کینال نکالنے، ڈیم باندھنے کی گنجائش نہیں، امداد قاضی
اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT
حیدرآباد (اسٹاف رپورٹر) کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے سیکرٹری جنرل اور پاپولر لیفٹ الائنس کے کنوینر کامریڈ امداد قاضی نے کہا ہے کہ پچھلی ڈیڑھ صدی کے دوران مختلف ادوار اور حکومتوں کی جانب سے کرائی گئی اسٹڈیز میں پانی کے ماہرین بارہا یہ رائے دے چکے ہیں کہ دریائے سندھ اور اس کے معاون دریائوں کے نظام کو چھیڑنے، پانی کا رُخ موڑ کر کینال نکالنے یا بڑے بڑے ڈیم باندھنے کی کوئی گنجائش نہیں، یہی وجہ ہے کہ انگریز دورِ حکومت اور چھوٹے چھوٹے ریاستی ادوار میں ان تمام منصوبوں کو ناقابل عمل اور غیر سود مند قرار دے کر مسترد کیا گیا تھا۔ امداد قاضی نے کہا کہ گزشتہ 25 برس کے دوران پانی کی دستیابی کے اعداد و شمار بھی اس حقیقت کا ثبوت ہیں کہ تمام صوبے پانی کی شدید قلت کا شکار ہیں اور اضافی اراضی تو درکنار، موجودہ کاشت ہونے والی زمین اور فصلوں کے لیے بھی مطلوبہ مقدار میں پانی میسر نہیں جس کا خمیازہ اور نقصان تمام صوبوں کے کاشتکاروں اور کسانوں کو ہر سال بہت برے طریقے سے اور بہت بڑے پیمانے پر بھگتنا پڑ رہا ہے۔ امداد قاضی نے کہا کہ حکم دینے والوں کے ماتحت آبپاشی کے نام نہاد ماہرین اور ماتحت افسران اپنے سربراہان کی خوشنودی حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
جیلیں انڈر ٹرائل ملزمان سے بھرگئیں، گنجائش سے 152 فیصد زائد قیدی ہونے کا انکشاف
کراچی(نیوز ڈیسک)پاکستان کی جیلوں میں گنجائش سے 152 فیصد زائد قیدیوں کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے، ان میں سے 75 فیصد ٹرائل کے منتظر ہیں یا ان کا ٹرائل چل رہا ہے۔نجی چینل رپورٹ کے مطابق 2024 میں ’پاکستان کی جیلوں کا منظر نامہ: رجحانات، اعداد و شمار اور ترقی‘ کے عنوان سے جاری ہونے والی رپورٹ میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ قیدیوں کو متعدد چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جن میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کی موجودگی، مضر صحت زندگی کے حالات، صاف پانی تک ناکافی رسائی، غذائیت سے بھرپور خوراک اور صحت کی دیکھ بھال، استحصالی مزدوری، اہل خانہ اور قانونی مشیروں کے ساتھ محدود رابطہ اور شکایت کے مؤثر طریقہ کار کا فقدان شامل ہیں۔
رپورٹ میں یہ نشاندہی بھی کی گئی ہے کہ منشیات سے متعلق جرائم والے افراد کو زیادہ قید میں رکھنا اس مسئلے کو مزید بڑھا دیتا ہے۔نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس (این سی ایچ آر)، نیشنل اکیڈمی آف جیل ایڈمنسٹریشن اور جسٹس پراجیکٹ پاکستان کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں سزائے موت پانے والے قیدیوں کی تعداد میں معمولی اضافے پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے، جو گزشتہ سال کے 3 ہزار 604 کے مقابلے میں 2024 میں بڑھ کر 3 ہزار 646 ہوگئی۔رپورٹ میں جامع عدالتی اصلاحات اور سزا کے متبادل اقدامات کو اپنانے کی سفارش کی گئی ہے، اس میں جیلوں کے گہرے بحران سے نمٹنے کے لیے پاکستان جیل قوانین کو بین الاقوامی معیارات کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔
جیلوں میں رش
رپورٹ کے مطابق ملک کے چاروں صوبوں میں قیدیوں کی مجموعی تعداد ایک لاکھ 2 ہزار 26 ہے جنہیں 128 آپریشنل مراکز (جیلوں) میں رکھا گیا ہے، جن میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے قیدی بھی شامل ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک بھر میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کی تعداد 152.2 فیصد ہے، جب کہ کچھ جیلیں اپنی سرکاری گنجائش سے 200 سے 300 فیصد اضافے تک کام کر رہی ہیں۔اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 24 سال میں قیدیوں کی مجموعی تعداد میں 29 فیصد اضافہ ہوا، جو سال 2000 میں 78 ہزار 938 سے بڑھ کر سال 2024 میں ایک لاکھ 2 ہزار 26 ہوگئی، اعداد و شمار کے مطابق 2018 سے گزشتہ سال کے مقابلے میں خواتین قیدیوں کی تعداد میں 11.43 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
دریں اثنا، اس وقت ملک بھر کی جیلوں میں ایک ہزار 580 سے زائد نابالغ قیدی قید ہیں، جن میں خواتین نابالغ قیدی کل نابالغ قیدیوں کی تعداد کا صرف 0.7 فیصد ہیں۔اپریل 2024 تک ملک کی جیلوں میں 1100 سے زائد غیر ملکی قیدی تھے، جن میں سب سے زیادہ تعداد افغان شہریوں کی ہے، اس کے علاوہ بھارتی ، بنگالی اور نائجیریا کے شہری بھی قید ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کراچی سینٹرل جیل میں سرکاری گنجائش صرف 2 ہزار 400 ہونے کے باوجود 8 ہزار 518 قیدی موجود ہیں، جو اس کی گنجائش سے ڈھائی سو فیصد زائد ہے۔رپورٹ میں خواتین اور نابالغ قیدیوں کے لیے خصوصی سہولتوں کا ذکر کیا گیا ہے، خواتین کے لیے 4 جیلوں میں سے 3 سندھ (کراچی، حیدرآباد اور سکھر) میں ہیں، جب کہ پنجاب میں خواتین کے لیے صرف ایک جیل ہے، بصورت دیگر، خواتین کو مردوں کی جیلوں کے اندر الگ بیرکوں میں رکھا جاتا ہے۔اس کے علاوہ نابالغ قیدیوں کے لیے ایسے 5 مراکز میں سے 3 سندھ میں اور 2 پنجاب میں ہیں۔
نوجوان بھارتی اداکار کار حادثے میں جاں بحق