آتشزدگی سے تباہ ہونے والا شہر لاس اینجلس دنیا کے متمول ترین افراد کی بستیوں میں سے ایک ہے، اسے فرشتوں کا شہر بھی کہتے ہیں۔ دنیائے فلم کا سب سے بڑا مرکز ہالی وڈ بھی یہیں ہے جہاں اداکار، موسیقار، ہدایتکار اور فن کی مختلف اصناف سے تعلق رکھنے والے تخلیق کار بڑی تعداد میں مقیم ہیں، یہاں کے باسی اپنے آپ کو دیگر دنیا میں بسنے والوں سے ایک درجہ اوپر سمجھتے ہیں، ان کا طرز زندگی نمائشی ہے۔ یہاں کم سے کم مالیت کا چھوٹا سے چھوٹا گھر بھی کئی ملین ڈالر کا ہے جبکہ بڑے گھر کروڑوں ڈالر مالیت کے ہیں۔ یہ خواب بیچنے والا شہر ہے، تباہ کن آگ کے حوالے سے مختلف تھیوریاں سامنے آ رہی ہیں۔ جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ برسوں قبل یہاں سمارٹ سٹی بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا جہاں ہر وہ چیز میسر ہو جو اس وقت دنیا میں ایجاد ہو چکی ہے اور انسان کے کام آ سکتی ہے۔ اس شہر کی تعمیر 2030ء میں مکمل ہونا تھی لہٰذا اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے آگ کا کھیل رچایا گیا لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ اگر ایسا تھا بھی تو موجودہ شہر کو تباہ کرنے اور عمارتوں کو ملبے کا ڈھیر بنانے کی ضرورت کیا تھی۔ نیا شہر اور سمارٹ سٹی تو ایسا نہ کرنے کے باوجود تعمیر ہو سکتا ہے۔
ایک تصور یہ بھی موجود ہے کہ کبوتر کی سی معصومیت اور مور پنکھ کے رنگوں کے سنگھار سے آراستہ طوطے کی تیزی و طراری کا حامل اسی سائز کا ایک پرندہ ہے جو انتہائی جارحانہ مزاج رکھتا ہے۔ یہ پرندہ اگر کہیں آگ جلتی ہوئی دیکھ لے تو جلتی ہوئی ٹہنیاں اپنی چونچ میں پکڑ کر انہیں کہیں دور پھینک آتا ہے۔ وہ یہ عمل اس وقت تک جاری رکھتا ہے جب تک وہ تھک نہیں جاتا۔ عین ممکن ہے یہ پرندہ اپنی دانست میں جلتی ہوئی ٹہنیوں کو دور اس لئے پھینک آتا ہے کہ وہ اپنے قرب و جوار میں آگ کو پھیلنے سے روکنے کی کوششیں تو کرتا ہے یہ الگ بات ہے کہ اس کے اس عمل سے آگ دیگر علاقوں میں پھیل جاتی ہے۔ لاس اینجلس اور اس سے ملحقہ علاقوں میں یہ پرندہ ایسے کام کرتے اکثر پایا جاتا ہے، اسے پرندوں میں دہشت گرد یا تخریب کار سمجھا جاتا ہے۔ آگ لگنے سے ایک رات قبل ہالی ووڈ میں گولڈن ایوارڈ کی تقریب کا انعقاد ہوا جس میں فلمی دنیا کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد بڑی تعداد میں جمع تھے، نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کو ایوارڈ دیئے گئے۔ سٹیج پر آنے والے فنکاروں نے اپنے فنی سفر کے حوالے سے مختصر گفتگو کی۔ مبینہ طور پر ایوارڈ شو کی اینکر نے کہا جس شخصیت کو بھی ایوارڈ ملا ہے کسی نے اسے اپنی محنت کا صلہ کہا ہے۔ کسی نے اسے اپنی خوش قسمتی قرار دیتے ہوئے اس کا شکریہ ادا کیا۔ کسی نے اسے اہل خانہ کی دعائوں کا سبب قرار دیتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا۔ آخر میں پروگرام کی ہوسٹ نے کہا کہ کوئی ایک بھی شخصیت ایسی نہیں ہے جس نے خدا کی مہربانی سمجھتے ہوئے خدا کا شکریہ ادا کیا ہو۔ اس نے یہاں تک کہہ دیا کہ یوں لگتا ہے جیسے ’’نعوذ باللہ‘‘ یہاں خدا ہے ہی نہیں۔ ان کلمات کفر کا اس وقت کسی نے کوئی نوٹس نہ لیا کیونکہ اس تقریب میں زیادہ تر ایسے لوگ تھے جو خدا اور اس کی وحدانیت پر یقین نہ رکھتے تھے نہ ہی وہ اسے خالق کائنات سمجھتے تھے۔ غالباً زیادہ تر ایسے تھے جو ڈارون کی تھیوری کے مطابق بندر سے انسان بنے تھے، انہیں بندر سے انسان بننے میں لاکھوں برس لگ گئے۔ اب بندے سے بندے کا پتر بننے میں صرف ایک رات لگی۔ اگلے روز جب سب کچھ جل کر راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو رہا تھا تو درجنوں افراد مرد و زن، بچے، بوڑھے آسمان کی طرف دیکھ کر آہ و بکا کرتے اور التجا کرتے نظر آئے کہ یاخدا ہم پر رحم فرما، اے خدا ہمیں اس آگ سے بچا لے۔ اے خدا ہماری غلطیوں کو معاف کر دے لیکن اس وقت بہت دیر ہو چکی تھی۔ خدا کی لاٹھی بے آواز تھی لیکن اس نے ہر راہ میں آنے والی چیز کو سرمہ بنا ڈالا۔
ہالی ووڈ کی تقریب میں اس شہر کو ’’گاڈ لیس ٹائون‘‘ کہنے والی آج کہاں ہے اور کس حال میں ہے، کوئی نہیں جانتا۔ یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ زندہ ہے یا خدا کے حضور پہنچ چکی ہے۔ خدا کو اس موقع پر یاد کرنے والے خدا سے بارش کی دعائیں کر رہے تھے، ان کی آنکھوں سے آنسوئوں کی برسات جاری تھی، خدا نے خوب یاد دلایا، وہی قادر مطلق ہے۔
کیتھ ایزمنٹ نے پرائیویٹ فائر فائٹر کی خدمت کرکے اپنے گھر کو جلنے سے بچایا اور خدا کا شکر ادا کیا، سیکڑوں فلمی ستاروں، ادیبوں، شاعروں، موسیقاروں اور تیکنیک کاروں کے گھر ان کی نظروں کے سامنے ملبے کا ڈھیر بن گئے۔ یہاں ایک بہت بڑی حویلی تھی۔ آپ اسے محل بھی کہہ سکتے ہیں جس میں بہترین انداز میں آراستہ بیڈ رومز تھے، بہت بڑی بار تھی جہاں سیکڑوں افراد کے لئے سامان مے نوشی موجود رہتا تھا، بہت بڑا ڈانسنگ فلور وسیع اور عریض لان تھے جہاں ہزاروں افراد پر مشتمل تقریبات کا انعقاد ہوتا تھا کئی گھروں سے بڑا ایسا ڈرائنگ روم بھی تھا کہ تاروں بھری رات کا وہیں بیٹھے ہوئے لطف اٹھانا چاہتے تو ایک بٹن دبانے سے اس کی چھت کھل جاتی تھی۔ اسی جگہ بارش میں نہانے، لپٹنے، جھپٹنے کے شغل بھی ہوتے تھے، ہزاروں گاڑیوں کی پارکنگ اور ملازمین کی رہائش گاہیں بھی تھیں، بہت بڑے کئی سوئمنگ پول تھے جہاں پارٹیاں منعقد ہوتی تھیں، سب کچھ اس طرح جل کر راکھ ہوا جیسے کچھ تھا ہی نہیں، ان عمارتوں کی راکھ کو بھی ہوا اپنے ساتھ اڑا کر جانے کہاں لے گئی۔
جدید ترین مشینری، ٹینکر، جہاز اور ہزاروں فائر فائٹر آگ پر تاحال قابو نہیں پا سکے۔ بتایا گیا ہے کہ ایک ہفتے تک لگنے والی آگ کے فقط سترہ فیصد حصے پر اسے بجھانے میں کامیابی ہوئی ہے۔
