ایف ایم ایف میں پاکستان کان کنی کے اہم مرکز کے طور پر سامنے آیا، پٹرولیم ڈویژن
اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT
RIYADH, SAUDI ARABIA:
پیٹرولیم ڈویژن نے کہا ہے کہ سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں فیوچر منرلز فورم (ایف ایم ایف) میں پاکستان نے اپنی وسیع غیردریافت شدہ معدنی دولت کو دنیا کے سامنے ظاہر کر کےخود کو کان کنی کے عالمی پاور ہاؤس کے طور پر پیش کردیا ہے۔
پٹرولیم ڈویژن کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق سعودی عرب میں پاکستانی وفد کے سیشن کا آغاز ”زیرِزمین:پاکستان میں کان کنی کی صنعت کی نشاۃ ثانیہ” کے موضوع پر پیش کی جانے والی ویڈیوکے ساتھ ہوا۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ ویڈیو میں ملک میں قیمتی پتھروں، غیر دھاتی اور صنعتی معدنیات، دھاتوں اور نایاب زمینی عناصر کے وافرذخائر کو اجاگرکیا گیا، یہ سیشن ”پاکستان: منرل مارول– کان کنی کا تابناک مستقبل ” کے عنوان سے ایک اعلیٰ سطح کے پینل کے درمیان زیر بحث رہا۔
اس سیشن کی نظامت پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ کے منیجنگ ڈائریکٹر عمران عباسی نے کی، پینل میں پٹرولیم اور آبی وسائل کے وزیر مصدق ملک، بیرک ریکوڈک کے پروجیکٹ ڈائریکٹر ٹموتھی کرب اور پاکستان منرل ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے منیجنگ ڈائریکٹر اسد احمد شامل تھے۔
مصدق ملک نے جامع پالیسی اصلاحات، ادارہ جاتی استعداد کار میں اضافے اورماحول دوست توانائی کی جانب عالمی تبدیلیوں کے ساتھ ہم آہنگی کے ذریعے کان کنی کے شعبے کوترقی دینے کے لیے حکومت کی ترجیحی حکمتِ عملی کو اُجاگر کیا۔
اعلامیے کے مطابق ایف ایم ایف 2025 میں پاکستان پویلین کا دورہ کرنے والے 10 ہزار سے زائد مندوبین نے ملک میں کان کنی کے بھرپور امکانات اور صلاحیتوں کے بارے میں آگاہی حاصل کی۔
اس دوران ایک اہم سنگ میل کے طور پر واہ نوبل گروپ اور سعودی گولڈ ریفائنری کے درمیان چار مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط بھی کیے گئے۔
ان معاہدوں کے تحت واہ نوبل سعودی عرب میں کان کنی کوفروغ دینے کے لیے جدید ڈرلنگ اور بلاسٹنگ خدمات فراہم کرے گی۔
بیان کے مطابق سعودی عرب میں منعقد اس فورم میں ڈیزائن اور نمائش کے اعتبار سے ایک قابل ستائش پویلین کے ساتھ پاکستان کی شرکت نے اسٹیک ہولڈرز کی نمایاں توجہ حاصل کی، جس سے قابل قدر تعاون کو فروغ ملا اور کان کنی کے ایک اہم مرکز کے طور پر ملک کی ساکھ میں اضافہ ہوا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: میں پاکستان کان کنی کے کے طور پر
پڑھیں:
حکومت نے پی آئی اے سمیت 10ادارے نجکاری کیلئے فائنل کر لئے
حکومت نے پی آئی اے سمیت 10ادارے نجکاری کیلئے فائنل کر لئے WhatsAppFacebookTwitter 0 11 April, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (آئی پی ایس )نجکاری کمیشن نے قومی ایئرلائن اور اسٹیٹ لائف انشورنس سمیت 10 اداروں کو نجکاری کیلئے فائنل کرلیا۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نجکاری کا سینیٹر افنان اللہ کی زیر صدارت اجلاس ہوا، جس کے شرکا کو نجکاری ڈویژن نے بریفنگ دی۔نجکاری کمیشن نے اجلاس میں نجکاری کیلیے فہرست میں موجود اداروں کے نام پیش کیے۔حکام نجکاری کمیشن نے اجلاس کے شرکا کو بتایا کہ نجکاری والے اداروں کی فہرست کے فیز 1 میں 10 ادارے شامل ہیں، جن کی نجکاری 1 سال میں مکمل کرنی ہے۔
