ایگزیکٹو آرڈر سے عمران خان کی رہائی کی ڈیمانڈ ہے مگر یہ نہیں ہوسکتا، خواجہ آصف
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ 190 ملین پاؤنڈ کیس میں عدالت نے عمران خان اور ان کی اہلیہ کو سزا سنا دی ہے، ایگزیکٹو آرڈر سے ان کی رہائی کی ڈیمانڈ ہے ، مگر یہ نہیں ہوسکتا۔
190 ملین پاؤنڈ ریفرنس میں عدالتی فیصلے پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ عدالت نے اپنا فیصلہ سنا دیا، یہ عوام کا پیسہ ہے، بانی پی ٹی آئی کو سزا مکافات عمل ہے، آج کے فیصلے سب کچھ واضح ہوگیا، یہ فیصلہ ان کے لیے شرم اور حیا کا مقام ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 190 ملین پاؤنڈ کا فیصلہ سنایا گیا تو عمران خان کا پہلا ردعمل کیا تھا؟ بیرسٹر گوہر نے بتادیا
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ القادر ٹرسٹ ہائیر ایجوکیشن سے منظور شدہ نہیں ہے، القادر جعلی یونیورسٹی ہے جس میں طلبہ کی تعداد 300 سے 400 ہے، چوری کا مال ہڑپ کرنے کے لیے واردات ہورہی تھی، چور چور کے نعرے لگانے والا خود ڈاکے میں ملوث نکلا۔
انہوں نے کہا کہ کابینہ میں بند لفافہ کیوں لہرایا گیا، کابینہ کا فیصلہ بنتا ہی نہیں تھا، کابینہ غیرقانونی کام کی منظوری نہیں دے سکتی۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی اکاؤنٹ میں آنے والا پیسہ کسی اور کے کھاتے میں ڈالا گیا، چوری کےمال پر ان کی آپس میں بھی لڑائی ہونی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: القادر یونیورسٹی کی موجودہ صورتحال کیا ہے؟
وزیر دفاع خواجہ آصف کا مزید کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی نے عوام کے ساتھ ظلم کیا، قوم کا پیسہ ذاتی اکاؤنٹ میں منتقل کیے جانے کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی، سوال یہ ہے کہ سرکاری پیسہ ملک ریاض کے اکاؤنٹ میں کیسے گیا، ملک ریاض کو فائدہ ملا ہوا ہے وہ اس لیے پاکستان واپس نہیں آتے۔
انہوں نے کہا کہ این سی اے نے تحقیقات کے بعد حسن نواز کو کلین چٹ دی تھی، الزامات لگا کر نوازشریف کو سزا سنائی گئی، سیاست میں جھوٹ سچ بنانے کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے، چور دروازے سے اقتدار میں آنے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے، پی ٹی آئی کے لوگ بیرون ملک سے پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔
پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان مذاکرات سے متعلق انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے حوالے سے میں بہت بدنام ہوں، دعا ہے کہ مذاکرات خلوص کے ساتھ جاری رہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
190 ملین پاؤنڈ کیس wenews القادر یونیورسٹی بیان جعلی چور ردعمل عدالت فیصلہ وزیر دفاع خواجہ آصف.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: 190 ملین پاؤنڈ کیس القادر یونیورسٹی بیان جعلی چور عدالت فیصلہ وزیر دفاع خواجہ ا صف انہوں نے کہا کہ خواجہ ا صف
پڑھیں:
جنگ کا نتیجہ کچھ بھی ہوسکتا ہے!
