چین نے سائنس کی دنیا میں ایک محیر العقول کارنامہ سرانجام دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ خلا میں ایک سولر پاور اسٹیشن بنانے کا اعلان ۔ اس سنگ میل کو چین کا Manhattan Project بھی کہا جا رہا ہے ۔ اس نام کا پروجیکٹ امریکا نے حد درجہ خفیہ طریقے سے ایٹم بم بنانے کے لیے استعمال کیا تھا۔چین کے حالیہ اعلان کردہ منصوبے کی جزئیات پیش کرتا ہوں ۔ جس سے آپ کو یہ اندازہ ہو گا کہ ترقی یافتہ ملک کس جانب روانہ ہیں اور ان کی ترجیحات کیا ہیں ۔
زمین سے 36ہزار کلومیٹر اوپر خلا میں ایک سولراسٹیشن قائم کیا جا رہا ہے جس کی لمبائی ایک کلومیٹر ہو گی ۔ یہ سورج کی توانائی کو اپنے اندر محفوظ کرے گا۔ اس کے بعد اسے چین کے ایک ٹرانس میٹر سے منسلک کر دے گا ۔ اس سولر اسٹیشن کی خوبی یہ بھی ہے کہ یہ 24گھنٹے کام کرے گا ۔
دن اور رات میں اس کی کارکردگی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ اسٹیشن صرف چین کو اتنی توانائی مہیا کرے گا جو پوری دنیا میں پٹرول اور ڈیزل کے ذریعے ایک سال میں پیدا کی جاتی ہے۔ ذرا سوچیئے کہ اگر توانائی کا اتنا بھرپور ذریعہ موجود ہو تو پھر آبی ڈیم اور بجلی پیدا کرنے کے دوسرے ذرایع کس قدر غیر اہم ہو جائیں گے۔ جو بجلی ‘ سپیس اسٹیشن میں موجود ہو گی اسے مائکروویوز میں تبدیل کیا جائے گا اور پھر اسے زمین پر منتقل کرنا حد درجہ آسان ہو جائے گا۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ اسٹیشن ایک سو بلین کے وی ایچ پیدا کرے گا ۔
چین کے سائنسدانوں نے اس سولر اسٹیشن کو خلا کا Three Gorges Dam قرار دیا ہے ۔ یہ آبی ڈیم چین نے 2008میں بنایا تھا ۔ اس کی لاگت 35بلین ڈالر آئی تھی اور یہ Yangtze دریا پر واقع ہے۔ اس آبی ڈیم کی بجلی پیدا کرنے کی قوت 95 Twhسالانہ ہے ۔اور یہ دنیا کا سب سے بڑا ڈیم شمار کیا جاتا ہے ۔ ذرا اندازہ فرمائیے کہ خلائی اسٹیشن اس عظیم آبی ڈیم سے بھی بڑھ کر بجلی پیدا کرے گا ۔ چینی سائنسدانوں نے اس عظیم کارنامے کو خود سرانجام دیا ہے ۔ خلائی اسٹیشن کے تمام پرزے چین میں تیار کیے گئے ہیں ۔ انھیں راکٹس کی مدد سے خلا میں بھیجا جائے گا ۔
جہاں سائنسدان اور خلائی ہوا باز اس کو ایک اسٹیشن میں تبدیل کر دیں گے۔ انسانی تاریخ میں یہ ایک سنگ میل ہو گا کیونکہ اتنا اچھوتا کارنامہ کسی بھی ملک نے اب تک سرانجام نہیں دیا ۔ چینی قیادت اور سائنسدانوں کا کمال دیکھیے کہ انھوں نے تمام جزئیات ترتیب دینے کے بعد اس کا اعلان کیا ہے۔ اس منصوبے سے پوری دنیا میں کھلبلی مچ گئی ہے۔ امریکا ‘جسے ناز ہے کہ وہ ایک سپر پاور ہے سائنس اور تحقیق کی دنیا میں کوئی بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔ اس کی انتظامیہ اور خلائی سائنسدانوں نے انگلیاں چبا لی ہیں کیونکہ وہ یہ کام کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ میں تو یہ بھی عرض کروں گا کہ چین اس خلائی اسٹیشن کے بعد دنیا میںترقی کی دوڑ میں سب سے آگے موجود ہو گا۔ چینی حکام وہ کام کر رہے ہیں جو انسانی سوچ سے بھی باہر ہے۔
