اسلام آباد:سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ 9 مئی کا جرم تو ہوا ہے، عدالتی فیصلہ میں نو مئی جرم پر کلین چٹ نہیں دی گئی۔ سوال ٹرائل کا ہے کہ ٹرائل کہاں پر ہوگا۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کی، وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے۔
وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے دلائل میں کہا کہ آرمی ایکٹ اور رولز میں فیئر ٹرائل کا مکمل پروسیجر فراہم کیا گیا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آپ ملٹری ٹرائل کے کس فیصلے سے اتفاق کرتے ہیں؟
وزارت دفاع کے وکیل نے کہا کہ میں کسی فیصلے کے ساتھ اتفاق نہیں کرتا۔ جسٹس عائشہ ملک نے سیکشن 2 ون ڈی ون کو فیئر ٹرائل کے منافی قرار دیا جبکہ جسٹس آفریدی نے قانونی سیکشنز پر رائے نہیں دی۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ قانونی سیکشنز پر لارجر بینچز کے فیصلوں کا پابند ہوں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ 21 ویں ترمیم میں فیصلے کی اکثرت کیا تھی؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ 21ویں ترمیم کا اکثریتی فیصلہ 8 ججز کا ہے، 21 ترمیم کو اکثریت ججز نے اپنے اپنے انداز سے ترمیم کو برقرار رکھا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 21ویں ترمیم کو 8 سے زیادہ ججز نے درست قرار دیا۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ملٹری ٹرائل سے متعلق سپریم کورٹ کا لیاقت حسین کیس کا فیصلہ 9 ججز کا ہے، لیاقت حسین کیس میں ایف بی علی کیس کی توثیق ہوئی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 21ویں ترمیم کیس میں اکثریت ججز نے ایف بی علی کیس کو تسلیم کیا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا 21ویں ترمیم کیس میں کسی جج نے ایف بی علی کیس پر جوڈیشل نظر ثانی کی رائے دی؟ وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے بتایا کہ کسی جج نے نہیں کہا کہ ایف بی علی فیصلے پر جوڈیشل ریویو ہونا چاہیے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے 9مئی ملٹری ٹرائل پر رائے دی آرمی ایکٹ کی شقوں پر فیڈریشن کو مکمل سنا ہی نہیں گیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ کیا آرمی ایکٹ کی شقوں پر اٹارنی جنرل 27 اے کا نوٹس دیا گیا تھا، جسٹس یحییٰ آفریدی صاحب کے نوٹ سے تو لگتا ہے اٹارنی جنرل کو سنا ہی نہیں گیا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے دلائل میں کہا کہ بینچ نے اٹارنی جنرل کو کہا تھا دلائل آرمی ایکٹ کی شقوں کے بجائے نو اور دس مئی واقعات پر مرکوز رکھیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ یہ تو عجیب بات ہے، پہلے کہا گیا آرمی ایکٹ کی شقوں پر بات نہ کریں، پھر شقوں کو کالعدم بھی قرار دے دیا گیا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے تو عدالت میں کھڑے ہو کر کہا تھا ہم نے آرمی ایکٹ کی شقوں کو چیلنج ہی نہیں کیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ویڈیو لنک پر موجود فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ نے یہ بات سن لی ہے۔
ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے کہا کہ جی میں نے کہا تھا کیس کو آرمی ایکٹ کے بجائے آئین کے تحت دیکھا جائے، نو مئی واقعات کے خلاف دیگر درخواستیں دائر کی گئیں جن میں آرمی ایکٹ کی شقوں کو چیلنج کیا گیا تھا۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ آرمی ایکٹ کی شق ٹو ون ڈی ون اور ٹو ون ڈی ٹو کو کالعدم قرار دینے سے قبل فیڈریشن کو مکمل شنوائی کا حق ملنا چاہیے تھا، عدالت کا فوکس نو اور دس مئی واقعات پر تھا نہ کہ آرمی ایکٹ کی شقوں پر۔ احتجاج اور حملہ میں فرق ہے۔
جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ 21 جولائی 2023 کے آرڈر میں صرف 9 مئی کی بات کی گئی ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 9 مئی کا جرم تو ہوا ہے، عدالتی فیصلہ میں نو مئی جرم پر کلین چٹ نہیں دی گئی۔ سوال ٹرائل کا ہے کہ ٹرائل کہاں پر ہوگا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جرائم قانون کی کتاب میں لکھے ہے، اگر جرم آرمی ایکٹ میں فٹ ہوگا تو ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہوگا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 21ویں ترمیم میں کہا گیا کہ سیاسی جماعتوں کے کیسز آرمی کورٹ میں نہیں چلیں گے۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ سیاسی سرگرمی کی ایک حد ہوتی ہے، ریاست املاک پر حملہ ریاست کی سیکیورٹی توڑنا سیاسی سرگرمی نہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 21ویں ترمیم کے بغیر دہشت گردوں کے خلاف ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکتا تھا۔ خواجہ حارث نے کہا کہ 21ویں ترمیم میں قانون سازی دیگر مختلف جرائم اور افراد پر مبنی تھی۔
