چین کی آبادی میں لگاتار تیسرے سال بھی کمی
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
چین میں حکومت کی جانب سے قانون میں ترمیم اور پُرکشش مراعاتوں کے اعلان کے باوجود آبادی کی شرح میں اضافہ نہیں ہوسکا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق مسلسل تیسرے سال بھی چین میں آبادی کی شرح میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔
چین کے قومی ادارۂ شماریات کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2024 کے آخر تک چین کی آبادی ایک ارب 40 کروڑ نوٹ کی گئی جو گزشتہ برس کے مقابلے میں 13 لاکھ کم ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2024ء میں آبادی میں کمی کی رفتار 2023ء کے مقابلے میں کم رہی۔ 2022 میں بھی یہی صورت حال رہی تھی۔
چین کی آبادی 1980 سے آہستہ آہستہ کم ہو رہی ہے جب پہلی بار ون چائلڈ پالیسی نافذ کی گئی تھی۔ جسے حال ہی میں ختم کردیا گیا ہے۔
اس کے باوجود آبادی میں اضافہ نہیں ہوسکا بلکہ 1961 کے بعد پہلی بار 2022 میں جتنے لوگ پیدا ہورہے ہیں اس سے زیادہ کی موت ہو رہی ہے۔
جس پر حکومت نے ایک سے زیادہ بچے پیدا کرنے والے جوڑے کے لیے مراعات کا بھی اعلان کیا تھا تاہم اس کا بھی کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوسکا۔
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
امریکا کی ٹریڈ وار نے برطانیہ اور چین کو قریب کردیا؟
چین کے ساتھ ایک اہم تجارتی بات چیت کو بحال کرنے کی غرض سے برطانوی سیکریٹری تجارت جوناتھن رینالڈز جلد ہی بیجنگ کا دورہ کریں گے، حالانکہ اس پیش رفت سے قبل کنزرویٹو حکومت نے حساس شعبوں میں چینی سرمایہ کاری کی اجازت دینے کے فیصلے کو سادہ لوحی پر محمول کیا تھا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق جوناتھن رینالڈز دو طرفہ تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کی کوشش میں اعلیٰ سطحی بات چیت کے لیے رواں برس میں ہی چین کا دورہ کریں گے۔
برطانوی سیکریٹری تجارت کے دورے کا مقصد برطانیہ اور چین مشترکہ اقتصادی اور تجارتی کمیشن (جیٹکو) کی بحالی ہے، جس کا 2018 سے کوئی اجلاس منعقد نہیں ہوا، جب ہانگ کانگ میں شہری آزادیوں پر بیجنگ کے کریک ڈاؤن کے بعد دونوں ممالک کے مابین تعلقات بگڑنا شروع ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں: چینی کمپنی پر برطانوی قبضہ، وجہ کیا بنی؟
رواں برس جنوری میں ریچل ریوز کے چین کے دورے کے بعد شائع ہونے والی دستاویزات میں، محکمہ خزانہ نے بات چیت کو بحال کرنے کا اپنا ارادہ ظاہر کیا تھا، حکومت برطانیہ اور چین تعلقات کا اپنا آڈٹ جون تک مکمل کرنے کا بھی منصوبہ بنا رہی ہے، حالانکہ اس کے نتائج مکمل طور پر شائع نہیں کیے جائیں گے۔
یہ آڈٹ لیبر کے منشور کے وعدے کی تکمیل کرتا ہے اور اس سے حکومت کے اندر چین کے حوالے سے مہارت کو بہتر بنانے کا مطالبے سمیت متعدد پالیسی سفارشات کی توقع کی جاتی ہے، اس میں مینڈارن زبان کے پروگرام اور سرکاری ملازمین اور ارکان پارلیمنٹ کے لیے چینی نظام کے بارے میں تربیت شامل ہو سکتی ہے، تاہم برطانوی دفتر خارجہ نے تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔
مزید پڑھیں:
جوناتھن رینالڈز کا کہنا تھا کہ برطانیہ نے ماضی میں غلط کیا اور کنزرویٹو حکومتیں اسٹیل جیسی حساس صنعتوں میں چینی سرمایہ کاری کی اجازت دینے کے بارے میں ’بہت زیادہ بھولی‘ تھیں۔
حکومت پر انسانی حقوق اور سلامتی کے خدشات پر بیجنگ کے خلاف سخت رویہ اپنانے کے لیے دباؤ بھی سامنے آ گیا ہے، منگل کے روز گارڈین کے ایک مضمون میں لبرل ڈیموکریٹ ایم پی ویرا ہوب ہاؤس نے لکھا ہے کہ جب تک اس بات کا واضح جواب نہیں ملتا کہ انہیں ہانگ کانگ سے داخل ہونے سے کیوں روکا گیا، کسی بھی وزیر کو چین کا سرکاری دورہ نہیں کرنا چاہیے۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
برطانیہ ٹریڈ وار چین