گریٹر اسرائیل، اب آگے کیا ہونے والا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
اسلام ٹائمز: گریٹر اسرائیل ایک ایسی آبادی پر مشتمل ہوگا جہاں اکثریت اسرائیل اور مغرب کی پالیسیز کے خلاف ہوگی جبکہ وہ ایک متبادل عالمی آرڈر کی تلاش میں ہوں گے۔ جغرافیائی طور پر اسے عرب ممالک اور مشتعل نوجوان نے گھیرا ہوگا جنہوں نے قتل ہوتے دیکھے ہیں، جن کی تذلیل کی گئی ہے اور جنہیں زد و کوب کیا گیا ہے۔ انہوں نے اپنے تعلیمی نظام اور صحت عامہ کے انفرااسٹرکچر کو مکمل طور پر تباہ ہوتے دیکھا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا حالات یونہی جاری رہیں گے؟ اگر نہیں تو حالات کس طرح مختلف ہوں گے؟ جبکہ اس میں شامل مختلف گروہوں اور قوتوں کے کردار کو دیکھتے ہوئے تبدیلی کیسے آئے گی؟۔ تحریر: عارف حسن
یہ واضح ہوچکا کہ اسرائیل کی جنگ، صرف حماس کے خلاف نہیں تھی بلکہ وہ تو ’گریٹر اسرائیل‘ بنانے کے اپنے پروجیکٹ پر کارفرما تھا۔ چند بہادر اور مزاحمتی فلسطینیوں کے علاوہ تو غزہ اب مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے۔ مغربی کنارے کی آبادی پر بھی اپنی زمینیں چھوڑنے کے لئے دباؤ ہے۔ اگرچہ لبنان میں بھی خاموشی ہے لیکن مشکلات کا سامنا کرنے والی حزب اللہ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ اردن کی سلطنت تو پہلے ہی امریکی یورپی طاقتوں کے زیرِ اثر ہے۔
دوسری جانب شام کے دفاعی نظام کو بھی مکمل طور پر تباہ کردیا گیا ہے جبکہ ملک جزوی طور پر قبضے میں ہے۔ ایک بار پھر اسرائیل مشرقِ وسطیٰ کی سب سے بڑی طاقت کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔ یہ ’دریا سے سمندر تک‘ علاقے کو کنٹرول کررہا ہے، وہ زمین جو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو تحفے میں دی تھی۔ تاہم اسرائیل نے یہ زمین تشدد کے سہارے حاصل کی ہے۔
اسرائیل کی کامیابی کا سہرا امریکا کی فراہم کردہ فضائی قوت کو بھی جاتا ہے جوکہ خطے میں سب سے طاقتور فضائی فورس ہے اور اس کا کوئی بھی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اقوامِ متحدہ نے بھی اسرائیل کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔ سلامتی کونسل میں امریکا اور یورپی ممالک کی حمایت حاصل کرکے اسرائیل نے نسل کشی کا سلسلہ جاری رکھا جبکہ انہوں نے اسرائیل کو عسکری اور مالیاتی امداد فراہم کیں جوکہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
صرف امریکا ہی سالانہ بنیادوں پر اسرائیل کو اربوں ڈالرز کے دفاعی ہتھیار فراہم کرتا ہے۔ ایک مطالعہ کے مطابق غزہ جنگ کے آغاز کے 12 ماہ میں امریکا نے اسرائیل کو 17.
