UrduPoint:
2025-04-15@09:58:40 GMT

موہن سنگھ سکھوں کی جدوجہد اور خوشحالی کا استعارہ ہیں

اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT

موہن سنگھ سکھوں کی جدوجہد اور خوشحالی کا استعارہ ہیں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 جنوری 2025ء) بھارت کی دو فیصد سے بھی کم آبادی ہونے کے باوجود سکھوں کا ملک کو فوڈ سکیورٹی فراہم کرنے کے علاوہ مینوفیکچرنگ شعبے میں بھی نمایاں کردار ہے۔ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے مطابق مذہبی گروہوں میں سکھ سب سے زیادہ امیر ہیں۔ تقریباً 60 فیصد سکھ گھرانے خوشحال اور زندگی گزارنے کے جدید وسائل رکھتے ہیں۔

منموہن سنگھ کی طرح ان کے برادری کی ایک بڑی آبادی تقسیم ہند کے بعد انتہائی کسمپرسی کا شکار ہوئی، مگر دو دہائیوں کے اندر ہی پھر سے اپنے پیروں پر کھڑی ہو گئی۔ یہ شاید اسی برادری کا طرہ امتیاز ہے، ورنہ اتنے مصائب جھیلنے اور بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے بعد شاید ہی کوئی اور کمیونٹی اتنی کم مدت میں اپنے پیروں پر کھڑا ہو پائی ہو۔

(جاری ہے)

تقسیم ہند اور پھر فرقہ وارانہ فسادات میں سب سے زیادہ سکھ اور مسلمان متاثر ہوئے۔

ان کو اپنی پشتینی جائیدادیں اور گھروں کو چھوڑ کر نئے آشیانے بسانے پڑے۔

سکھوں کو، پنجاب میں زرخیز زمینوں کو چھوڑ کر بھارت میں انجان شہروں میں مستقبل تلاش کرنا پڑا۔ حال ہی میں انتقال کر جانے والے بھارت کے پہلے سکھ وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ، اسی جدوجہد یعنی نئے آشیانے کی تلاش اور پھر کامیابی کی انتہا تک پہنچنے اور سکھوں کی روایتی سخت جانی اور برداشت کا استعارہ ہیں۔

سکھ بھارت کی واحد اقلیت ہے، جو سب سے زیادہ باوقار عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ منموہن سنگھ، جو 2004 میں وزیر اعظم بنے، کے علاوہ، گیانی ذیل سنگھ بھارت کے صدر، جنرل جوگندر جسونت سنگھ آرمی چیف، فضائیہ کے موجودہ سربراہ ایئر چیف مارشل اے پی سنگھ نیز بھارتی فضائیہ کے واحد مارشل آف ایئر ارجن سنگھ بھی سکھ ہی تھے۔

انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے سابق ڈائریکٹر نہچل سندھو اور ریسرچ اینڈ اینالیسس ونگ (را) کے سربراہ امرجیت سنگھ دولت جیسے سکھوں نے قومی سلامتی کے عہدوں پر فائز ہو کر اپنا لوہا منوایا ہے۔

چوتھی صدی قبل مسیح میں جب سے یونانی بادشاہ سکندر نے بھارت پر حملہ کیا، تب سے پنجاب مسلسل حملہ آور فوجوں کے نشانے پر رہا ہے۔ ان حملوں کا سامنا کرنے سے لے کر برطانوی فوج میں سب سے بڑی تعداد میں شامل ہونے کے سبب پنجاب ہمیشہ دفاعی نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا آیا ہے۔

سکھوں نے برصغیر کی تقسیم، اپنی سب سے مقدس عبادت گاہ گولڈن ٹیمپل پر حملہ اور 1984 کے فرقہ وارانہ فسادات سہے ہیں۔

سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کو جب ان کے سکھ محافظوں نے قتل کیا، تو اس کا انتقام دہلی اور ملک کے دیگر شہروں کی سڑکوں پر معصوم سکھوں کا خون بہا کر لیا گیا۔ حتیٰ کہ صدر گیانی ذیل سنگھ کے قافلے تک کو نہیں بخشا گیا۔

صحافی کلدیپ نیئر اپنی کتاب 'ٹریجڈی آف پنجاب، آپریشن بلیو اسٹار ایںڈ آفٹر' میں لکھتے ہیں کہ ذیل سنگھ کے قافلے پر دہلی کے صفدر جنگ علاقے کے قریب اس وقت حملہ کیا گیا جب وہ آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز جا رہے تھے، جہاں مسز گاندھی کی باقیات رکھی گئی تھی۔

