عمران خان کو سزا کیوں اور کیسے ہوئی، آگے کیا ہوسکتا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
عمران خان اور ان کی اہلیہ کے خلاف 190 ملین پاونڈ کیس میں سزا سنائی جاچکی ہے۔ ہم اس کیس کے مختلف پہلو اور اینگلز کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ جسے اس کیس کا کچھ نہیں پتہ، اس کے سامنے مکمل تناظر، پس منظر اور منظرنامہ واضح ہوجائے۔
سزا کیا ملی؟
احتساب عدالت نے عمران خان کو 14 سال قید اور 10 لاکھ جرمانہ جبکہ بشریٰ بی بی کو 7 سال قید اور 5 لاکھ جرمانہ کی سزا سنائی گئی۔ جرمانہ ادا نہ کرنے پر مزید قید کاٹنا ہوگی۔ فیصلے میں القادر یونیورسٹی کو سرکاری تحریل میں لینے کا بھی حکم سنایا گیا ہے۔
190 ملین پاؤنڈ کیس ہے کیا؟
الزام بڑا سادہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان، ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور ان کے ساتھیوں شہزاد اکبر، زلفی بخاری، فرح گوگی وغیرہ نے ملک ریاض سے ملی بھگت کرکے ان کی برطانیہ میں ضبط شدہ رقم وفاقی حکومت کے اکاؤنٹ یعنی سرکاری خزانہ میں جمع کرانے کے بجائے سپریم کورٹ کے اس اکاؤنٹ میں جمع کرائی جہاں ملک ریاض نے ایک عدالتی فیصلے کے بعد جرمانے کے طور پر رقوم جمع کرانا تھیں۔
نیب کی چارج شیٹ کے مطابق ملک ریاض کو یہ فیور ناجائز دی گئی اور اس کے بدلے بعد میں ملک ریاض سے القادر ٹرسٹ کے لیے 458 کنال زمین لی گئی جو بظاہر عطیہ تھی، مگر دراصل وہ اس ناجائز فیور کے نتیجے میں ملی۔ یہ زمین زلفی بخاری کے ذریعے منتقل ہوئی۔
نیب کا ایک الزام یہ بھی ہے کہ بشریٰ بی بی کی قریبی دوست فرحت شہزادی عرف فرح گوگی کے ذریعے موضع موہڑہ نور اسلام آباد میں 240 کنال اراضی حاصل کی۔
ملک ریاض اس معاملے میں کہاں سے آگئے؟
اصل معاملہ ہی پاکستان کے بڑے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کی برطانیہ میں ضبط ہونے والی رقم 190 ملین پاؤنڈ (تقریباً 60 ارب روپے) کا ہے۔ یہ رقم برطانیہ می نیشنل کرائم ایجنسی (NCA) نے ملک ریاض سے ضبط کی تھی۔
دراصل برطانیہ میں پچھلے چند برسوں سے یہ قانون بن چکا ہے کہ برطانیہ میں کسی غیر ملکی کی جانب سے خریدی جانے والی کوئی جائیداد اگر مشکوک ذرائع سے لی گئی ہو، اس میں منی لانڈرنگ یا کرپشن کا شبہ ہو تو نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) اسے ضبط کرکے وہ پیسے اس ملک کو واپس دے دیتی ہے۔ ملک ریاض کی پراپرٹی پر بھی یہی شبہ کیا گیا اور وہ اسے کلیئر کرانے میں ناکام رہے تب این سی اے نے اسے ضبط کرکے وہ 190 ملین پاؤنڈ کی رقم پاکستانی گورنمنٹ کو واپس کرنے کا فیصلہ کیا۔
مرزا شہزاد اکبر کی انٹری
یہاں پر عمران خان کے سابق ساتھی اور ایسٹ (Asset) ریکوری یونٹ کے سربراہ مرزا شہزاد اکبر کی انٹری ہوئی۔ نیب کے مطابق شہزاد اکبر اس معاملے میں 2018 سے شامل تھے اور انہوں نے ملک ریاض سے مبینہ طور پر ساز باز کرکے یہ طے کیا کہ وہ 190 ملین پاؤنڈ جو برطانوی ایجنسی پاکستانی حکومت کو دے گی، اسے سرکاری خزانے میں جمع کرانے کے بجائے سپریم کورٹ میں ملک ریاض کی جانب سے بطور واجبات جمع کرا دیا جائے گا۔