جسٹس حسن رضوی نے ریمارکس میں کہا کہ پولیس اہلکار کی وردی پھاڑنا جرم ہے، یہاں کور کمانڈر لاہور کا گھر جلایا گیا، ایک دن ایک ہی وقت مختلف جگہوں پر حملے ہوئے۔ عسکری کیمپ آفیسز پر حملے ہوئے، پشاور میں ریڈیو پاکستان کی عمارت کو جلایا گیا۔
جسٹس حسن رضوی نے کہا کہ ماضی میں لوگ شراب خانوں یا گورنر ہاوس پر احتجاج کرتے تھے لیکن پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ مختلف شہروں میں ایک وقت حملے ہوئے، جرم سے انکار نہیں ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ پر حملہ ہوا تو ملٹری ٹرائل کیوں نہ ہوا، پارلیمنٹ سب سے سپریم کورٹ ہے۔ کیا پارلیمنٹ خود پر حملے کو توہین نہیں سمجھتی۔
جسٹس حسن رضوی نے کہا کہ سپریم کورٹ پر بھی حملہ ہوا وہ بھی سنگین تھا، سپریم کورٹ کو بھی شامل کریں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ یہاں بات 2 ون ڈی ون کی ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ ایک آرمڈ پرسنل اور چھ سویلین اگر کوئی قتل کر دیں، تو سویلین کا ٹرائل الگ چلے گا، آرمڈ پرسنل کی کورٹ مارشل کی کارروائی ہوگی۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ نومئی واقعات میں جہاں حملے ہوئے کیا وہ ممنوعہ جگہ تھی، یہ حقائق کا سوال ہے، حملہ کرنے والوں کی نیت کیا تھی یہ بھی حقائق کا سوال ہے، سپریم کورٹ حقائق کا جائزہ نہیں لے سکتی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ہم نے نومئی واقعات میں سزا یافتہ کسی شخص کو اپیل کرنے یا رحم کی اپیل کرنے سے روکا نہیں۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ ایسا مواد تو دکھا سکتے ہیں، اندر گھس کر حملے کرنے والوں کے کارنامے تھے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم نے تصویری ثبوت بھی دیے ہیں۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ تصاویر میں پراپرٹی کا نقصان تو نظر آرہا ہے، کیا کوئی ڈیفنس پرسنل زخمی ہوا یا خدا نہ خواستہ کسی کی موت ہوئی۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ حملہ کرنے والے مسلح ہو کر حملہ آور ہوئے، مسلح افراد کے ہاتھوں لوگ زخمی بھی ہوئے، اس حوالے سے مزید عدالتی معاونت بھی کروں گا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ایف آئی آر میں درج سول جرائم کے ٹرائل کا کیا بنا، 9 مئی کے وقت میں چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ تھی، کینٹ کی طرف جانے والی روڈ پر شدید فائرنگ ہو رہی تھی۔ مجھے پولیس والوں نے آگے جانے سے روک دیا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ اس وقت معاشرے میں خوف پھیلایا گیا، وہاں ایک اسلحے کی دکان کو لوٹا گیا، اس دکاندار کا نقصان ہوا، اس دکان پر چوری کی واردات کے ٹرائل کا کیا ہوا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ایک ایف آئی آر میں 18 سیکشنز لگے تھے، 18 میں تین جرائم ملٹری کورٹ سے متعلقہ تھے، باقی 15 جرائم کا ٹرائل کہاں پر ہوا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ باقی جرائم کا ٹرائل بھی ملٹری کورٹ کرے گی۔
سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلنز ٹرائل کا مقدمہ پیر تک ملتوی کر دیا۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ پیر کو پورا دن سنیں گے۔ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ اگر ممکن ہو تو کیس کو منگل تک لے جائیں۔
جسٹس نعیم افغان نے کہا کہ ہم سارے مقدمات ڈی لسٹ کر چکے ہیں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ خواجہ صاحب آپ کیس مکمل کرنے کا ہر روز وعدہ کرتے ہیں پھر توڑ دیتے ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: جسٹس محمد علی مظہر نے ا رمی ایکٹ کی شقوں پر اٹارنی جنرل ملٹری ٹرائل سپریم کورٹ ٹرائل کہاں نے کہا کہ ا مئی واقعات وزارت دفاع ایف بی علی حملے ہوئے ٹرائل کا نہیں دی میں کہا

