کرم میں قافلے پر حملہ: شہید اہلکاروں کی تعداد دو ہوگئی، لاپتا چار ڈرائیوز کی لاشیں برآمد
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
پشاور:
ڈی آئی خان: کرم میں گزشتہ روز قافلے پر حملے میں شہید اہلکاروں کی تعداد دو ہوگئی جب کہ فائرنگ کے وقت لاپتا چار ٹرک ڈرائیورز کی لاشیں ملی ہیں، سیکیورٹی فورسز نے کرم میں کرفیو نافذ کردیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق قبائلی ضلع کرم میں کرفیو نافذ کردیا گیا، سیکیورٹی فورسز نے پوزیشن سنبھال لیں، علاقے میں سیکیورٹی فورسز کا گشت جاری ہے۔
گزشتہ روز قافلے پر فائرنگ سے ایک سیکیورٹی اہلکار شہید اور جوابی کارروائی میں چھ دہشت گرد مارے گئے تھے تاہم اب دہشت گردوں کے حملے میں شہید اہلکاروں کی تعداد دو ہو گئی۔
دوسری جانب پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کے حملے میں 3 ڈرائیورز بھی شہید ہوئے ہیں، لوئر کرم فائرنگ کے بعد لاپتا چار ٹرک ڈرائیورز کی لاشیں ملی ہیں، ڈرائیورز کو تشدد کے بعد قتل کیا گیا ہے، ان ڈرائیورز کی لاشیں لوئر کرم کے علاقہ اڑوالی سے برآمد ہوئی ہیں۔
اسپتال انتظامیہ کے مطابق لاشیں لوئر کرم علی زئی اسپتال پہنچادی گئی ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کی لاشیں
پڑھیں:
کرم: امدادی قافلے پر حملہ، ہلاکتوں کی تعداد 10
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 جنوری 2025ء) کرم میں گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے زائد سے حالات کشیدہ ہیں اور علاقے میں کھانے پینے کی اشیاء کی شدید قلت ہے۔ وہاں کی آبادی ایک طرح سے محصور ہو کر رہ گئی۔ جمعرات کو انہی لاکھوں محصور شہریوں کے لیے خوراک، ادویات اور دیگر امدادی سامان لے جانے والے 33 گاڑیاں پر حملہ کیا گیا تھا۔
کرم: تعاون نہ کرنے کی پاداش میں اشیائے ضرورت کی سپلائی بند
ایک مقامی پولیس اہلکار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ اس واقعے میں مرنے والوں کی تعداد اب دس تک پہنچ چکی ہے اور ہلاک شدگان میں دو سکیورٹی اہلکار، چار ڈرائیور اور چار شہری شامل ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایسی اطلاعات ہیں کہ پانچ سے چھ ڈرائیورز کو ایک مقامی گروپ نے اغوا کر لیا ہے۔(جاری ہے)
ضلع کرم حالیہ برسوں سے شیعہ اور سنی قبائل کے درمیان فرقہ وارانہ جھڑپوں کی لپیٹ میں رہا ہے. لیکن پھچلے سال نومبر میں تشدد میں اضافہ تب ہوا جب حملہ آوروں نے شیعہ مسلمانوں کو لے جانے والی گاڑیوں پر فائرنگ کی، جس میں 52 افراد ہلاک ہوئے۔
تب سے لے کر اب تک اس تشدد میں کم از کم 140 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔اس فرقہ وارانہ تشدد کو روکنے کے لیے جنگ بندی کی کئی ناکام کوششیں کی گئیں۔ فریقین ایک دوسرے کے خلاف مشین گنوں اور بھاری ہتھیاروں کا استمعال کر رہے ہیں۔
قومی سطح پر سنی مسلم اکثریتی آبادی والے ملک پاکستان کے شورش زدہ شمال مغربی صوبے میں صوبے خیبر پختونخوا کا ضلع کرم افغانستان کے ساتھ سرحد کے قریب واقع ہے۔ اس علاقے میں شیعہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بھی آباد ہے۔ اسی وجہ سے کرم میں گزشتہ عشروں کے دوران بار بار فرقہ وارانہ تصادم دیکھنے میں آتا رہا ہے۔ وہاں بدامنی اور ہلاکتوں کی تازہ ترین لہر بھی اسی کشیدگی کا تسلسل ہے۔ ضلع کرم کا رابطہ فی الحال بیرونی دنیا سے منقطع ہوچکا ہے۔