فیصلے میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار نہیں تو کون ہے ہم تو آگے بڑھ رہے تھے، احمد خان بھچر
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
پنجاب میں اپوزیشن لیڈر احمد خان بھچر نے کہا ہے کہ فیصلے سے مذاکرات کو نقصان پہنچے گا۔
قائد حزب اختلاف پنجاب اسمبلی احمد خان بھچر نے لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فیصلے میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار نہیں تو کون ہے۔ بانی پی ٹی آئی سے متعلق فیصلے سے مذاکرات کو نقصان ہوگا۔ یہ زندہ لاشیں ہیں ان کا بوجھ نہ اٹھائیں اور انہی کو ذمہ دار قرار دیں۔
احمد خان بھچر نے کہا کہ عمران خان کے خلاف فیصلے کی ذمہ دار چچا بھتیجی حکومت ہے۔ یہ ٹک ٹاکر حکومت کیسے بھاگے گی۔ محترمہ اس طرح کے ہتھکنڈوں سے نہیں بچ سکتیں۔ کورم کی نشاندہی کرکے اجلاس ختم کردیا القادر ٹرسٹ کا فیصلہ آیا تو بھاگ گئے۔ یہ لوگوں کا سامنا نہیں کرسکتے۔ بانی پی ٹی آئی اور اہلیہ کا کیس حق ملکیت نہیں ہے۔ جتنے کیسز ہیں ہیں ان کی سیاسی اور تکنیکی بنیاد پر کوئی حقیقت نہیں ہے۔ پیر کو بھی اسمبلی میں احتجاج کریں گے۔
اپوزیشن لیڈر کا مزید کہنا تھا کہ ایک روپے کا مائنس پلس خان اور بشریٰ بی بی کے اکاؤنٹ میں بتا دیں۔ یہ کیس تو گرائونڈ پر ہی ہے نہیں۔ ہم کیس کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں جائیں گے۔ دھی رانی والے جعلی پروگرام ہوں یا گھروں کی چابیاں تقسیم کےلیے دو اضلاع کی پولیس کو اکٹھا کرلیں۔ آپ خواہ پولیس کی وردی پہن لیں آئین کے مطابق وی سی کا انٹرویو نہیں لے سکتیں۔ گورنر اور وزیر اعلی جھگڑے پر وی سی انٹرویو پر غیر آئینی ہے۔
انہوں نے کہا کہ نیب گواہان نے تسلیم کیا کوئی اثاثہ بانی یا اہلیہ کی ملکیت نہیں ہے یہ کیس سیاسی طورپر بنایا گیا ہے۔ نہ کوئی جرم ہوا نہ قومی خزانے کو نقصان پہنچا بلکہ زرمبادلہ پاکستان آیا جسے نظر انداز کیاگیا۔ پوری دنیا بانی سزا کی مذمت کرے گی پاکستان کا چہرہ ذاتی مفاد کےلیے داغدار کیا۔ سیاسی پہلو یہ ہے بانی کو سزا ہوئی 200سے زائد مقدمہ ہوئے۔ وہ تو جیل میں ہے کون سی راکٹ سائنس 14 سال سزا دینی تھی۔ ان سے سزا نہیں بن رہے تھی۔ ملک دوبارہ انارکی کی جانب جا رہا ہے۔
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
پاکستانی سیاست دان اسٹیبلشمنٹ کی مزاحمت کیوں نہیں کرپاتے؟