بہت کم افراد کو معلوم ہو گا کہ من موہن سنگھ بھی اس دن بال بال بچ گئے۔ ایک ہجوم ان کے جان کے درپے ہو گیا تھا۔

مسز گاندھی کے قتل کے وقت وہ ریزرو بینک آف انڈیا کے گورنر تھے۔ وہ ممبئی سے مسز گاندھی کو آخری خراج عقیدت پیش کرنے آئے تھے۔ وہ اس کے بعد دہلی میں اپنے گھر اشوک وہار رات گزارنے چلے گئے اور اپنے داماد وجے تنکھا اور بیٹی کو اپنے گھر بلایا۔

دیر رات ایک ہجوم باہر اکھٹا ہوا اور مکان کو جلانے اور سکھوں کر باہر نکال کر مارنے کے لیے نعرے بلند کرنے لگا۔ ان کے داماد نے باہر جا کر ہجوم کو بتایا یہ گھر واقعی ایک سکھ کا تھا، مگر کئی ماہ قبل انہوں نے اس کو خریدا ہے، اور وہ ایک ہندو ہیں۔ کافی سمجھانے بجھانے کے بعد ہجوم وہاں سے جانے پر آمادہ ہوا یا شاید ان کو کوئی اور شکار مل گیا تھا۔

من موہن سنگھ کی سوانح حیات میں، جو ان کی بیٹی دمن سنگھ نے لکھی ہے، کے مطابق سب سے زیادہ حیرانی کی بات یہ تھی کہ پاس کے مندر کا پجاری بھی اس بھیڑ میں شامل تھا اور ہجوم کو اکسا رہا تھا۔ ہجوم کے جانے کے بعد رات کے اندھیرے میں من موہن سنگھ کو ایئر پورٹ پہنچایا گیا، جہاں سے وہ صبح سویرے ممبئی روانہ ہو گئے۔

بقول ریٹائرڈ بیوروکریٹ رمیش اندر سنگھ، اس طرح کے واقعات سے نپٹنے کی جدوجہد نے سکھوں کو ایک ڈسپلن سکھایا ہے۔

سیاسی تجزیہ کار سربجیت دھالیوال کہتے ہیں، ''جب بھارت خوراک کے لیے پوری دنیا سے ایک طرح سے بھیک مانگ رہا تھا، تو پنجاب کے کسانوں نے اس چیلنج کو قبول کیا۔ چند برسوں میں ایک سبز انقلاب برپا ہو گیا اور بھارت اناج میں خود کفیل ہو گیا۔

ماہرین بتاتے ہیں کہ سکھوں کی اس تیز رفتار ترقی کا تعلق ان کے عقیدے سے ہے، جو سکھ گرووں کے زمانے سے چلا آ رہا ہے۔

سکھ عقیدے کی بنیاد محنت، اشتراک، سماجی انصاف اور صنفی مساوات پر رکھی گئی ہے۔

منموہن سنگھ اپنی والدہ کو بچپن میں کھو چکے تھے اور ان کی پرورش ان کے دادا دادی نے کی۔ تقسیم کے دوران ان کے دادا کا قتل ہو گیا، جن کے ساتھ ان کا بہت گہرا رشتہ تھا۔ ان کا خاندان ایک نئی شروعات کرنے کے لیے جیب میں صرف چند روپے لے کر بھارت چلا آیا تھا۔ ہوشیار پور میں سڑک کے لیمپ پوسٹ کے نیچے وہ اپنی ہوم ورک کرتے تھے، کیونکہ گھر میں بجلی یا دیا جلانے کے پیسے نہیں ہوتے تھے۔

ان کے ابتدائی سال اور ان کا سیاسی کیریئر اپنے چیلنجوں کے ساتھ آیا۔ لیکن آخر میں، وہ اپنے پیچھے ایک قابل فخر وراثت چھوڑ گئے، جس پر بھارت کو ہمیشہ فخر رہے گا۔

یہ اس خطے کا جغرافیہ اور سکھ تعلیمات ہیں، جو کسی بھی مصیبت کو سکھوں پر حاوی نہیں ہونے دیتی۔ ماہر عمرانیات ہرویندر سنگھ بھٹی کہتے ہے، "پنجاب کا پورا علاقہ، افغانستان تک روایتی طور پر ایک قبائلی علاقہ تھا۔

