9 مئی مقدمات میں نامزد ملزمان کی ملٹری کورٹ سے سزاؤں کیخلاف اپیلیں
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
خیبر پختونخوا سے 27 ملزمان نے ملٹری کورٹس سے سزاؤں کے کے خلاف کورٹ آف اپیل میں قاضی انور ایڈووکیٹ اور بیرسٹر سرور مظفر شاہ کی وساطت سے اپیلیں دائر کی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ ملٹری کورٹ سے سزاؤں کے خلاف 27 ملزمان نے اپیلیں دائر کردیں، تفصیلات کے مطابق 9 مئی واقعات میں نامزد خیبر پختونخوا سے 27 ملزمان نے ملٹری کورٹس سے سزاؤں کے کے خلاف کورٹ آف اپیل میں قاضی انور ایڈووکیٹ اور بیرسٹر سرور مظفر شاہ کی وساطت سے اپیلیں دائر کی ہیں۔ کورٹ آف اپیل میں دائر کی گئی اپیلوں میں ملزمان کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ 9 مئی مقدمات میں اپیل کنندگان گرفتار ہوئے اور ان کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں چلا۔ 4جنوری کو ملٹری کورٹ نے ملزمان کو سزائیں سنادیں۔
اپیل میں کہا گیا کہ ملزمان کو پوری صفائی کا موقع نہیں دیا گیا اور نہ ہی ٹرائل کے دیگر قانونی تقاضے پورے کیے گئے۔ اپیل کنندگان کے خلاف منصفانہ مقدمہ نہیں چلایا گیا۔ ملٹری کورٹ میں سویلینز کا ٹرائل چلانا غیر آئینی اور غیر قانونی ہے جب کہ اپیل کنندگان کو ٹرائل کے دوران بنیادی حقوق سے بھی محروم رکھا گیا۔ اپیل آف کورٹ میں دائر اپیل میں استدعا کی گئی کہ تمام اپیلوں کو منظور کیا جائے اور تمام ملزمان کو الزامات سے بری کیا جائے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ملٹری کورٹ اپیل میں کے خلاف
پڑھیں:
عدالت کو ملٹری ٹرائل والے کیسز کا ریکارڈ دینے سے انکار کیا گیا، جسٹس حسن اظہر رضوی
جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 7 رکنی آئینی بینچ فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کررہا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسثس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن بھی بینچ کا حصہ ہیں۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ سیکشن 2 (1) ڈی ون اگر درست قرار پاتا ہے تو نتیجہ کیا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ قانون کے سیکشنز درست پائے جائیں تو ٹرائل کے خلاف درخواستیں نا قابل سماعت ہوتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اے پی ایس حملے میں گٹھ جوڑ موجود تھا تو فوجی عدالت میں ٹرائل کیوں نہیں ہوا؟ جسٹس جمال مندوخیل
خواجہ حارث نے کہا کہ ملٹری ٹرائل میں پورا پروسیجر فالو کیا جاتا ہے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ عدالت نے آپ سے ملٹری ٹرائل والے کیسز کا ریکارڈ مانگا تھا، عدالت دیکھنا چاہتی ہے کہ ٹرائل میں شہادتوں پر کیسے فیصلہ ہوا، عدالت کو یہ ریکارڈ دینے سے انکار کردیا گیا، حکومتی وکیل کو یہ جواب نہیں دینا چاہیے تھا۔
خواجہ حارث نے جواب دیا کہ عدالت کو ایک کیس کا ریکارڈ جائزہ کے لیے دکھا دیں گے۔ جسٹس محمد علی مظہر بولے کہ عدالت نے پروسیجر دیکھنا ہے کہ کیا فیئر ٹرائل کے ملٹری کورٹ میں تقاضے پورے ہوئے، ہائیکورٹس اور نہ ہی سپریم کورٹ میرٹس کا جائزہ لے سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: غیرمسلح لوگوں کا کور کمانڈر ہاؤس میں داخل ہونا سیکیورٹی کی ناکامی ہے، جسٹس حسن اظہر رضوی
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ عدالت نے ٹرائل میں پیش شواہد کو ڈسکس نہیں کرنا، عدالت محض شواہد کا جائزہ لینا چاہتی ہے، نیچرل جسٹس کے تحت کسی کو سنے بغیر سزا نہیں ہوسکتی۔
خواجہ حارث نے کہا کہ اگر قانون کے سیکشنز درست قرار پائے تو درخواستیں نا قابل سماعت ہوگی، عدالت بنیادی حقوق کے نقطہ پر سزا کا جائزہ نہیں لے سکتی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews آئینی بینچ جسٹس حسن اظہر رضوی خواجہ حارث سپریم کورٹ فوجی عدالتوں کا کیس فوجی عدالتیں ملٹری ٹرائل ملٹری کورٹس