Jasarat News:
2025-01-18@07:38:30 GMT

ایک اور کشتی ڈوب گئی!

اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT

ایک اور کشتی ڈوب گئی!

ایک اور سانحہ رونما ہوا، ایک اور کشتی سمندر میں غرق ہو گئی۔ افریقی ملک موریطانیہ کے راستے غیر قانونی طور پر اسپین جانے والوں کی یہ کشتی مراکش کے سمندر میں الٹ جانے سے پچاس تارکین وطن ڈوب گئے۔ ان میں غالب اکثریت یعنی 44 افراد پاکستانی تھے۔ ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے مطابق کشتی پر 86 تارکین وطن سوار تھے جو 2 جنوری کو موریطانیہ سے روانہ ہوئی تھی۔ کشتی میں کل 66 پاکستانی سوار تھے جب کہ 36 افراد کو بچا لیا گیا اور 50 جاں بحق ہو گئے۔ کشتی حادثے میں جاں بحق 44 پاکستانیوں میں سے 12 نوجوان گجرات کے رہائشی تھے، اس کے علاوہ سیالکوٹ اور منڈی بہا الدین کے افراد بھی کشتی میں موجود تھے۔ واقعہ میں بچ جانے والے ایک پاکستانی نے فون پر اپنے اہل خانہ کو بتایا کہ جب کشتی سمندر میں کھڑی تھی تو شدید سردی کے باعث کچھ لوگ بیمار ہو گئے تھے اور کشتی میں راشن بھی کم تھا، ایسے میں انسانی اسمگلروں نے بیمار افراد کو زبردستی سمندر میں پھینک دیا اور کچھ لوگوں کو تشدد کر کے قتل بھی کیا۔ اہل خانہ کا کہنا ہے کہ تارکین وطن کی کشتی 2 جنوری کو اسپین کے لیے روانہ ہوئی تھی، انسانی اسمگلروں نے مزید پیسوں کا مطالبہ کیا تھا اور انسانی اسمگلروں نے 8 روز تک کشتی سمندر میں ہی کھڑی رکھی۔ کشتی میں گجرات کے گائوں جوڑا کرنانہ کے 5 افراد بھی سوار تھے۔ اہل خانہ کے مطابق ان 5 میں سے 4 افراد جاں بحق ہوئے، ایک زندہ بچ گیا۔ زندہ بچ جانے والے زاہد بٹ کا گھر والوں سے رابطہ ہوا ہے۔ اہل خانہ کے مطابق زاہد بٹ نے ٹیلی فون پر اہل خانہ کو حادثے سے متعلق آگاہ کیا، کہ کشتی روک کر انسانی اسمگلر پیسوں کا تقاضا کرتے رہے، پاکستانیوں پر تشدد بھی کیا گیا۔ انسانی اسمگلرز نے ان افراد کو ایک سیف ہائوس میں رکھا تھا۔انسانی اسمگلنگ کے گھنائونے کاروبار میں ملوث افراد کے ہاتھوں پاکستانی شہریوں کے جانی نقصان کا یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ طویل سلسلے کی ایک کڑی ہے، اللہ کرے کہ یہ اس نوعیت کا آخری واقعہ ہو مگر جس قدر وسیع پیمانے پر یہ مکروہ دھندہ پاکستان اور بہت سے دوسرے ملکوں میں جاری ہے، اس کے پیش نظر اس طرح کے مزید واقعات اور قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ دھندہ سال ہا سال سے جاری ہے اور حکومت کی بار بار کی کوششوں، اقدامات اور اعلانات کے باوجود اسے روکا نہیں جا سکا۔ پنجاب اور آزاد کشمیر کے کئی علاقوں سے انسانی اسمگلنگ کی یہ کارروائیاں تسلسل سے جاری ہیں، ملک کے مختلف ہوائی اڈوں کے ذریعے ہزاروں لوگوں کو یونان وغیرہ کے راستے بیرون ملک بھجوایا جا چکا ہے اور واقفان حال کے مطابق اب بھی لیبیا میں پانچ ہزار کے قریب پاکستانی انسانی اسمگلنگ میں ملوث کارندوں کے رحم و کرم پر ہیں۔ یہ پاکستانی باقاعدہ ویزا لے کر لیبیا گئے ہیں اور اب وہاں سے خفیہ راستوں اور کشتیوں کے ذریعے یورپ جانے کے لیے کوشاں ہیں۔ انسانی اسمگلروں کا یہ گروہ پاکستان تک محدود نہیں بلکہ عالمی سطح پر دنیا کے بہت سے پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں اس کا نیٹ ورک پھیلا ہوا ہے اور اس کے مکروہ دھندے میں تیزی سے توسیع کا عمل بھی جاری ہے، مثال کے طور پر صرف 2024ء کے دوران 2023ء کے مقابلے میں انسانی اسمگلروں کے ہاتھوں بہتر مستقبل کے سہانے خواب دیکھ کر اپنا وطن چھوڑنے والوں کی ہلاکتوں میں 58 فی صد اضافہ ہوا۔ مجموعی طور پر 2024ء میں خوشحال زندگی کی تلاش میں اسپین جانے کی کوشش میں دس ہزار سے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ تارکین وطن کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ہسپانوی گروپ نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں بتایا ہے کہ گزشتہ سال کشتیوں سے اسپین پہنچنے کی کوشش میں ہر روز 30 افراد ہلاک ہوئے۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں ہلاکتوں میں 58 فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ ہسپانوی گروپ کا کہنا ہے کہ پر خطر راستوں کے علاوہ ہلکی ساخت کی کشتیوں کا استعمال اور ریسکیو کے کام میں وسائل کی کمی بھی ہلاکتوں کا باعث ہیں۔ ہلاکتوں کی بڑی تعداد ریسکیو اور حفاظتی نظاموں کی ناکامی کو ظاہر کرتی ہے۔ ایک سال میں اتنی زیادہ ہلاکتیں ایک ناقابل قبول المیہ ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں اکثر کا تعلق افریقی ممالک سے ہے، جب کہ دیگر پاکستان سمیت دنیا کے 28 ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں پاکستان سے ہزاروں نوجوان بہتر مستقل کی تلاش میں یورپ کا رخ کرتے رہے ہیں اور بہت سے واقعات میں کئی سو افراد کی ہلاکتیں بھی ہوئیں ہیں۔ مغربی افریقا سے اس سال ہزاروں تارکین وطن نے جزائر کینری کا رخ کیا جو افریقی ساحل کے پاس واقع اسپین کا ایک جزیرہ نما ہے۔ اس جزیرہ نما کو براعظم تک رسائی کے لیے ایک اہم راستے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 10 ہزار 457 ہلاکتیں 15 دسمبر تک ریکارڈ کی گئی تھیں جن میں زیادہ تر اس جزیرہ نما کے راستے میں واقع ہوئیں۔ بحراوقیانوس کے اس راستے کو دنیا کے پر خطر ترین راستوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ہسپانوی گروپ ہلاکتوں کے اعداد وشمار کو مرتب کرتے ہوئے لاپتا افراد کے خاندانوں اور زندہ بچائے جانے والوں سے متعلق سرکاری اعداد وشمار پر انحصار کرتا ہے۔ گروپ کے اعداد وشمار کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں ایک ہزار 538 بچے اور 421 خواتین بھی شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اپریل اور مئی تارکین وطن کی اموات کے حوالے سے مہلک ترین رہے۔ 2024ء میں موریطانیہ سے آنے والے لوگوں میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ فروری میں اسپین نے موریطانیہ کے لیے 21 کروڑ یورو کی امداد کا اعلان کیا تھا تاکہ انسانی اسمگلروں کے خلاف کارروائی کر سکے۔ مگر اس کے باوجود انسانی اسمگلنگ کی روک تھام میں خاطر خواہ کمی نہیں ہو سکی! جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، یہاں بھی انسانی اسمگلنگ کے کاروبار کی جڑیں بہت گہری ہیں اور بار بار کے حادثات میں پاکستانی تارکین وطن کے بھاری جانی نقصان کے باوجود اور حکومتی ذمے داران کی جانب سے ہر بار سخت تادیبی کارروائیوں اور عبرتناک سزائوں کے اعلانات قطعی بے اثر ثابت ہو رہے ہیں جون 2023ء میں کشتی ڈوبنے کے واقعہ میں سات سو سے زائد لوگوں کی جانیں گئیں جن میں نصف سے زائد تعداد یعنی 360 افراد پاکستانی تارکین وطن تھے، پھر دسمبر 2024ء کے وسط میں اسی طرح کے ایک سانحہ میں کشتی میں سوار چار درجن کے قریب پاکستانی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، چار جنوری کو بھی اس طرح کے واقعہ میں کئی پاکستانیوں کی جانیں گئیں اور اب پھر چوالیس پاکستانی سمندر کی لہروں کی نذر ہو گئے۔ حالیہ سانحہ میں انسانی اسمگلروں کے جس قسم کے غیر انسانی سلوک کی داستانیں سننے میں آئی ہیں اسے سفاکیت کی انتہا ہی قرار دیا جائے گا۔ ان پے در پے واقعات کے بعد ہونا تو یہ چاہیے کہ غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک جانے کے خواہش مند افراد کی آنکھیں کھل جاتیں اور وہ اپنی زندگیوں سے کھیلنے سے باز آ جاتے مگر بدقسمتی سے اس رجحان میں کمی نہیں آ سکی اور لوگ خون پسینے کی کمائی ان انسانی اسمگلروں کے حوالے کر کے موت خرید رہے ہیں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: انسانی اسمگلروں کے انسانی اسمگلنگ تارکین وطن کشتی میں اور کشتی اہل خانہ کے مطابق نے والے کے لیے

