روم:جزیرے پر 30 سال سے زیادہ عرصے تک اکیلا رہنے والا اطالوی شخص آبادی میں آنے کے چند سال بعد ہی زندہ نہیں رہ سکا۔

بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق  اطالوی شخص مورانڈو جو رابنسن کروسو کے عرفیت سے مشہور تھا ،نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ بڈیلی جزیرے پر اکیلے رہ کر گزارا۔ یہ جزیرہ دوسری جنگ عظیم کے زمانے کی ایک پرانی پناہ گاہ تھا۔ 1989 میں ایک حادثے کے نتیجے میں مورانڈو کی کشتی یہاں پھنس گئی، جس کے بعد اس نے اسے اسی مقام کو اپنا مسکن بنا لیا۔

جزیرے پر اپنے قیام کے دوران مورانڈو نے اس عزم کے ساتھ 32 سال گزر دیے کہ زندگی میں اپنے لیے جو کرنا ہے خود ہی کرنا ہے اور اپنی پسند کے مطابق خود کو ماحول دینے کی کوشش کرنی ہے۔ اسی عزم کے تحت مورانڈو نے ساحلوں کو صاف رکھا، آنے والے سیاحوں کو جزیرے کے ماحولیاتی نظام سے متعلق آگاہی دی اور شمسی توانائی کا نظام ترتیب دے کر اپنی ضروریات پوری کرتا رہا۔مورانڈو کو جزیرے پر وقتاً فوقتاً ضروری سامان بھی موصول ہو جاتا تھا۔

بعد ازاں لا میڈالینا نیشنل پارک کے حکام نے اس جزیرے کو ماحولیاتی تعلیم کے مرکز میں تبدیل کرنے کا منصوبہ بنایا، جس کے باعث مورانڈو کو 2018 میں ایک مقامی اپارٹمنٹ میں منتقل ہونا پڑا، جس کے بعد صحت کی خرابی کے باعث وہ کیئر ہوم میں چلے گئے اور آخر کار اپنے آبائی شہر موڈینا میں دم تو ڑ گئے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

یمن کے دور افتادہ جزیرے پر امارات کے تعمیر کردہ ہوائی اڈے کا انکشاف

یمن کے ایک دور افتادہ جزیرے پر ایئر اسٹرپ (فضائی پٹی) کا انکشاف ہوا ہے۔ اس فضائی پٹی یا چھوٹے ایئر پورٹ کا انکشاف اُس وقت ہوا جب اِس جزیرے کو حوثی ملیشیا نے نشانہ بنایا۔

خبر رساں اداروں نے بتایا ہے کہ یہ فضائی پٹی ممکنہ طور پر متحدہ عرب امارات کی تعمیر کردہ ہے کیونکہ سعودی عرب کی معاونت سے حوثی ملیشیا اور دیگر گروپوں کے خلاف چھیڑی جانے والی جنگ کے ساتھ ساتھ متحدہ عرب امارات نے بھی خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی بھرپور کوشش کی تھی۔

حوثی ملیشیا نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس حملے میں کئی افراد ہلاک و زخمی ہوئے ہیں۔ حملے کا بنیادی مقصد یہ بتانا تھا کہ ملیشیا نے ابھی دم نہیں توڑا بلکہ اپنی سہولت کے مطابق کہیں بھی حملہ کرسکتی ہے۔ جزیرے پر حوثی ملیشیا کے حملے نے خطے میں جہاز رانی کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ اس حملے کے بعد بہت سے تجارتی جہازوں کو اپنا روٹ بدلنا پڑے گا۔

یاد رہے کہ غزہ کے بحران کے دوران حوثی ملیشیا نے بحیرہ احمر میں کئی بار تجارتی جنگوں کو نشانہ بنایا جس کے باعث سیکڑوں تجارتی جہازوں کو اپنا روٹ تبدیل کرنا پڑا۔ اس کے نتیجے میں عالمی تجارت بھی متاثر ہوئی۔ شپنگ کے شعبے سے وابستہ درجنوں کو اداروں کو روٹ کی تبدیلی کے نتیجے میں اضافی اخراجات کا سامنا کرنا پڑا۔

حوثی حملے کا نشانہ بننے والا جزیرہ عبدالکری خلیجِ عدن کے دہانے پر بحرِ ہند میں واقع ہے۔ امریکی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹیڈ پریس نے ایک رپورٹ میں بتایا کہ یمن میں سعودی عرب اور دیگر ممالک نے متعدد ہوئی اڈے بنائے ہیں تاکہ اسٹریٹجک ڈیپتھ یقینی بنائی جاسکے۔

متعلقہ مضامین

  • اروشی روتیلا نے سیف علی خان پر حملے سے متعلق اپنے بیان معافی مانگ لی
  • یمن کے دور افتادہ جزیرے پر امارات کے تعمیر کردہ ہوائی اڈے کا انکشاف
  • دوہزار چوبیس چین میں آبادی میں کمی کا مسلسل تیسرا سال
  • کئی بڑی فلمیں کر کے انڈسٹری میں ناکام ہونے والا اداکار کروڑ پتی کیسے بنا؟
  • مقبوضہ کشمیر کی زمینوں پر پہلا حق کشمیریوں کا ہے
  • اِنَّ بَطشَ رَبِّکَ لَشَدِید
  • یوکرین اور روس کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ
  • علماء نوجوان نسل کو الحادی فکر سے بچائیں، ڈاکٹر راغب نعیمی
  • 124 سالہ چینی خاتون نے طویل عمری کا راز بتا دیا