سکھوں کے معاملے میں، مذہبی تعلیمات نے اس قبائلی برادری کو ایک روحانی برادری میں تبدیل کر دیا۔"

سکھوں کی یہی خوبی ہے جو انہیں ہر طرح کے ظلم کے خلاف لڑنے پر مجبور کرتی ہے۔ سکندر سے لے کر اندرا گاندھی کی نافذ کردہ ایمرجنسی اور اب نریندر مودی کی حکومت کی طرف سے لائے گئے کھیتی کے قوانین کے خلاف حالیہ احتجاج تک، سکھوں نے ان سب کے خلاف آواز بلند کی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ایمرجنسی کے دوران گرفتار کیے گئے 1.

4 لاکھ لوگوں میں سے 43000 سکھ تھے۔

سکھ مت اپنے پیروکاروں سے کہتا ہے کہ ذاتی اور سماجی زندگی کو کبھی ترک نہ کریں۔ سکھ ازم رہبانیت اور تارک دنیا ہونے کے سخت خلاف ہے۔ یہ ہر سکھ کو ہدایت ہے کہ ایک اچھی زندگی گزارے۔ خود کمائے اور دوسروں کو بھی کھلائے اور اپنی دولت میں سماج کو شریک کرے۔

غالباً یہی وجہ ہے کہ دنیا کی کل آبادی کا محض 0.4 فیصد ہونے کے باوجود سکھوں کی موجودگی کو نظر انداز کرنا مشکل ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سب سے زیادہ سکھوں کی ہونے کے کے لیے ہو گیا کے بعد

پڑھیں:

بھارت کا انتہائی طاقتور لیزر ہتھیار کے کامیاب تجربہ کرنے کا دعویٰ

نئی دہلی(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔15 اپریل ۔2025 ) بھارت نے انتہائی طاقتور لیزر ہتھیار کا کامیاب تجربہ کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جدید ہتھیار چھوٹے میزائلوں، ہیلی کاپٹرز اور ڈرونز کو تباہ کرنے کی صلاحیت کا حامل ہو گا انڈین دفاعی تحقیق کے ادارے ”ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن‘ ‘(ڈی آر ڈی او) کا کہنا ہے کہ سائنسدانوں نے اتوارکے روز ریاست آندھرا پردیش میں اس نئے لیزر ہتھیار کا تجربہ کیا ہے.

(جاری ہے)

بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق ڈی آرڈی او کا کہنا ہے کہ اس کامیاب تجربے میں زمین پر موجود ایک ٹرک پر نصب لیزر ہتھیار کی مدد سے فضا میں پرواز کرنے والے ایک ڈرون کو طاقتور شعاعوں سے تباہ کر دیا گیا لیزر ہتھیار کو ”ایم کے ٹو“ کا نام دیا گیا ہے ’‘ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن‘ ‘ نے بتایا ہے کہ اس تجربے میں 30 کلو واٹ کے لیزر کا استعمال کیا گیا ہے انڈین سائنسدانوں کے مطابق اس تجربے میں انتہائی طاقتور لیزر سے آسمان میں ساڑھے تین کلومیٹر کی اونچائی پر اڑنے والے ایک فکسڈ ونگ ڈرون کو کامیابی سے تباہ کیا گیا.

اس ضمن میں ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کی طرف سے جاری کی گئی جس میں ڈرون کو آسمان میں اڑتے، پھر لیزر ہتھیار کا نشانہ بنتے اور زمین پر گرتے ہوئے دکھایا گیا ہے لیزر ڈائریکٹڈ انرجی ہتھیار میں لیزر سے نکلنے والی شعاعوں کی پوری طاقت کو یکجا کر کے ایک ہی نکتے یا ہدف پر مرکوز کر دیا جاتا ہے جس کے باعث اس ہتھیار کی کسی شے کو تباہ کرنے کی طاقت میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے اور وہ اپنے ہدف کو کچھ ہی لمحے میں جلا کر خاک کر دیتی ہے لیزر ڈائریکٹڈ انرجی ہتھیار فضا میں اڑتے ہوئے ہیلی کاپٹرز، سوارم ڈرونز اور ریڈارز وغیرہ تباہ کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں.