تاہم نسل کشی نے بہت سی چیزیں بدل کر رکھ دی ہیں۔ اس پورے المیے میں عالمی قوانین، معاہدوں اور بین الاقوامی اداروں کی ساکھ بری طرح مجروح ہوئی ہے۔ سیکولرازم اور انسانی حقوق جوکہ بین الاقوامی قانون کی بنیاد ہیں، ان کی خلاف ورزی کی گئی جس کی وجہ سے دنیا میں شمال اور جنوب کی بنیاد پر شدید تقسیم پائی جاتی ہے۔
یہ تو واضح ہوچکا ہے کہ سفید فام اکثریت رکھنے والے مغربی ممالک اب اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ وہ دنیا کی قیادت کرسکیں۔ یہ بھی سامنے آچکا ہے کہ یہود مخالف اور ہولوکاسٹ کے قوانین صہیونیوں اور اسرائیل کو تحفظ فراہم کرتے ہیں کہ جن کے تحت ان پر تنقید کرنے والوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا بلکہ انہیں ٹرول کیا جاتا ہے۔
یہ بھی واضح ہوچکا ہے کہ اب مغربی میڈیا قابلِ بھروسہ نہیں رہا۔ یہ سفید فاموں کا ساتھ دیتا ہے جبکہ ان کی جانبداری کھل کر سامنے آچکی ہے۔ بہت سے لوگ مغربی میڈیا پر الزامات لگاتے ہیں کہ یہ جھوٹ بولنے کے لیے رشوت لیتے ہیں جبکہ ان کے نمائندگان امریکا اور یورپ سے مفادات کے عوض جھوٹی کہانیاں گھڑتے ہیں۔ اسرائیل-غزہ جنگ سے یہ بھی واضح کیا کہ مسلم ممالک کو اسلامی دنیا کے تصور کو فروغ دینے کے بجائے صرف اپنے قومی مفادات سے غرض ہے۔
مغربی ممالک بالخصوص امریکی عوام سمجھتے ہیں کہ ان کے انتخابات اور پالیسیز اسرائیل کی حمایت کرنے والی بڑی عالمی کمپنیز سے متاثر ہیں جبکہ امریکی خارجہ پالیسی بڑی حد تک اسرائیل کے مفادات پر مبنی ہے۔ عوام بالخصوص امریکا میں مایوسی بھی پائی جاتی ہے کیونکہ شہریوں کا گمان ہے کہ ان کے ٹیکس کی رقوم اسرائیل کو مالی امداد اور ہتھیاروں کی فراہمی میں استعمال ہو رہی ہے۔
اتنے عرصے میں یہ بھی واضح ہوچکا ہے کہ امریکا میں نوجوانوں کی اکثریت، اسرائیل کی نسل کش مہم کے خلاف ہے جبکہ امریکا اور یورپی ممالک کے مرکزی شہروں میں واقع کالجز کے کیمپسز اور سڑکوں پر جس طرح نوجوانوں نے بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے، اس نے مغربی نوجوانوں کی سوچ کی عکاسی کی۔ یہ مظاہرے مغربی ممالک کی تاریخ میں منفرد اہمیت کے حامل ہیں۔
نوجوان اس بات پر بھی برہم ہیں کہ اسکول اور یونیورسٹیز میں انہیں جن اقدار کا درس دیا جاتا ہے، دنیا تو ان سے رہنمائی لیتی ہی نہیں۔ وہ اب رہنمائی کے لیے کسی نئے متبادل کی تلاش میں ہیں۔ دوسری جانب پرانے سیاست دان میڈیا کے تعاون سے معاملات جیسے ہیں، انہیں ویسے ہی رکھنے کی کوششوں میں ہیں۔ مغرب کے لیے نسل کشی کی حمایت کا مقصد ’گریٹر اسرائیل‘ کا قیام تھا جوکہ مشرقِ وسطیٰ اور اس کے بےپناہ وسائل کو کنٹرول کرے۔
تاہم ’گریٹر اسرائیل‘ ایک ایسی آبادی پر مشتمل ہوگا جہاں اکثریت اسرائیل اور مغرب کی پالیسیز کے خلاف ہوگی جبکہ وہ ایک متبادل عالمی آرڈر کی تلاش میں ہوں گے۔ جغرافیائی طور پر اسے عرب ممالک اور مشتعل نوجوان نے گھیرا ہوگا جنہوں نے قتل ہوتے دیکھے ہیں، جن کی تذلیل کی گئی ہے اور جنہیں زد و کوب کیا گیا ہے۔ انہوں نے اپنے تعلیمی نظام اور صحت عامہ کے انفرااسٹرکچر کو مکمل طور پر تباہ ہوتے دیکھا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا حالات یونہی جاری رہیں گے؟ اگر نہیں تو حالات کس طرح مختلف ہوں گے؟ جبکہ اس میں شامل مختلف گروہوں اور قوتوں کے کردار کو دیکھتے ہوئے تبدیلی کیسے آئے گی؟
یہ مضمون ڈان اخبار میں شائع ہوا ہے
