Nai Baat:
2025-04-16@22:55:35 GMT

خدا خیر کرے

اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT

خدا خیر کرے

آتشزدگی سے تباہ ہونے والا شہر لاس اینجلس دنیا کے متمول ترین افراد کی بستیوں میں سے ایک ہے، اسے فرشتوں کا شہر بھی کہتے ہیں۔ دنیائے فلم کا سب سے بڑا مرکز ہالی وڈ بھی یہیں ہے جہاں اداکار، موسیقار، ہدایتکار اور فن کی مختلف اصناف سے تعلق رکھنے والے تخلیق کار بڑی تعداد میں مقیم ہیں، یہاں کے باسی اپنے آپ کو دیگر دنیا میں بسنے والوں سے ایک درجہ اوپر سمجھتے ہیں، ان کا طرز زندگی نمائشی ہے۔ یہاں کم سے کم مالیت کا چھوٹا سے چھوٹا گھر بھی کئی ملین ڈالر کا ہے جبکہ بڑے گھر کروڑوں ڈالر مالیت کے ہیں۔ یہ خواب بیچنے والا شہر ہے، تباہ کن آگ کے حوالے سے مختلف تھیوریاں سامنے آ رہی ہیں۔ جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ برسوں قبل یہاں سمارٹ سٹی بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا جہاں ہر وہ چیز میسر ہو جو اس وقت دنیا میں ایجاد ہو چکی ہے اور انسان کے کام آ سکتی ہے۔ اس شہر کی تعمیر 2030ء میں مکمل ہونا تھی لہٰذا اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے آگ کا کھیل رچایا گیا لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ اگر ایسا تھا بھی تو موجودہ شہر کو تباہ کرنے اور عمارتوں کو ملبے کا ڈھیر بنانے کی ضرورت کیا تھی۔ نیا شہر اور سمارٹ سٹی تو ایسا نہ کرنے کے باوجود تعمیر ہو سکتا ہے۔

ایک تصور یہ بھی موجود ہے کہ کبوتر کی سی معصومیت اور مور پنکھ کے رنگوں کے سنگھار سے آراستہ طوطے کی تیزی و طراری کا حامل اسی سائز کا ایک پرندہ ہے جو انتہائی جارحانہ مزاج رکھتا ہے۔ یہ پرندہ اگر کہیں آگ جلتی ہوئی دیکھ لے تو جلتی ہوئی ٹہنیاں اپنی چونچ میں پکڑ کر انہیں کہیں دور پھینک آتا ہے۔ وہ یہ عمل اس وقت تک جاری رکھتا ہے جب تک وہ تھک نہیں جاتا۔ عین ممکن ہے یہ پرندہ اپنی دانست میں جلتی ہوئی ٹہنیوں کو دور اس لئے پھینک آتا ہے کہ وہ اپنے قرب و جوار میں آگ کو پھیلنے سے روکنے کی کوششیں تو کرتا ہے یہ الگ بات ہے کہ اس کے اس عمل سے آگ دیگر علاقوں میں پھیل جاتی ہے۔ لاس اینجلس اور اس سے ملحقہ علاقوں میں یہ پرندہ ایسے کام کرتے اکثر پایا جاتا ہے، اسے پرندوں میں دہشت گرد یا تخریب کار سمجھا جاتا ہے۔ آگ لگنے سے ایک رات قبل ہالی ووڈ میں گولڈن ایوارڈ کی تقریب کا انعقاد ہوا جس میں فلمی دنیا کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد بڑی تعداد میں جمع تھے، نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کو ایوارڈ دیئے گئے۔ سٹیج پر آنے والے فنکاروں نے اپنے فنی سفر کے حوالے سے مختصر گفتگو کی۔ مبینہ طور پر ایوارڈ شو کی اینکر نے کہا جس شخصیت کو بھی ایوارڈ ملا ہے کسی نے اسے اپنی محنت کا صلہ کہا ہے۔ کسی نے اسے اپنی خوش قسمتی قرار دیتے ہوئے اس کا شکریہ ادا کیا۔ کسی نے اسے اہل خانہ کی دعائوں کا سبب قرار دیتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا۔ آخر میں پروگرام کی ہوسٹ نے کہا کہ کوئی ایک بھی شخصیت ایسی نہیں ہے جس نے خدا کی مہربانی سمجھتے ہوئے خدا کا شکریہ ادا کیا ہو۔ اس نے یہاں تک کہہ دیا کہ یوں لگتا ہے جیسے ’’نعوذ باللہ‘‘ یہاں خدا ہے ہی نہیں۔ ان کلمات کفر کا اس وقت کسی نے کوئی نوٹس نہ لیا کیونکہ اس تقریب میں زیادہ تر ایسے لوگ تھے جو خدا اور اس کی وحدانیت پر یقین نہ رکھتے تھے نہ ہی وہ اسے خالق کائنات سمجھتے تھے۔ غالباً زیادہ تر ایسے تھے جو ڈارون کی تھیوری کے مطابق بندر سے انسان بنے تھے، انہیں بندر سے انسان بننے میں لاکھوں برس لگ گئے۔ اب بندے سے بندے کا پتر بننے میں صرف ایک رات لگی۔ اگلے روز جب سب کچھ جل کر راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو رہا تھا تو درجنوں افراد مرد و زن، بچے، بوڑھے آسمان کی طرف دیکھ کر آہ و بکا کرتے اور التجا کرتے نظر آئے کہ یاخدا ہم پر رحم فرما، اے خدا ہمیں اس آگ سے بچا لے۔ اے خدا ہماری غلطیوں کو معاف کر دے لیکن اس وقت بہت دیر ہو چکی تھی۔ خدا کی لاٹھی بے آواز تھی لیکن اس نے ہر راہ میں آنے والی چیز کو سرمہ بنا ڈالا۔