یاد رہے کہ بحریہ ٹاؤن کراچی کے معاملے میں سپریم کورٹ ملک ریاض پر 460 ارب روپے سے زیادہ کا جرمانہ عائد کرچکی تھی جو انہیں اقساط میں جمع کرانے تھے۔ اب اگر برطانیہ سے آنے والے یہ 190 ملین پاؤنڈز(60 ارب روپے) اگر سرکاری خزانے میں جانے کے بجائے اگر ملک ریاض کی جانب سے سپریم کورٹ کو اس مد میں جمع کرائے جاتے تو ظاہر ہے ملک ریاض کو فائدہ ہونا تھا، ان کے 60 ارب روپے بچ جاتے۔
عمران خان کی کابینہ کا کردار
یہ معاہدہ قانون کے مطابق وفاقی کابینہ سے منظور کرایا گیا تاہم نیب کا الزام ہے کہ شہزاد اکبر نے وزیراعظم کی مدد سے تفصیلات بتائے بغیر کابینہ سے منظورکرایا اور این سی اے سے معاہدہ دکھانے کے بجائے ایک بند لفافہ دکھایا اور کہا گیا کہ ملکی مفاد میں یہ سب ہورہا ہے۔
نیب نے اپنے اس الزام کے حق میں عمران خان کابینہ کے 2 وفاقی وزرا پرویز خٹک اور زبیدہ جلال کی گواہی بھی پیش کی جبکہ وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کو بطور گواہ بھی پیش کیا گیا۔
(تحریک انصاف کی اس حوالے سے دلیل یہ ہے کہ تب پرویز خٹک عمران خان کے شدید مخالف تھے جبکہ زبیدہ جلال بھی ان کا ساتھ چھوڑ چکی تھیں جبکہ اعظم خان اپنی گواہی سے پہلے پُراسرار طور پر کئی ہفتے لاپتہ رہے اور خدشہ ہے کہ ان پر دباؤ ڈال کر مجبور کیا گیا۔)
نیب کا ایک الزام یہ بھی رہا کہ سابق وزیراعظم عمران خان کے دور میں 6 نومبر 2019 کو برطانیہ کے نیشنل کرائم ایجنسی کے ساتھ ڈیڈ (deed) سائن کی جبکہ رقم کی پہلی قسط 29 نومبر 2019 کو سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں آچکی تھی جبکہ وفاقی کابینہ سے اس ڈیڈ کی منظوری 3 دسمبر 2019 کو لی گئی اور وفاقی کابینہ کو یہ تک نہیں بتایا گیا تھا کہ پہلی قسط پاکستان پہنچ چکی ہے۔ (تحریک انصاف کے وکلا اس کی تردید کرتے اور اس پر سوال اٹھاتے ہیں۔)
فیصل واؤڈا بھی تنازعے کا حصہ بنے تھے
جن دنوں یہ معاملہ کابینہ سے منظور ہوا، تب انہی دنوں عمران خان کے ایک وزیر فیصل واؤڈا کا یہ بیان سامنے آیا کہ کابینہ اجلاس میں ایک ایسے معاملے کی منظوری لی گئی ہے جس کے بارے میں کابینہ کے ارکان کو پہلے نہیں بتایا گیا اور مرزا شہزاد اکبر نے ایک بند لفافہ دکھا کر برطانوی ادارے نیشنل کرائم ایجنسی اور حکومت پاکستان کے درمیان طے پانے والے والے ایک معاہدے کے بارے میں زبانی طور پر آگاہ کیا گیا۔
فیصل واؤڈا کے مطابق تب کابینہ میں موجود ڈاکٹر شیریں مزاری اور فواد چویدری نے مبیّنہ طور پر اعتراض کیا تھا۔ (یہ واضح رہے کہ شیریں مزاری یا فواد چوہدری نے عدالت میں عمران خان کے خلاف گواہی نہیں دی۔)
کابینہ کے اس فیصلے کے حوالے سے نیب کا ایک اور الزام یہ ہے کہ اس فیصلے کو 7 دن پہلے سرکولیٹ کرنا چاہیے تھا۔ کیبنٹ ڈویژن کے رولز کے مطابق وفاقی کابینہ میں کوئی بھی معاملہ زیر بحث لانے سے 7 روز قبل اسے سرکولیٹ کرنا ہوتا ہے۔
نیب کے وکلا نے عدالت میں یہ سوال اٹھایا کہ وہ کیا جلدی تھی کہ اس معاملے کو 7 دن پہلے کابینہ ممبران کو سرکولیٹ نہیں کیا گیا؟
(تحریک انصاف کے وکلا کے مطابق یہ کوئی نئی بات نہیں اور بہت بار ایسا ہوتا رہا ہے۔)
القادر یونیورسٹی کا تنازع
