Daily Ausaf:
2025-01-18@10:03:22 GMT

امام اہلسنت حضرت مفتی احمدالرحمن نوراللہ مرقدہ

اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT

اپنے محسنوں کی یاد منانا زندہ قوموں کا شیوہ رہا ہے، جو قوم اپنے محسنوں کو بھول جائے زمانہ اسے اپنی ٹھوکروں پہ رکھ لیا کرتاہے ،ان کا شمار بھی اس قوم کے محسنوں میں ہوتا ہے،وہ چونکہ خود بھی صوفی باصفا عالم باعمل اور دین اسلام کے سچے سپوت تھے،اس لئے ان کے عہد اہتمام میں ان کے جامعہ سے پڑھ کر نکلنے والے اسلامی اسکالرز اور علماء نے علم کی دولت بانٹنے کے ساتھ ساتھ دنیا کو حریت و آزادی کے نغمے بھی سنائے ،وہ جامعہ بنوری ٹائون کے ایسے جرات و غیرت والے مہتمم بالشان تھے کہ ان کے بعد ان جیسا نہ دیکھا اور نہ ہی سنا،ان کی وفات کو 33 برس بیت گئے ، لیکن 33 برس قبل انہوں نے مجھ جیسے گہنگار پر جو شفقتیں فرمائیں، وہ آج بھی مجھے یاد ہیں وہ علم و تصوف اور جہاد کا حسین امتزاج تھے، ہزاروں علماء کے استاد اور مجاہدین کے روحانی باپ تھے ، انسانیت کا درد رکھنے والے امام اہلسنت مفتی احمد الرحمن نور اللہ مرقدہ کے حوالے سے ان کے فرزند ارجمند عزیزم مفتی حذیفہ رحمانی نے بالکل درست لکھا کہ ’’حضرت مفتی احمد الرحمن کی پیدائش 6 رجب کی اور وفات 14 رجب کی ہے، یہ آٹھ روز کا سفر ان کا مظاہرالعلوم سہارنپور کے علمی اور روحانی مرکز سے شروع ہوکر 52 سال کے بعد عالم اسلام کے بین الاقوامی مرکز جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹائون میں ناناجان محدث العصر علامہ سید محمددیوسف بنوری نوراللہ مرقدہ کے ’’حیاومیتا‘‘ جانشین کے خطاب کے ساتھ ایسا اختتام پذیر ہوا کہ تاقیامت اپنے شیخ و مربی کے پہلو میں ان کو محواستراحت کردیا۔‘‘
حضرت یوسف بنوری ؒکی دوراندیش نظر و فراست نے نوجوانی میں ان کی صلاحیتوں کو پہچان کر ان کو اپنا جانشین بنایا، پھر دنیا نے مدرسہ عربیہ اسلامیہ کو جامعہ علوم الاسلامیہ اور نیوٹائون کوعلامہ بنوری ٹائون بنتے دیکھا اور اب دنیا اس ادارے کو جامع العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹائون کے نام سے تاقیامت یاد کرے گی۔چودہ سال کے قلیل عرصے میں ’’مدرسہ عربیہ اسلامیہ‘‘ جہاں’’جامعہ علوم اسلامیہ‘‘ کے نام سے تمام دینی علوم اور تحریکات کا عالمی مرکز بنا، وہیں پاکستان اور بیرون کے سینکڑوں مدارس و مکاتب کے وجود میں آنے کا ذریعہ بن گیا، یہ سب حضرت بنوریؒ کے اخلاص کا ثمرہ اور ان کی نظر فراست کا نتیجہ ہے، 14 رجب المرجب 1411ھ اکتیس جنوری 1991ء کا دن مفتی احمد الرحمن کی رحلت کی خبر غم لئے طلوع ہوا، ہر فرد اس ناگہانی خبر سے غم میں ڈوب ڈوب چکا تھا، کوئی اس خبر کو جھٹلانا چاہ رہا تھا، لیکن قضا آ چکی تھی، فیصلہ ہو چکا تھا، وہ دن والد صاحب کی میت حتیٰ کہ قبر میں اترتے دیکھ کر بھی ایک سات سال کے بچے کے لئے چھٹی کے دن اور ایک ایونٹ کے سوا کچھ نہ تھا، جو یتیم ہونے کو مطلب نہیں سمجھتا تھا، لیکن گزرتے وقت نے اس کو سارے معانی سمجھا دئیے کہ باپ بچھڑ جانا اور سر سے اس کے سایہ کے اٹھ جانے کا مطلب تپتی دھوپ، چبھتے کانٹوں اور اندھیرے راستوں کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن اللہ کی بھی اپنی شان ہے، اس نے والد مرحوم کی دعائوں کا ثمرہ ہمیں عطا فرمایا۔ والد صاحب اپنے شیخ و سسر حضرت المحدث البنوریؒ کے حکم پر جب سب کچھ قربان کردیتے ہیں اور دنیا بے سروسامانی کے عالم میں رخصت ہوتے ہیں تو یہ صرف ان کے لئے دنیا و آخرت کے سرخروئی ہی کا باعث نہیں بنا بلکہ ان کی اولاد کی دینی تعلیم و تربیت کا باعث بنا، فللہ الحمد، مفتی احمد الرحمنؒ ، حضرت حکیم الامت ؒکے خلیفہ اجل، تلمیذ شیخ الہند و سہارنپوری حضرت مولانا عبدالرحمن کاملپوریؒ کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے اور سہارنپور میں 6 رجب 1358ھ مطابق 22 اگست 1939ء کو پیدائش ہوئی۔ ابتدائی تعلیم وہاں اور پھر تقسیم کے بعد دادا جان کی سرپرستی میں خیر المدارس اور تعلیم القرآن راولپنڈی میں رہی اور 1958-59ء میں تکمیل و تخصص کے لئے حضرت اقدس عبد الرحمن کاملپوری نے کراچی حضرت بنوریؒ کے پاس بھیجا تو فرمایا کہ اپنا بیٹا آپ کے سپرد کر رہا ہوں اور حضرت بنوریؒ نے جب والد صاحب کو دامادی کے لئے چنا تو مولانا کا ملپوریؒ کے پاس گئے اور فرمایا کہ لوگ بیٹی لینے آتے ہیں، میں بیٹا لینے آیا ہوں۔
