غیر قانونی پارکنگ کے خاتمہ کی ذمہ داری پولیس کی ہے، سعید غنی
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
سندھ اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے وزیر بلدیات سندھ کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت آج بھی 1.2 ارب روپے ہر ماہ کے ایم سی کو تنخواہوں اور پینشن کی مد میں ادا کرتی ہے، جو کسی دور میں اس وقت کے سٹی ناظم مصطفی کمال نے ایک ماہ کے لئے 500 ملین ادھار مانگے تھے۔ اسلام ٹائمز۔ وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ محکمہ بلدیات کے زیر انتظام محکموں میں زیادہ تر محکموں میں ریٹائرڈ ملازمین کو پینشن کی ادائیگی کی جارہی ہے، البتہ ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات کی عدم ادائیگی کا معاملہ ہے، کے ایم سی میں سابق مئیر وسیم اختر نے ان ملازمین کے جو پیسے علیحدہ اکاؤنٹ میں جمع ہوتے تھے اس کو بھی خرچ کردیا تھا، سندھ حکومت اس وقت بھی کے ایم سے کو ماہانہ 1.
صوبائی وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات کی ادائیگی میں مسائل موجود ہیں اور بہت سے ملازمین پریشان ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب کے ایم سی میں پینشن ریگولر مل رہی ہے اور پی ایف بھی ادا کردئے گئے ہیں البتہ واجبات کی مد میں 13 ارب روپے کے بقایاجات ہیں جبکہ جولائی 2017ء تک کے ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات ادا کردیئے گئے ہیں اس کے بعد کے بقایا ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈی ایم سیز کے ملازمین کے بقایاجات 2023ء تک کے ایم سی کو ادا کرنے چاہیئے یہ ہمارا مؤقف ہے اس کے بعد کے بقایاجات ٹاؤنز کو ادا کرنے ہیں۔ سعید غنی نے کہا کہ نئے ملازمین پر تو یہ ہوسکتا ہے کہ ان کو ٹاؤن ادا کرے لیکن پرانے پر نہیں۔ سعید غنی نے کہا کہ سندھ حکومت آج بھی 1.2 ارب روپے ہر ماہ کے ایم سی کو تنخواہوں اور پینشن کی مد میں ادا کرتی ہے، جو کسی دور میں اس وقت کے سٹی ناظم مصطفی کمال نے ایک ماہ کے لئے 500 ملین ادھار مانگے تھے اور یہ آج تک سندھ حکومت ادا کررہی ہے اور یہ رقم اب بڑھ کر 1.2 ارب روپے ماہانہ ہوگئی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ریٹائرڈ ملازمین سعید غنی نے کہا ملازمین کے سندھ حکومت کی مد میں نے کہا کہ کے ایم سی پینشن کی ارب روپے ماہ کے
پڑھیں:
جنوبی افریقا:غیر قانونی کان کنی کرنیوالے 87 مزدور بھوک سے ہلاک
جنوبی افریقا میں غیر قانونی کان کنی کرنے والے 87 مزدور کریک ڈاؤن کے دوران کھانے کی بندش کی وجہ سے بھوک سے ہلاک ہو گئے۔
بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق جنوبی افریقا میں پولیس نے غیر قانونی سونے کی کانوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے کان کنوں کی کھانے کی فراہمی روک دی، جس کے نتیجے میں بھوک سے 87 افراد ہلاک اور 240 سے زائد بے حال ہو گئے۔
پولیس نے زیر زمین چھپے کان کنوں کو باہر نکالنے کے لیے اگست سے کھانے کی سپلائی لائن بند کر رکھی تھی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں میں مزید اضافے کا خدشہ ہے جب کہ زندہ بچ جانے والوں کے خلاف مقدمہ چلایا جائے گا۔
دوسری جانب مزدورتنظیموں نے پولیس کی کارروائی کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے قتلِ عام قرار دیا اور کہا کہ محنت کش مزدوروں کو زندہ رہنے کا حق دیا جانا چاہیے تھا جب کہ حکومت نے پولیس کے اقدام کی حمایت میں مؤقف اپناتے ہوئے کہا کہ غیر قانونی کان کنی سے قومی خزانے کو لاکھوں ڈالر کا نقصان ہو رہا تھا۔