جامعہ نعیمیہ نے اپنے فتویٰ میں ڈنکی لگا کر(غیر قانونی طور پر) بیرون ملک جانے کو ناجائز قرار دے دیا۔
جامعہ نعیمیہ کے ڈاکٹرمفتی راغب حسین نعیمی اور مفتی عمران حنفی کی جانب سے جاری کردہ فتویٰ میں کہا گیا ہے کہ ڈنکی لگا کر بیرون ملک جانا قانونی و شرعی لحاظ سے جائز نہیں۔
فتویٰ میں مزید کہا گیا ہے کہ شریعت محمدیﷺ میں خود کشی کرنا اور اس کی طرف لے جانیوالے جملہ امور حرام ہیں، خود کو ہلاکت میں ڈالنا یاایسا عمل کرنا جو ہلاکت کا باعث ہو ہرگز، ہرگز جائز نہیں۔
بیرون ملک جانے والے افراد قانونی طریقے اور محفوظ راستے اختیار کریں، غیر قانونی کام کے پیسے لینا ایجنٹ حضرات کے لیے جائز نہیں ہے۔
فتویٰ میں کہا گیا کہ حکومت انسانی جانوں کے دشمن ایجنٹوں کے حوالے سے قانون سازی کرے۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: بیرون ملک

پڑھیں:

القادر ٹرسٹ کیس کا فیصلہ قانونی تقاضے پورے کرتا ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 جنوری 2025ء) ماہرین کا ماننا ہے کہ سیاسی فیصلے ملک میں قانون کی عملداری اور جمہوری روایات کے فروغ میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں اور حالیہ فیصلہ بھی سیاسی انتقام پر مبنی ہے، کیونکہ اس وقت حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات چل رہے ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ جو فیصلہ تین دفعہ مؤخرکرنے کے بعد سنایا گیا ہے صرف اور صرف پی ٹی آئی کو مذاکرات کی میز پر جھکانے کے لیے کیا گیا ہے۔

ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ ملک کی ملٹری اسٹبلشمنٹ کا اس فیصلے کے پیچھے خاص کردار ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ فیصلہ قانونی تقاضے پورے نہیں کرتا کیونکہ یہ ایک کرمنل کیس نہیں تھا اسے ایک بڑے جرم کے طورپر ڈیل کیا گیا ہے۔

القادر ٹرسٹ کیس سے عمران خان اور ملک ریاض کا کیا تعلق ہے؟

ملک کے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں، ''میرے علم میں نہیں کہ آج تک کسی سیاسی کیس کا میرٹ پر فیصلہ کیا گیا ہو اور اس ملک میں قانون ایک مذاق بن چُکا ہے۔

(جاری ہے)

کون نہیں جانتا کہ یہ ایک سیاسی فیصلہ ہے اور ایسے فیصلوں سے ملک میں کوئی بہتری نہیں لائی جا سکتی۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت مذاکرات میں اپوزیشن کو کیا دے سکتی ہے۔ اس کیس کا فیصلہ مؤخر کیا جا رہا تھا اور اب وہ بھی سنا دیا گیا۔ اب مذاکرات کامیاب ہو بھی جائیں تو کورٹ سے سنائے گئے فیصلے کو حکومت کیسے ختم کر سکتی ہے۔ پی ٹی آئی کو اس کے لیے دوبارہ عدالت کا ہی رخ کرنا پڑے گا کیونکہ اس کیس کے فیصلے کا پتہ اب حکومت کے پاس موجود نہیں۔

‘‘

پی ٹی آئی کے رہنما بھی یہ سمجھتے ہیں کہ القادر ٹرسٹ فیصلے سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات میں خلل پیدا ہوگا۔ پی ٹی آئی کی سینیٹرفلک ناز کہتی ہیں ،''یہ ایک سیاسی فیصلہ ہے اور یہ دونوں جماعتوں کے درمیان مذاکرات میں بڑی رکاوٹ ثابت ہو گا۔ یہ عدالت کا فیصلہ ہے ہی نہیں، کوئی اور طاقت اس کے پیچھے ہے لیکن ہم ہمت نہیں ہاریں گے اور تمام فورمز پر اپنے دفاع کا حق استعمال کریں گے۔

اس طرح کے ہتھکنڈوں سے حکومت مذاکرات کے دوران اپنی مرضی کے نتائج حاصل نہیں کر سکتی۔‘‘

القادر ٹرسٹ فیصلے کی تفصیلات اور قانونی حیثیت کیا ہے؟

بروز جمعہ انسداد بدعنوانی کی عدالت نے عمران خان کو چودہ برس اور ان کی اہلیہ کو سات برس کی قید سنائی۔ القادر ٹرسٹ کیس کی تفصیلات کچھ اس طرح ہیں کہ بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کی ایک سو نوے ملین پاونڈ کی رقم برطانیہ کی حکومت نے منی لانڈرنگ کے جرم میں ضبط کر لی تھی اور کیونکہ وہ رقم پاکستان سے غیر قانونی طریقے سے اور منی لانڈرنگ کے زریعے برطانیہ بھجوائی گئی تھی اس لیے وہ رقم پاکستان کی حکومت کو واپس کی جا سکتی تھی۔

