کراچی، ٹی پی ایل پراپرٹیز کے تحت ’The Mangrove‘ منصوبے کا آغاز
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
کراچی میں ٹی پی ایل پراپرٹیز کے تحت The Mangrove کے نام سے منصوبے کا آغاز کیا گیا ہے جہاں ستر ایکڑ پر جدید رہائشی منصوبہ بنایا جائے گا۔
ٹی پی ایل پراپرٹیز کے تحت The Mangrove کے نام سے منصوبے کی تعارفی تقریب کراچی میں منعقد کی گئی۔
اس موقع پر ٹی پی ایل کے گروپ سی ای او علی جمیل نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں بہترین انجینئرز اور عالمی معیار کی ٹیمز موجود ہیں، بین الاقوامی سطح پر بھی منصوبے شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں The Mangrove کے نام سے پندرہ ملین اسکوائر فٹ پر گیٹیڈ کمیونٹی منصوبہ کا آغاز کیا جارہا ہے اور آنے والے چند ہفتوں میں منصوبے کا آغاز ہوجائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ منصوبہ 70 ایکڑ اراضی پر مشتمل ہوگا جس میں 14 ایکڑ پر پارک قائم ہوگا، منصوبے میں رہائشی اور کمرشل عمارتیں تعمیر کی جائیں گی۔
علی جمیل کا کہنا تھا کہ منصوبے میں رہائشیوں کے لیے کھیل سمیت بہترین سہولیات دستیاب ہوں گی۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
نون لیگ اور اُس کے پروجیکٹس
مسلم لیگ نون کے بارے میں اس کے مخالف خاص کرپاکستان تحریک انصاف کے لوگ اکثر کہا کرتے ہیں کہ وہ عوام میں اپنی مشہوری کی خاطر ہمیشہ ایسے نمائشی منصوبے اور پروجیکٹس شروع کرتی ہے جو وقتی فائدے کے لیے ہوتے ہیں اورجو تین چار سال میں مکمل ہوکراگلے الیکشن سے پہلے مکمل ہوجاتے ہیں ، جنھیں دکھاکر وہ عوام سے ووٹ حاصل کرلیتی ہے۔
جیسے سڑکیں ، شاہراہیں اورٹرانسپورٹ کے منصوبے جو مسلم لیگ کے دور ہی میں سارے ملک میں پچھلے کئی برسوں میں دیکھے گئے۔کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے شاہراہوں اورموٹرویز کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔دنیا میں جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک موجود ہیں وہاں ہم نے مواصلات اورٹرانسپورٹ کا نظام بہت ہی اچھا ، دلکش اورپائیدار دیکھا ہے۔اس کے بغیر ترقی ممکن ہی نہیں۔یہ منصوبے چند سالوں کے لیے نہیںبنائے جاتے ہیں، یہ آنے والی نسلوں کے فائدے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے اکثر سیاستدان صرف اورصرف سیاسی مخالفت کی وجہ سے ایسے اہم منصوبوں کی مخالفت کرنا اپنافریضہ سمجھتے ہیں۔
