شفاف اور سماجی انصاف پر مبنی اسلامی بینکاری کا بڑھتا رجحان
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
پاکستان میں بینکاری کا شعبہ گزشتہ ایک دہائی سے بڑی تبدیلی کے دور سے گزر رہا ہے اور وہ تبدیلی ”سود سے پاک بینکاری“ یعنی ”اسلامی بینکاری“ ہے، جو پاکستان کے مالیاتی منظرنامے میں تیزی سے اپنی جگہ بنا رہی ہے، جس کا ثبوت اسلامی بینکوں کی تیزی سے ترقی ہے۔
شرعی اصولوں پر مبنی اسلامک بینکنگ کے اثاثے گزشتہ مالی سال کے اختتام پر 97 کھرب روپے کی سطح پر جا پہنچے ہیں، جو مجموعی بینکنگ سیکٹر کا 18.
اسلامی بینکوں کے نیٹ ورک میں تین گنا اضافہ ہوا ہے جن کی برانچوں کی تعداد 868 سے 2 ہزار 806 پر جا پہنچی، جب کہ روایتی بینکوں کی اسلامی شاخیں 391 فیصد اضافے سے 467 سے بڑھ کر 2295 ہوگئی ہیں۔ گزشتہ ایک دہائی میں کنونشنل بینکوں کی برانچوں میں 19.9 فیصد اضافہ دیکھا گیا، جن کی تعداد 9 ہزار 649 سے 11 ہزار 577 پر پہنچ گئی ہے۔
کچھ عرصہ قبل تک اسلامی بینکاری کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ یہ صرف مسلمانوں کےلیے مخصوص ہے، لیکن اب یہ تاثر ختم ہوتا جارہا ہے اور مسلمان تو مسلمان غیر مسلم بھی بڑی تیزی کے ساتھ اسلامی بینکاری اپنا رہے ہیں۔ اس وقت 100 سے زائد ممالک میں اسلامک بینکنگ ہورہی ہے۔ مصر، دبئی، ابوظہبی، سعودی عرب، کویت، بحرین، پاکستان جیسے مسلم ممالک کے ساتھ برطانیہ، بھارت، تھائی لینڈ، سنگاپور سمیت بہت سے غیر مسلم ممالک میں اسلامی بینکاری ہورہی ہے۔ اس کی وجہ شرعی اصولوں، اخلاقی طریقوں اور انصاف پر مبنی مالیاتی نظام ہے۔ جو ہر اُس شخص کےلیے پرکشش ہے جو شفافیت اور سماجی انصاف پر مبنی مالیاتی نظام کا متلاشی ہے۔
اسلامی بینک تمام عقائد اور پس منظر کے حامل صارفین کو خدمات فراہم کرتے ہیں اور ایسے بینکنگ پروڈکٹس پیش کرتے ہیں جو صارفین کے مفاد میں ہوتے ہیں، جیسے جیسے عالمی مالیاتی نظام ترقی کررہا ہے، ویسے ویسے اسلامی مالیاتی مصنوعات کی طلب بڑھتی جارہی ہے۔
کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ اسلامی بینکاری اور کنونشنل بینکنگ میں کوئی فرق نہیں اور یہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ جو غلط ہے۔ اسلامی بینک ایک ایسا مالیاتی ادارہ ہے جو اپنے معاملات کو شرعی احکامات کے مطابق انجام دیتا ہے جس میں سودی لین دین کی قطعی ممانعت ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ کنونشل بینکنگ کی طرح اسلامی بینکاری بھی ایک کاروبار ہے اور دونوں ہی فنانسنگ کے طریقے ہیں، تاہم اسلامک بینکنگ یا اسلامی طریقہ تجارت میں کچھ چیزوں کی اجازت دی گئی ہے اور کچھ کی ممانعت ہے۔
