھر کی محبت اور توجہ سے محروم ہو جاتے ہیںتو مزید دباؤ کا شکار ہو تے ہیں۔ یہی وجہ ہے ، ہمارے معاشرے کے بیشتر بزرگ غصہ ور اور تلخ طبیعت کے مالک ہو تے ہیں۔

قران حدیث میں اس سلسلے میں جگہ جگہ رہ نمائی کی گئی ہے کہ انسان دنیا میں مختلف طرح کے کام انجام دیتے ہیں۔ ارشادِ ربانی ہے:’’اور اس کی نشانیوں میں سے تمہارا رات اور دن کو سونا اور تمہارا اس کے فضل کو تلاش کرنا ہے۔(الروم:32)ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:’’اور دن کو معاش کا وقت بنایا۔‘‘(النبا:11)

ان آیات میں عمر کی کوئی قید نہیں لگائی گئی۔ نہ تو دین اور دنیا کوئی الگ الگ چیز ہے اور نہ ہی دنیا حاصل کرنے میں کوئی عمر متعین کی گئی ہے۔دنیا کو دین کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق حاصل کرنا بھی نیکی ہے۔اگر ہم پیغمبرانہ زندگی کا جائزہ لیں تو پیغمبر کسی نہ کسی طرح کا معاشی شغل اپناتے تھے۔حضرت داؤدؑ زرہ بنانے کاکام کرتے تھے۔

نبی کریمﷺ پوری دنیا کے لیے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپﷺ نبی تھے اور دین کی تبلیغ و اشاعت کا عظیم فریضہ انجام دینا تھا، لیکن اس کے باوجود آپﷺ نے دنیاوی کاموں میں بھی حصہ لیا۔گھر کے کام خود انجام دیتے تھے۔مسجد نبوی کی تعمیر میں بذاتِ خود 35 سال کی عمر میں حصہ لیا ۔خندق کی کھدائی میں بھی صحابہ کرام کے ساتھ حصہ لیا۔اسی طرح صحابہ کرام محنت و مشقت کر کے روزی کماتے تھے۔وہ جہاں ایک طرف نمازیں پڑھتے اور ذکر و اذکار کا اہتمام کرتے تھے وہیں دوسری طرف تجارت، کھیل، سیر و تفریح وغیرہ کرتے تھے اور یہ ان کے نزدیک کوئی معیوب بات بھی نہیں تھی۔

ان کے یہاں ریٹائرمنٹ کا کوئی تصّور نہ تھااور نہ ہی عمر کبھی ان کی ترقی کی راہ اور کام کو انجام دینے میں رکاوٹ بنی۔حضرت ابوایوب انصاریؓ نے اسّی سال کی عمر میں جہاد کیا تھا۔بسااوقات ہمارے قائدین اور راہ نما جتنے زیادہ ’بڑے‘ ہوتے ہیں اتنا ہی وہ کام کرنے سے اجتناب کرتے اور کام کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔

یہ صرف ایک روایت سی بن گئی ہے کہ عمر دراز لوگوں کو کام نہیں کرنا چاہیے۔ہمارے بعض طبقوں میں بزرگوں اور بڑوں کا کام کرنا ان کے بیٹوں کے لیے باعثِ شرم ہوتا ہے ،حالاں کہ ان کی زندگی کا تجربہ دوسروں کے کام آسکتا ہے اور پھر اس سے ان کی صحت بھی برقرار رہتی ہے۔آیات و حدیث سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام ایک ایسا نظام ہے جو دنیا و آخرت اور جسمانی و روحانی دونوں نظام کو ایک ساتھ لے کر چلتا ہے اور جس میں ریٹائرمنٹ کا کوئی تصور نہیں کیوں کہ اس کے بعد زندگی ختم نہیں ہو جاتی اور نہ ہی کام ختم ہوتے ہیں۔اس لیے جب تک انسان کی صحت ،طاقت اور غوروفکر کرنے کی صلاحیت باقی ہو اس وقت تک اسے حسبِ استطاعت سرگرم رہنا چاہیے۔  

متعلقہ مضامین

  • ریٹائرمنٹ کی منصوبہ بندی
  • آزاد منڈی اور ٹیرف
  • اس کا حل کیا ہے؟
  • جھوٹی یاد داشتیں اور ان کا منفی اثر
  • دل پھر دل ہے، غم پھر غم ہے
  • اوورسیز پاکستانیوں کیلئے خوشخبری، ریاستی مہمانوں جیسا پروٹوکول دینے کا اعلان
  • جہاد فرض ہوچکا ہے
  • وہ دن جس کا وعدہ ہے
  • غیرذمے داری
  • بلوچستان کا ایشو