اصلی لنک پیش خدمت ہے
https://www.dawn.com/news/1885569/now-what
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: مکمل طور پر تباہ گریٹر اسرائیل اسرائیل کی اسرائیل کو کے خلاف یہ بھی ہیں کہ ہوں گے
پڑھیں:
(ن) لیگ، پی پی، پی ٹی آئی غزہ کیلئے آواز اٹھائیں، امریکا و اسرائیل کی مذمت کریں، حافظ نعیم
یکجہتی غزہ مارچ سے خطاب کرتے ہوئے حافظ نعیم نے کہا کہ امریکا کے غلاموں کے خلاف تحریک کی قیادت کراچی کرے گا اور ہم کامیابی حاصل کریں گے۔ اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی امیر حافظ نعیم الرحمٰن کا کہنا ہے کہ اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے، پاکستان کی سیاسی قیادت سمیت بین الاقوامی برادری خاموش ہے، مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف بھی غزہ کیلئے آواز اٹھائیں اور امریکا و اسرائیل کی مذمت کریں، انہوں نے نے غزہ میں جاری جارحیت اور فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کیلئے 22 اپریل کو ملک بھر میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان کر دیا۔ تفصیلات کے مطابق کراچی میں شاہراہ فیصل پر عظیم الشان یکجہتی غزہ مارچ میں خطاب کرتے ہوئے حافظ نعیم نے تحریک کے اگلے لائحہ عمل کا اعلان کیا اور عوام پر زور دیا کہ وہ امریکی اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی تحریک کو جاری رکھیں۔ اگلے لائحہ عمل کا اعلان کرتے ہوئے حافظ نعیم نے کہا کہ اگلے مرحلے میں بچوں کا ایک الگ مارچ کیا جائے گا، 18 اپریل کو ملتان، 20 اپریل کو اسلام آباد میں غزہ مارچ ہوگا، اسلام آباد میں ملکی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع ہوگا۔
حافظ نعیم الرحمٰن نے اعلان کیا کہ 22 اپریل کو پورے ملک میں شٹر ڈاؤن ہڑتال ہوگی، جس کی فلسطینی قیادت سے بھی توثیق لی ہے، عالم اسلام کی دیگر تنظیموں سے بھی اس روز ہڑتال کی بات کریں گے۔ حافظ نعیم نے کہا کہ 22 اپریل کو پورے ملک میں کاروبار بند کرکے غزہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی ممالک کے سربراہان اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی خطوط لکھ رہا ہوں، پوری دنیا میں امریکا کی غلاموں کے خلاف تحریک شروع کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکا کے غلاموں کے خلاف تحریک کی قیادت کراچی کرے گا اور ہم کامیابی حاصل کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل فسلطین میں بچوں اور خواتین کا قتل کر رہا ہے، اسرائیل نہتے فلسطینیوں پر ظلم کے پہاڑ ڈھا رہا ہے، عالمی برادری کی اسرائیلی مظالم پر خاموشی افسوسناک ہے۔
مرکزی امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کی دھجیاں اڑائی ہیں، اسرائیل آج بھی حماس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ حکمران اسرائیلی مظالم کے خلاف آواز بلند کریں، غزہ میں بربریت سے مغرب کے رہنماؤں کا چہرہ بے نقاب ہوگیا، امریکا میں بھی 50 فیصد لوگ فلسطین کے حامی ہیں، دنیا کا بچہ بچہ اہل غزہ سے اظہار یکجہتی کر رہا ہے، تمام سیاسی جماعتیں اسرائیل کی مذمت کریں۔ حافظ نعیم ے کہا کہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو اسرائیل تسلیم کرنے کا کہا گیا، لیاقت علی خان نے کہا کہ ہماری بنیاد برائے فروخت نہیں ہے، اہل پاکستان کے دل فلسطینیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