ایک شخص کو آگ لگانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا لیکن بعد ازاں اسے عدم ثبوت کی بنا پر رہا کر دیا گیا۔ وہ خوش قسمت تھا، امریکہ میں تھا، پاکستان میں نہیں تھا ورنہ دنیا بھر میں ہر جگہ آگ لگانے کا جرم قبول کرکے پورے نظام کو سرخرو کر سکتا تھا۔ لاس اینجلس حکومت اور انتظامیہ نے پہلے ریلیف پیکیج کا اعلان کرتے ہوئے 7070ڈالر فی کس دینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ ہمارے سیلاب کے زمانوں میں دیئے گئے امداد پیکیج سے ملتا جلتا ہے، لاکھ ڈالر کے گھر اور املاک تباہ ہو گئیں تو اونٹ کے منہ میں زیرہ دینے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ اس بات کا ذکر بھی سننے میں آ رہا ہے کہ جب فلسطین پر بم برسائے جا رہے تھے، بے گناہوں کا قتل عام ہو رہا تھا تو دنیا کے کونے کونے سے آواز اٹھی، ان کے حق میں احتجاج ہوئے لیکن اس شہر سے مظلوموں کے لئے کوئی آواز بلند نہ ہوئی بلکہ ایک آواز تو ایسی تھی جس نے کہا فلسطینیوں کو جلد سے جلد ملیامیٹ کر دو۔ یہ جیمز وڈ تھا جس کا اپنا گھر ملیا میٹ ہو گیا، غلطیوں اور غفلت کی سزا پوری بستی پر بانٹ دی جاتی ہے پھر سب کو اس میں اس کا حصہ بقدر جثہ ملتا ہے۔ لاس اینجلس کی آگ میں تباہی تو ہے ہی کچھ سبق بھی پوشیدہ ہیں۔
ہم بھی صداقت، امانت اور دیانت کا سبق بھولے ہوئے ہیں۔ خدا خیر کرے، آگ ہم سے زیادہ فاصلے پر نہیں۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: لاس اینجلس نے والے ادا کیا نے کہا سے ایک
پڑھیں:
کرپشن کی بہتی گنگا اور مذہبی ٹچ
ان کے لئے مذہب صرف ایک ٹچ ہے اور جھوٹ ، فریب اور فراڈ آرٹ ۔ جب بھی زبان کھلتی ہے ، جھوٹ برآمد ہوتا ہے یا الزام۔ سارے زمانے کو بلا ثبوت چورچور کہنےو الوں کی جب ایسی چوری پکڑی گئی جس کی کوئی توجیہ ممکن ہی نہیں تو سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلادیا کہ سیرت کی یونیورسٹی بنانے کی وجہ سے سزا سنائی جا رہی ہے ، یہ سب کو اپنے جیسا ہی سمجھتے ہیں ۔ سیرت کی یونیورسٹی پر سزا کا الزم اس ملک میں لگایا جا رہا ہے ، جہاں دنیا میں سب سے زیادہ 30ہزار سے زائد صرف رجسٹرڈ مدارس ہیں، جبکہ غیر رجسٹرڈ کی تعداد کسی کو معلوم ہی نہیں ، جامعۃ الرشید، غزالی یونیورسٹی اور منہاج القرآن جیسی عظیم الشان یونیورسٹیاں قائم ہیں، لاکھوں طلبا ء سالانہ داخل ہوتے اور سند فراغت پاتے ہیں ۔ مزے کی بات یہ کہ الزام لگا کون رہا ہے؟شوہر کو ختم نبوت نہیں کہنا آتا اور بیگم کو درود پڑھنے میں مشکل پیش آتی ہے ، جو ہر ان پڑھ یا پڑھے لکھے مسلمان کا سرمایہ حیات اور وظیفہ قلب ولسان ہے ، بچہ بولنا سیکھتا ہے تو ماں باپ اسے پہلے کلمہ اور درودسکھاتے ہیں۔ غالب نے شائد ایسوں کے لئے ہی کہا تھا ۔
کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
یہ لوگ تو وہ ہیں کہ حرم نبی ﷺمیں بھی ہنگامہ کرکے شرمندہ نہ ہوئے،چوری کے مال کو سیرت کا نام لے کر چھپانے کی کوشش پر شرمندہ کیوں ہونے لگے۔190ملین پائونڈ کیس میں احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا کے فیصلے کے مطابق سابق وزیر اعظم عمران خان کو14سال قید ، 10 لاکھ جرمانہ جبکہ بشریٰ بی بی کو7سال قید اور 5 لاکھ جرمانہ کی سزا سنائی جا چکی ہے ۔ القادر یونیورسٹی کی زمین کو بھی سرکاری تحویل میں لینے کا حکم جاری کردیا گیا ہے، لیکن مؑعذرت کے ساتھ یہ کیس بھی مصلحت آمیز سیاسےت کا شاہکار ہے، جس میں بہت سے پہلو نظر انداز کئے گئے،۔ حالانکہ یہ صرف معمول کی کرپشن کا کیس نہیں بلکہ مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ ایک مجرم کو عدالت سے ہونےو الے جرمانہ کی رقم سرکاری فنڈ سے ادا کرکے اعانت جرم کا مقدمہ بھی ہے، جو نہیں بنایا گیا ۔وفاقی کابینہ سے بند لفافے پر انگوٹھا لگواکر سازش کے ذریعے ریاستی طاقت استعمال کرنے کا کیس بھی ہے ، جس سے گریز کیا گیا ۔ ملک کے سب سے بڑے اور بااختیار ادارے وفاقی کابینہ کو گمراہ کرنے کا مقدمہ بھی ہے ، جو سیاسی مصلحتوں کی نذر کردیا گیا ہے ۔ نہیں بھولنا چاہئے کہ جب تک مصلحتوں کے تحت مقدمات چھپائے جائیں گے اور سزائوں میں تخفیف روا رکھی جائے گی ، اس وقت تک کرپشن اور اختیارات کا ناجائز استعمال روکا جانا ممکن نہیں ہے ۔ شریک جرم پراپرٹی ٹائیکون کا مقدمہ مفرور ہونے کی بنا پر الگ کیا گیا ، لیکن اس پر پیش رفت کیوں نہیں کی جا رہی ؟ وہ اب ایک دوست پڑوسی مملک میں کاروبار کرتا پھر رہا ہے ، اس کے ریڈ وارنٹ جاری کیوں نہیں کروائے جاتے؟ دوست ملک کو اس کے جرائم کے ثبوت فراہم کیوں نہیں کئے جاتے؟۔
سوشل میڈیا پر اس مقدمہ کو کبھی القادر یونیورسٹی کا کیس کہا جاتا ہے تو کبھی کچھ اور لازم ہے کہ اس کی حقیقت کو سمجھا جائے ، کیونکہ 190 ملین پاؤنڈ کیس میگا کرپشن کا ایسا واحد اور انوکھا کیس ہے ، جس میں وقت کے وزیراعظم نے اپنے عہدے کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے،ایک ملزم سے ریاست پاکستان کو ملنے والی رقم اسی ملزم پر عائد کردہ جرمانے کی مد میں ادا کرکے ، اس کی معاونت کی ، بالفاظ دگر ایک ریاستی مجرم کا جرمانہ سرکاری فنڈ سے ادا کردیا گیا اور اس کے بدلے میں بھاری مالی فوائد اور اراضی وصول کی ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ کرپشن کی اس داستان میں پوری کابینہ گواہ ہے ، کہ کس طرح سے ایک بند لفافہ دکھا کر وزراء کو دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا ۔ ناقابل تردید شواہد کی موجودگی میں اس وقت کا وزیراعظم عمران اور اس کی اہلیہ بشریٰ بی بی رشوت ستانی اور وائٹ کالر کرائم میں ملوث قرار پائے۔