رپورٹ کے مطابق اس نوعیت کے ہتھیاروں کو زمین پر موجود موبائل گاڑیوں، بحری جہازوں اور جنگی طیاروں میں نصب کیا جا سکتا ہے لیکن ان کو آپریٹ کرنے کے لیے بہت جدید ٹیکنالوجی کی ضرورت ہوتی ہے جو بہت طویل تجربوں کے بعد حاصل کی جاتی ہے لیزر بیسڈ ہتھیاروں کو مستقبل کے ہتھیار کہا جاتا ہے انڈیا کی ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کا کہنا ہے کہ اس کامیاب تجربے کے بعد وہ اب اگلے مرحلوں پر کام کریں گے.

حکام کا دعوی ہے کہ انڈیا اس کامیاب تجربے کے بعد چین، امریکہ اور روس جیسے ان چند ممالک کی صف میں شامل ہو گیا ہے جن کے پاس جدید ترین لیزر ہتھیار موجود ہیں ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کے سربراہ سمیر وی کامت نے کہا کہ ہم جنگی طیاروں اور بحری جہازوں میں نصب کرنے کے لیے اس ہتھیار کو چھوٹے سائز میں بنانے پر کام کر رہے ہیں انہوں نے کہاکہ ہم کئی طرح کی ٹیکنالوجی پر کام کر رہے ہیں جن سے ہمیں سٹار وارز کی صلاحیت حاصل ہو جائے گی .

یاد رہے کہ دنیا میں چند ہی ممالک ایسے ہیں جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے پاس لیزر ہتھیار ہیں جن میں امریکہ اور روس کے علاوہ چین، برطانیہ، جنوبی کوریا، جاپان اور اسرائیل شامل ہیں امریکی حکام کی جانب سے اینٹی میزائل لیزر کے علاوہ بحریہ اور فضائیہ کے لیے بھی یہ لیزر ہتھیار بنانے کی بات کی گئی ہے چین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ طیارہ شکن لیزر کے علاوہ لیزر رائفلز بھی بنانے میں کامیاب ہو چکا ہے.

روس کے صدر ولادیمیر پوتن بھی دعوی کرچکے ہیں کہ روس نے ایک ایسا ہتھیار تیار کر لیا ہے جو لیزر کی مدد سے سٹیلائیٹ کو بھی اندھا کر سکتا ہے اسرائیلی فوج نے رواں سال آئرن بیم لیزر سسٹم کی پہلی کھیپ کا آرڈر دیا تھا یہ ہتھیار 2025 کے آخر تک فوجیوں کو فراہم کیے جانے کی امید ہے یہ طیارہ شکن نظام کئی کئی کلومیٹر کے فاصلے سے چھوٹے اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے جنوبی کوریا اور جاپان بھی ایٹمی میزائل اور اینٹی ڈرون لیزر سسٹم بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں.

برطانیہ کو امید ہے کہ وہ اپنے ڈریگن فائر لیزر سسٹم کو 2027 سے پہلے عسکری سروس میں شامل کرلے گا ڈریگن فائر لیزر 55 کلو واٹ لیزر بیم سسٹم ہے جو 37 الگ الگ چینلز سے مرکوز ہے یہ ہتھیار تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلے پر موجود دھات کی بنے ٹارگٹ کو جلانے کی صلاحیت رکھتا ہے رواں سال برطانوی حکام کی جانب سے کہا گیا تھا کہ وہ ڈریگن فائر کی جنگی جانچ کے لیے اس کی یوکرین کو منتقلی کا امکان مسترد نہیں کرسکتے ہیں.

متعلقہ مضامین

  • ہانیہ عامر بھارت میں کام کر کے اپنا وقت برباد کر رہی ہیں، نادیہ خان
  • بھارت کا انتہائی طاقتور لیزر ہتھیار کے کامیاب تجربہ کرنے کا دعویٰ
  • آئی سی سی چیئرمین شپ کے بعد بھارت کا ایک اور اہم کمیٹی پر قبضہ برقرار
  • گوردوارہ جنم استھان، بیساکھی میلہ کی تقریب، آتشبازی، مذہبی رسومات ادا
  • حادثہ سے بڑا سانحہ
  • بھارت میں وقف قوانین کے خلاف ملک گیر تحریک
  • بھارت کی وکلا تنظیم نے وقف ایکٹ کو متعصبانہ قانون قرار دے دیا
  • دعا ہے بیساکھی ہر میدان میں خوشحالی، ملک کے کونے کونے میں ترقی لائے: وزیراعظم
  • سیاسی جدوجہد کا مقصد مذاکرات ہی ہوتے ہیں، سلمان اکرم راجا
  • چینی قربت حاصل کرنے پر بھارت کی بنگلادیش کو سزا