میاں نواز شریف نے 1990میں بحیثیت وزیراعظم پہلی بار عنان حکومت سنبھالا تو سب سے پہلے ملک میںسفری سہولتوں پرتوجہ دی اورموٹروے بنانے کا تصور پیش کیا۔ یہ اس ملک کا پہلا بڑامواصلاتی پروجیکٹ تھا جو یورپین ممالک کی طرز پرشروع کیا گیا۔ مخالفوں نے اسے ایک غیر ضروری عیاشی اورفضول خرچی قراردیکر بھرپور مخالفت شروع کردی۔یہ دوررس ثمرات کا حامل وہ پروجیکٹ تھا جسے ہم شارٹ ٹرم منصوبہ نہیں کہہ سکتے تھے۔ نوازشریف نے یہ پروجیکٹ اپنے وقتی سیاسی فائدے کے لیے ہرگز شروع نہیں کیاتھا بلکہ یہ اگلی نسلوں کے لیے بنایا جانے والا بہت عظیم منصوبہ تھا۔
انھیں اس وقت یہ معلوم بھی نہیںتھاکہ وہ اپنے اس پہلے دور میں مکمل کرپائیں گے بھی یا نہیں۔مگر انھوں نے دن رات ایک کرکے باوجود مشکل مالی حالات کے اسے مکمل کرناچاہا مگراس وقت کے صدر غلام اسحق خان نے اُن کا یہ خواب پورا ہونے نہیںدیا اورقبل ازوقت معزول کرکے ایوان وزیراعظم سے انھیں رخصت کردیا۔ وہ دوبارہ جب 1997 میں برسراقتدار آئے تو پھر وہیں سے یہ کام شروع کیا جہاں سے یہ معطل ہوگیا تھا۔یہ منصوبہ کوئی وقتی فوائد سمیٹنے کے لیے نہیں تھا بلکہ رہتی اورآنے والی نسلوں کے لیے بنایاگیا تھا جس پر سفر کرتے ہوئے اُن کے مخالف اندر سے تو سمجھتے ہونگے کہ واقعی یہ ایک بہت ہی زبردست پروجیکٹ ہے جس کا فائدہ وہ خود بھی اُٹھا رہے ہیں مگر مخالفت کی وجہ سے اس کا اعتراف نہیںکرتے۔
اسی طرح میٹروبس سروس کا اجراء بھی ہمارے بڑے شہروں کے لیے بہت ضروری ہے۔ اسے جنگلابس سروس کہنے والوں نے بعد ازاں خود اپنے علاقے میں بھی شروع کیا ۔یہ شروع کرتے ہوئے انھیں ذرا بھی شرم اورندامت محسوس نہ ہوئی کہ وہ اس کے بارے میں کیا کہاکرتے تھے اوراب خود بھی اس سے فیضیاب ہونے جارہے ہیں۔ 126دنوں کے دھرنے میںوہ صبح وشام اس کی مخالفت کیاکرتے تھے اورکہاکرتے تھے کہ قوم کو جنگلا بس نہیں بلکہ اسکول اوراسپتال چاہیے۔مگر جب انھیں خود اقتدار ملاتو انھوں نے کتنے اسپتال اوراسکول بنا ڈالے۔ ہمارے یہاں یہ بڑی افسوس ناک روایت رہی ہے کہ خود کو جب کبھی کام کا موقعہ ملاتوخود توکوئی کام نہ کریں مگر دوسرا اگر کوئی اچھا اوربڑا منصوبہ شروع کرے تو اس کی مخالفت کرکے عوام کو اس کے بارے میں متنفر کردیں۔میٹروبس اوراورنج ٹرین منصوبہ کوئی عیاشی یا فضول خرچی نہیں ہے ۔
یہ وقت اورزمانے کی اہم ضرورت ہے۔ اس کے بغیر آج کے دور میں ترقی کرنا نہ ممکن ہے۔ جس طرح موبائل فونز آج ہرشخص کی ضرورت ہے اسی طرح اچھی ٹرانسپورٹ سروس بھی ایک لازمی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لاہور دیگر شہروں کی نسبت ایک بہت اچھا اورخوبصورت سہولت یافتہ شہر سمجھاجاتا ہے۔ دوسرے شہروں سے آئے ہوئے لوگ ان سہولتوں کو حسرت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔اگر باقی صوبوں کی حکومتوں نے بھی نون لیگ کی طرح سوچا ہوتااورکام کیاہوتا تو آج وہ بھی ایسی ہی سہولتوں سے مستفید ہورہے ہوتے۔ انھیں کس نے ایسے پروجیکٹس شروع کرنے سے روکا ہے ۔