ہمارے ملک میں کسی نے بھی ایک کلومیٹر لمبے اس خلائی سولر اسٹیشن کی طرف غور نہیں کیا ۔ اتنے بڑے کارنامے پر کسی چینل نے کوئی پروگرام نشر نہیں فرمایا۔ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ وہ محیر العقول کارنامہ جو ہمارے چینی دوستوں کے سر کا تاج بن جائے گا ۔ اس پر ہمارے حکمران طبقے اور اداروں نے معمولی توجہ تک نہیں دی۔ دراصل ہماری ترجیحات ‘ ترقی یافتہ ممالک سے بالکل برعکس ہیں ۔ ہمارا حکمران طبقہ حد درجے عیاری سے ملک چلاتا رہا ہے اور پاکستان کو ترقی دینا یا اسے آگے بڑھانا ان کی ذہنی سوچ سے متضاد ہے ۔
غور فرمائیے کہ ہم اپنے حد درجہ زٹیل میڈیا پر کیا دیکھتے ہیں یا ہمیں کیا دکھایا جاتا ہے یا ہمیں کس طرح کی عمومی سوچ کا مالک بنا دیا گیا ہے؟ حضور ہمارا میڈیا خبریں نہیں چھاپتا یا بتاتا بلکہ ایک بدمست دیو کی طرح بدنظمی سے چنگھاڑتا ہے ۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کا ایک ہی حال ہے ۔ گزشتہ دس سال کی اہم ترین خبریں نکالیے جو بدقسمت عوام کو دیکھنی پڑی ہیں۔ کبھی وزیراعظم کو خط نا لکھنے کی پاداش میں سزا سنائی جاتی ہے ۔
اس کے سیاسی مخالف بغلیں بجاتے ہوئے خوشی سے جھوم اٹھتے ہیں ۔ کبھی عدلیہ کے قلم سے پاناما لیکس کی ایسی سزا سنائی جاتی ہے جو مکمل طور پر بے جواز نظر آتی ہے ۔ بدقسمتی سے میں نے وزیراعظم کو پاناما لیکس میں برطرف ہونے کی خبر ٹی وی پر خود سنی تھی ۔ چند مخصوص رپورٹر ‘ دیوانوں کی طرح گلا پھاڑ پھاڑ کر اعلان کر رہے تھے کہ وزیراعظم کو برطرف کر دیا گیا ہے۔ جذباتیت اور غیر متوازن رویہ ہمیں برباد کر چکا ہے ۔ ہمارے کچلے ہوئے معاشرے میں دلیل پر بات کرنی مکمل طور پر حماقت ہے۔ آج بھی یہی حال ہے ۔
کچھ عرصہ پہلے سنگاپور سے میرے ایک دوست لاہور آئے ۔ اخبار پڑھا اور کمرے سے باہر نکلنے سے انکار کر دیا۔ مقررہ وقت پر ملنے کے لیے گیا تو واپسی کا ٹکٹ کروانے میں مصروف تھے۔ حیران رہ گیا کیونکہ وہ تو صرف ایک دن پہلے لاہور آئے تھے ۔ اگلے ایک ہفتہ ان کی انتہائی کاروباری مصروفیات تھیں۔ وجہ پوچھی تو انھوں نے ایک انگریزی اخبار میرے سامنے رکھ دیا ۔ اس کی شاہ سرخیاں کچھ اس طرح کی تھیں۔ آج احتساب کے ادارے نے حد درجہ اہم لوگوں کو گرفتار کر لیا ۔ ساتھ ہی یہ کہ آج دہشت گردوں نے پچیس سے تیس لوگوں کو بس سے اتار کر قتل کر دیا ۔