مفتی احمد الرحمن پر اپنے استاذ و شیخ کا بہت اثر تھا اور ان کی عقیدت، محبت اور احترام کا اندازہ کچھ احوال و واقعات سے لگایا جا سکتا ہے۔حذیفہ رحمانی لکھتے ہیں کہ والد اور والدہ دونوں پشتو گھرانے سے تھے، لیکن شادی تک والدہ صاحبہؒ کو پشتو نہیں آتی تھی، فرماتی تھیں کہ میرے سامنے کوئی پشتو میں بات کرتا تو مجھے سکتہ سا ہوجاتا، اسی بنا پر نانا جان حضرت بنوریؒ نے والد صاحب سے فرمایا کہ اس کے ساتھ اردو میں بات کرنا، اس کو پشتو نہیں آتی، بعد میں والدہ صاحبہ کو پشتو آبھی گئی، لیکن عام انداز و لہجے میں بطور مشورہ شیخ و استاذ کے منہ سے نکلی بات کو تادم مرگ، حکم سمجھ کر اپنے لئے باعثِ سعادت سمجھا اور بعد میں والدہ صاحبہ کو پشتو آجانے کے باوجود ان کے ساتھ پشتو میں بات نہیں کی۔شیخ کی محبت اور عقیدت تھی کہ چھوٹے ماموں جان جامعہ کے موجودہ مہتمم استاذ حضرت سید سلیمان بنوری دامت برکاتہم العالیہ کی تکمیل قرآن مجید کی ایسی عظیم الشان تقریب والد صاحب نے منعقد کی کہ جامعہ میں نہ اس سے پہلے کسی کے لئے ایسی تقریب ہوئی اور نہ شائد آئندہ ہوسکے اور والد صاحب کا خوشی سے تمتماتا چہرہ ان کے حوالے سے میری چند یاد داشتوں میں آج بھی محفوظ ہے۔
حضرت یوسف بنوریؒ نے کبار اساتذہ و مشائخ سے مشاورت اور استخارہ کر کے مفتی احمد الرحمن کو جب اپنا جانشین مقرر کیا تو ساتھ ہی یہ حکم بھی تحریر فرمایا کہ آپ کو سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنی ہوگی، والد صاحب نے شیخ کے حکم کی تعمیل میں سب کچھ چھوڑ کر جامعہ کے لئے جو اس وقت مدرسہ عربیہ اسلامیہ تھا، اپنے آپ کو وقف کردیا، پھر یہ مدرسہ عربیہ اسلامیہ جامعہ علوم اسلامیہ میں عالمی مرکز بن کر ابھرا اور جب کچھ بدخواہوں کو نام و نسبتِ بنوری سے چِڑ ہونے لگی تو والد صاحب نے نہ صرف علاقے کا نام نیو ٹائون سے علامہ محمد یوسف بنوری ٹائون کروایا بلکہ پوری دنیا میں اس نام و نسبت سے مراکز دینیہ کا قیام فرما کر شیخ کے نام کو چار دانگ عالم میں پھیلا دیا۔جامعہ کے ناظم تعلیمات حضرت مولانا امداد اللہ یوسفزئی دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں کہ سواد اعظم تحریک میں باوجود بڑے بڑے نامور علماء و صلحاء کے مفتی صاحب ؒ جیسی کوئی ایسی شخصیت نہ تھی جن پر سب کے سب متفق ہوتے، اسی لئے متفقہ طور پر علماء کی طرف سے حضرت مفتی صاحب کو امام اہلسنت کے لقب سے نوازا گیا تھا مولانا عزیز الرحمن رحمانی جو حضرت مفتی احمد الرحمن کے بڑے صاحبزادے اور جانشین ہیں، کو مفتی احمد الرحمنؒ نے وفات سے تقریباً ایک ہفتہ قبل جو وصیت فرمائی میں سے ایک کا ذکر اس لئے ضروری ہے تاکہ آج کے ماحول میں دین کا کام کرنے والے بھی اس سے نصیحت حاصل کر سکیں، فرمایا کہ ’’دین کا کام کرنا چاہتے ہو تو اختلافات سے بچ کر کام کرنا، تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اختلافات میں الجھ کر دین کی محنت کماحقہ نہیں ہو پاتی‘‘ اللہ تعالیٰ حضرت رحمہ اللہ کے درجات بلند فرمائے ان کی قبر کو روضۃ من ریاض الجنہ بنائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ہمیں ان کے نقش قدم چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: مدرسہ عربیہ اسلامیہ بنوری ٹائون جامعہ علوم حضرت مفتی والد صاحب کے ساتھ کو پشتو کے لئے