ہالی ووڈ کی تقریب میں اس شہر کو ’’گاڈ لیس ٹائون‘‘ کہنے والی آج کہاں ہے اور کس حال میں ہے، کوئی نہیں جانتا۔ یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ زندہ ہے یا خدا کے حضور پہنچ چکی ہے۔ خدا کو اس موقع پر یاد کرنے والے خدا سے بارش کی دعائیں کر رہے تھے، ان کی آنکھوں سے آنسوئوں کی برسات جاری تھی، خدا نے خوب یاد دلایا، وہی قادر مطلق ہے۔

کیتھ ایزمنٹ نے پرائیویٹ فائر فائٹر کی خدمت کرکے اپنے گھر کو جلنے سے بچایا اور خدا کا شکر ادا کیا، سیکڑوں فلمی ستاروں، ادیبوں، شاعروں، موسیقاروں اور تیکنیک کاروں کے گھر ان کی نظروں کے سامنے ملبے کا ڈھیر بن گئے۔ یہاں ایک بہت بڑی حویلی تھی۔ آپ اسے محل بھی کہہ سکتے ہیں جس میں بہترین انداز میں آراستہ بیڈ رومز تھے، بہت بڑی بار تھی جہاں سیکڑوں افراد کے لئے سامان مے نوشی موجود رہتا تھا، بہت بڑا ڈانسنگ فلور وسیع اور عریض لان تھے جہاں ہزاروں افراد پر مشتمل تقریبات کا انعقاد ہوتا تھا کئی گھروں سے بڑا ایسا ڈرائنگ روم بھی تھا کہ تاروں بھری رات کا وہیں بیٹھے ہوئے لطف اٹھانا چاہتے تو ایک بٹن دبانے سے اس کی چھت کھل جاتی تھی۔ اسی جگہ بارش میں نہانے، لپٹنے، جھپٹنے کے شغل بھی ہوتے تھے، ہزاروں گاڑیوں کی پارکنگ اور ملازمین کی رہائش گاہیں بھی تھیں، بہت بڑے کئی سوئمنگ پول تھے جہاں پارٹیاں منعقد ہوتی تھیں، سب کچھ اس طرح جل کر راکھ ہوا جیسے کچھ تھا ہی نہیں، ان عمارتوں کی راکھ کو بھی ہوا اپنے ساتھ اڑا کر جانے کہاں لے گئی۔
جدید ترین مشینری، ٹینکر، جہاز اور ہزاروں فائر فائٹر آگ پر تاحال قابو نہیں پا سکے۔ بتایا گیا ہے کہ ایک ہفتے تک لگنے والی آگ کے فقط سترہ فیصد حصے پر اسے بجھانے میں کامیابی ہوئی ہے۔