ان کے شناختی کارڈ پہلے چیک کیئے ۔ جب ان کا تعلق ایک مخصوص صوبے سے نکلا تو سڑک کے کنارے بے دردی سے انھیں ذبح کر دیا گیا ۔ اسی اخبار کے بیک پیج پر درج تھا کہ ایک بیٹے نے جائیداد کے لالچ میں اپنے ماں باپ کو گولیوں سے بھون دیا ۔ صرف ایک دن کا اخبار پڑھ کر ‘ میرا سنگا پور کا دوست اعصابی طور پر شل ہو کر رہ گیا ۔ اس نے وہیں فیصلہ کیا کہ اس ملک میں کسی صورت ہوٹل سے باہر نہیں نکلے گااور اگلے ہی دن واپس روانہ ہو جائے گا۔
لاکھ کوشش کی اپنے اس کاروباری دوست کو بتا سکوں کہ یہ تو معمول کی خبریں ہیں ۔ ہم وہ بدقسمت لوگ ہیں جن کی زندگیوں میں بھیانک خبریں معمول کا حصہ بن چکی ہیں۔ترقی اور خوشی کی خبریں ملنا تقریباً معدوم ہیں۔ دوست نے سوال کیا کہ آپ اس ملک میں اور اتنے خطرناک ماحول میں سانس کیسے لے رہے ہیں ۔
جواب تھا کہ اس پر خطر ماحول کا عادی ہو چکا ہوں اور مجھے اب کسی قسم کی‘ کسی طرف سے خطرے کی بو تک محسوس نہیں ہوتی ۔ سنگا پور سے آیا ہوا رفیق ششدر رہ گیا ۔ کہنے لگا کہ یا تو پاکستان کے تمام لوگ اعصابی طور پر ختم ہو چکے ہیں یا انھوں نے کبھی ترقی یافتہ ملک دیکھا ہی نہیں ہے۔ انھیں ادراک ہی نہیں ہے کہ امن اور ترقی یافتہ خطے کیسے ہوتے ہیں ۔ لاکھ روکنے کی کوشش کی مگر وہ تمام میٹنگز ختم کر کے اگلے ہی دن واپس چلا گیا ۔
اردگرد کے ماحول پر غور کیجیے ۔ جواب دیجیے کہ کیا ہم واقعی انسانی سطح پر زندہ ہیں یا حیوانوں جیسی زندگی گزار رہے ہیں ۔ آپ کو جواب خود بخود مل جائے گا۔ چند دن اسلام آباد میں گزار کر آیا ہوں ۔ اسی نوعیت کی افواہیں جو آ ج سے تیس چالیس سال پہلے اس سازشی شہر میں گردش کر رہی تھیں وہی نام بدل کر بالکل اسی طرح بیان کی جا رہی تھیں جیسے وقت رک چکا ہے ۔ حکومت بس جانے والی ہے ؟ نئے وزیراعظم کا انتخاب بس ہو ہی چکا ہے ؟ نئے وزراء کے نام بھی تقریباً فائنل ہو چکے ہیں؟ ہاں فلاں مشیر کے بھائی نے ‘ ایک ٹھیکے میں اتنے کروڑ روپے وصول کیے ہیں ؟ اس طرح کی بدنما افواہیں یا خبریں تواتر سے اسلام آباد کی فضا میں ارتعاش پھیلا رہی تھیں۔اس سے آگے کیا بات کروں ۔ جن لوگوں کو میں کردار کی بلند مسند پر فائز کرتا تھا وہ بھی کسی نہ کسی ادارے یا بڑی کاروباری شخصیت کے طفیلی نظر آتے ہیں۔
موجودہ حکومت صرف اشتہارات کی بنیاد پر اسی طرح کے کارنامے سرانجام دے رہی ہے۔ جو ان کا سابقہ وطیرہ ہے۔اڑان نامی پروگرام میں اعلان کیا گیا ہے کہ پاکستان کی معیشت چند برس بعد ایک ٹریلین ڈالر کی ہو جائے گی۔ حضور عرض ہے ہندوستان کی صرف ایک ریاست مہاراشٹرا ‘ پانچ سو بلین ڈالر کی معیشت رکھتی ہے اور صرف دو تین سال میں صرف ایک صوبہ ایک ٹریلین ڈالر سے اوپر نکل جائے گا۔ پر کیا بات کرنی ۔ بادشاہ جو کہتا ہے وہ سچ ہے۔ چینی حکام تو بے وقوف ہیں کہ خلا کو مسخر کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں ۔ انھیں صرف اشتہارات دے کر اپنی ترقی کا اعلان کرنا چاہیے۔ یہ فن انھیں ہمارے حکمرانوں سے ٹیوشن کے ذریعے ضرور سیکھنا چاہیے!