سینیٹ کمیٹی برائے نجکاری کا سینیٹرافنان اللہ خان کی صدارت میں نجکاری کمیٹی کا اجلاس ہوا، وزیراعظم کے مشیربرائے نجکاری و چیئرمین نجکاری کمیشن محمد علی شریک ہوئے۔نجکاری ڈویژن کی جانب سے قائمہ کمیٹی کو نجکاری ڈویژن بارے اراکین کو بریفنگ دی گئی۔سیکرٹری نجکاری کمیشن کی پرائیوٹائزیشن کمیشن بارے بریفنگ اجلاس میں بتایا گیا کہ نجکاری ڈویژن کے ماتحت نجکاری کمیشن کام کرتا ہے، ڈویژن کے ذمہ نجکاری کے حوالے سے تجاویز سفارشات ہیں۔انہوں نے کہا کہ نجکاری ڈویژن کو نجکاری پالیسی اگست 2024 میں سونپی گئیں، عالمی اداروں سے نجکاری سے متعلق بات چیت زمہ داریوں میں شامل ہیں۔سیکرٹری نجکاری کمیشن نے بتایا کہ نجکاری کمیشن کی زمہ داریوں میں نجکاری مراحل کی تکمیل ہے، نجکاری کمیشن سال 2000 سے پہلے فنانس ڈویژن میں شامل تھا۔ حکام نے بریفنگ میں بتایا گیا کہ کمیشن کی سربراہی چئیرمین اور ممبران اس میں شامل ہوتے ہیں، بورڈ ممبران کی تعیناتی وزیراعظم کی جانب سے دی جاتی ہے۔حکام کے مطابق بورڈ ممبران کی تعنیاتی تین سال کیلئے ہوتی ہے، بورڈ ممبران پرائیوٹ سیکٹر سے لئے جاتے ہیں، قانون کے تحت قومی اسمبلی سینیٹ سے ممبران نہیں لئے جاتے ہیں۔
نجکاری پلان کو بنانا اور پھر اسے کابینہ میں پیش کرنا زمہ داریوں میں شامل ہیں۔نجکاری کمیشن کی جانب سے نجکاری اداروں کی فہرست کمیٹی میں پیش کردی گئی، سیکرٹری نجکاری کمیشن نے کمیٹی کو بتایا کہ مجموعی طور وفاقی حکومت کے 84 ایس او ایز ہیں۔ 84 ایس او ایز میں سے 24 اداروں کی فہرست مرتب ہے۔حکام نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ نجکاری والے اداروں کی فہرست کے فیز ون میں 10 ادارے شامل ہیں، فیز ون کی فہرست والے اداروں کی نجکاری ایک سال میں مکمل کرنی ہے۔نجکاری کمیشن کے جانب سے کہا گیا کہ پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائن، اسٹیٹ لائف انشورنس شامل، یوٹیلیٹی اسٹورزکارپوریشن بھی نجکاری کی فہرست میں شامل ہے۔حکام کے مطابق کے مطابق فرسٹ ویمن بینک لمیٹڈ نجکاری فہرست میں شامل ہے، ہاس بلڈنگ فنانس کمپنی نجکاری، آئیسکو،فیسکو،گیپکو نجکاری کی فہرست میں شامل ہے، پی ایم ڈی سی نجکاری فہرست میں شامل نہیں ہے۔ پی ایم ڈی سی کی نجکاری سے متعلق پیٹرولیم ڈویژن کی سفارش ہے۔مشیر برائے نجکاری محمد علی نے کہا کہ ایس او ایز کیبنٹ کمیٹی اداروں کی فہرست مرتب کرتی ہے، کابینہ کمیٹی برائے حکومتی ملکیتی ادارے 44 اداروں کو دیکھ رہی ہے۔ پی آئی اے پہلے منافع میں تھا پھر عرصہ سے نقصان میں چلا گیا۔مشیر نجکاری نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ اداروں کی نجکاری میں موجودہ اور مستقبل کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ کابینہ کمیٹی برائے نجکاری نے پی ایم ڈی سی کو پرائیویٹ کرنے کی منظوری دی ہے، ہیوی الیکٹریکل کمپلیکس کا نجکاری پراس مکمل کیا گیا ہے۔ سروسز انٹرنیشنل ہوٹل کی نجکاری کا مرحلہ مکمل کیا گیا ہے۔
انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ روز ویلٹ ہوٹل کی نجکاری کا مرحلہ ابھی نامکمل ہے، ہاس بلڈنگ فنانس کمپنی اس وقت نجکاری فیز میں ہے، زرعی ترقیاتی بینک نجکاری فیزمیں ہے، فنانشل ایڈوائز پروسس کا آغاز کر دیا گیا ہے۔انہوں مزید کہا کہ زیڈ ٹی بی ایل کیلئے فنانشنل ایڈوائزر کی سفارشات پر فیصلہ ہوگا، زیڈ ٹی بی ایل کو حکومت کمرشل آئیڈنٹٹی دینا چاہتی ہے، وفاقی کابینہ زیڈ ٹی بی ایل کے کام سے متعلق فیصلہ کرے گی۔اراکین کمیٹی نے کہا کہ زیڈ ٹی بی ایل کسانوں کیلئے ماں کی حیثیت رکھتا ہے، زیڈ ٹی بی ایل کسانوں کو قرض فراہم کرتا ہے۔ زرعی ترقیاتی بینک کی نجکاری کسانوں سے ظلم ہوگا۔مشیر برائے نجکاری کمیشن محمد علی نے کہا کہ زیڈ ٹی بی ایل کے نقصانات اربوں میں ہیں، زرعی ترقیاتی بینک کی بیلنس شیٹ نقصانات میں ہے، نجکاری کے بعد بینک کا پورٹ فیلو دیکھنا ہوگا۔مشیر برائے نجکاری کمیشن نے کمیٹی کو یقین دہانی کرائی کہ زیڈ ٹی بی ایل نجکاری ابتدائی مرحلے پر ہے، ہم اس کا پورا تجزیہ کریں گے دیکھیں گے۔مشیر برائے نجکاری کمیشن نے کہا کہ بینک نے قرض دئیے واپسی نہیں لے سکا بہت سے امور کو دیکھنا ہوگا، کمرشل اور اسلامک بینکنگ سیکٹر تمام امور پر سروسز دیتے ہیں۔ چیرمین کمیٹی رانا محمود الحسن نے کہا کہ زیڈ ٹی بی ایل سے متعلق وزیراعظم کو خط لکھ دیتے ہیں، کسانوں سے متعلق امور پر نمائندہ تنظیموں کو بلایا جائے۔