80 کروڑ جیتنے والا دوبارہ نالیوں کی صفائی کا کام کیوں کرنے لگا؟
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
برطانیہ سے تعلق رکھنے والا 20 سالہ شخص 80 کروڑ روپے کی لاٹری جیتنے کے باوجود نالیوں کی صفائی کے کام پر جاکر سب کو حیران کردیا ہے۔
کارئل سے تعلق رکھنے والے 20 سالہ ٹرینی گیس انجینئر جیمز کلارکسن نے 7.5 ملین پاؤنڈ (تقریباً 80 کروڑ روپے) کا جیک پاٹ جیت کر سب کو دنگ کردیا۔
جیمز کی یہ جیت کافی شاندار تھی کیونکہ اس نے کرسمس پر نیشنل لاٹری میں 120 پاؤنڈز (تقریباً 12 ہزار 676 روپے) جیتے تھے اور اپنی انعامی رقم کو مزید ٹکٹوں کی خریداری میں لگادیا تھا۔
جیمز کلارکسن کی قسمت کا ستارہ اس وقت بہت فعال ہے کیونکہ اس کے خریدے ہوئے ٹکٹ پر 7.
جیمز کی غیرمتوقع کامیابی نے نہ صرف اس کے مالی مستقبل کو بدل دیا ہے بلکہ اس کے بنیادی رویے کو بھی نمایاں کیا ہے، کیونکہ اس نے راتوں رات کروڑ پتی بننے کے باوجود کام جاری رکھنے کے اپنے ارادے کا اظہار کیا ہے۔ جیمز کے اس رویے کو سراہا جارہا ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق جیمز نے بتایا کہ ’’میں برف باری کا جائزہ لینے کےلیے جلدی اٹھا تھا جب میں نے ایک پیغام دیکھا جس میں لکھا تھا کہ میں نیشنل لاٹری ایپ پر جیت گیا ہوں۔‘‘
’’مجھے یقین نہیں آیا؛ میں نے سوچا کہ میں خواب دیکھ رہا ہوں۔ ابھی صبح کے 7:30 بجے تھے، اس لیے سب سو رہے تھے۔ مجھے اتنا یقین نہیں تھا، اس لیے میں نے اپنے والد کو فون کیا کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ وہ جاگ رہے ہوں گے۔ انھوں نے مجھے سکون سے گھر آنے کو کہا۔
جیمز نے صبح 9 بجے دفاتر کھلتے ہی سب سے پہلے ممکنہ جیت کو رجسٹر کرنے کےلے قومی لاٹری کو لائن ملائی جہاں انھوں نے تصدیق کی کہ کلارکسن یہ لاٹری جیت چکے ہیں۔
تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ اتنی زبردست جیت کے باوجود جیمز پیر کی صبح اپنے پرانے کام پر واپس چلے گئے۔ انھوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں کام کرنا نہیں چھوڑوں گا۔‘‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’’کچھ لوگوں کو یہ پاگل پن لگ سکتا ہے لیکن میں کام چھوڑنے والا نہیں ہوں۔ میں ابھی چھوٹا ہوں اور ایک ہیٹنگ انجینئر کے طور پر اہل ہونا چاہتا ہوں۔‘‘
جیمز کا کہنا تھا کہ ’’مجھے زندگی میں ایک مقصد کی ضرورت ہے، اس کے علاوہ والد مجھے کسی بھی طرح کام کرنے نہیں دیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہاں بہت سارے کروڑ پتی ہیں جو اب بھی کام کرتے ہیں اور آپ کو ہر روز اٹھنے کےلیے ایک وجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
امریکی انتخابات نومبر میں مگر حلف برداری جنوری میں کیوں؟
امریکا میں نومبر کے مہینے میں ہونے والے انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کا اعلان ہوچکا ہے۔
تاہم نومنتخب صدر کی تقریب حلف برداری جنوری کی 20 تاریخ میں ہوگی جس کے بعد وہ وائٹ ہاؤس منتقل ہوکر جوبائیڈن کے بعد صدرات کا عہدہ سنبھالیں گے۔
مگر امریکا میں انتخابات اور حلف برداری کے درمیان 2 مہینے سے زیادہ کا وقفہ کیوں کیا جاتا ہے اور یہ روایت ان ممالک سے مختلف کیوں ہے جہاں انتخابات کے فوراً بعد اختیارات کی نئی حکومت کو منتقلی عمل میں آتی ہے؟
امریکا میں انتخابات اور حلف برداری دونوں کی تاریخ کا تعین آئین میں کردیا گیا ہے۔ اس کے مطابق امریکا میں صدارتی انتخابات نومبر کے پہلے منگل کے روز ہوتے ہیں اور حلف برداری کے ذریعے اختیارات کی منتقلی جنوری کی 20 تاریخ کو ہوتی ہے۔ اس کے پیچھے کئی ایک عوامل کارفرما ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:صدارتی انتخابات: امریکا کی 6 ریاستوں کا ٹائم زون مختلف، نتائج کے اعلان میں کتنی تاخیر ہو سکتی ہے؟
انتخابات کے نومبر میں ہونے کی ایک وجہ پہلے زمانے میں زرعی آبادیوں کی اس جمہوری عمل کا حصہ بننے کی حوصلہ افزائی کرنا تھی۔ یہ وہ مہینے ہوتا ہے جب امریکا کے دیہات میں فصلوں کی کٹائی ہوچکی ہوتی تھی اور کسانوں کی مصروفیات نسبتاً کم ہوتی تھیں جس کی وجہ سے وہ بڑی تعداد میں انتخابات میں حصہ لیتے تھے۔
اسی طرح منگل کے دن کی تخصیص کا مقصد یہ تھا کہ اس دن لوگوں کی مذہبی اور کاروباری مصروفیات کم ہوتی تھیں۔ امریکا میں لوگ اتوار کے دن چرچ جاتے ہیں اور بدھ کے دن پہلے زمانے میں مقامی مارکیٹیں کھلتی تھیں اور لوگ خریدوفروخت میں مصروف ہوتے تھے۔
حلف برداری کے لیے 1933 سے پہلے 4 مارچ کی تاریخ متعین تھی اور اس سے نئے بننے والے صدر کو اپنی کابینہ کا انتخاب کرنے اور حکومت کے لیے تیاری کرنے کا وقت ملتا تھا۔ اس زمانے میں ووٹوں کی گنتی، حکومت کی منتقلی کے دوران ہونے والے معاملات میں آمدورفت اور پیغامات کی ترسیل میں بھی بہت وقت لگتا تھا اس لیے کئی مہینوں پر محیط یہ وقفہ ضروری تھا۔
تاہم 1933 میں امریکی آئین میں 20ویں ترمیم کے بعد اس وقفے کو مختصر کرکے تقریب حلف برداری مارچ کے بجائے 20 جنوری کو کرنے کا فیصلہ ہوا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جدید ذرائعوں کی وجہ سے آمدورفت کے لیے درکار وقت میں کمی آئی تھی تو دوسری طرف اس لمبے وقفے کو بھی کم کرنے کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تھی جس میں جانے والا صدر نئی حکومت کے انتخاب کے بعد نسبتاً کم اختیارات کے ساتھ عہدے پر براجمان رہتا تھا۔
اس کے باوجود نئےصدر کے لیے عہدہ سنبھالنے کے لیے تیاری کی مہلت ضروری ہے جس کی وجہ سے امریکا میں نومبر میں ہونے والے انتخابات کے بعد حلف برداری جنوری کی 20 تاریخ کو ہوتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
inauguration us elections انتخابات