یہ امر دلچسپ ہے کہ برطانیہ سے آنے والی رقم اور وفاقی کابینہ سے منظوری اور پھر سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں رقم جمع ہونے کا پورا معاملہ 2019 کا ہے جبکہ القادر یونیورسٹی اس سے 2 سال بعد قائم ہوئی۔
یہ یونیورسٹی جہلم کے علاقے سوہاوہ میں قائم کی گئی، یہ ایک فری ٹرسٹ یونیورسٹی ہے اور اس کا مقصد سیرت طیبہ کے حوالے سے اسپیشل کورسز کرانا اور اسلام کے روحانی پہلوئوں پر علمی کام کرانا تھا۔
ملک ریاض کے بحریہ ٹاؤن نے مارچ 2021 میں القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کو ضلع جہلم کے علاقے سوہاوہ میں 458 کنال اراضی عطیہ کی۔ نیب کا الزام یہ ہے کہ ملک ریاض نے یہ زمین دراصل ڈیڑھ پونے 2 سال قبل لندن سے 190 ملین پاؤنڈ رقم کو سپریم کورٹ کے اکاوئنٹ میں ایڈجسٹ کرانے کے بدلے میں دی ہے۔
القادر یونیورسٹی کے ٹرسٹیز میں عمران خان اور بشریٰ بی بی شامل ہیں، تاہم رولز کے مطابق انہیں کسی قسم کا مالی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ کہا جاتا ہے کہ ابتدا میں زلفی بخاری اور بابر اعوان بھی ٹرسٹیز میں شامل تھے، تاہم وہ جلد ہی الگ ہوگئے۔
یاد رہے کہ یہ یونیورسٹی اس وقت بھی کام کررہی ہے، تاہم پچھلے 4 برسوں میں وہاں 200 کے لگ بھگ طلبہ ہی نے داخلہ لیا۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ یونیورسٹی جس علاقہ میں قائم ہے، وہاں کے 80 میل تک کوئی یونیورسٹی موجود نہیں اور مقامی آبادی اس تعلیمی ادارے کے بننے پر خوش ہوئی تھی۔ احتساب عدالت کے فیصلے کے بعد یہ یونیورسٹی جو اس وقت تک نجی حیثیت میں ٹرسٹ یونیورسٹی تھی، اب وہ سرکاری تحریل میں آجائے گی۔
بشریٰ بی بی کو کیوں ملزم بنایا گیا؟
نیب کا الزام ہے کہ بشریٰ بی بی اس پورے معاملے میں شریک ہیں اور ان کے ایما پر یہ ہوا۔ نیب کے مطابق بشریٰ بی بی کی قریبی دوست اور ایک طرح سے فرنٹ ویمن فرحت شہزادی عرف فرح گوگی کے ذریعے موہڑہ اسلام آباد میں اراضی لی گئی اور القادر یونیورسٹی کے لیے بھی بحریہ ٹاؤن سے اراضی لی گئی۔ بشریٰ بی بی چونکہ اس یونیورسٹی کی ٹرسٹی ہیں، اس لیے وہ بھی شریک ملزم ہیں۔ احتساب عدالت نے نیب کے الزام کو درست قراردیتے بشریٰ بی بی کو سزا سنائی ہے تاہم ان کی سزا عمران خان کی سزا اور جرمانے سے نصف ہے۔
تحریک انصاف کا موقف
تحریک انصاف کی قیادت اور ان کے وکلا دیگر بعد مقدمات کی طرح 190 ملین پاؤنڈ کے ریفرنس کو بھی ‘سیاسی مقدمہ’ قرار دیتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک کے قانون میں یہ بات لکھی ہوئی ہے کہ وفاقی کابینہ کے فیصلے کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔
عمران خان کے ایک وکیل اور تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی سردار لطیف کھوسہ کا کہنا ہے کہ جس رقم سے متعلق ریفرنس بنایا گیا وہ عمران خان کے اکاؤنٹ میں نہیں گئی بلکہ سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں موجود ہے اور حکومت کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ یہ رقم وہاں سے سرکاری خزانے میں جمع کرواسکتی ہے۔ لطیف کھوسہ کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ نیشنل کرائم ایجنسی کے ساتھ معاہدے کے بعد پاکستان کو جو رقم موصول ہوئی وہ 190 ملین پاونڈ نہیں بلکہ 171 ملین پاؤنڈ تھی۔
احتساب عدالت میں کیس
یکم دسمبر 2023 کو 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس اسلام آباد کی احتساب عدالت میں دائر کیا اور ٹرائل شروع ہوگیا۔ 2 ملزمان یعنی عمران خان اور ان کی اہلیہ پر اس مقدمے میں فردِ جرم 27 فروری 2024 میں عائد کی گئی تھی اور دونوں نے صحتِ جرم سے انکار کیا تھا۔۔
یہ ٹرائل ایک سال تک چلا۔ نیب کی جانب سے 35 گواہوں نے بیانات قلم بند کرائے گئے۔ عمران خان کے خلاف گواہی دینے والوں میں القادر یونیورسٹی کے چیف فنانشل افسر بھی شامل تھے۔
عدالت نے کیس میں شریک ملزمان ذلفی بخاری، فرحت شہزادی، مرزا شہزاد اکبر، ملک ریاض، ان کے بیٹے اور ضیا المصطفی نسیم کو اشتہاری قرار دے کر ان کی جائیدادیں اور بینک اکاؤنٹ منجمد کرنے کا فیصلہ سنایا۔
ٹرائل میں آئے نشیب وفراز
یہ وہی کیس ہے جس میں سابق وزیراعظم عمران خان کو 9 مئی 2023 کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے گرفتار کیا گیا تھا۔ یعنی 9 مئی کو ہونے والی ہنگامہ آرائی کے پیچھے بھی یہی کیس کارفرما ہے۔
ابتدائی طور پر احتساب عدالت کی جانب سے اس کیس میں عمران خان کی درخواست ضمانت مسترد ہوئی تھی جس کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کی ضمانت کی درخواست منظور کرلی تھی۔ (یہ اور بات کہ عمران خان کو رہا نہیں ہونے دیا گیا۔)
عمران خان نے 16 عدالتی گواہوں کی فہرست جمع کرائی تاہم عدالت نے گواہ بلانے کی درخواست مسترد کردی۔
یہ امر بھی دلچسپ ہے کہ اس ٹرائل کے دوران 4 جج تبدیل ہوئے۔ پہلے جج محمد بشیر نے سماعت کی پھر جج ناصرجاوید رانا، ان کے بعد جج محمد علی وڑائچ اور پھر دوبارہ جج ناصر جاوید رانا نے کیس کی سماعت کی۔ اب کیس کا فیصلہ ناصر جاوید رانا ہی نے سنایا ہے۔
یہ فیصلہ جج ناصر جاوید رانا نے 18 دسمبر 2024 کو محفوظ کیا تھا جو 3 مرتبہ مؤخر کیے جانے کے بعد جمعے کو اڈیالہ جیل میں سنایا گیا۔ 3 بار مؤخر ہونے کا بھی میڈیا میں مذاق اڑایا جاتا رہا اور نیوز چینلز میں تحریک انصاف کے رہنما اور صحافی حضرات طنز کرتے رہے کہ شاید فیصلہ عمران خان سے مذاکرات کی وجہ سے ملتوی ہورہا ہے اور اسے بطور دباؤ استعمال کیا جارہا ہے۔ یہ الزام خود عمران خان نے بھی لگایا۔
17 جنوری کو فیصلہ سناتے ہوئے عمران خان، بشریٰ بی بی، بانی پی ٹی آئی کی بہنیں اور دیگر پارٹی رہنما بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ بشریٰ بی بی جو پچھلے کچھ عرصے سے ضمانت پر رہا تھیں، انہیں فیصلے کے بعد حراست میں لے لیا گیا جبکہ اطلاعات کے مطابق اڈیالہ جیل میں ان کا سیل پہلے ہی سے تیار کردیا گیا تھا۔
اب کیا ہوگا؟
پاکستان تحریک انصآف نے 190 ملین پاؤنڈ کا فیصلہ چیلنج کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ عمر ایوب نے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ہائیکورٹ میں چیلنج کرنے کا کہا ہے۔