ایک شخص کو آگ لگانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا لیکن بعد ازاں اسے عدم ثبوت کی بنا پر رہا کر دیا گیا۔ وہ خوش قسمت تھا، امریکہ میں تھا، پاکستان میں نہیں تھا ورنہ دنیا بھر میں ہر جگہ آگ لگانے کا جرم قبول کرکے پورے نظام کو سرخرو کر سکتا تھا۔ لاس اینجلس حکومت اور انتظامیہ نے پہلے ریلیف پیکیج کا اعلان کرتے ہوئے 7070ڈالر فی کس دینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ ہمارے سیلاب کے زمانوں میں دیئے گئے امداد پیکیج سے ملتا جلتا ہے، لاکھ ڈالر کے گھر اور املاک تباہ ہو گئیں تو اونٹ کے منہ میں زیرہ دینے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ اس بات کا ذکر بھی سننے میں آ رہا ہے کہ جب فلسطین پر بم برسائے جا رہے تھے، بے گناہوں کا قتل عام ہو رہا تھا تو دنیا کے کونے کونے سے آواز اٹھی، ان کے حق میں احتجاج ہوئے لیکن اس شہر سے مظلوموں کے لئے کوئی آواز بلند نہ ہوئی بلکہ ایک آواز تو ایسی تھی جس نے کہا فلسطینیوں کو جلد سے جلد ملیامیٹ کر دو۔ یہ جیمز وڈ تھا جس کا اپنا گھر ملیا میٹ ہو گیا، غلطیوں اور غفلت کی سزا پوری بستی پر بانٹ دی جاتی ہے پھر سب کو اس میں اس کا حصہ بقدر جثہ ملتا ہے۔ لاس اینجلس کی آگ میں تباہی تو ہے ہی کچھ سبق بھی پوشیدہ ہیں۔
ہم بھی صداقت، امانت اور دیانت کا سبق بھولے ہوئے ہیں۔ خدا خیر کرے، آگ ہم سے زیادہ فاصلے پر نہیں۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: لاس اینجلس نے والے ادا کیا نے کہا سے ایک

پڑھیں:

اوورسیز پاکستانی اور ڈیجیٹل پاکستان کا خواب

حالیہ دنوں وزیرِ اعظم پاکستان شہباز شریف نے اپنے خطاب میں ایک جملہ کہا جو گویا ہر بیرون ملک پاکستانی کے دل کی آواز تھا: ’ہر پاکستانی جہاں بھی ہو، پاکستان کا سفیر ہے، اُسے وطن کے وقار کا دفاع کرنا ہے اور سچائی کی آواز بننا ہے۔ یہی بات چند روز قبل چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر نے سوشل میڈیا پر پاکستان کے خلاف پھیلنے والی جھوٹ پر مبنی مہمات کے تناظر میں کہی کہ قوم کے اندر سے ایک منظم اور مربوط جواب وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ان دونوں قائدانہ بیانات نے قوم کو نہ صرف خبردار کیا بلکہ بیرون ملک بسنے والے پاکستانیوں کو مخاطب کر کے ایک نیا تقاضا ان کے سامنے رکھا۔ وطن کا دفاع، سچائی کی تبلیغ، اور قومی بیانیے کی ترجمانی۔

ان الفاظ کی بازگشت سن کر، دیارِ غیر میں بسنے والا ہر پاکستانی ایک لمحے کے لیے رُک کر ضرور سوچتا ہے: کیا میرا وطن بھی میرے لیے وہی کردار ادا کر رہا ہے، جس کی مجھ سے توقع رکھتا ہے؟ کیا جس محبت اور وابستگی کے ساتھ میں پردیس کی ریت میں پاکستان کے نام پر اپنا خون پسینہ بہاتا ہوں، وہی احساس ریاستی نظام میں میرے لیے موجود ہے؟

