انصاف کا بول بالا ہوا، عمران خان اپنی بے گناہی ثابت نہیں کرسکے، وفاقی حکومت
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
انصاف کا بول بالا ہوا، عمران خان اپنی بے گناہی ثابت نہیں کرسکے، وفاقی حکومت WhatsAppFacebookTwitter 0 17 January, 2025 سب نیوز
اسلام آباد:وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاتارڑ نے بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کے خلاف 190 ملین پاؤنڈ کیس کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا فیصلہ ہے جس میں اربوں روپے کا ڈاکہ مارا گیا جس سے راہ فرار اختیار نہیں کی جاسکتی، انصاف کا بول بالا ہوا، بانی پی ٹی آئی عمران خان اپنی بے گناہی ثابت نہیں کر سکے۔
اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر وفاقی وزیر قانون کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وکیل صفائی بے گناہی کے ثبوت نہیں پیش کرسکے اور نہ کرپشن کا خاطر خواہ جواب دیا گیا، چند دنوں سے گِھناؤنے جرم کو مذہب کارڈ کے پیچھے چھپانے کی کوشش کی گئی، کیس کو سیاسی بنیادوں اور میڈیا پر لڑا گیا۔
عطاتارڑ نے کہا کہ پی ٹی آئی ہر جگہ مذہب کارڈ اور ریاست مدینہ کا نام استعمال کرتی ہے، ان سب چیزوں کو ایک طرف رکھ کر قانونی طور پر جواب دیا جائے، 190 ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ سب سے بڑا ڈاکہ ہے جس سے راہ فرار نہیں اختیار کی جاسکتی۔
وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ آج انصاف کا بول بالا ہوا ہے، یہ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا فیصل ہے، پی ٹی آئی کو اپیل کا حق حاصل ہے لیکن اس سے قبل یہ ثابت کرنا ہوگا کہ کرپشن نہیں کی۔
ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی مذہب کو اپنی کرپشن، گھناؤنے جرائم کو چھپانے کے لیے استعمال نہ کرے، سزا بالکل قانون اور ثبوت کے مطابق ہے، آج کے بعد پاکستان میں اتنی میگا کرپشن کرتے ہوئے کئی بار سوچا جائے گا۔
اس موقع پر وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ بند لفافے میں ایک دستاویز لائی گئ، ہر معاملے کو سیاست سے جوڑنا درست نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے فیصلے میں بڑے تحمل کا مظاہرہ کیا، شہزاد اکبر نے کہا یہ ایک خفیہ معاہدہ تھا، غیرقانونی طور پر وطن سے بھیجا گیا پیسہ عوام کا ہوتا ہے۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ہر چیز کو سیاست سے جوڑنا غیر مناسب ہے، یہ کریمنل کیس تھا، ملکوں کے نظام آئین، ضابطے اور قانون کے تحت چلتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بند لفافے میں ایک دستاویز لائی گئی، شہزاد اکبر صاحب نے کہا یہ ایک خفیہ معاہدہ ہے، کہا گیا یہ معاہدہ کریں گے تو 190 ملین پاؤنڈ حکومت پاکستان کو منتقل کر دی جائے گی، یہ جانتے ہوئے اپروول لی گئی کہ یہ رقم حکومت پاکستان کو نہیں آ رہی۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ نیشنل کرائم ایجنسی کو بتایا گیا یہ سپریم کورٹ کا اکاؤنٹ ہے۔
رہنما مسلم لیگ ن طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ سزا کے بعد این آر اور کا تاثر ختم ہوگیا، یہ کوشش کر رہے تھے کہ مذاکرات کی آڑ میں این آر او مل جائے، بانی پی ٹی آئی نے بشریٰ بی بی کو فرنٹ مین بنایا تھا، آخر کار ان کا اصل چہرہ سامنے آ گیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے معاشی مسائل، دہشتگردی پر ضرور مذاکرات ہونے چاہئیں، مسائل کے حل کیلئے بالکل بات چیت ہونی چاہیے۔
قبل ازیں راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قائم احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا نے 190 ملین پاؤنڈ کے ریفرنس میں بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کو مجرم قرار دیتے ہوئے 14 سال اور ان کی اہلیہ مجرمہ بشریٰ بی بی کو 7 سال قید کی سزا سنائی، جس کے بعد بشریٰ بی بی کو کمرہ عدالت سے گرفتار کرلیا گیا۔
احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا نے عمران خان پر 10 لاکھ اور بشریٰ بی بی پر 5 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا، جرمانے کی عدم ادائیگی پر عمران خان کو مزید 6 ماہ جب کہ مجرمہ بشریٰ بی بی کو 3 ماہ کی قید کی سزا بھگتنا ہوگی۔
علاوہ ازیں احتساب عدالت نے القادر یونیورسٹی کو بھی سرکاری تحویل میں لینے کا حکم جاری کر دیا ہے۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: بے گناہی
پڑھیں:
ججز سنیارٹی کیس میں وفاقی حکومت نے جواب جمع کروا دیا
—فائل فوٹوججز سنیارٹی کیس میں وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کروا دیا۔
وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز سمیت دیگر کی تمام درخواستیں خارج کرنے کی استدعا کر دی۔
وفاقی حکومت نے جمع کروائے گئے جواب میں کہا ہے کہ ججز کا تبادلہ آئین کے مطابق کیا گیا ہے، ججز کو تبادلے کے بعد نیا حلف لینا ضروری نہیں، آرٹیکل 200 کے تحت تبادلے کا مطلب نئی تعیناتی نہیں ہوتا۔
اسلام آباد عدالت عظمیٰ کے آئینی بینچ نے اسلام...
حکومت نے کہا کہ ججز کا تبادلہ عارضی ہونے کی دلیل قابل قبول نہیں، آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ ججز کا تبادلہ عارضی ہوگا، ججز کے تبادلے سے عدلیہ میں شفافیت آئے گی نہ کہ عدالتی آزادی متاثر ہو گی، جوڈیشل کمیشن نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں 2 ججز تعینات کیے 3 آسامیاں چھوڑ دیں۔
وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ وزارت قانون نے 28 جنوری کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز تبادلے کی سمری بھیجی، ججز تبادلے کے لیے صدر کا اختیار محدود جبکہ اصل اختیار چیف جسٹس آف پاکستان کا ہے، ججز تبادلے میں متعلقہ جج اور ہائی کورٹس کے چیف جسٹس اصل بااختیار ہیں۔