دین و دنیا پروگرام اسلام ٹائمز کی ویب سائٹ پر ہر جمعہ نشر کیا جاتا ہے، اس پروگرام میں مختلف دینی و مذہبی موضوعات کو خصوصاً امام و رہبر کی نگاہ سے، مختلف ماہرین کے ساتھ گفتگو کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے۔ ناظرین کی قیمتی آراء اور مفید مشوروں کا انتظار رہتا ہے۔ متعلقہ فائیلیںپروگرام دین و دنیا
عنوان: ولایت تکوینی آئمہ اطہار
(حصہ دوئم)
میزبان: محمد سبطین علوی
مهمان: حجہ الاسلام والمسلمین جناب عون علوی
تاریخ: 17 جنوری 2025
موضوعات گفتگو:
⚫ ولایت تکوینی اور انسان کامل میں ربط
???? ولایت تکوینی اور غلو میں فرق
خلاصہ گفتگو:
ولایت تکوینی ایک ایسا تصور ہے جو انسان کامل اور کائنات کے درمیان روحانی اور قدرتی تعلق کو بیان کرتا ہے۔ انسان کامل، یعنی معصومین (ع)، وہ ہستیاں ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے منتخب ہوتی ہیں اور اس کے احکامات کی کامل اطاعت میں رہتی ہیں۔ ان کے اعمال اور ارادے اللہ کی مرضی کے عکاس ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے انہیں کائنات کے امور میں تصرف کی قدرت عطا کی جاتی ہے۔ قرآن مجید میں حضرت عیسیٰ (ع) کے معجزات ولایت تکوینی کی بہترین مثالیں ہیں۔ یہ ولایت اللہ کی اجازت اور حکم کے تابع ہوتی ہے، اور انسان کامل اسے ہمیشہ اللہ کی وحدانیت اور اس کی حاکمیت کے اقرار کے ساتھ استعمال کرتا ہے۔
ولایت تکوینی اور غلو کے درمیان فرق کو سمجھنا ضروری ہے تاکہ اسلامی عقائد میں افراط و تفریط سے بچا جا سکے۔ ولایت تکوینی اللہ کی عطا کردہ قدرت ہے، جو معصومین (ع) کے ذریعے اس کی مخلوق کی رہنمائی اور مدد کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ دوسری طرف، غلو کسی انسان کو خدائی صفات کا مالک سمجھنے یا اس کو اللہ کے برابر قرار دینے کا نام ہے، جو کہ توحید کے عقیدے کے سراسر خلاف ہے۔ معصومین (ع) خود کو اللہ کا بندہ مانتے ہیں اور ہر قدرت کو اللہ کے اذن کے تابع قرار دیتے ہیں۔ اس لیے، ولایت تکوینی ایمان کی مضبوطی کا ذریعہ ہے، جب کہ غلو دین کی اصل روح کو نقصان پہنچاتا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انسان کامل اللہ کی
پڑھیں:
حیا کا جامع تصور
نبی اکرمؐ نے حیا کو ایک اخلاقی قدر کے طور پر متعارف کرایا، یہاں تک کہ اسے ایمان کا ایک لازمی جز قرار دیا۔ آپؐ نے فرمایا: ’’حیا ایمان کا ثمرہ ہے اور ایمان کا مقام جنت ہے، اور بے حیائی و بے شرمی بدکاری میں سے ہے اور بدکاری دوزخ میں لے جانے والی ہے‘‘۔ (ترمذی، مسند احمد، ابن ماجہ) ایک اور حدیث میں جس میں ایمان اور حیا کا باہمی تعلق واضح کیا گیا ہے، آپؐ نے فرمایا: ’’حیا اور ایمان دونوں ہمیشہ ساتھ اور اکٹھے ہی رہتے ہیں۔ جب ان دونوں میں سے کوئی ایک اٹھا لیا جائے تو دوسرا بھی اْٹھا لیا جاتا ہے‘‘۔ (مستدرک للحاکم، صحیح الجامع للالبانی)
درحقیقت حیا کا تصور بہت زیادہ وسعت اور جامعیت رکھتا ہے جس میں نہ صرف فواحش و منکرات سے اجتناب بلکہ اللہ تعالیٰ کی مرضی و منشا کے خلاف ہر بات اور ہر کام سے رْک جانا مقصود ہے۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ ایک دن نبی کریمؐ نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا: ’’اللہ سے حیا کرو، جیسا کہ حیا کا حق ہے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے نبیؐ! الحمدللہ! ہم اللہ سے حیا کرتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: حیا سے یہ مراد نہیں جو تم کہتے ہو‘ بلکہ جو شخص اللہ سے حیا کا حق ادا کرے تو اسے چاہیے کہ سر اور جو کچھ سر کے ساتھ ہے، اس کی حفاظت کرے، پیٹ اور جو کچھ پیٹ کے ساتھ ہے، اس کی حفاظت کرے اور اسے چاہیے کہ موت کو اور ہڈیوں کے بوسیدہ ہونے کو یاد رکھے، اور جو شخص آخرت کی بھلائی کا ارادہ کرتا ہے وہ دنیا کی زینت وآرائش کو چھوڑ دیتا ہے، پس جس شخص نے ایسا کیا تو اس نے اللہ سے حیا کی، جس طرح حیا کا حق ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
اسلام میں عفت و عصمت کے وسیع تصور کو راسخ کرنے کے لیے حیا کے ہمہ گیر پہلوؤں کی مختلف احادیث کے ذریعے سے وضاحت کی گئی۔ سیدنا ابو مسعود عقبہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمؐ ے فرمایا: ’’لوگوں کے پاس کلامِ نبوت سے جو بات پہنچی ہے ان میں یہ بھی ہے: جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کر‘‘۔ (بخاری)
سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ نے فرمایا: ’’ایمان کی ستّر سے زائد شاخیں ہیں، (یا ساٹھ سے زائد، راوی کو شک ہے)، ان میں سب سے افضل لا الٰہ الا اللہ کہنا ہے، اور سب سے ادنیٰ راستے میں پڑی ہوئی تکلیف دہ چیز کو ہٹا دینا ہے۔ اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے‘‘۔ (بخاری، مسلم)
سیدنا انسؓ سے مرفوعاً روایت ہے کہ رسولؐ نے فرمایا: ’’فحش جس چیز میں بھی ہو اسے بدنما بنا دیتا ہے، اور حیا جس چیز میں ہو اسے زینت عطا کرتی ہے‘‘۔ (ابن ماجہ، ترمذی و احمد)
آپؐ نے فرمایا: ’’حیا تو بس خیر ہی لاتی ہے‘‘۔ ( بخاری، مسلم)
نیز فرمایا: ’’ہر دین کا ایک خاص وصف ہے اور اسلام کا وصف حیا ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ)