آم کی بیماریوں سے محفوظ رکھنے کیلیے جدید تحقیق متعارف کرائی ہے، مظہر کیریو
اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT
ٹنڈوجام (نمائندہ جسارت) ایگریکلچر ریسرچ سندھ اور بائر کراپ سائنس کی جانب سے آم کی بہتر پیداوار کے عنوان سے سندھ ایگریکلچر ریسرچ کے ایگریکلچر کمپلیکس میں سیمینار منعقد کیا گیا جس سے خطاب کرتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل ایگریکلچر ریسرچ سندھ ڈاکٹر مظہر الدین کیریو نے کہا کہ ایگریکلچر ریسرچ نجی زرعی کمپنی کے ساتھ مل کر آم کی بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے لیے جدید تحقیق متعارف کرائی گئی ہے جس سے آبادگاروں کی آگاہی کے لیے سیمینار منعقد کیا گیا ہے جس سے آباد گاروں کو بہتر فصل کے ساتھ زائد معاوضہ مل سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ سندھ ایگریکلچر ریسرچ آباد گاروں کے لیے موسمیاتی تبدیلی اور کم وقت میں زائد پیداوار حاصل کرنے کے لیے مختلف اجناس پر کام کر رہی ہے جس سے خاطر خواہ نتائج حاصل ہو سکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ سیمینار سے آگاہی حاصل کرکے آم کے درختوں پر عمل کرنا چاہیے تاکہ انہیں بہتر اور زائد پیداوار حاصل ہوسکے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کی زراعت کی ترقی سے متعلق جلد انٹرنیشنل کانفرنس منعقد کی جائے گی جس میں غیر ملکی زرعی ماہرین شرکت اور آبادگاروں کو مفید مشورے دیں گے۔ بائر کمپنی کے محبوب شاہ، محمد خان مری، راؤ عمران راجپوت نے کہا کہ بائر کمپنی آم کی بہتر پیداوار حاصل کرنے کے لیے زرعی ادویات فراہم کر رہی ہے جس کے خاطر خواہ نتائج مل رہے ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
اسرائیلی ریاست، نفسیاتی بیماریوں کا شاخسانہ
اسلام ٹائمز: اسرائیلی معاشرے کا گہرا مطالعہ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ بائبل، تلمودی اور اساطیری حوالہ جات کس قدر اسرائیلی شخصیت، بالخصوص دائیں بازو کی انتہاپسند سوچ کے رویوں سے جُڑے ہوئے ہیں، جس کا نتیجہ صرف تشدد، جبر اور دہشتگردی کی صورت میں نکلا ہے۔ یہ سب اب محض ایک نظریہ نہیں بلکہ ایک تہذیبی رویہ بن چکا ہے، جو اسرائیلی شخصیت کے بنیادی ڈھانچے میں سرایت کر گیا ہے۔ یہ کوئی وقتی یا مجبوری کے تحت اپنایا گیا طرزِ عمل نہیں بلکہ ایک داخلی رجحان ہے۔ تحریر: سیدہ نصرت نقوی
اسرائیلی ریاست کے وجود اور اس کی پالیسیوں کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس کا رویہ صرف سیاسی یا جغرافیائی مقاصد کے تابع نہیں بلکہ اس میں گہری نفسیاتی پیچیدگیاں کارفرما ہیں۔ صیہونی تحریک کی بنیاد خوف، عدم تحفظ، برتری کے خبط، اور تاریخی مظلومیت کے نفسیاتی ردعمل پر رکھی گئی تھی، جس نے اسے ایک جارحانہ اور خود پرست ریاست میں ڈھال دیا۔ یہودی معاشرے میں انتہا پسندی اور تشدد کے موضوع پر لکھنا صرف ایک علمی یا نفسیاتی کاوش نہیں بلکہ یہ ایک ایسا موضوع ہے جو نفسیات کی حدود سے نکل کر اُن دنیاؤں میں داخل ہو جاتا ہے جہاں نظریاتی، نفسیاتی اور اساطیری عناصر آپس میں گڈمڈ ہو جاتے ہیں۔
اسرائیلی معاشرے کا گہرا مطالعہ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ بائبل، تلمودی اور اساطیری حوالہ جات کس قدر اسرائیلی شخصیت، بالخصوص دائیں بازو کی انتہاپسند سوچ کے رویوں سے جُڑے ہوئے ہیں، جس کا نتیجہ صرف تشدد، جبر اور دہشتگردی کی صورت میں نکلا ہے۔ یہ سب اب محض ایک نظریہ نہیں بلکہ ایک تہذیبی رویہ بن چکا ہے، جو اسرائیلی شخصیت کے بنیادی ڈھانچے میں سرایت کر گیا ہے۔ یہ کوئی وقتی یا مجبوری کے تحت اپنایا گیا طرزِ عمل نہیں بلکہ ایک داخلی رجحان ہے۔