شبلی فراز کے مطابق القادر ٹرسٹ یونیورسٹی کے معاملے پر نہ تو حکومت کو ایک دھیلے کا نقصان ہوا اور نہ ہی عمران خان یا بشریٰ بی بی کے اکاؤنٹ میں کوئی رقم گئی۔ نیت ٹھیک تھی، مقصد بھی ٹھیک تھا لیکن اس ملک میں یہ رواج بنایا جارہا ہے کہ ایک شخص جو شوکت خانم کینسر اسپتال اور نمل یونیورسٹی جیسے ادارے بناتا ہے اسے القادر یونیورسٹی بنانے پر سزا دی جارہی ہے جس میں نوجوان نسل کو سیرت النبی ﷺ پڑھائی جانی تھی اور پاکستان کے نوجوانوں کو مستفید ہونا تھا۔
قانونی ماہرین کے مطابق جب تک یہ سزا ہائیکورٹ سے ختم یا معطل نہیں ہوجاتی، تب تک عمران خان ایک باقاعدہ سزا یافتہ مجرم قرار پائیں گے۔ تحریک انصاف کے وکلا البتہ پُرامید ہیں کہ اعلیٰ عدالتوں سے انہیں ریلیف ملے گا۔
کیا مذاکرات ختم ہوجائیں گے؟
تحریک انصاف کے رہنما پہلے یہ کہتے رہے ہیں کہ مذاکرات کا اس کیس کے فیصلے سے کوئی تعلق نہیں۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ اب تحریک انصاف کس حد تک جارحانہ مؤقف اختیار کرتی ہے، مذاکرات کا سلسلہ آگے بڑھتا ہے یا پھر عوامی احتجاج کی راہ اپنائی جاتی ہے؟ تاہم یہ فیصلہ آنے کے بعد بھی مذاکرات اپنی جگہ آگے بڑھ سکتے ہیں۔
ماضی میں عمران خان کے خلاف کئی کیسز کے فیصلے آئے ہیں اور ان میں سے بعض میں ہائیکورٹ نے عمران خان کو بری کردیا اور بعض میں سزا معطل کردی۔ احتساب عدالت کے حالیہ فیصلے کے بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل ازوقت ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: نیشنل کرائم ایجنسی القادر یونیورسٹی مرزا شہزاد اکبر تحریک انصاف کے سپریم کورٹ کے کے اکاؤنٹ میں وفاقی کابینہ یونیورسٹی کے احتساب عدالت عمران خان کی عمران خان کے عمران خان کو برطانیہ میں ملین پاو نڈ ملک ریاض سے ملک ریاض کی معاملے میں اسلام آباد کی جانب سے کابینہ کے کابینہ سے عدالت میں کے فیصلے کے مطابق فیصلے کے ارب روپے کے بجائے الزام یہ عدالت نے کا فیصلہ کرنے کا کیا گیا کے خلاف کے وکلا کے ساتھ اکاو نٹ ہیں اور رہے کہ میں یہ رہا ہے اور ان ہے اور کی تھی نیب کے اس کیس لی گئی نیب کا کے بعد اور اس
پڑھیں:
قومیں کیوں ناکام ہوتی ہیں؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 اپریل 2025ء) دوسری عالمی جنگ کے بعد جب ایشیا اور افریقہ کے ممالک آزاد ہوئے تو یہ توقع کی گئی کہ کلونیل عہد کے اداروں اور روایات کا خاتمہ کر کے نئے مُلک کی بنیاد ڈالی جائے گی۔ اس سلسلے میں سابق محکوم قوموں کے ذہن کو بھی بدلن بھی ضروری خیال کیا گیا۔کیونکہ یورپی سامراج کے دور میں اُنہوں نے اس کا مقابلہ ماضی کی اپنی شان و شوکت اور عظمت کو اُبھار کر کیا تھا۔
لیکن آزادی کے بعد ماضی کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ اب قوموں کو ترقی کے لیے مستقبل کی جانب دیکھنا تھا۔ ماضی اب اُن کے لیے رکاوٹ کا باعث تھا۔ اس لیے ایک نئی تاریخ لکھنے کی ضرورت تھی، جس میں کلونیل دور کے اُن غلطیوں اور کمزوریوں کا تجزیہ کرتے ہوئے اسے سمجھنے کی کوشش کرنا تھا جن کی وجہ سے اُنہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔(جاری ہے)
آزادی کے بعد ایشیا اور افریقہ کے مُلکوں نے آمریت کے نظام کو نافذ کیا۔