29مئی 1453کو قسطنطنیہ فتح کر لیا گیا۔ 55دن کا محاصرہ چھ اپریل کو شروع ہوا تھا۔ سلطان محمد فاتح کے پاس اسی ہزار فوج تھی جس میں جانثاران بھی شامل تھے۔ یہ سپاہی آج کے کمانڈو بھی کہے جا سکتے ہیں۔ سلطان محمد فاتح اکیس برس کی عمر میں کرہ ارض کا ہمیشہ یاد رکھنے والا کردار بن گیا۔ اس وقت قسطنطنیہ کا شہنشاہ ‘ کنسٹنٹائن دوئم تھا۔
اس جنگ کو غور سے دیکھیں تو انسانی رویوں کے حیرت انگیز پہلو سامنے آ جاتے ہیں۔حکومتیں ‘ ریاستیں اور رعایا کیسے ترقی کرتی ہیں اور کس طرح کی وجوہات کی بنیاد پر خس وخاشاک بن جاتی ہیں ۔سلطان محمد فاتح جب تخت نشین ہوا تو اس کا وزیراعظم خلیل پاشا تھا۔ یہ ایک لحاظ سے فوج کا سپہ سالار بھی تھا۔ حد درجہ دانا اور سنجیدہ سوچ کا حامل انسان ۔سلطان محمد بچپن سے لے کر بادشاہ بننے تک اس کا شاگرد رہا تھا۔ جب سلطان فاتح بادشاہ بنا تو وزیراعظم اسے ہمیشہ دانائی کے مشورے دیتا تھا۔
دراصل یہ نوجوان گرم خون اور سنجیدہ عمر کی مدلل سوچ کا ٹکراؤ تھا ۔ جب فاتح نے قسطنطنیہ پر لشکر کشی کا ارادہ کیا تو وزیراعظم نے اسے جنگ نہ کرنے کی درخواست کی۔ کہا ‘ کہ یورپ کے بادشاہ ترکی کے خلاف لڑنے کے لیے فوجیں اکٹھی کررہے ہیں اور وہ کسی بھی وقت حملہ کر سکتے ہیں۔ ساتھ ساتھ اندرونی خطرات کا بھی تذکرہ کیا ۔ مگر سلطان محمد فاتح نے اس کی کوئی بات نہیں مانی اور قسطنطنیہ پر حملہ آور ہو گیا۔ پچپن دن پر محیط یہ آگ ‘ موت اور زندگی کا کھیل تاریخ کا ایک بہت اہم باب تو تھا۔ مگر اس میں فکر اور غور کرنے کے بہت سے نکات پوشیدہ ہیں ۔
محاصرے کے دوران سلطان محمد فاتح کا مقابلہ ایک حد درجہ بہادر جرنیل سے تھا جس کا تعلق اٹلی سے تھا ۔ اس کا نام Giovanni Giustiniani تھا ۔ محاصرے کے درمیان اس بہادر جرنیل نے ہمیشہ کم فوجیوں کے ساتھ سلطان فاتح کی افواج کا مقابلہ کیا اور ہمیشہ ان کو شکست فاش دی ۔ اس وقت قسطنطنیہ کا امیر ترین شخص Loukas Notaras تھا۔ وہ مسیحی بادشاہ کو تمام سرمایہ فراہم کر رہا تھا تاکہ شہر کو بچایا جا سکے۔سلطان کا وزیراعظم اورقسطنطنیہ کا امیر ترین شخص ہم خیال تھے۔
دونوں کا خیال تھا کہ جنگ ختم ہونی چاہیے اور یہ معاملہ باہمی رضا مندی سے مذاکرات کے ذریعے ختم ہونا چاہیے۔ قسطنطنیہ پرحملوں کی آٹھ سو سال کی تاریخ تھی ۔ مختلف ادوار میں 23افواج نے اس عظیم شہر پر حملہ کیا لیکن کامیاب نہ ہوسکیں۔اس کی بہت بڑی وجہ میلوں لمبی وہ فصیلیں تھیں جنھوں نے اس شہر کو ناقابل تسخیر بنا دیا تھا۔ بنیادی طور پر یہ طاقتور فصیلیں چار ٹھوس دیواریں تھیں جو تہہ در تہہ بنائی گئی تھیں ۔دنیا کی کوئی فوج ان فصیلوں کو عبور نہیں کر سکی تھی۔