جو کوئی بھی "اسرائیل" کو سمجھتا ہے، وہ اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ وہاں صرف غیر یہودیوں (یعنی "جینٹائلز") ہی کے لیے نہیں بلکہ بعض یہودیوں کے لیے بھی شدید نفرت اور تشدد کا رجحان موجود ہے۔ یہاں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہودی تربیت اور سماجی ماحول کا فرد کی شخصیت پر گہرا اثر ہے، جو اُسے دشمنی اور عداوت کے جذبات سے بھر دیتا ہے۔ یہ جذبات بعد میں عملی تشدد کی صورت اختیار کرتے ہیں، جو اکثر فکری شدت پسندی اور عملی انحراف میں ظاہر ہوتے ہیں۔
چند روز قبل اسرائیلی معاشرے میں ایک بڑا اسکینڈل سامنے آیا، جس نے مختلف حلقوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ شوشانہ استروک جو کہ انتہاپسند اسرائیلی وزیر برائے آبادکاری اوریت استروک کی بیٹی ہے، ایک ایسی خاتون جو فلسطینیوں کے خلاف اپنی شدید دشمنی اور انتہا پسندی کے لیے مشہور ہے نے انکشاف کیا کہ اُسے اپنے والدین نے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا اور اس ظلم کی ویڈیو بھی بنائی گئی۔
اوریت استروک جو کہ انتہائی دائیں بازو کی مذہبی صہیونیت پارٹی سے تعلق رکھتی ہیں، جس کی قیادت وزیر خزانہ بیتسلئیل سموتریچ کرتے ہیں، ان کا دوسروں کو تکلیف پہنچانے کا رجحان صرف مذہبی یا سیاسی نظریات کا نتیجہ نہیں لگتا بلکہ یہ ایک نفسیاتی بیماری کا عکاس محسوس ہوتا ہے، جو صرف فلسطینیوں کے خلاف نہیں بلکہ اُن کی اپنی بیٹی تک کے خلاف بھی ظاہر ہوا۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کیا ذہنی بیماری اور نظریاتی انتہا پسندی کے درمیان کوئی تعلق موجود ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ خاندانی، سماجی اور نفسیاتی حالات کسی فرد کو اس نہج پر لے جا سکتے ہیں کہ وہ ایسے گروہوں میں شامل ہوجائے جو انتہا پسند یا منفی نظریات کی ترویج کرتے ہیں۔ ایسے گروہ فرد کے رویے پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں اور یہ اثرات بعض اوقات لاشعوری طور پر بھی ظاہر ہوتے ہیں، یعنی فرد اپنے نظریات کو عملی شکل دینے کی خواہش میں شدت اختیار کر لیتا ہے۔
اگرچہ یہ کہنا غلط اور خطرناک ہوگا کہ ہر انتہا پسند رویہ ذہنی بیماری کا نتیجہ ہے لیکن ایک غیرجانبدار اور مکمل جائزہ ہمیں یہ سوچنے پر ضرور مجبور کرتا ہے کہ کہیں نہ کہیں کچھ انتہا پسندی نفسیاتی سطح پر کسی بیماری یا پیچیدگی سے بھی جڑی ہو سکتی ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ذہنی مریضوں کی اکثریت کا انتہا پسندی یا شدت پسند سیاسی تحریکوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
اسرائیلی ریاست اپنے گرد مسلسل خطرات کا حصار قائم رکھتی ہے اور یہ احساس اسے ہر اُس قوم، ملت یا فرد کے خلاف وحشیانہ ردعمل پر اکساتا ہے جو اس کے بیانیے سے اختلاف رکھتا ہو۔ فلسطینیوں کے خلاف غیرمعمولی تشدد، بچوں اور عورتوں تک پر بمباری، بستیوں کی تعمیر، اور عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزیاں دراصل اس اجتماعی نفسیاتی عارضے کا مظہر ہیں جسے ریاستی تحفظ کا نام دے دیا گیا ہے۔ یہ رویہ "خوفزدہ جارح" (paranoid aggressor) کی نفسیاتی کیفیت سے مشابہ ہے، جہاں حملہ محض دفاع نہیں بلکہ تسلط اور استیصال کی نفسیاتی ضرورت بن چکا ہے۔
اسرائیل کی قیادت میں موجود کئی چہرے، جن کا مزاج مذہبی شدت پسندی، نسل پرستی اور تشدد سے لبریز ہے، اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ ریاست صرف ایک سیاسی اکائی نہیں بلکہ اجتماعی نفسیاتی بیماریوں جیسے احساسِ برتری، تعصب، اور pathological narcissism کا شاخسانہ ہے۔ یہ کہنا مبالغہ نہیں ہوگا کہ اسرائیلی ریاست ایک ایسا "ذہنی مریض" ہے جو اپنی نفسیاتی الجھنوں کو گولی، بم اور خونریزی کے ذریعے دور کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور دنیا خاموش تماشائی ہے۔