وہ راہنما جنہوں نے آزادی کی تحریک کی حمایت کی تھی۔ وہ قوم کے ہیرو بن گئے، لیکن عام لوگوں کی جدوجہد اور قربانیوں کو نظرانداز کیا گیا۔ کیونکہ آمروں کو کلونیل دور کا سیاسی نظام پسند تھا۔ اس لیے اُنہوں نے سابق ریاستی اداروں کو جن میں فوج، نوکر شاہی، پولیس اور خفیہ ادارے شامل تھے، اُنہیں اپنے اقتدار کے لیے باقی رکھا۔جن افریقی اور ایشیائی مُلکوں میں جمہوریت کی ابتداء ہوئی تھی اُسے آمرانہ قوتوں نے ختم کر دیا اور آمر با اختیار ہو کر طاقت کا سرچشمہ بن گئے۔
انتخابات کی جگہ ریفرنڈم کی روایت شروع ہوئی تا کہ حکمراں پارٹی کو انتخابات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اگر الیکشن کرانا پڑے تو اُنہیں محدود کر دیا گیا۔ جیسا کہ پاکستان میں بھی ہو چکا ہے۔جب آمر اور حکمراں طبقہ بااختیار ہو جائے تو اس کے نتیجے میں خوشامد کی پالیسی پروان چڑھتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی بدعنوانی اور رشوت میں اضافہ ہوتا ہے۔ کسی تنقید کو برداشت نہیں کیا جاتا۔
طالبعلموں، مزدوروں اور خواتین کی تحریکوں پر پابندیاں لگا دی جاتیں ہیں۔ تعلیمی نصاب کو بدل دیا جاتا ہے۔ تاریخ کو مسخ کر کے قومی راہنماؤں کو ہیروز کا درجہ دے کر اُن پر ہر قسم کی تنقید ممنوع کر دی جاتی ہے۔ اَدب، آرٹ، تھیٹر اور موسیقی بے جان ہو کر سطحی ہو جاتی ہے۔ جب کسی بھی سوسائٹی میں طبقاتی فرق بڑھ جائے، تو اس کے نتیجے میں اشرافیہ نہ صرف دولت اکٹھی کرتی ہے بلکہ مراعات یافتہ بھی بن جاتی ہے۔ جبکہ عوام اپنی عزت اور وقار سے محروم ہو کر غربت اور عسرت کی زندگی گزارتے ہیں۔ اس لیے اُن میں کبھی کبھی یہ سوال پیدا ہوتا کہ کیا یورپی سامراج کی غلامی اچھی تھی یا اپنوں کی۔Howard university کے ایک پروفیسر Nile Ferguson کا کہنا ہے کہ ایشیا اور افریقہ کے نو آزاد ممالک اپنی حالت کو بدلنے کے اہل نہیں ہیںٰ اس لیے مغربی سامراج کی ذمہ داری ہے کہ وہ دوبارہ ان پر قبضہ کر کے ان کی اصلاح کریں، اور اِنہیں جدید دور میں داخل کریں۔
لیکن کچھ ناکام ریاستوں نے کامیاب ہو کر مغرب کی بہت سی غلط فہمیوں کو دُور کیا ہے۔ مثلاً سنگاپور جو ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے اُس نے کلونیل دور کے تمام نشانات کو مِٹا کر اپنا ایک ایسا نظام قائم کیا، جو بہت سے یورپی مُلکوں سے بہتر ہے۔ جنوبی کوریا نے اپنی تبدیلی کا آغاز آمریت سے کیا تھا مگر پھر اسے جمہوریت میں بدلا اور صنعتی ترقی نے اسے خوشحال بنایا۔
ملائیشیا نے بھی اصلاحات کے ذریعے اپنی ناکامی کو ختم کیا۔اب سوال یہ ہے کہ پاکستان کو کامیاب ہونے کے لیے کونسی پالیسی اختیار کرنا ہو گی۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ قوم کی ترقی کے لے ضروری ہے کہ اُسے ماضی کی زنجیروں کو توڑنا ہو گا اور ماضی کا حصہ ہوں یا کلونیل دور کی پیداوار ان سب کا خاتمہ کر کے موجودہ حالات کے مطابق سیاسی اور معاشی اور سماجی نظام کو تشکیل کرنا ہو گا۔
جدید روایات اُسی وقت معاشرے میں آئیں گی جب اُن کے لیے خالی جگہ ہو گی۔ قدیم اور جدید مِل کر ساتھ نہیں رہ سکتے ہیں۔دونوں امریکی مصنفین نے قوموں کی ناکامی کا جو تجزیہ کیا ہے اُسے پاکستان کی اشرافیہ اور سیاسی جماعتوں کے لیے پڑھنا ضروری ہے تا کہ وہ مُلک کو بحرانوں سے نکال سکیں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