پڑھیں:

سپین: تارکین وطن کی ایک اور کشتی حادثے کا شکار، 44 پاکستانیوں سمیت 50 افراد ہلاک

میڈرڈ (ڈیلی پاکستان آن لائن )مغربی افریقہ کے راستے غیر قانونی طور پر سپین جانے والے کشتی حادثے کا شکار ہوگئے جس کے نتیجے میں 50 افراد ہلاک ہوگئے، جن میں 44 پاکستانی بھی شامل ہیں
ڈان نیوز نے غیر ملکی خبررساں ادارے کے حوالے سے بتایا کہ تارکین وطن کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیم واکنگ بارڈرز نے کہا ہے کہ مغربی افریقہ سے کشتی کے ذریعے سپین پہنچنے کی کوشش کے دوران 50 تارکین وطن ڈوب کر ہلاک ہوگئے۔
مراکش کے حکام کا کہنا ہے کہ گزشتہ روز حادثے کا شکار ہونے والی تارکین وطن کی ایک کشتی سے 36 افراد کو بچایا گیا ہے جو 2 جنوری کو افریقی ملک موریطانیہ سے روانہ ہوئی تھی اور اس میں 86 تارکین وطن سوار تھے جن میں 66 پاکستانی بھی شامل تھے۔
واکنگ بارڈرز کے مطابق سال 2024 کے دوران ریکارڈ 10 ہزار 457 تارکین وطن سپین پہنچنے کی کوشش میں ہلاک ہوئے، جن میں سے زیادہ تر مغربی افریقی ممالک جیسے موریطانیہ اور سینیگال سے کینری جزائر تک بحر اوقیانوس کے راستے کو عبور کرنے کی کوشش کے دوران ہلاک ہوئے۔
انسانی حقوق کی تنظیم کے مطابق 6 روز قبل تمام ممالک کے حکام کو لاپتا کشتی کے بارے میں آگاہ کردیا تھا۔
سمندر میں گم ہونے والے تارکین وطن کے لئے ہنگامی فون لائن فراہم کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ’الارم فون‘ نے 12 جنوری کو سپین کی میری ٹائم ریسکیو سروس کو الرٹ کیا تھا۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر واکنگ بارڈرز کی پوسٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کینری جزائر کے علاقائی رہنما فرنینڈو نے سپین اور یورپ پر زور دیا کہ وہ مزید سانحات کی روک تھام کے لئے ہنگامی اقدامات کریں۔
انہوں نے اپنی پوسٹ میں کہا کہ بحر اوقیانوس کو افریقہ کا قبرستان نہیں بنایا جاسکتا اور اس سے منہ نہیں موڑا جاسکتا۔
واکنگ بارڈرز کی سی ای او ہیلینا مالینو نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں کہاکہ ڈوبنے والوں میں سے 44 کا تعلق پاکستان سے تھا، جنہوں نے گزشتہ 13 دن اذیت میں گزارے لیکن کوئی انہیں بچانے کے لئے نہیں آیا۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال دسمبر میں یونان کے جنوبی جزیرے گاوڈوس کے قریب کشتی الٹنے کے بعد متعدد تارکین وطن ڈوب کر ہلاک جبکہ کئی لاپتا ہوگئے تھے، جن میں بڑی تعداد پاکستانیوں کی بھی شامل تھی۔
ابتدائی طور پر دفتر خارجہ کی جانب سے ریسکیو کئے گئے 47 افراد کی فہرست جاری کی گئی تھی جبکہ یونان میں پاکستانی سفیر عامر آفتاب قریشی نے بتایا تھا کہ کشتی حادثے میں اب بھی درجنوں پاکستانی لاپتا ہیں جن کے بچنے کی امیدیں بہت کم ہیں۔
بعد ازاں یونانی حکام نے لاپتا افراد کو مردہ قرار دیتے ہوئے ان کی تلاش اور ریسکیو کے لئے جاری آپریشن روک دیا تھا جس کے بعد سانحے میں مرنے والے پاکستانیوں کی تعداد 40 ہوگئی تھی۔
بعد ازاں، وزیر اعظم شہباز شریف نے انسانی سمگلنگ سے متعلق جاری تحقیقات جلد از جلد مکمل کر کے ٹھوس سفارشات پیش کرنے، سہولت کاری میں ملوث وفاقی تحقیقات ادارے (ایف آئی اے) کے اہلکاروں کی نشاندہی اور ان خلاف کے سخت کارروائی اور سمگلنگ کی روک تھام کے لئے متعلقہ اداروں کو آپس کے رابطے مزید بہتر بنانے کی ہدایت کی تھی۔
انسانی سمگلنگ کے خلاف تحقیقات میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے افسران بھی لپیٹ میں آئے تھے اور مبینہ سہولت کاری پر 38 افسران کو نوٹسز جاری کردیے گئے جبکہ ایڈیشنل ڈائریکٹر امیگریشن سیالکوٹ ایئرپورٹ کو عہدے سے ہٹادیا گیا تھا۔

سیف علی خان پر جس گھر میں حملہ ہوا وہ کتنا بڑا اور اس کی قیمت کیا ہے؟

مزید :

متعلقہ مضامین

  • مراکش، تارکین وطن کی ایک اور کشتی حادثے کا شکار، 44 پاکستانیوں سمیت 50 افراد ہلاک
  • آصف زرداری اور شہباز شریف کا میڈرڈ کشتی حادثے میں جانوں کے ضیاع پر اظہار افسوس
  • کشتی حادثے میں جاں بحق 5 افراد کا تعلق گجرات کے ایک ہی گاؤں سے تھا
  • سپین: تارکین وطن کی ایک اور کشتی حادثے کا شکار، 44 پاکستانیوں سمیت 50 افراد ہلاک
  • اسپین جانے والی کشتی کو حادثہ، 44 پاکستانی سمیت 50 تارکین وطن ہلاک
  • موریطانیہ سے غیرقانونی طور پر اسپین جانیوالوں کی کشتی کو حادثہ، 44 پاکستانیوں سمیت 50 افراد ہلاک
  • میڈرڈ کشتی سانحہ: حادثاتی موت یا قتل؟، دلخراش تفصیلات سامنے آ گئیں
  • اسپین؛ تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے سے 40 پاکستانی سمیت 50 افراد ہلاک
  • تارکین وطن کی کشتی المناک حادثے کا شکار44 پاکستانیوں سمیت50 افراد جاں بحق