نون لیگ نے اپنے تیسرے دور میں سب سے پہلے سی پیک منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی ٹھانی ، جسے روکنے کے لیے اسلام آباد کے ڈی چوک پر چار مہینوں تک دھرنا دیا گیا کہ چائنہ کے صدر یہاں نہ آسکیں۔ مگر میاں صاحب کوجیسے ہی اس دھرنے سے کچھ راحت ملی وہ تیزی سے اس منصوبے پرجت گئے۔ یہ منصوبہ بھی صرف میاں صاحب کی ذاتی پبلسٹی کے لیے نہ تھا۔ یہ اس قوم کوعظیم اورخودمختار بنانے کی سمت میں بہت ہی اچھا منصوبہ تھا۔ ہم اسے بھی ایک شارٹ ٹرم منصوبہ نہیں کہہ سکتے ہیں۔یہ ہماری اگلی نسلوں کی ترقی وخوشحالی کا ایک منصوبہ ہے جو اگر مکمل ہوگیا تو ہم یقینا ایک روشن مستقبل سے ہمکنارہوسکتے ہیں۔
میاں صاحب آج بھی اپنی اس عادت سے مجبور ہوکرطویل المیعاد منصوبوں پرکام کررہے ہیں۔ بلوچستان میں چھپی معدنیات کے بارے میں ہم بہت کچھ سنا کرتے تھے لیکن اُن پرکام شروع ہوتے نہیںدیکھ پاتے تھے ،لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج شہبازشریف کے اس دور میں سینڈک اورریکوڈک منصوبوں پربھی کام شروع ہوگیا ہے۔
کہنے کو شہباز شریف حکومت کو گزشتہ الیکشن میںسادہ اکثریت بھی نہیں ملی تھی اورانھیں مجبوراً یہ ذمے داری سنبھالنی پڑی کیونکہ جنھیں واضح سیٹیں ملی تھی انھوں نے خراب معاشی حالات کے سبب حکومت لینے سے انکار کر دیا تھا۔ اور شاید یہ اس ملک کے لیے بہتر ہی تھاکہ انھوں نے یہ ذمے داری نہیں لی ورنہ آج ایسے پروجیکٹس کے بجائے ہمارے یہاں ویلفیئر تنظیموں کی مدد سے لنگر خانے اورشیلٹر ہومز ہی بن رہے ہوتے۔عوام کو اِن لنگر خانوں میں مفت کی روٹی کھانے کا عادی بنایا جا رہا ہوتا۔کوئی تعمیری کام نہیں ہو رہا ہوتا اور ہم شاید ڈیفالٹ بھی کر گئے ہوتے۔
مذکورہ بالا پروجیکٹس کوئی مختصر مدت یا شارٹ ٹرم پرمبنی نہیں ہیں۔ یہ طویل المیعاد وہ پروجیکٹس ہیں جو اگر پایہ تکمیل تک پہنچ گئے تو ہم یقیناً قرضوں کے دلدل سے نکل جائیںگے بشرط کہ اس حکومت کو کام کرنے دیاجائے ، ایسا نہ ہوکہ ہربار کی طرح اس حکومت کو بھی قبل ازوقت فارغ کردیا جائے اورناکامی کا الزام سیاستدانوں پرلگادیا جائے۔
ہماری خرابی یہ ہے کہ ہم سیاستدانوں کاموازنہ کرتے ہوئے انصاف سے کام نہیںلیتے اورجانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اوراپنے لیڈر کی غلط کاریوں پرپردہ ڈالنے کے لیے سارے سیاستدانوں کوایک ہی لکڑی سے ہانک رہے ہوتے ہیں۔ ہم یہ تمیز نہیں کرتے کہ کس سیاستدان نے اس قوم کی بھلائی کے لیے کچھ کام کیے ہیں۔ ملک کوبرباد کرنے والوں اوراسے بہتربنانے والوں دونوں ہی کو اپنی ناکامیوں کا مورد الزام ٹھہرارہے ہوتے ہیں۔ کس نے قوم کا پیسہ قوم کی بھلائی پرخرچ کیا ہے اورکس نے مزے اُڑائے ہیںکوئی کام بھی نہیںکیا صرف باتیں ہی کیںاورقرضے بھی سب سے زیادہ لے لیے ہم یہ نہیںدیکھتے۔