سلطان فاتح نے اس کا علاج اپنی طرف سے کر رکھا تھا۔ اس نے ہنگری سے تعلق رکھنے والے ایک توپ ساز شخص کی خدمات لی تھیں ۔ جس نے اسے اس وقت کی سب سے طاقتور اور لمبی توپ بنا کر دی تھی جس کا نام بلسکہ تھا۔ان میں ڈھائی میٹر کا بارود سے بھرا ہو ا گولا داغا جاتا تھا۔ اس طرح کی بیس توپیں تیار کر کے ترک فوج کے حوالے کی گئی تھیں۔ محاصرے کے دوران یہ نیا اور جدید ہتھیار ‘ قسطنطنیہ کی افواج کے لیے بالکل انوکھا تھا۔ شروع شروع میں ان توپوں نے فصیلوں کو بہت نقصان پہنچایا ۔ مگر جیسے ہی مخالف لشکر کو وقت ملتا تھا وہ اسی جگہ ‘ مزید طاقتور فصیل کھڑی کر دیتے تھے ۔ترک بحری بیڑا بھی شکست سے دو چار تھا ۔اس کے تقریباً ڈھائی سو بحری جہاز مسیحی بحریہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکے ۔
سلطان نے امیر البحر کو بلا کر اسے قتل کرنے کا حکم دیا لیکن وزیراعظم کے کہنے پر اسے اسی کوڑے لگا کر زندہ رہنے دیا گیا۔ تقریباً ڈیڑھ مہینے بعد ترک فوج کے اندر حد درجہ انتشار پیدا ہو گیا۔ بالکل اسی طرح قسطنطنیہ کے اندر بادشاہ اور اس کے مشیروں میں یہ بحث عروج پر پہنچ گئی کہ زیادہ دن تک ترک افواج کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا لہٰذا صلح کر لینی چاہیے ۔ مگر اس کے بالکل برعکس مسیحی جنرل Giovanni Giustiniani کا خیال تھا کہ اس کی فوج کا مقابلہ سلطان نہیں کر سکتا۔ترک وزیراعظم اور مخالف شہر کے امیر ترین شخص نوٹراز نے ایک خفیہ ملاقات کی اور دونوں میں طے پایا کہ جنگ بندی ہونی چاہیے۔
باعزت شرائط کے تحت سلطان محمد فاتح کو افواج سمیت واپس جانا چاہیے۔ خلیل جب صلح کی شرائط لے کر ترک بادشاہ کے پاس پہنچا تو اس نے یہ شرائط مان لیں اور حکم دیا کہ صلح نامہ تیار کیا جائے ۔ یہ وہ وقت تھا جب دونوں دشمن مکمل طور پر تھک چکے تھے اور ان کے اپنے اندر معاشی ‘ سماجی ‘ مذہبی اور اخلاقی دراڑیں نمودار ہو رہی تھیں ۔ مگر محاصرہ چھوڑنے سے ٹھیک دو دن پہلے سلطان محمد فاتح کو اس کی سوتیلی والدہ مارہ نے بتایا کہ قسطنطنیہ اندر سے مکمل کھوکھلا ہو چکا ہے۔
اس کے علاوہ ستاروں کی چال کے حساب سے سلطان محمد فاتح سو فیصد جیت رہا ہے ۔ زمانہ قدیم میں ستارہ شناس اور نجومیوں کا حکومتوں پر بے حد اثر ہوتا تھا۔ ویسے آج بھی ہمارے ملک میں یہی حال ہے۔ محمد فاتح نے اپنی سوتیلی والدہ کے مشورے پر عمل کیا اور وزیراعظم کی صلح کی شرائط کو رد کر دیا ۔ آخری حملہ محاصرے کے اختتام پر کیا گیا۔جس میں تمام ترک لشکر شہید ہو گیا۔ اب سلطان کے پاس صرف چند ہزار جانثاران رہ گئے۔