تجارت کے مختلف طریقے ہوتے ہیں۔ مثلاً خرید و فروخت، کرایہ داری، شراکت داری، سرمایہ کاری وغیرہ، لیکن اسلام نے ایک طریقے کو تجارت سے نکال دیا ہے اور وہ یہ کہ ”قرض دے کر پیسے سے پیسے کمانا“۔ یہ تجارت نہیں سود ہے۔ اور اسلام میں سود سے منع کیا گیا ہے۔ اسلامی بینک جامع لیکن مسابقتی مصنوعات پیش کرتے ہیں، جس میں رِبا (سود)، غرار (حد سے زیادہ غیریقینی) اور حرام (ممنوعہ) سرگرمیوں سے بچا جاتا ہے۔ بچت اکاؤنٹس، کاروبار، ہوم فنانسنگ، انویسٹمنٹ فنڈز اور تمام بینکاری مصنوعات مارکیٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے شرعی اصولوں کے مطابق بنائے جاتے ہیں۔ اسلامی بینک گھر، گاڑی و دیگر اشیاء اپنے صارفین کو کرایے پر دے کر منافع کماتے ہیں، جبکہ کنونشنل بینک اپنے صارفین کو قرض دے کر ایک خاص شرح سے سود لیتے ہیں۔
اسلامی بینکنگ میں کاروبار یا تجارت کے بہت سے طریقے ہیں، جن میں مضاربہ (نفع و نقصان میں شراکت داری)، مشارکہ (مشترکہ منصوبہ)، مرابحہ (لاگت + منافع)، اجارہ (کرایہ یا لیزنگ)، سَلَم (زرعی معاہدہ)، استصناع (مینوفیکچرنگ معاہدہ) وغیرہ اہم ہیں۔ یہ تمام صورتیں تجارت کی ہیں، جن سے ہر آدمی کی ضرورت پوری ہوتی ہے۔ پاکستان میں اس وقت اسلامک بینکنگ کے تین ماڈلز کام کررہے ہیں۔ مکمل اسلامی بینک، کنونشنل بینکوں کی اسلامی بینکاری کے ذیلی ادارے اور کنونشنل بینکوں کی اسلامی بینکنگ شاخیں۔ بینکنگ کا لائسنس الگ، شریعہ بورڈ الگ، قوانین الگ، شریعہ آڈٹ الگ اور فنانشنل آڈٹ الگ ہوتا ہے۔ صورت کوئی بھی ہو اسلامی بینکاری کا الگ ایک پورا نظام ہوتا ہے۔ یہ ایک ریگولیٹڈ سیٹ اَپ ہے، جسے اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) ریگولیٹ کرتا ہے۔
اسلامی بینک ہو یا کسی روایتی بینک کا اسلامک بینکنگ ونڈو یا اُس کا الگ سے اپنا اسلامی بینک، ان سب کی نگرانی شریعہ بورڈ کرتا ہے۔ اس کے علاوہ شریعہ کمپلائنس کا ایک مکمل نظام موجود ہوتا ہے جس کی متعدد تہہ ہوتی ہیں۔ بینک کا شریعہ بورڈ، شریعہ کمپلائنس کے شعبہ کے ذریعے شرعی اصولوں کی پاسداری کو یقینی بناتا ہے۔ شریعہ آڈٹ کا الگ سے نظام موجود ہوتا ہے جو کہ ایک منظم طریقے سے بینک کی جانب سے کی گئی سرگرمیوں کا آڈٹ کرتا ہے اور شریعہ بورڈ کے کسی حکم کی خلاف ورزی پائی جائے تو اسے شریعہ بورڈ کے علم میں لاکر خیرات کردیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ایس بی پی اور ایکسٹرنل آڈیٹر بھی اپنے اپنے نظام کے ذریعے شریعہ بورڈ کے احکام کی پاسداری کو یقینی بناتے ہیں۔
پاکستان میں متعدد اسلامی بینک ہیں جبکہ روایتی بینکوں نے بھی اسلامی بینکاری برانچیں اور ذیلی بینک قائم کیے ہیں۔ پاکستان میں روایتی بینکاری سے اسلامی پر منتقل ہونے کا عمل بھی تقویت پارہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال فیصل بینک ہے۔ جس کو دنیا میں روایتی بینکاری سے اسلامی پر منتقل ہونے والا ایک مکمل اور سب سے بڑا بینک قرار دیا جارہا ہے۔ فیصل بینک اسلامی بینکاری کو جدید انداز میں پیش کررہا ہے۔ فیصل بینک نے سب سے پہلے شرعی اصولوں کے مطابق نور کریڈٹ کارڈ متعارف کرایا ہے۔ فیصل بینک کے کامیابی سے روایتی بینکاری سے اسلامی پر منتقل ہونے کے بعد اب پاکستان میں دیگر بینکس بھی اپنے کاروبار کو شرعی اصولوں کے مطابق ڈھالنے پرکام کررہے ہیں۔ اور آنے والے دنوں میں متعدد بینکس روایتی سے اسلامی پر منتقل ہوچکے ہوں گے۔