پاکستانی جرنیلوں نے پاکستان کی سیاست کو کولہو کا بیل بنا کر رکھ دیا ہے۔ کولہو کا بیل برسوں ایک دائرے میں گردش کرتا رہتا ہے اور کہیں نہیں پہنچ پاتا۔ پاکستانی سیاست بھی 1958ء سے ایک دائرے میں گردش کررہی ہے اور کہیں نہیں پہنچ پائی۔ اس سیاست نے ملک کو سیاسی استحکام عطا کیا ہے نہ معیشت کو مضبوط بنایا ہے۔ نہ ملک کے نظریاتی تشخص کا دفاع کیا ہے اور نہ ہی انتخابات کو ساکھ عطا کی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 1958ء سے آج تک پاکستانی سیاست پر جرنیلوں کا قبضہ ہے اور پاکستانی سیاست ’’مقبوضہ سیاست‘‘ کا منظر پیش کررہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر پاکستانی سیاست دان جرنیلوں یا فوجی اسٹیبلشمنٹ کی مزاحمت کیوں نہیں کرپاتے؟
اس سوال کا کوئی ایک جواب نہیں ہے۔ البتہ اس سوال کا جواب پاکستانی سیاست دانوں کی ’’اخلاقی ساکھ‘‘ کا نہ ہونا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خالق تھے۔ انہوں نے ملک کو 1973ء کا اسلامی اور متفقہ آئین دیا تھا۔ انہوں نے لاہور میں اسلامی ممالک کا سربراہ اجلاس بلا کر عالم اسلام میں پاکستان کا سر فخر سے بلند کیا تھا۔ وہ عوام میں ’’مشہور‘‘ ہی نہیں ’’مقبول‘‘ بھی تھے مگر وہ عوام کے ’’محبوب‘‘ نہیں تھے۔ لوگ انہیں ’’ووٹ‘‘ دے سکتے تھے۔ ’’نوٹ‘‘ دے سکتے تھے مگر لوگ ان کے لیے جان نہیں دے سکتے تھے۔ چنانچہ جنرل ضیا الحق نے کامیابی کے ساتھ ان کے خلاف بغاوت کی اور اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ مگر پاکستان میں کہیں بھی بڑا عوامی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ سندھ تک میں راوی چین لکھتا رہا۔ بھٹو کا خیال تھا کہ اگر انہیں پھانسی دی گئی تو سندھ میں خون کی ندیاں بہہ جائیں گی مگر ان کی پھانسی پر بھی سندھ میں دوچار لوگوں نے خود سوزیاں ضرور کیں لیکن خون کی کوئی ندی نہ بہی۔ بھٹو کے بیٹے مرتضیٰ نے مسلح تنظیم بنائی مگر یہ تنظیم بھی ایک طیارہ اغوا کرنے کے سوا کچھ نہ کرسکی۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے برسوں بعد مرتضیٰ کو پاکستان واپس بلایا اور کچھ عرصے بعد اسے کراچی میں بے دردی سے قتل کرادیا۔ بھٹو کی بیٹی بے نظیر بھٹو ’’خاموش مزاحمت‘‘ کرتی رہیں اور بالآخر ملک چھوڑ کر چلی گئیں۔
الطاف حسین سیاسی رہنما سے آگے بڑھ کر ’’پیر‘‘ بن گئے تھے۔ ان کی تصاویر کروٹن کے پتوں پر آیا کرتی تھیں اور وہ ’’پیغمبری‘‘ کا اعلان کرنے ہی والے تھے کہ ان کے خلاف فوجی آپریشن شروع ہوگیا۔ الطاف حسین کو اس کی اطلاع پہلے ہی ’’دے دی گئی‘‘ تھی۔ چنانچہ وہ ملک سے فرار ہوگئے۔ تکبیر کے بانی محمد صلاح الدین کے مطابق جو اسٹیبلشمنٹ کے بے حد قریب تھے ملک کی ایک بڑی ایجنسی الطاف حسین کے تعاقب میں تھی اور دوسری بڑی ایجنسی کی گاڑی میں الطاف حسین کو ہوائی اڈے پہنچایا گیا۔ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن شروع ہوا تو الطاف حسین ہر پانچ منٹ کے بعد فون کرکے پوچھ رہے تھے کہ کراچی میں کیا ہورہا ہے؟ انہیں ہر بار ایک ہی جواب دیا گیا کہ کراچی میں کہیں بھی لوگ فوج کی مزاحمت نہیں کررہے ہیں۔ ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر چار پانچ ہزار لوگ موجود تھے فوج وہاں پہنچی تو وہاں موجود لوگ بھی خاموشی سے اپنے گھر چلے گئے۔ اس صورتِ حال کی وجہ بھی الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی اخلاقی ساکھ تھی۔ لوگ الطاف حسین کو ’’ووٹ اور نوٹ‘‘ دے سکتے تھے مگر کوئی ان کے لیے ’’جان‘‘ نہیں دے سکتا تھا۔
میاں نواز شریف کے خلاف جنرل پرویز مشرف نے بغاوت کی تو میاں نواز شریف کے پاس قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت تھی۔ میاں صاحب کے جلسوں میں لوگ ’’قدم بڑھائو نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ کے نعرے لگایا کرتے تھے مگر جب جنرل پرویز مشرف نے میاں صاحب کو اقتدار سے نکالا تو کہیں اور کیا میاں صاحب کے سیاسی مرکز لاہور تک میں دس لوگوں نے مظاہرہ نہیں کیا۔ میاں نواز شریف کی رخصتی کے پندرہ دن بعد کراچی میں مشاہد اللہ نے ریگل چوک پر پندرہ بیس لوگوں کا ایک مظاہرہ کیا۔ وہاں موجود پولیس دو منٹ یہ مظاہرین کو گاڑیوں میں بھر کر چلی گئی۔ مظاہرہ شروع ہی ہوا تھا کہ ختم ہوگیا۔ میاں نواز شریف کا مسئلہ بھی یہی تھا کہ وہ ’’مشہور‘‘ اور ’’مقبول‘‘ تو تھے مگر ’’محبوب‘‘ نہیں تھے۔ لوگ انہیں ’’ووٹ‘‘ اور ’’نوٹ‘‘ دے سکتے تھے مگر ان کے لیے ’’جان‘‘ نہیں دے سکتے تھے۔
عمران خان مقبولیت میں میاں نواز شریف سے بھی آگے ہیں۔ اگر کل انتخابات ہوجائیں تو وہ دو تہائی اکثریت حاصل کرلیں گے۔ اسٹیبلشمنٹ ان کی عوامی مقبولیت کو زک پہنچانے میں اب تک کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ مگر عمران خان کا مسئلہ بھی یہی ہے کہ وہ مشہور اور مقبول تو بہت ہیں مگر ’’محبوب‘‘ نہیں ہیں۔ لوگ انہیں ووٹ اور نوٹ دے سکتے ہیں ان کے لیے جان نہیں دے سکتے۔ چنانچہ عمران خان اب تک اسٹیبلشمنٹ کا کچھ نہیں بگاڑ سکے۔ انہوں نے اسلام آباد پر جو یلغار کی اس میں آٹھ دس ہزار لوگ شریک تھے اگر یہ لشکر ایک لاکھ کا ہوتا تو آج صورت حال مختلف ہوتی۔
ان مثالوں کے برعکس مثال ترکی کے صدر طیب اردوان کی ہے۔ وہ ملک سے باہر تھے کہ ترکی کی فوج نے ان کے خلاف بغاوت کردی۔ طیب اردوان نے موبائل فون پر قوم کے نام پیغام میں قوم سے فوج کی مزاحمت کے لیے کہا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ وہ بکتر بند گاڑیوں اور ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے۔ انہوں نے فوجیوں کو ٹینکوں سے نکالا اور ان کی خوب دھنائی کی۔ لوگوں نے سروں پر منڈلانے اور فائرنگ کرتے ہیلی کاپٹروں تک کی پروا نہیں کی۔ چنانچہ فوجی بغاوت چند گھنٹوں میں ناکام ہوگئی۔ اس سے ثابت ہوا کہ طیب اردوان صرف ’’مشہور‘‘ اور ’’مقبول‘‘ نہیں ہیں وہ عوام کے ’’محبوب‘‘ بھی ہیں، لوگ انہیں ’’ووٹ‘‘ اور ’’نوٹ‘‘ بھی دیتے ہیں اور لوگ ان کے لیے جان بھی دینے پر آمادہ ہیں۔
پاکستان میں سیاسی رہنمائوں کا ایک المیہ یہ ہے کہ ان کی سیاسی جماعتیں حقیقی معنوں میں ’’جمہوری‘‘ نہیں ہیں۔ چنانچہ یہ جماعتیں جماعت سے زیادہ ایک ’’ہجوم‘‘ ہیں۔ اور ہجوم جلسے جلوس کے لیے تو کفایت کرتا ہے مگر اسٹیبلشمنٹ کی ’’مزاحمت‘‘ کے لیے کفایت نہیں کرتا۔ بھٹو صاحب کے زمانے میں ہی نہیں بعد میں بھی پیپلز پارٹی سیاسی جماعت سے زیادہ بھٹو خاندان کی ’’میراث‘‘ تھی اور ہے۔ ایم کیو ایم بھی صرف الطاف حسین کے ہاتھ کی گھڑی تھی۔ نواز لیگ کل بھی شریف خاندان کی رکھیل تھی اور آج بھی شریف خاندان کی رکھیل ہے۔ اسے شریف خاندان نے کبھی سیاسی جماعت بنانے کی کوشش نہیں کی۔ عمران خان بڑے انقلابی بنتے ہیں مگر انہوں نے آج تک پی ٹی آئی کو جمہوری بنانے کی کوشش نہیں کی۔ انہوں نے ایک بار پی ٹی آئی میں انتخابات کرائے تھے مگر یہ انتخابات فراڈ تھے۔
مزاحمت کے حوالے سے خطوں کی تاریخ اور نفسیات بھی اہم ہوتی ہے۔ دلی، یوپی، حیدر آباد و دکن اور بنگال نے ہمیشہ انگریزوں کی مزاحمت کی، دلی اور یوپی میں اس مزاحمت کی علامت جنرل بخت خان تھا۔ بنگال میں سراج الدولہ اور دکن میں ٹیپو سلطان۔ لیکن پنجاب طاقت کے خلاف مزاحمت کی تاریخ نہیں رکھتا۔ سکھوں نے چالیس سال تک لاہور کی بادشاہی مسجد کو گھوڑوں کا اصطبل بنائے رکھا مگر اس کے باوجود مسلم پنجاب نے سکھوں کے خلاف بغاوت نہیں کی۔ تحریک پاکستان چلی تو پنجاب انگریزوں کی پٹھو یونیسیٹ پارٹی کے ساتھ تھا۔ تحریک پاکستان کے دوران کے پی کے سرحدی گاندھی غفار خان کے ساتھ کھڑا تھا۔ بلوچستان پر سرداروں کا غلبہ تھا۔ سندھ نے کبھی انگریزوں کی مزاحمت نہیں کی۔ تحریک پاکستان میں سندھ کا حصہ صرف اتنا تھا کہ سندھ اسمبلی نے 1943ء میں پاکستان کے حق میں ایک قرار داد منظور کی تھی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو موجودہ پاکستان میں شامل علاقے طاقت وروں کی مزاحمت کی تاریخ ہی نہیں رکھتے۔ تاریخ کی اہمیت یہ ہے کہ بنگال نے انگریزوں کی مزاحمت کی۔ مشرقی پاکستان بنگلا دیش بنا تو جنرل ضیا الرحمن نے بابائے قوم شیخ مجیب کا تختہ الٹ دیا اور حالیہ دنوں میں بنگلا دیش کے طلبہ نے شیخ حسینہ واجد کو ایک طویل جدوجہد کے بعد ملک سے بھاگنے پر مجبور کردیا۔