میگا کرپشن کا یہ کیس کوئی رات ورات نہیں بنا بلکہ مکمل شواہد اور ناقابل تردید ثبوت دیکھنے کے بعد ایک سال کے طویل عرصے میں اپنے انجام کو پہنچا ہے۔اس وقت کے احتساب کے مشیر اور مفرورشریک جرم شہزاداکبر اوروفاقی وزیر پرویز خٹک کے بیانات اس بات کی توثیق کرتے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی نے وزارت عظمیٰ کے عہدے کے دوران پراپرٹی ٹائیکون سے غیر قانونی طور پر مالی فوائد حاصل کئے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ سابق وزیر اعظم جب یہ عمل کر رہے تھے تو عین انہی ایام میں پورے ملک کی سیاسی قیادت کو بلا تخصیص چور، کرپٹ اور ڈاکو کے القابات سےبھی نواز رہے تھے ۔شائد اس لئے کہ ایک بیانیہ بنا کر اپنی جانب سے توجہ ہٹائی جاسکے۔
کیس کی ہسٹری یہ ہے کہ نیب راولپنڈی نے انکوائری کا آغاز 2022 میں کیا اور بعد ازاں نا قابل تردید شواہد اور ثبوت حاصل کرنے کے بعد انکوائری کو انویسٹی گیشن میں تبدیل کیا گیا۔190 یکم دسمبر 2023 کو 8 ملزمان کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا،جن میں بانی پی ٹی آئی اور انکی اہلیہ بشریٰ بی بی سمیت فرح گوگی، شہزاد اکبر، زلفی بخاری ، بیرسٹر ضیا المصطفیٰ ، ملک ریاض حسین اور ان کے صاحبزادے احمد علی ریاض شامل تھے ـ احتساب عدالت اسلام آباد نے کرپشن ریفرنس پر کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے 6 مفرور ملزمان کو دسمبر 2023 میں اشتہاری قرار دیتے ہوئے ان کا کیس الگ کر دیا گیا، جبکہ بانی پی ٹی آئی اور انکی اہلیہ پر فروری 2024 میں فرد جرم عائد کی گئی، جس کے بعد باقاعدہ ٹرائل کا آغاز ہوا ۔پراسیکیوشن کی جانب سے 35 گواہان کی شہادت ریکارڈ کروائی گئی جس میں مفصل بیانات اور نا قابل تردید ثبوت پیش کیے گئے جن کا ملزمان کے وکلاء دفاع کرنے میں ناکام رہے۔احتساب عدالت کی جانب سے بانی پی ٹی آئی کی لیگل ٹیم کو گواہان پر جرح کے مکمل مواقع فراہم کیے گئے ،،لیکن لیگل ٹیم کا سارا زور کیس کو سیاسی بنانے پر رہا ۔ کہا جا رہا ہے کہ پراپرٹی ٹائکون نے ٹرست کو فنڈنگ کی ملزموں نے ذاتی فائدہ نہیں لیا، سوال یہ ہے کہ ٹرسٹ کے بینی فشری کون ہیں ؟ شروع میں زلفی بخاری اور بابر اعوان بھی شامل تھے جو بعد ازاں ٹرسٹ سے علیحدہ ہو گئے، اب صرف دو لوگوں پر یہ ٹرسٹ مشتمل ہے ، ایک جناب عمران خان اور دوسری ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی ۔ کسی وکیل سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ جب کوئی ٹرسٹ ختم کیا جائے تو پراپرٹی کہا ں جاتی ہے؟ اور فائدہ کسے پہنچتا ہے؟ سوشل میڈیا کے ذریعہ سے جو مرضی جعل سازی کرنے کی کوشش کی جائے کیس دو جمع دو چار کی طرح شفاف اور واضح ہے ، اور اس حوالہ سے قانون میں بھی کوئی ابہام نہیں، لہٰذا میرؐٹ پر دیکھا جائے تو ریلیف مشکل ہے۔