پاکستانی خاتون نے جنوبی امریکا کی بلند چوٹی سرکرلی
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
ارجنٹائن: پاکستان کی جرأت مند کوہ پیما ثمر خان نے ایک اور تاریخی کارنامہ سر انجام دیتے ہوئے جنوبی امریکہ کی بلند ترین چوٹی، ماؤنٹ اکنکاگوا، سر کر لی ہے۔ارجنٹائن میں واقع اس چوٹی کی بلندی 6,961 میٹر ہے، جو ثمر خان نے شدید سردی، تیز ہواؤں، اور مشکل ترین حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے عبور کی۔
ماؤنٹ اکنکاگوا سرکرنے کے بعد ثمر خان کا کہنا تھا کہ یہ کامیابی ان کے لیے صرف ایک چڑھائی نہیں بلکہ ایمان، ہمت اور استقامت کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ انہوں نے اپنی کامیابی کا سہرا اللہ کی مہربانیوں اور اپنے خاندان، دوستوں اور چاہنے والوں کی دعاؤں کو دیا۔
رپورٹ کے مطابق ماؤنٹ اکنکاگوا دنیا کی بلند ترین چوٹیوں میں شامل ہے اور ایشیا کے باہر سب سے بلند چوٹی ہے۔ اس کا غیر ہموار راستہ، ناقابلِ پیش گوئی موسم اور انتہائی بلندی پر چڑھائی اسے کوہ پیماؤں کے لیے ایک مشکل آزمائش بناتے ہیں۔ لیکن ثمر خان نے اپنی لگن اور حوصلے سے یہ چیلنج قبول کیا اور کامیابی حاصل کی۔ان کی کامیابیاں یہیں ختم نہیں ہوتیں۔ 2024 میں، وہ یورپ کی بلند ترین چوٹی، ماؤنٹ ایلبرس، پر سنوبورڈنگ کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون بنیں۔
اس سے قبل، وہ اپنی پہاڑی بائیک پر دنیا کے مشکل ترین راستوں میں سے ایک، کے ٹو کے بیس کیمپ تک پہنچنے والی پہلی خاتون بنیں۔واضح رہے کہ ماؤنٹ اکونکاگوا ایشیا سے باہر دنیا کی بلند ترین چوٹی ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ماو نٹ
پڑھیں:
ٹرمپ نے غزہ جنگ بندی معاہدے کا سہرا اپنے سر باندھ لیا
واشنگٹن:نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ میں اسرائیلی مغویوں کی رہائی کے معاہدے کا سہرا اپنے سر باندھتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ یہ معاہدہ ان کی نومبر کی تاریخی انتخابی کامیابی کے بغیر ممکن نہیں تھا۔
ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشل‘ پر ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں مغویوں کی رہائی کا معاہدہ طے پا گیا ہے اور وہ جلد ہی آزاد ہو جائیں گے۔
اپنے ایک دوسرے پیغام میں ٹرمپ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ نومبر کی فتح نہ صرف ان کے لیے بلکہ امریکا اور دنیا کے لیے ایک نئی شروعات ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تاریخی کامیابی اس معاہدے کی بنیاد بنی، اور وائٹ ہاؤس میں واپسی سے پہلے ہی میں نے بہت کچھ حاصل کر لیا ہے۔
ٹرمپ کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب مشرق وسطیٰ میں جاری کشیدگی میں کمی دیکھنے میں آ رہی ہے اور بین الاقوامی مبصرین اس معاہدے کو ایک اہم سفارتی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔
تاہم، ٹرمپ کے دعوے نے سیاسی حلقوں میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ آیا یہ کامیابی واقعی ان کے انتخابی نتائج کا نتیجہ ہے یا دیگر عوامل بھی اس میں شامل ہیں۔