پڑھیں:

سویلینز کے ملٹری ٹرائل کیخلاف سپریم کورٹ میں انٹراکورٹ اپیل پر سماعت

ویب ڈٰسک: فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف سپریم کورٹ میں انٹراکورٹ اپیل پر سماعت جاری ہے۔

 جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بنچ کیس کی سماعت کر رہا ہے، بنچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل ہیں جبکہ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث دلائل دے رہے ہیں۔

 دوران سماعت دلائل دیتے ہوئے وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ آرمی ایکٹ اور رولز میں فیئرٹرائل کا مکمل پروسیجر فراہم کیا گیا ہے جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آپ ملٹری ٹرائل کے کس فیصلہ سے اتفاق کرتے ہیں؟جسٹس منیب، جسٹس عائشہ اور جسٹس آفریدی کا الگ الگ فیصلہ ہے۔

طلبہ کے روشن مستقبل کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھایا جائے گا، مریم نواز

 خواجہ حارث نے جواب دیا کہ میں کسی فیصلےکیساتھ اتفاق نہیں کرتا، جسٹس عائشہ ملک نے سیکشن 2 ون ڈی ون کو فیئر ٹرائل کے منافی قرار دیا، جسٹس آفریدی نے قانونی سیکشنز پر رائے نہیں دی، جسٹس آفریدی نے کہا کہ قانونی سیکشنز پر لارجر بنچز کے فیصلوں کا پابند ہو۔

 جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ 21 ویں ترمیم میں فیصلہ کی اکثرت کیا تھی؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ اکثریت 9 ججز سے بنی تھی، 21 ویں ترمیم کا اکثریتی فیصلہ 8 ججز کا ہے، 21 ویں ترمیم کو اکثریت ججز نے اپنے اپنے انداز سے برقرار رکھا،اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ 21 ویں ترمیم کو 8 سے زیادہ ججز نے درست قرار دیا،خواجہ حارث بولے کہ ملٹری ٹرائل سے متعلق سپریم کورٹ کا لیاقت حسین کیس کا فیصلہ نو ججز کا ہے، لیاقت حسین کیس میں ایف بی علی کیس کی توثیق ہوئی۔

لاکھوں مالیت کی منشیات کی ترسیل ناکام ، 2ملزم گرفتار

 جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس میں کہا کہ 21 ویں ترمیم کیس میں اکثریت ججز نے ایف بی علی کیس کو تسلیم کیا ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا 21 ویں ترمیم کیس میں کسی جج نے ایف بی علی کیس پر جوڈیشل نظر ثانی کی رائے دی۔

 خواجہ حارث نے جواب دیا کہ کسی جج نے نہیں کہا کہ ایف بی علی کیس کے فیصلے کا جوڈیشل ریویو ہونا چاہیے۔
 

متعلقہ مضامین

  • عدالت نے 9 مئی جرم پر کلین چیٹ نہیں دی ،سوال یہ ہے ٹرائل کہاں ہوگا؟ آئینی بینچ
  • 9مئی جرم پر کلین چٹ نہیں دی، سوال یہ ہے کہ ٹرائل کہاں ہوگا؟، سپریم کورٹ
  • عدالت نے 9 مئی جرم پر کلین چیٹ نہیں دی، سوال یہ ہے کہ ٹرائل کہاں ہوگا؟ آئینی بینچ
  • 9 مئی کا جرم تو ہوا ہے، سوال ٹرائل کا ہے کہ کہاں ہو گا؟ جسٹس جمال مندوخیل
  • سویلینز کے ملٹری ٹرائل کیخلاف سپریم کورٹ میں انٹراکورٹ اپیل پر سماعت
  • دیکھنا ہے ملٹری کورٹس ٹرائل میں شہادتوں پر فیصلہ کیسے ہوا،سپریم کورٹ
  • سپریم کورٹ، سویلینز کے اب تک کیے گئے ملٹری ٹرائلز کی تفصیلات طلب
  • عدالت دیکھنا چاہتی ہے ملٹری کورٹس ٹرائل میں شہادتوں پر کیسے فیصلہ ہوا، جسٹس حسن رضوی
  • اے پی ایس حملے میں گٹھ جوڑ موجود تھا،فوی عدالت میں ٹرائل کیوں نہیں ہوا،آئینی بینچ