وزیراعظم نے سلطان کی منت کی کہ وہ جنگ بند کر دے کیونکہ اگر جانثاران بھی کام آ گئے تو اس کی ریاست خطرے میں پڑ جائے گی۔ مگر سلطان نے جنگ کا آخری داؤ کھیلا اور جانثاران کو حملے کا حکم دیا ۔ شومئی قسمت کہ رومن جنرل گوسٹینی شدید زخمی ہو گیا ۔ اس کے بعد پوری مسیحی فوج کے پاؤں اکھڑ گئے۔ 29 مئی کو سلطان قسطنطنیہ میں بطور فاتح داخل ہوا اور اس نے ہیلگاصوفیہ میں اپنا دربار لگایا ۔سب سے پہلے قسطنطنیہ کے امیر ترین شخص نوٹراز کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ تم نے اپنی تمام دولت آخری وقت اپنے بادشاہ کو فراہم کیوں نہیں کی جو کہ ایک سچ تھا ۔ نوٹراز کی گردن زنی کی گئی اور اس کے بعد ‘ سلطان محمد فاتح نے اپنے وزیراعظم خلیل پاشا کو قتل کروا دیا۔قسطنطنیہ کو اس وقت دنیا کا ہیرا کہا جاتا تھا اور اس جیسا شہر پورے کرہ ارض پر موجود نہیں تھا۔
تاریخ حددرجہ پیچیدہ اور متضاد اسباق پر مبنی ہے۔ دور بدل گئے ‘ صدیاں مکمل طور پر تبدیل ہو گئیں۔ مگر فتح اور شکست کے حتمی نتائج وہیں کے وہیں کھڑے ہیں۔ موجودہ دور میں جنگیں ‘ معاشی ‘ سماجی اور اقتصادی تلوار سے لڑی جاتی ہیں۔ ایک اور مہلک ہتھیار جو سلطان فاتح کی خطرناک توپوں کی طرح سامنے آیا ہے ‘ اس کا نام سوشل میڈیا ہے۔ اس مہلک ترین ہتھیار نے پوری دنیا پر ناقابل یقین حد تک نقوش رقم کر ڈالے ہیں ۔ استدلال کے طور پر اپنے ملک کی موجودہ صورت حال کو دیکھتا ہوں تو اس میں ہر طرح کے عوامل سامنے آتے ہیں۔ بلوچستان کے حالات سر چڑھ کر بول رہے ہیں۔ حکومت معاملہ فہمی کے بجائے ‘ جلتی پر تیل ڈالنے میں مصروف ہے اور ایسے لوگوں کو گرفتار کیا جارہا ہے جن کا اثر ‘ بلوچ قبائل پر حد سے زیادہ ہے ۔
غیر دانش مندی پر مبنی یہ حکمت عملی کتنی نقصان دہ ہو سکتی ہے اس کے متعلق سوچ کے بھی لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح خیبر پختونخوا کے حالات حد درجے دگر گوں ہے ۔ تحریک طالبان پاکستان جو بنیادی طور پر ایک دہشت گرد جماعت ہے اس نے لوگوں کا جینا دوبھر کرڈالا ہے۔ ریاستی قوت اور تحریک طالبان آپس میں ہر سطح پر نبردآزما ہے ۔بلوچستان اور کے پی کے خلفشار میں جوہری فرق ہے ۔ ایک طرف قوم پرستی کا نعرہ ہے اور دوسری طرف اسلام کی سربلندی کا دعویٰ کیا جارہا ہے ۔
تمام زیرک لوگ جانتے ہیں کہ ملک میں سیاسی جنگ اندرونی اور بیرونی دونوں سطح پر لڑی جا رہی ہے۔ کوئی بھی دانا شخص جب صلح صفائی کی بات کرتا ہے تو اسے ناقابل قبول بنا دیا جاتا ہے۔ جیسے قسطنطنیہ کی جنگ کا نتیجہ کچھ بھی ہو سکتا تھا ۔ بالکل اسی طرح ہمارے ملک میں بڑھتے ہوئے اندرونی انتشار اور بیرونی دباؤ سے نتیجہ غیر معمولی حد تک تکلیف دہ ہو سکتا ہے۔ابھی بھی وقت ہے ۔ قوت کے بجائے دانائی کا استعمال کریں۔ تمام مسائل صلح صفائی سے حل کریں۔ شاید ہم مکمل تباہی سے بچ جائیں۔