اوورسیز پاکستانی کوئی اجنبی برادری نہیں، وہی لوگ ہیں جو اپنے خواب، خاندان، اور بچپن کی گلیاں پیچھے چھوڑ کر دیارِ غیر میں اپنی اور اپنے وطن کی قسمت سنوارنے نکلے۔ ان میں محنت کش بھی ہیں، پیشہ ور بھی، اور کاروباری حضرات بھی۔ ان کی ترسیلات زر، ان کی دعائیں، ان کی سفارتی نمائندگی اور ان کا کردار ہر اُس مقام پر پاکستان کے لیے وقار کا باعث ہے جہاں پرچمِ سبز و سفید براہِ راست نہیں لہراتا۔

تاہم، ان کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ وطنِ عزیز کا نظام، اُن کے ساتھ محض زرمبادلہ کے رشتے سے نہ جُڑا ہو، بلکہ ایک ایسا تعلق قائم ہو جو سہولت، عزت، شمولیت اور انصاف پر مبنی ہو۔ ان کی توقعات کوئی غیرمعمولی نہیں وہ صرف چاہتے ہیں کہ انہیں بھی وہی ریاستی خدمات دی جائیں جو ملک میں موجود کسی شہری کو حاصل ہیں، چاہے وہ خدمات شناختی کارڈ کی تجدید سے ہوں یا تعلیمی اسناد کی تصدیق سے، جائیداد کی ملکیت ہو یا قانونی معاونت، ریکارڈ تک رسائی ہو یا معلومات کی فراہمی۔

مگر افسوس کہ آج بھی لاکھوں پاکستانی صرف ایک زمین کی فرد، کسی مقدمے کی تفصیل، یا تعلیمی دستاویز کی تصدیق کے لیے پاکستان آنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ حالانکہ ہم ایک ایسے دور میں زندہ ہیں جہاں مصنوعی ذہانت، بلاک چین، اور ڈیجیٹل گورننس جیسے تصورات نے قوموں کی بیوروکریسی کو ایک ایپ میں سمو دیا ہے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ پاکستان بھی ایک ایسا مرکزی اور مربوط ڈیجیٹل نظام قائم کرے جو ہر پاکستانی خواہ وہ گلگت میں ہو یا ریاض میں، ساہیوال میں ہو یا دبئی میں اپنے شناختی کارڈ کے ذریعے ریاست سے جڑا ہو؟

شناختی کارڈ کو ایک ایسا قومی کوڈ بنایا جائے جو تمام اداروں (نادرا، ایف بی آر، محکمہ مال، تعلیمی بورڈز، عدالتیں، پولیس، وزارت خارجہ) سے منسلک ہو۔ ہر پاکستانی شہری کو ایک ایسا پورٹل فراہم کیا جائے جہاں وہ دنیا کے کسی بھی کونے سے لاگ ان ہو کر اپنی تمام معلومات، دستاویزات، اور درخواستیں مکمل کر سکے۔ تحقیق کے لیے بھی شناختی کارڈ ہی کلید بنے جیسے شہریت ہے، ویسے ہی سہولت ہو۔

یہ صرف ایک سہولت نہیں، یہ ریاست اور شہری کے درمیان رشتے کی از سرِ نو تعریف ہوگی۔ یہ وہ لمحہ ہوگا جب ایک اوورسیز پاکستانی پہلی بار خود کو محض ترسیلات کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک مکمل پاکستانی شہری محسوس کرے گا۔

اب آئیے وزیرِ اعظم کے دوسرے بیان کی طرف پروپیگنڈے کا مقابلہ اور پاکستان کا دفاع۔ دنیا بھر، خاص طور پر عرب دنیا میں، پاکستان کے خلاف جھوٹے بیانیے، افواہیں اور پروپیگنڈا مہمات وقتاً فوقتاً شدت اختیار کرتی جا رہی ہیں۔ افسوس کہ ان مہمات کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان کے پاس کوئی مؤثر، ریاستی سطح پر منظم عربی زبان کا پلیٹ فارم موجود نہیں۔ جب دشمن ہماری شناخت عربی زبان میں مسخ کرتا ہے تو ہماری خاموشی گویا تائید بن جاتی ہے۔

یہاں ایک قومی ضرورت ابھرتی ہے: پاکستان کو ایک ایسا سنٹرل عربی میڈیا پلیٹ فارم قائم کرنا چاہیے جو عرب دنیا کے ناظرین کو پاکستان کی درست تصویر پیش کرے، دوست ممالک سے تعلقات کو ثقافتی اور علمی بنیادوں پر مضبوط کرے، اور مخالفین کی عربی زبان میں کی جانے والی مہمات کا محقق اور شائستہ جواب دے۔ یہ مرکز نہ صرف دفاعی بیانیہ بنائے بلکہ پاکستان کے مثبت پہلو تعلیم، مذہب، ثقافت، ترقی، خواتین، اور سائنس کو عرب دنیا کے سامنے رکھے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ اوورسیز پاکستانی ان مہمات میں پاکستان کے سب سے بڑے محافظ ثابت ہو سکتے ہیں، کیونکہ وہ وہاں کی زبان، معاشرت اور سوچ سے واقف ہیں۔ اگر ریاست انہیں مواد، تربیت، اور ایک مربوط پلیٹ فارم فراہم کرے تو وہ محض ترسیلات بھیجنے والے نہیں بلکہ نظریاتی صفوں کے اولین سپاہی بن سکتے ہیں۔

جہاں تنقید ہو وہاں انصاف بھی لازم ہے۔ حکومتِ پاکستان نے حالیہ مہینوں میں کچھ خوش آئند اقدامات کیے ہیں: جیسے تعلیمی اداروں میں اوورسیز پاکستانیوں کے بچوں کے لیے کوٹہ، ایف بی آر میں فائلر کی حیثیت، خواتین کی عمر کی رعایت، اور روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ جیسے منصوبے۔ وزیرِ اعظم کا خطاب بھی اسی شعور کی ایک کڑی ہے۔ یہ سب اقدامات قابلِ تحسین ہیں، مگر اب وقت ہے ان اقدامات کو ایک جامع اور مستقل قومی پالیسی کا حصہ بنایا جائے، تاکہ اوورسیز پاکستانیوں کے ساتھ یہ تعلق وقتی نہ ہو بلکہ پائیدار ہو۔

اوورسیز پاکستانی کسی گوشے میں بیٹھے خاموش تماشائی نہیں، وہ اُس قومی جسم کی زندہ رگیں ہیں جو وطن سے ہزاروں میل دور بھی دھڑک رہی ہیں۔ اگر انہیں ریاست کی سہولت، عزت، اور رابطہ حاصل ہو جائے تو وہ صرف بیرون ملک سفیر نہیں، پاکستان کے سب سے بڑے محافظ، مشیر، اور معمار بن سکتے ہیں۔ وقت آ چکا ہے کہ ہم انہیں وہ پاکستان دیں جو ان کے دل میں ہے، سہل، جڑا ہوا، باوقار، اور جواب دہ۔ یہ نہ صرف ان کا حق ہے، بلکہ ہماری قومی حکمت، سفارتی ضرورت، اور انصاف کی تکمیل بھی۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ڈاکٹر راسخ الكشميری

اوورسیز پاکستانی اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل ڈیجیٹل پاکستان کا خواب

متعلقہ مضامین

  • آپ کسی اور کے منہ کا نوالہ کسی اور کو نہیں دے سکتے
  • اگر آپ بچیں گے تو
  • اْمتِ خیرِ البشر !کیا تمہیں احساس نہیں؟
  • کامیاب اوور سیز کنونشن
  • اوورسیز پاکستانی اور ڈیجیٹل پاکستان کا خواب
  • ببو برال، جو جینا چاہتے تھے مگر۔۔
  • آرمی چیف ملک کو معمول کی سطح پر لے آئے، فیصل واوڈا
  • جنگ  میں سب کچھ جائز نہیں ہوتا!
  • کوچۂ سخن
  • ٹیرف جنگ کا مستقبل کیا ہے؟