اس کے ساتھ ساتھ ملک ریاض پر سپریم کورٹ نے غیر قانونی طور پر ہتھیائی گئی سرکاری زمین کے ایک کیس میں چار سو ساٹھ ارب کا جرمانہ دینے کا فیصلہ دیا ہوا تھا جو کہ ملک ریاض کو سات سال میں ادا کرنی تھی اور اس سلسلے میں کھولے گئے سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع کروانی تھی۔

القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی پر فرد جرم عائد

عمران خان نے بطور وزیراعظم اس بات کی منظوری دی کہ برطانیہ سے حاصل شدہ رقم ملک ریاض کی طرف سے سپریم کورٹ میں جمع کروا دی جائے۔

عمران خان اور ان کی اہلیہ پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے یہ فائدہ ملک ریاض کو کیوں دیا کیونکہ برطانیہ سے آنے والی رقم تو حکومت کی تھی اور جرمانہ تو ملک ریاض نے علیحدہ سے ادا کرنا تھا۔ یہ الزام عائد کیا گیا کہ اس فائدے کو دینے کے بدلے میں عمران خان اور ان کی اہلیہ نے القادر ٹرسٹ جس کے ٹرسٹی دونوں میاں بیوی ہیں، کے نام پر اربوں روپے مالیت کی زمین حاصل کی۔

عمران خان کی ضمانت منظور

پی ٹی آئی ہی کے کیس لڑنے والے قانونی ماہرین کا ماننا ہے کہ اسے ایک تکنیکی بے ضابطگی مانا جا سکتا ہے لیکن اس طرح کے معاملات صرف تکنیکی غلطیوں کے زمرے میں آتے ہیں اور اس کی بنیا د پر اس طرح سزا نہیں دی جا سکتی۔ سینئر وکیل حامد خان کا کہنا ہے ''یہ ایک تکنیکی غلطی ہے۔ اسے رشوت کا کیس ثابت نہیں کیا جا سکتا۔

سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں ڈالی گئی رقم دوبارہ حکومت کے اکاؤنٹ میں جمع کروائی جا سکتی تھی اور ملک ریاض کو پابند کیا جا سکتا تھا کہ وہ اپنے جرمانے کی رقم علیحدہ سے ادا کریں۔ یہ ایک قانونی نہیں بلکہ سیاسی فیصلہ ہے اور طاقتور حلقوں کی طرف سے دبائو ڈال کر کروایا گیا ہے۔‘‘

عمران خان کا گرفتاری کے بعد عدالتوں میں مصروف دن

مزید قانونی راستے کیا ہیں اور انصاف کی کتنی اُمید ہے؟

حامد خان کا کہنا تھا کہ اب اس فیصلے کو ہائیکورٹ میں چیلنج کیا جائے گا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ ایک اچھی شہرت رکھنے والی عدالت ہے جس کے بہت سے جج اپنے بےباک فیصلوں کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ لیکن انہوں نے خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا،''یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ ججوں پر ملٹری اسٹبلشمنٹ کا بہت زیادہ پریشر ہے اور ہائیکورٹ کے چھ جج پچھلے سال اس بات کا اظہار بھی کر چکے ہیں تو اب کیس فائل کرنے کے بعد پتا چلے گا کہ کیا صورت حال بنتی ہے۔‘‘

متعلقہ مضامین

  • ڈنکی لگا کر بیرون ملک جانے والوں کیلئے فتویٰ جاری 
  • 190 ملین پاؤنڈ کیس، عمران 14، اہلیہ کو 7 سال قید: بشریٰ بی بی عدالت سے گرفتار، القادر یونیورسٹی ٹرسٹ ضبط، سرکاری کنٹرول میں دیدیا گیا
  • ڈنکی لگاکربیرون ملک جانا غیرشرعی ہے ،جامعہ نعیمیہ
  • ڈنکی لگا کر غیرقانونی طور پر بیرون ملک جانا ناجائز قرار، فتویٰ سامنے آگیا
  • جامعہ نعیمیہ نے ڈنکی لگا کر بیرون ملک جانے کے خلاف فتویٰ دے دیا
  • ڈنکی لگا کر غیرقانونی طور پر بیرون ملک جانے کو ناجائز قرار دے دیا گیا، فتویٰ سامنے آگیا
  • القادر ٹرسٹ کیس کا فیصلہ قانونی تقاضے پورے کرتا ہے؟
  • آج القادر کیس کا فیصلہ مزید مؤخر نہیں ہو گا: بیرسٹر محمد علی سیف
  • وزیرِ اعظم کی انسانی اسمگلنگ کا دھندہ کرنیوالوں کیخلاف انتہائی سخت قانونی کارروائی ہدایت