پڑھیں:

ڈنکی لگاکربیرون ملک جانا غیرشرعی ہے ،جامعہ نعیمیہ

لاہور(اے پی پی) جامعہ نعیمیہ کی طرف سے جاری فتویٰ میں بتایا گیا ہے کہ ڈنکی لگاکربیرون ملک جانا قانونی ،شرعی لحاظ سے جائز نہیں،بیرون ملک جانے والے افراد قانونی طریقہ اورمحفوظ راستہ اختیار کریں۔غیر قانونی کام کے پیسے لینا ایجنٹ حضرات کے لئے جائز نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ڈنکی لگاکربیرون ملک جانا غیرشرعی ہے ،جامعہ نعیمیہ
  • جامعہ الفلاح کی سالانہ تقریب کل ہوگی
  • فٹبالر نانی نے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کر لیا
  • کراچی؛ ڈمپر نے بچی  سے جینے کا حق چھین لیا، 6 سالہ تانیہ جاں بحق
  • مولانا محمد شفیع اوکاڑوی کے 42 ویں سالانہ عرس کی تیاریاں مکمل
  • عقیدہ ختم نبوتؐ ہمارے ایمان کی اساس ہے،مفتی شیر محمد
  • یوم ولادت باسعادت امام علیؑ، گورنر ہاؤس سندھ میں کیک کٹنگ کی تقریب
  • حکومت پاراچنار کیلئے مولانا فضل الرحمن کی خدمات حاصل کرے، مولانا امین انصاری
  • گورنر سندھ کی جعفریہ الائنس کے تحت حضرت علیؓ کی یومِ ولادت کی تقریب میں شرکت