جامع ریگولیٹری فریم ورک، جدید فنانشل پروڈکٹس اور شریعت کے مطابق بینکاری کی وجہ سے اسلامک بینکنگ تیزی سے ترقی کررہی ہے اور اس نے پاکستانی معیشت میں اپنی پوزیشن مستحکم کرلی ہے۔
پاکستان میں اسلامی بینکنگ کا ماڈل اُن ممالک کےلیے مشعل راہ ہے جو اسلامی بینکاری کو فروغ دینا چاہتے ہیں، کیونکہ یہ بات تو اب ثابت ہوچکی ہے کہ روایتی اور جدید مالیاتی طریقوں کا متوازن امتزاج ملکی اور عالمی سطح پر صارفین کو اُن کی ضروریات کے مطابق خدمات فراہم کرسکتا ہے۔
پاکستان میں تو ویسے بھی وفاقی شرعی عدالت نے بینکاری نظام کو دسمبر 2027 تک مکمل طور پر سود سے پاک کرنے کا حکم دے رکھا ہے، جس کی وجہ سے توقع ہے کہ پاکستان میں بینکاری نظام جلد ہی مکمل طور پر سود سے پاک ہوگا۔ انشاء اللہ!
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سے اسلامی پر منتقل اسلامی بینکاری اسلامک بینکنگ شرعی اصولوں روایتی بینک اسلامی بینک پاکستان میں فیصل بینک بینکوں کی صارفین کو کے مطابق ہوتا ہے ہے اور
پڑھیں:
عالمی بینک کا پاکستان کو 40 ارب ڈالرز کی فراہمی کا اعلان
عالمی بینک نے پاکستان کے لیے ایک دہائی طویل کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک کا اعلان کیا ہے جس کے تحت توقع ہے کہ ملک کو جامع اور پائیدار ترقی کو آگے بڑھانے کے لیے 40 ارب ڈالر کی اقتصادی مدد ملے گی۔
ورلڈ بینک گروپ بورڈز آف ایگزیکٹو ڈائریکٹرز نے منگل کو پاکستان کے لیے ایک دہائی طویل کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک کا اعلان کیا۔
یہ بھی پڑھیں: ورلڈ بینک نے فلڈ ریلیف کے لیے 45 کروڑ ڈالر کا اضافی قرضہ منظور کرلیا
عالمی بینک کے مطابق پاکستان کے لیے نئے فریم ورک میں 6 بڑے شعبے چنے گئے ہیں جن میں تعلیم، صحت کی دیکھ بھال، ماحولیاتی لچک اور مالیاتی انتظام بھی شامل ہیں۔
پاکستان کے لیے عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر، ناجی بنہاسین نے کہا ہے کہ پاکستان کے لیے ہمارا نیا دہائی طویل شراکت داری کا فریم ورک ملک کو درپیش کچھ انتہائی شدید ترقیاتی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے حکومت کے ساتھ ہمارے مشترکہ عزم کے تحت ایک طویل المدتی پروگرام ہے۔
انہوں نے کہا کہ پالیسی اور ادارہ جاتی اصلاحات کی حمایت جو نجی شعبے کی قیادت میں ترقی کو فروغ دیتے ہیں اور ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے درکار سرمایہ کاری کے لیے مالیاتی گنجائش پیدا کرتے ہیں۔
پاکستان کے اقتصادی امور ڈویژن کے ایک بیان کے مطابق ورلڈ بینک اور اس کے شراکت دار اداروں نے فریم ورک کے تحت مجموعی طور پر 40 ارب ڈالر کا وعدہ کیا ہے۔ اس میں انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ ایسوسی ایشن اور بین الاقوامی بینک برائے تعمیر نو اور ترقی سے 20 ارب ڈالر شامل ہیں، جبکہ اضافی 20 ارب ڈالر انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن سے آئے گا جو نجی شعبے کی ترقی پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔
مزید پڑھیے: ورلڈ بینک نے پاکستان کے لیے ایک ارب ڈالر قرض کی منظوری دے دی
منصوبوں کا مقصد صاف پانی، صفائی ستھرائی اور غذائیت کی خدمات تک رسائی کو بہتر بنا کر بچوں کی نشوونما کو کم کرنا ہے جبکہ بہتر بنیادی تعلیم کے ذریعے سیکھنے کی غربت کو بھی دور کرنا ہے۔
دیگر ترجیحات میں سیلاب اور آب و ہوا سے متعلق آفات کے خلاف لچک کو بڑھانا، خوراک اور غذائیت کی حفاظت کو بہتر بنانا، صاف توانائی اور بہتر ہوا کے معیار کو فروغ دینا اور ترقیاتی اخراجات کے لیے جگہ پیدا کرنے کے لیے مالیاتی انتظام کو بڑھانا شامل ہیں۔
دریں اثنا پاکستان اور افغانستان کے لیے آئی ایف سی کے کنٹری منیجر ذیشان شیخ نے ان شعبوں میں نجی شعبے کی شرکت کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ ہم سرمایہ کاری اور مشاورتی مداخلتوں کو ترجیح دینے پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں جو پاکستان کے پائیدار کے لیے اہم شعبوں میں نجی سرمایہ کاری کے لیے مدد کریں گے۔
ان منصوبوں میں ترقی اور روزگار کی تخلیق بشمول توانائی اور پانی، زراعت، فنانس تک رسائی، مینوفیکچرنگ اور ڈیجیٹل انفراسٹرکچر شامل ہیں۔
اس فریم ورک میں سماجی تحفظ کے جال کو بڑھانا، مالی شمولیت کو آگے بڑھانا اور کمزور آبادیوں بالخصوص خواتین کی حفاظت کے لیے ڈیجیٹل اور ٹرانسپورٹ کنیکٹیویٹی کو بڑھانا جیسے کراس کٹنگ اقدامات بھی شامل ہیں۔
سنہ 1950 میں پاکستان میں کام شروع کرنے کے بعد سے ورلڈ بینک گروپ نے آئی بی آر ڈی کے ذریعے 48.3 ارب ڈالر سے زیادہ کی امداد فراہم کی ہے۔ نجی شعبے کی قیادت میں ترقی کو آگے بڑھانے کے لیے آئی ایف سی کے ذریعے 13 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے اور کثیر جہتی سرمایہ کاری گارنٹی ایجنسی کے ذریعے 836 ملین ڈالر کی ضمانتیں فراہم کی ہیں۔
فی الحال پاکستان میں ڈبلیو بی جی کے پورٹ فولیو میں 17 ارب ڈالر کے کل عزم کے ساتھ 106 منصوبے شامل ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف کا خیرمقدمدریں اثنا وزیر اعظم شہباز شریف نے عالمی بینک کی جانب سے پاکستان کو 20 ارب ڈالر دینے کے وعدے کا خیر مقدم کیا ہے۔
مزید پڑھیں: ورلڈ بینک کی معاونت سے جاری منصوبوں میں ملازمت کے کیا مواقع ہیں؟
شہباز شریف نے کہا کہ عالمی بینک کے پاکستان کے لیے پہلے 10 سالہ کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک کے تحت 20 ارب ڈالر دینے کا وعدہ لائق تحسین ہے۔
انہوں نے کہا کہ ورلڈ بینک کی جانب سے ملنے والی خطیر رقم بچوں کی غذائیت، معیاری تعلیم، صاف توانائی، ماحولیات، جامع ترقی اور نجی سرمایہ کاری سمیت 6 اہم شعبوں پر توجہ مرکوز کرنے میں مدد دے گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاکستان کے لیے 40 ارب ڈالر کا اعلان عالمی بینک ورلڈ بینک امداد