عمران خان کا 14 سال قید بامشقت سزا کے بعد کارکنوں کیلئے سوشل میڈیا پر اہم بیان
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
راولپنڈی:
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد کی احتساب عدالت سے کرپشن کیس میں 14 سال قید بامشقت اور جرمانے کی سزا کے بعد ایکس پر ردعمل دے دیا۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر جاری بیان میں عمران خان نے اپنے کارکنوں سے کہا کہ سب سے پہلے تو آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔
انہوں نے لکھا کہ میں اس آمریت کو کبھی تسلیم نہیں کروں گا اور اس آمریت کے خلاف جدوجہد میں مجھے جتنی دیر بھی جیل کی کال کوٹھری میں رہنا پڑا رہوں گا۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان کو 14، بشریٰ بی بی کو 7 سال قیدِ بامشقت کی سزا؛ 190 ملین پاؤنڈز کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا
عمران خان نے کہا کہ اپنے اصولوں اور قوم کی حقیقی آزادی کی جدوجہد پر سمجھوتہ نہیں کروں گا، ہمارا عزم حقیقی آزادی اور جمہوریت ہے، جس کے حصول تک اور آخری گیند تک لڑتے رہیں گے، کوئی ڈیل نہیں کروں گا اور تمام جھوٹے کیسز کا سامنا کروں گا۔
قبل ازیں اسلام آباد کی احتساب عدالت نے 190 ملین پاؤنڈ کیس میں سابق وزیراعظم عمران خان کو 14 سال قید بامشقت اور 10 لاکھ جرمانہ کی سزا سنائی ہے اور ساتھ ہی القادر ٹرسٹ اور یونیورسٹی کو سرکاری تحویل میں دینے کا فیصلہ سنایا ہے۔
احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا نے عمران خان کی اہلیہ کو کرپشن میں معاونت پر 7 سال قید اور 5 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے اور فیصلے کے بعد انہیں جیل میں حراست میں لے لیا گیا۔
'ملک میں 1971 کی تاریخ دہرائی جا رہی ہے'
بانی پی ٹی آئی نے احتساب عدالت سے سزا کے بعد سوشل میڈیا پر جاری اپنے بیان میں کہا کہ میں ایک بار پھر قوم کو کہتا ہوں کہ حمود الرحمان کمیشن رپورٹ پڑھیں، پاکستان میں 1971 کی تاریخ دہرائی جا رہی ہے، یحییٰ خان نے بھی ملک کو تباہ کیا اور آج بھی ڈکٹیٹر اپنی آمریت بچانے کے لیے اور اپنی ذات کے فائدے کے لیے یہ سب کر رہا ہے اور ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کر کھڑا کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج القادر ٹرسٹ کے کالے فیصلے کے بعد عدلیہ نے اپنی ساکھ مزید تباہ کر دی ہے، جو جج آمریت کو سپورٹ کرتا ہے اور اشاروں پر چلتا ہے اسے نوازا جاتا ہے اور جن ججوں کے نام اسلام آباد ہائی کورٹ کے لیے بھیجے گئے ان کا واحد میرٹ میرے خلاف فیصلے دینا ہے۔
بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ یہ کیس تو دراصل نواز شریف اور اس کے بیٹے کے خلاف ہونا چاہییے تھا جنہوں نے برطانیہ میں اپنی 9 ارب کی پراپرٹی 18 ارب میں بیچی، سوال تو یہ ہونا چاہیے کہ ان کے پاس 9 ارب کہاں سے آئے۔
'القادر یونیورسٹی سے مجھے ایک ٹکے کا فائدہ یا حکومت کو نقصان نہیں ہوا'
ان کا کہنا تھا کہ پانامہ میں ان سے جو رسیدیں مانگی گئیں وہ آج تک نہیں دی گئیں، حدیبیہ پیپر ملز میں اربوں روپے کی منی لانڈرنگ معاف کروائی گئی جبکہ القادر یونیورسٹی شوکت خانم اور نمل یونیورسٹی کی طرح ہی عوام کے لیے ایک مفت فلاحی ادارہ ہے جہاں طلبہ سیرت النبی ﷺ کے بارے میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔
عمران خان نے کہا کہ القادر یونیورسٹی سے مجھے یا بشرٰی بی بی کو ایک ٹکے کا بھی فائدہ نہیں ہوا اور حکومت کو ایک ٹکے کا بھی نقصان نہیں ہوا، القادر ٹرسٹ کی زمین بھی واپس لے لی گئی جس سے صرف غریب طلبہ کا نقصان ہو گا جو سیرت النبی ﷺ کے بارے میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہالقادر ٹرسٹ کا ایسا فیصلہ ہے جس کا پہلے ہی سب کو پتا تھا، چاہے فیصلے میں تاخیر ہو یا سزا کی بات سب پہلے ہی میڈیا پر آ جاتا ہے، عدالتی تاریخ میں ایسا مذاق کبھی نہیں دیکھا گیا، جس نے فیصلہ جج کو لکھ کر بھیجا ہے اسی نے میڈیا کو بھی لیک کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ میری اہلیہ ایک گھریلو خاتون ہیں جن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے، بشرٰی بی بی کو صرف اس لیے سزا دی گئی تاکہ مجھے تکلیف پہنچا کر مجھ پر دباؤ ڈالا جائے۔
بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ ان پر پہلے بھی گھٹیا کیسز بنائے گئے لیکن بشرٰی بی بی نے ہمیشہ اسے اللہ کا امتحان سمجھ کر مقابلہ کیا ہے اور وہ میرے کاز کے ساتھ کھڑی رہی ہیں۔
سابق وزیراعظم نے بیان میں مزید کہا کہ مذاکرات میں اگر 9 مئی اور 26 نومبر پر جوڈیشل کمیشن بنانے پر کوئی پیش رفت نہیں ہوتی تو وقت ضائع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بددیانت لوگ کبھی نیوٹرل امپائرز کو نہیں آنے دیتے، حکومت جوڈیشل کمیشن کے مطالبے سے اسی لیے راہ فرار اختیار کر رہی ہے کیونکہ وہ بد دیانت ہے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: احتساب عدالت القادر ٹرسٹ پی ٹی آئی نے کہا کہ کروں گا سال قید کے لیے کے بعد کی سزا ہے اور
پڑھیں:
عسکری قیادت اور سیاسی مخالفین سے ملاقاتوں کے باعث علی امین گنڈاپور اور کارکنوں میں دوریاں
سابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک کی پی ٹی آئی سے علیحدگی کے بعد سخت وقت میں سیاسی مخالفین کو ٹف ٹائم دے کر کارکنوں کو ایک ہی صف میں لانے والے علی امین گنڈاپور اور کارکنوں میں دوریاں پیدا ہورہی ہیں، جس کی وجہ وزیراعلیٰ کی سیاسی مخالفین اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ملاقاتیں ہیں۔
پارٹی کے نظریاتی و اسٹیبلشمنٹ مخالف رہنماؤں اور علی امین گنڈاپور میں شدید اختلافات اور گروپ بندی کی خبریں بھی آرہی ہیں۔ مخالف گروپ کا خیال ہے کہ ملاکنڈ سے تعلق رکھنے والے وفادار رہنما شکیل خان کو کابینہ سے علی امین گنڈاپور کی پالیسیوں کے خلاف بولنے اور کابینہ کے ساتھ کور ہیڈکوارٹر جانے کی مخالفت پر نکالا گیا۔ تاہم حکومت کا مؤقف ہے کہ انہیں کرپشن کے الزامات پر فارغ کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں آرمی چیف سے ہونے والی ملاقات کا انکار کیوں کیا؟بیرسٹر گوہر نے بتادیا
’علی امین ڈبل کردار ادا کررہے ہیں‘وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے خلاف رہنماؤں کی نجی محفلوں میں باتیں اور تنقید عام بات ہے۔ اور کچھ رہنماؤں نے عمران خان سے جیل میں ملاقات کی کوششیں بھی کی تھیں تاکہ صورت حال سے انہیں آگاہ کیا جا سکے۔
پاکستان تحریک انصاف یوتھ ونگ رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’وی نیوز‘ سے بات کی اور بتایا کہ وزیراعلیٰ کی پالیسیوں پر پارٹی میں شدید تحفظات ہیں۔ ’جب ہماری حکومت بنی تھی تو علی امین نے وعدہ کیا تھا کہ احتساب ہوگا۔ ظلم کرنے والوں سے حساب لیا جائے گا لیکن اب وہ ان کا استقبال کررہے ہیں۔‘
یوتھ رہنما نے بتایا کہ پارٹی میں سب کی رائے ہے کہ مقتدر حلقوں کی ایما پر عمران خان کو جیل میں ڈالا گیا ہے اس کے باوجود علی امین ان کا استقبال کررہے ہیں اور ملاقاتیں بھی کی جارہی ہیں۔ ’پارٹی کارکنان چاہتے ہیں کہ علی امین وفاقی حکومت سمیت مخالفین کو سخت وقت دیں، ان کے ساتھ رابطہ نہ رکھیں۔ ان کے کہنے پر سب نکلنے کو تیار ہیں لیکن اس کے باوجود وہ ڈبل رول ادا کررہے ہیں۔‘
