ویب ڈیسک: بھارت جاکر محبت کی شادی کرنے والی سیما کے سابق پاکستانی شوہر حیدر  نےاپنی بیوی کی حوالگی کیلئے بھارتی وزیرخارجہ جے شنکر سے سے اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ میرے بچوں کو واپس پاکستان بھیجا جائے۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق حال ہی میں سامنے آنے والی ویڈیو بیان میں سیما کے پاکستانی شوہر حیدر نے ایک بار پھر بچوں کی حوالگی کا مطالبہ کردیا ہے۔19 ماہ گزرنے کے باوجود بھارتی پولیس نے چھوٹے سے مقدمے کی تحقیقات مکمل نہ کرسکی، سیما اورحیدر کے چار بچوں کی قسمت کا فیصلہ اب تک نہیں ہوسکا۔اس سے قبل غلام حیدر نے بھارتی ریاست اترپردیش کے شہر نوائیڈا کی ایک عدالت میں درخواست دائر کی تھی جس پر سیما حیدر کو نوئیڈا کی فیملی کورٹ نے طلب کیا تھا۔ غلام حیدر نے سچن مینا کے ساتھ سیما کی شادی کوبھی چیلنج کیا تھا.

حماس کے پہلے 33 یرغمالیوں کی رہائی کا شیڈول

  ویڈیو میں بے تاب باپ حیدر اپنے بچوں او ماں کی حوالگی کا مطالبہ کر رہا ہے، حیدر کا یہ بھی کہنا تھا کہ مجھے میرے بچے بہت عزیز ہیں اور مجھ سے دور ہیں، حیدر نے بچوں کے نام تبدیل کئے جانے کا انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ میرے بچوں کا مذہب بھی زبردستی تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔غلام حیدر نے بھارتی وزیرخارجہ جے شنکر اور وزیر داخلہ امیت شاہ سے اپیل کی ہے کہ اس کے معصوم بچوں کو واپس پاکستان بھیجا جائے تاکہ وہ اپنی مرضی سے اپنے والد کے ساتھ رہ سکیں۔

جہلم  کے جنگل میں آگ، فائر بریگیڈ گاڑیاں پہنچنا نا ممکن

 واضح رہے کہ بھارتی نوجوان کی محبت میں گرفتار ہوکر براستہ نیپال بھارت جانے والی چار بچوں کی ماں سیما حیدر 2023 میں غیر قانونی بھارت گئی تھی۔ اترپردیش کے ضلع نوائیڈا پولیس نے غیر قانونی بھارت میں داخلے کا مقدمہ درج کیا تھا،تین دن بعد ضمانت پر رہا کردیا اور اسی آدمی کے گھر رہنے کی اجازت دے دی جس کے پاس غیر قانونی بھارت گئی تھی۔


 

ذریعہ: City 42

پڑھیں:

بھارتی آرمی چیف کا درد

دہلی سے یہ اچانک چیخ وپکار کیوں شروع ہوگئی ہے؟ بھارتی لیڈرشپ کو پاکستان کی طرف منہ کرکے ہذیانی انداز میں گالیاں بکنے اور الزام تراشی کرنے کا دورہ کیوں پڑگیا ہے؟ وہ تو اپنی فلم انڈسٹری اور میڈیا کے ذریعہ سے خود خطے کی سپر طاقت بناچکے تھے ، امریکی قوت کے تمام مراکز ان کے سر پر سایہ فگن تھے، پاکستان کے عاقبت نااندیش فتنہ پرور انتشاری بھی جی جان سے مودی کے مقاصد کی پاسداری پر یقین رکھتے تھے ۔ اس سب کےباوجود یہ اچانک کیاایسا ہوگیا کہ پہلے بھارتی وزیر دفاع’’ راج ناتھ سنگھ‘‘ اور اب آرمی چیف’’ اوپندرا دویدی ‘‘زباں وبیان کی چوکڑی بھول بیٹھے،الزام تراشی اور گالم گلوچ پر اتر آئے ، آخر کیوں ؟ یہ سب بےسبب تو ہو نہیں سکتا۔کل تک بھارت کی پالیسی یہ تھی کہ پاکستان تو مسئلہ ہی نہیں،ہمارا مقابلہ چین سے ہے ، اب پھر وہ پاکستان پاکستان چلانے لگا ہے،کیوں؟اس کا دکھ، اس کی پریشانی اور تکلیف ہم بہت اچھے سے جانتے ہیں،لیکن صد افسوس کہ بھارت کے دکھ کی اس گھڑی میں ہم بحیثیت فرد اور بحیثیت قوم قطعاً اس سے ہمدردی نہیں رکھتے، کیونکہ اس کا دکھ ہماری خوشی سے وابستہ ہے ، ان کی تکلیف ہماری ترقی اور کامیابی کا لازمی نتیجہ ہے۔
بھارتی آہ وبکا کی ٹائمنگ کو دیکھیں تو صاف سمجھ آتی ہے کہ ان کے درد کی وجوہات دو ہیں۔ اول یہ کہ پاکستان اور بنگلہ دیش جس تیزی سے ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں ، وہ بھارت کے لئے اک ڈرائونا خواب ہے ۔ اس نے ربع صدی کی محنت سے پاکستان کے اندر غدار خریدے ،میرجعفر وصادق کے وارث میر دریافت، ان کی مدد سے مشرقی پاکستان میں خون کی ہولی کھیلی ، قتل عام کیا، پاکستان کو دو لخت کرنے میں کامیابی حاصل کی ، اس بے شرمی کے’’ چہلم ‘‘ یعنی چالیس برس مکمل ہونے پر حسینہ واجد کی قیادت میں ڈھاکہ میں جشن منایا گیا اور اپنے میروں ، غداروں کے وارث بلا کر انہیں ایوارڈ دئیے گئے ۔ غیرت وحمیت سے تہی دامن وتہی دست میر جعفر کے یہ وارث اس قدر بے باک ثابت ہوئے کہ نہ صرف اپنی غداریوں پر ایوارڈ لینے جا پہنچے، بلکہ پاکستان کی افواج پر کیچڑ اچھالتے، شہدا کی توہین کرتے پاکستان سے معافی مانگنےکا مطالبہ بھی کرتے رہے ۔ دہلی سرکار اور اس کے ایجنٹ پاکستان میں 1971 جیسے مزید المیے تخلیق کرنے کے سازشوں میں مصروف تھے کہ ڈھاکہ جاگ اٹھا ، پاکستان کے خلاف لگایا گیا شیطانی مورچہ بنگالیوں کی غیرت ایمانی کے سامنے نہ صرف خس وخاشاک ثابت ہوا اور حسینہ واجد کو بھاگتے بنی بلکہ ڈھاکہ کے گلی کوچوں سے بھارت اور اس کے پالتو بنگلہ بدھو کی ایک ایک نشانی یوں کھرچ کر مٹادی گئی کہ اب کوئی نام لینے والا بھی نہیں بچا۔ یہ صدمہ ہی دہلی سرکارکے لئے کم وحشت ناک نہ تھا کہ اب بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات ، بیرونی مداخلت کے خلاف دونوں ممالک کی افواج کا اتحاد اور پاکستان سے دفاعی خریداری کے بنگلہ دیشی ارادے دہلی سرکار کو ہذیان بکنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ ایسے میں وہ اپنے بال نہ نوچے تو کیا کرے؟بنئے کی تو ساری سرمایہ کاری ڈوب گئی، ممکن ہے بات یہاں تک محدود نہ رہے۔ جس بھارت کو ہم جانتے ہیں ، وہ زخمی سانپ کی طرح ڈسنے کی کوشش کرسکتا ہے ، لیکن فکر کی بات اس لئے نہیں کہ ہم اسے جانتے ہیں اور دانت توڑنے کا ہنر بھی ہمیں معلوم ہے ۔ بقول کسے ’’ ہم نے پون صدی سے بھارت کو ہی پڑھا ہے ، سمجھا ہے ، اسی سے نمٹنے کی تیاری کی ہے ، ہمارا ہدف کوئی اور ہے ہی نہیں ۔‘‘
دہلی سرکار کا دکھ صرف یہ نہیں کہ ڈھاکہ اور اسلام آباد قریب آرہے ہیں ، سازشوں سے الگ کئے گئے دو جڑواں بھائی پھر سے گلے مل رہے ہیں، اس کا دکھ ایک اور بھی ہے۔ جس کی تفصیلات بھارتی دفاعی تجزیہ نگار’’ دنیش کے ووہرا ‘‘ نے بیان کی ہیں ، ووہرا نے اپنے ایک ویلاگ میں دعویٰ کیاہے کہ بھارت پاکستان کی طرف سے جدید ٹیکنالوجی کے حصول اور حربی صلاحیتوں میں اضافے کی وجہ سے پریشانی کا شکار ہے ۔ دہلی سرکار آج تک کہتی آئی ہے کہ وہ پاکستانی فوج کو کوئی خاص خطرہ نہیں سمجھتی ۔ تاہم چائنہ راہداری کی وجہ سے پاکستان کی حربی صلاحیتوں کے بارے میں بھارت کا خیال تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔دنیش کے مطابق معاشی چیلنجز کے باوجود،پاکستان کی فوج نے حربی صلاحیتوں میں تیزی سے اضافہ کیا ہے،خاص طور پر جدید ہتھیاروں کے حصول میں نمایاں پیش رفت کی ہے۔ تفصیل بیان کرتے ہوئے ووہرا نے کہاکہ پاکستان خطے میں ایک اہم قوت کے طورپر ابھر رہاہے، اس نے چین سے 40ففتھ جنریشن کے اسٹیلتھ ٹیکنالوجی کے حامل لڑاکا طیاروںJ-35کے حصول کے معاہدے کو حتمی شکل دے دی ہے، جن کی پاکستان کی فراہمی 2026کے آخر تک شروع ہوجائیگی، جبکہ بھارت اس کے برعکس ابھی صرف فورتھ جنریشن کے جنگی طیاروں کے حصول کی جدوجہد کر رہا ہے ، اس میں بھی وہ ابھی کامیابی سے کوسوں دور ہے ۔جس سے معلوم ہوتاہے کہ وہ جدید ٹیکنالوجی کے شعبے میں اپنے ہمسایہ ملک سے بہت پیچھے ہے ۔پاکستان پہلے ہی ففتھ جنریشن کے لڑاکاطیاروں کے حصول کا معاہدہ کر چکا ہے جبکہ بھارت کے پاس ان جدید طیاروں کے حصول کا کوئی واضح منصوبہ ہی نہیں ہے۔ ووہراکہتا ہے کہ اس کے موقف کی تصدیق بھارتی فضائیہ کے سربراہ ائیر مارشل اے پی سنگھ کے حالیہ بیان سے بھی ہوتی ہے،جس میں وہ کہتا ہے کہ ’چین اور پاکستان دونوں نے بھارت کو جنگی صلاحیتوں کے شعبے میں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ووہرا جدید فوجی ٹیکنالوجی کے حصول میں پاکستان کی پیشرفت کاحوالہ دیتے ہوئے کہتا ہےکہ بھارت اس شعبے میں چین سے کئی دہائیوں پیچھے تھاتاہم اب وہ پاکستان سے بھی ایک دہائی پیچھے رہ گیا ہے۔ ایک جانب چینی اشتراک سے j-35 پاکستان کے ترکش کو خطرناک بنا رہا ہے تو دوسری جانب ترکیہ کے KAAN سسٹم کے حصول کے بعد جلد ہی بھارت پرپاکستان کی برتری مزید واضح اور فیصلہ کن ہو جائیگی ۔ بھارت کا رونا یہ ہے کہ وہ اب بھی مگ 21 جیسے فرسودہ طیاروں پر انحصار کر رہا ہے۔ جنہیں بڑے پیمانے پر حادثات کا شکار ہونے کی وجہ سےاڑتے ہوئے تابوت کہاجاتا ہے ۔ ووہرا غالباً بھارتی نیول چیف کا رونا بھول گیا ہے ، جس نے دسمبر کے آخر میں ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’ پاکستان نیوی مختصر وقت میں جس تیزی سے مستحکم ہوئی ہے ، وہ ہمارے لئے خطرہ ہے۔‘‘بہرحال بھارتی آرمی چیف ہو یا وزیر دفاع ہم یہی کہیں گے کہ تمہارا دکھ ہمیں معلوم ہے ، لیکن ہم دکھ کی اس گھڑی میں قطعاً تمہارے ساتھ نہیں ہیں ، خدا کرے کہ تمہارا یہ دکھ دن دگنی رات چگنی رفتار سے بڑھتا رہے۔ انشا اللہ

متعلقہ مضامین

  • پاکستانی نژاد انگلش فاسٹ بولر ثاقب محمود کو بھارتی ویزا جاری
  • القادر یونیورسٹی میرے پاس آگئی ، مریم نواز
  • القادر یونیورسٹی میرے پاس آگئی، وہاں کے بچوں کو بھی اسکالر شپ دونگی، مریم نواز
  • بھارتی آرمی چیف کا درد
  • بھارتی بیانات علاقائی امن و استحکام کے لیے سنگین خطرہ ہیں، پاکستان
  • پشاور: بیوی کے مبینہ قتل کے الزام میں شوہر گرفتار
  • ابھیجیت بھٹاچاریہ نے دلجیت دوسانجھ اور کرن اوجلہ پر طنز کے تیر چلا دیے
  • پاک فوج کا بھارتی آرمی چیف کے بیان پر سخت ردعمل
  • ٹارگٹ کلنگ، دہشت گردی کے لیے بھارت اپنا احتساب کرے، پاکستانی دفتر خارجہ