سینٹ: خفیہ معلومات افشا کرنے کیخلاف قانون موجود، اعظم تارڑ
اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT
اسلام آباد (خبرنگار) ایوان بالا کو وفاقی وزیر قانون و پارلیمانی امور سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے بتایا ہے کہ خفیہ معلومات کو افشا کرنے کے حوالے سے قانون موجود ہے اور جو بھی اس میں ملوث پایا جاتا ہے اس کو قانون کے مطابق سزا دی جاتی ہے۔ جمعہ کو ایوان بالا میں وقفہ سوالات کے دوران سینیٹر قرۃ العین مری نے ضمنی سوال کرتے ہوئے کہاکہ حساس معلومات افشا کرنے کے حوالے سے سزا کا کوئی قانون موجود ہے۔ قرۃ العین مری نے کہاکہ پولیس کو حساس معلومات پر کیوں رسائی دی گئی ہے اور جو لوگ جنسی جرائم میں ملوث ہوتے ہیں اس حوالے سے کیا اقدامات اٹھائے جاتے ہیں۔ جس پر وفاقی وزیر نے کہاکہ ابھی تک یہ صرف مغربی ممالک میں کیا جاتا ہے تاہم اب یہاں پر بھی اس کو دیکھا جاتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہر شخص کی پرائیویسی ان کا قانونی حق ہے تاہم اگر کوئی جرم کرتا ہے تو اس کے بعد نوعیت بدل جاتی ہے۔ جو بھی بار بار جرائم کرتا ہے اس کی نگرانی کی جاتی ہے۔ ایوان بالا میں وقفہ سوالات کے دوران سینیٹر شہادت اعوان نے ضمنی سوال کرتے ہوئے کہاکہ حکومت کے ویئر ہائوس سے 14کروڑ روپے کی غیر ملکی اور مقامی رقم چوری کی گئی اور اس میں دو ملزمان نامزد ہوئے تھے اور جو ملزم ہے وہ ابھی تک اسی وئیر ہائوس کا انچارج ہے اور یہ ضمانت پر ہیں اور اب تک صرف 23لاکھ روپے کی وصولی کی گئی ہے، اس رقم کی بازیابی کیلئے اب تک کیا اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ سینیٹر رانا محمود الحسن نے سوال کیا کہ کیا سی ڈی اے کی منصوبہ بندی میں یہ بھی شامل ہے کہ پھل دار پودے لگائے جائیں۔ جس پر وفاقی وزیر نے کہاکہ یہ بہت اچھی تجویز ہے تاہم شہتوت اور بیری کے درختوں کی وجہ سے بھی الرجی کے مسائل سامنے آئے تھے۔ انہوں نے کہاکہ یہ تجویز متعلقہ افسران تک پہنچائی جائے گی۔ سینیٹر پلوشہ خان نے کہاکہ سڑکوں کو وسیع کرنے کے نام پر پرانے درختوں کو کاٹنے سے نقصانات ہوتے ہیں جس پر وفاقی وزیر نے کہا کہ درختوں کی منتقلی کا کام شروع کردیا گیا ہے۔ سینیٹر بلال مندوخیل نے کہاکہ سی ڈی اے کے پاس ہارٹیکلچر کا شعبہ موجود ہے جس پر وفاقی وزیر نے کہاکہ سی ڈی اے کے پاس ہارٹیکلچر کا شعبہ موجود ہے۔ ایوان بالا کا اجلاس اپوزیشن کے شدید شور شرابے کے بعد سوموار تک ملتوی کردیا گیا ۔اپوزیشن لیڈر سینیٹر شبلی فراز نے وقفہ سوالات کے دوران بات کرنے کی اجازت چاہی مگر ڈپٹی چیئرمین نے اجازت دینے سے انکار کردیا جس پر اپوزیشن اراکین نے شور شروع کردیا ۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: پر وفاقی وزیر نے کہ جس پر وفاقی وزیر نے موجود ہے نے کہاکہ
پڑھیں:
بلوچستان میں لوگوں کو اٹھائے جانے کا عمل تیز ہو گیا، سینیٹر کامران مرتضی
سینیٹر کامران مرتضی نے کہا ہے کہ بلوچستان میں چند ہفتوں سے لوگوں کو اٹھائے جانے کا عمل تیز ہو گیا ہے۔
وزیر قانون اعظم نذیر تاررڑ نے کہا کہ مسنگ پرسن کمیشن کو دوبارہ بنا دیا گیا۔ وزیر اعظم نے بلوچستان کے مسئلے پر ایک کابینہ کمیٹی قائم کی ہے ۔ ریاست پاکستان کو ائین کے تحت چلنا ہے۔ کسی شخص کے جرم کا الزام ہے ، ئا حراست درکار ہے تو وہ ائینی قانونی طریقے سے ہونی چاہیے
سینیٹر کامران مرتضی نے سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں چند ہفتوں سے لوگوں کو اٹھائے جانے کا عمل تیز ہو گیا ہے، غیر قانونی طور پر لوگ اٹھائے جاتے ہیں جن کا الزام سیکورٹی فورسز پر لگتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ احتجاج پر بلوچستان کی شاہراہیں بند کردی جارہی ہیں ۔ مچھ میں کئی روز حکومتی رٹ موجود نہیں تھی۔ وفاقی فورسز کی موجودگی میں یہ سب ہوتا ہے۔ الزام وفاقی حکومت اور وفاقی فورسز پر لگ رہے ہیں۔ بلوچستان دور ہوتا جا رہا ہے۔ بلوچستان میں حالات بہت زیادہ خراب ہو چلے ہیں۔
وزیر قانون اعظم نذیر تاررڑ نے کہا کہ بلوچستان کا مسئلہ کئی دہیائیوں پر مشتمل ہے۔ بیرونی مداخلت ڈھکی چھپی نہیں۔ مسنگ پرسن کمیشن کو دوبارہ بنا دیا گیا۔ ایک سابق سپریم کورٹ لے جج کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ جو کیسز حل نہیں ہوئے انکے فیملیز کو پچاس لاکھ کا سپورٹ پیکج دیا۔
انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت امن و امان کی ذمہ دار ہے۔صوبائی حکومت ہی وفاقی فورسز کو بلاتی ہے ، اس میں وفاقی حکومت کا کردار نہیں۔ آرمڈ فورسز صوبے کے ساتھ کام کرے تو صؤبائی حکومت ہی اسے توسیع دیتی ہے۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ وزارت داخلہ کو یہ پیغام پہنچا دیتا ہے۔ وزیر اعلی بلوچستان سے کہوں گا کہ وہ آپ سے رابطہ کر لیں۔ مسئلہ کے حل کے لیے پالیسی فیصلہ چاہیے۔ پی ایم نے ایک کابینہ کمیٹی اس مسئلے پر قائم کی ہے ۔ پی ایم اور ہم سب کے لیے یہ مسئلہ بڑا چیلنج ہے۔ ریاست پاکستان کو ائین کے تحت چلنا ہے۔ کسی شخص کے جرم کا الزام ہے ، ئا حراست درکار ہے تو وہ ائینی قانونی طریقے سے ہونی چاہیے۔