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سولر اسٹیشن ترقی یافتہ دنیا میں صرف ایک جائے گا رہے ہیں آبی ڈیم کرے گا کر دیا
پڑھیں:
پاکستان دنیا کا سب سے بڑا سولر پینل امپورٹر! لیکن ریٹ میں کب کتنی کمی ہوئی؟
ملک بھر میں بجلی کے زائد بلوں سے پریشان عوام نے بجلی کے متبادل ذرائع اپنانا شروع کیا اور گزشتہ چند سالوں میں پاکستان میں سولر پینلز سسٹم لگانے کا رجحان بڑھ گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اب پاکستان دنیا کا سب سے بڑا سولر پینلز امپورٹ کرنے والا ملک بن گیا ہے، رپورٹ کے مطابق سال 24 میں پاکستان نے 17 گیگا واٹ کے سولر پینلز امپورٹ کیے ہیں، سولر پینل سسٹم گھریلو صارفین، صنعتوں اور چھوٹے کاروبار کرنے والوں نے لگوائے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: چاہتے ہیں لوگ سولر نیٹ میٹرنگ لگائیں تو تین، 4 سال میں پیسے پورے کرکے خوش ہوجائیں، سردار اویس خان لغاری
وی نیوز نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ پاکستان میں سولر پینلز کی قیمتوں میں کتنی کمی ہوئی ہے اور اس کمی کی وجوہات کیا ہیں۔
پاکستان سولر ایسوسی ایشن کے رہنما وقاص ہارون نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج سے 10 سال پہلے 2014 میں جب پاکستان میں سولر پینل سسٹم آنا شروع ہوئے تھے اس وقت فی واٹ قیمت ایک ڈالر تھی جو کہ اس وقت کے مطابق 105 روپے بنتی تھی جبکہ سولر پینل کی کوالٹی بھی اس معیار کی نہیں تھی جیسے اب ہے، سولر پینلز کا معیار بہت اچھا ہو گیا ہے جبکہ ریٹ انتہائی کم ہو گئے ہیں۔ سال 2022 میں جب ڈالر کا ریٹ بڑھا تو اس وجہ سے قیمتوں میں اضافہ ہو گیا تھا۔
وقاص ہارون نے کہا کہ کرونا وائرس کے عرصے میں سولر سسٹم کی قیمتوں میں کمی شروع ہوئی تھی، اس وقت پاکستان میں سولر پینل کی قیمت چین سے بھی کم ہو گئی ہے، اچھی کوالٹی کا سولر پینل 35 روپے فی واٹ کے حساب سے لگایا جا رہا ہے جبکہ درمیانی کوالٹی کا 30 روپے میں بھی لگایا جاتا ہے، اس وقت امید کی جا رہی ہے کہ چونکہ چین میں ریٹ کچھ بڑھے ہیں شاید پاکستان میں بھی ریٹس میں اضافہ ہو جائے لیکن یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کیونکہ پاکستان میں سولر پینلز کی بہت بڑی تعداد امپورٹ کر کے لوگوں نے رکھی ہوئی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: نئی پالیسی کے تحت نیٹ میٹرنگ، سولر صارفین پر ایک اور بجلی گرا دی گئی
رینیو ایبل انرجی ایسوسی ایشن کے رہنما اور سولر سگما کمپنی کے مالک نثار احمد نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں سولر پینل کی قیمتوں میں بڑی کمی ہوئی ہے، 2012 میں سولر پینل کی فی واٹ قیمت 120 روپے تھی جو کہ اپ کم ہو کر صرف 30 روپے رہ گئی ہے، سال 2010 میں سولر پینل کی فیورٹ قیمت 200 روپے تھی 2012 میں تقریباً 120 روپے تھی، سال 2016 میں قیمت 80 روپے فی واٹ رہی، سال 2018 میں سولر پینلز کی فی واٹ قیمت 40 روپے ہو گئی جس کے بعد 2020 میں کرونا وائرس کے دوران امپورٹ بند ہونے کی وجہ سے سولر پینلز کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور قیمت ایک مرتبہ پھر سے 100 روپے فی واٹ تک پہنچ گئی، کرونا وائرس کے بعد جب امپورٹ کھولی گئی تو ملک میں سولر پینلز اتنی زیادہ تعداد میں امپورٹ کیے گئے کہ قیمت میں 50 فیصد کمی ہو گئی اور قیمت 50 روپے فی واٹ تک کم ہو گئی۔
نثار احمد نے کہا کہ 2024 میں پاکستان نے دنیا میں سب سے زیادہ سولر پینل امپورٹ کیے، اس وقت پاکستان میں جتنے سولر پینلز ہیں شاید ہی کسی اور ملک کے پاس اتنا اسٹاک موجود ہو، یہی وجہ ہے کہ اس وقت سولر پینلز کا جو ریٹ چین میں ہے پاکستان میں اس سے بھی کم ریٹ پر سولر پینلز دستیاب ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
rates solar panel سولر پینل شمسی توانائی قیمتیں