ایک اور سینیئر رہنما اور رکن اسمبلی کے مطابق صوبائی حکومت کی پالیسیوں سے کارکنان خوش نہیں ہیں۔ ان کے کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ مخالفین کے ساتھ بیٹھ کر گپ مارتے ہیں لیکن فنڈز کی بات آتی ہے تو وفاق پر الزام لگاتے ہیں۔ ’ہم سادہ سوال کرتے ہیں جب وہ آپ کو فنڈز نہیں دیتے اور عمران خان کو رہا بھی نہیں کرتے تو پھر آپ ان سے ملاقات ہی کیوں کرتے ہیں، یہ ہمارے زخمیوں پر نمک پاشی ہے۔‘
پی ٹی آئی کے ایک رہنما نے بتایا کہ حکومت سے پہلے انہیں جیل جانا پڑا، روپوش رہے، قربانی دی لیکن حکومت بننے کے بعد جو آزادی کی امید پیدا ہوئی تھی اب ختم ہوگئی ہے۔
’محسن نقوی، شہباز شریف اور مقتدر حلقے 26 نومبر کے ذمہ دار ہیں‘پارٹی رہنما نے بتایا کہ 26 نومبر کو اسلام آباد میں جو کچھ ہوا اس کے ذمہ دار محسن نقوی ہیں جنہوں نے شہباز حکومت اور مقتدر حلقوں کی ایما پر کارکنوں پر گولیاں چلوائیں، لیکن وہ جب بھی پشاور آتے ہیں شاہی مہمان بن جاتے ہیں، علی امین ان کا استقبال کرتے ہیں۔ ان کے مطابق عمران خان کا اقتدار گرانے والے علی امین کے ہمدرد بنے ہوئے ہیں۔ ’ہمیں عمران خان کی رہائی کا انتظار ہے، جب وہ باہر آئیں گے ہمیں امید ہے احتساب ہوگا۔‘
انہوں نے کہاکہ 9 مئی 2023 سے لے کر 26 نومبر 2024 تک پارٹی کارکنان نے ظلم برداشت کیا، اور عمران خان کے لیے باہر نکلے، جیل گئے، لیکن انہیں سمجوتے کی امید نہیں تھی۔
انہوں نے بتایا کہ وزیراعلیٰ بنتے ہی علی امین گنڈاپور نے آلہ کار سرکاری افسران کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا تھا۔ لیکن بات اعلان سے آگے نہیں بڑھی۔ ’افسوس کی بات ہے کہ علی امین، آئی جی پولیس اور چیف سیکریٹری تک کو تبدیل نہیں کرا سکے، یہ طاقت ور لوگوں کا کیا بگاڑ سکیں گے۔‘
کیا عمران خان صوبائی حکومت کی کارکردگی سے مطمئن ہیں؟حکومتی ترجمان صوبائی حکومت اور علی امین کی کارکردگی اور پالیسیوں کو عمران خان کا نظریہ قرار دے رہے ہیں۔ بیرسٹر سیف کے مطابق علی امین عمران خان کی ہدایت پر عمل پیرا ہیں اور صوبائی اور پارٹی امور کے حوالے سے ہدایات لیتے رہتے ہیں، انہیں بانی پی ٹی آئی کی مکمل حمایت حاصل ہے۔
پشاور میں ایک پریس کانفرنس کے دوران جب مرکزی ترجمان شیخ وقاص اکرم اور مزمل اسلم سے پوچھا گیا کہ کیا بانی چئیرمین عمران خان صوبائی حکومت کی کارکردگی سے مطمئن ہیں تو شیخ وقاص اکرم کا کہنا تھا کہ علی امین عمران خان کی ہدایت پر عمل پیرا ہیں۔ جبکہ مزمل اسلم کا کہنا تھا کہ عمران خان کپتان ہیں، کس کھلاڑی کو کس وقت موقع دینا چاہیے وہ خوب جانتے ہیں اور باہر آتے ہی وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔
سیاسی مخالفین سمیت اہم ملاقاتوں پر علی امین خود کیا کہتے ہیں؟وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی اعلیٰ ملاقاتوں پر اکثر سوشل میڈیا پر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، تاہم رہنما کھل کر بات نہیں کرتے، جبکہ صوبائی وزرا ان ملاقاتوں کو ورکنگ ریلیشن کا حصہ قرار دیتے ہیں۔
علی امین گنڈاپور نے گزشتہ دنوں نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے ملاقاتوں پر بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ جب بھی محسن مقوی سے ملاقات ہوئی تو ان سے 26 نومبر کے حوالے پوچھا۔ ’محسن نقوی سے کئی بار پوچھا کہ آخر گولی کیوں چلائی۔‘
یہ بھی پڑھیں آرمی چیف سے علی امین اور بیرسٹر گوہر کی ملاقات میں سیاسی گفتگو نہیں ہوئی، سیکیورٹی ذرائع
انہوں نے اعلیٰ سطح اجلاس میں شہباز شریف سے تلخی کا بھی ذکر کیا۔ تاہم وزیراعلیٰ نے مقتدر حلقوں سے قربت پر کوئی بات نہیں کی جس پر کارکنان شدید تحفظات کا اظہار کررہے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی پی ٹی آئی تحفظات پی ٹی آئی کارکنان عسکری قیادت علی امین گنڈاپور عمران خان کارکنان ناراض وی نیوز