WE News:
2025-01-18@11:10:55 GMT

پاکستان اور بنگلہ دیش، آ ملے ہیں سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک

اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT

اقبال نے اپنے الہامی کلام میں ایک خبر دی تھی:

آ ملیں گے سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک

یہ واقعہ ہو گزرا ہے اور اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ آ ملے ہیں سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک۔ یہ واقعہ اُسی خطے میں پیش آیا ہے جس نے انگڑائی لی تو برصغیر کو اپنی منزل ملی یعنی برطانوی استعمار سے آزادی کے لیے تحریکیں چلیں۔ اس کے بعد مسلمانوں کے تشخص کی حفاظت کے لیے آل انڈیا مسلم لیگ وجود میں آئی جس نے مسلم بر صغیر کو اس کی منزل سے ہم کنار کیا۔ دنیا اس خطے کو بنگال کے نام سے یاد کرتی ہے۔ ہمارے بزرگ قبلہ الطاف حسن قریشی نے اسی خطے کو ’ٹوٹا ہوا تارا‘ قرار دیا تھا اور اس کا ماجرا بیان کرنے کے لیے اسی نام سے ایک ضخیم کتاب بھی لکھی۔

یہ بھی پڑھیں: غامدی صاحب کا جرم

الطاف حسن قریشی صاحب کی یہ کتاب اس آشوب کا بیان ہے جس کی وجہ سے مسلم بر صغیر کا یہ چکمتا ہوا تارا منزل سے بھٹکا یا اس پر کچھ ایسی افتاد پڑی جس نے سینہ چاکان چمن میں رنجشیں پیدا کیں اور وہ ایک دوسرے سے دور ہوئے۔ اب صورت حال مختلف دکھائی دیتی ہے۔ کچھ اسی قسم کی امید کا اظہار فیض صاحب نے بھی کیا تھا:

گر آج تجھ سے جدا ہیں تو کل بہم ہوں گے

یہ رات بھر کی جدائی تو کوئی بات نہیں

ایسا لگتا ہے کہ گزشتہ نصف صدی بس رات بھر ہی کی جدائی تھی۔ ’مغرور حسینہ‘ (شیخ حسینہ واجد) کے جبر اور ظلم کی رات ٹلی ہے تو مسلم بر صغیر کے یہ بچھڑے ہوئے تارے ایک بار پھر ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے کھڑے ہیں اور چیلنج کر رہے ہیں:

جسے ہو غرور آئے کرے شکار مجھے

بنگلہ دیش کی مسلح افواج کے پرنسپل اسٹاف افسرلیفٹیننٹ جنرل ایس ایم قمرالحسن کا دورہ پاکستان یہی خبر دیتا ہے۔ نصف صدی پہلے کا جھگڑا کیا تھا؟ یہ بھارت تھا جس نے 1965 کی جنگ کو ہمارے خلاف دو دھاری تلوار کی طرح استعمال کیا۔ مغربی پاکستان پر جارحیت کی لیکن مشرقی پاکستان کو نہایت مکاری کے ساتھ یہ تاثر دیا کہ اس کا اصل ہم درد تو ہے ہی وہی یعنی جنگ کے زمانے میں مغربی پاکستان نے آپ کو تنہا چھوڑ دیا تو ہم نے آپ پر کوئی آنچ نہیں آنے دی۔ اس پروپیگنڈے نے بڑا غضب ڈھایا۔ وہ لوگ طاقت پکڑ گئے جو مسلم بنگال کی نظریاتی شناخت کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے۔ اس حقیقت میں تو کوئی کلام نہیں ہے کہ مسلم بنگال اپنی علاقائی اور لسانی شناخت کے بارے میں ہمیشہ حساس رہا ہے لیکن اسے اپنی نظریاتی شناخت بھی اتنی ہی عزیز تھی۔ اگر اسے اپنی نظریاتی شناخت عزیز نہ ہوتی تو انگریزی استعمار سے آزادی کے لیے غلامی کے زمانے میں وہاں سے پے درپے نظریاتی تحریکیں پھوٹتیں اور نہ آل انڈیا مسلم لیگ ہی وجود میں آتی۔ خیر قسمت میں جو لکھا تھا، وہ ہوا یعنی ہونی ہو گزری۔ اب جدائی کے اس وقفے کے بعد جنرل قمرالحسن نے پرانے مغربی پاکستان کی سرزمین پر کھڑے ہو کر وہی بات کہی ہے جسے بھارت نے نہایت مکاری کے ساتھ بنائے فساد بنا دیا تھا۔ جنرل قمرالحسن کا دورہ پاکستان اس تخریب کے بعد تعمیر کی ایک صورت ہے۔

چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر کے ساتھ جنرل قمرالحسن کی ملاقات کے بعد جو مشترکہ بیان جاری ہوا ہے، وہ بہت معنی خیز ہے۔ اس بیان میں دوطرفہ شراکت داری کو کسی بھی بیرونی مداخلت سے محفوظ رکھنے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔ برصغیر کی ان 2 مسلم طاقتوں کی طرف سے آنے والا یہ بیان ایک مہا بیانیے کی حیثیت رکھتا ہے اور واضح کرتا ہے کہ یہ خطہ کن طاقتوں کی وجہ سے غیر محفوظ ہے لہٰذا انھیں ان طاقتوں سے تحفظ کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا ہے۔

مزید پڑھیے: وسائل کے بغیر جنگ جیتنے کی حکمت عملی

یہ بیان تاریخ کے ان دھاروں کی اصلاح بھی کرتا ہے جنہیں گزشتہ نصف صدی تک الٹا بہانے کی کوشش کی گئی۔ مسلم بنگال کو اپنی  علاقائی شناخت تو مل گئی لیکن اس بہانے اس کے مفادات پر نہایت کاری ضرب لگائی گئی۔ شیخ مجیب الرحمٰن بھارت کے ’احسانات‘ کے بوجھ تلے اتنا دبے ہوئے تھے کہ وہ بنگالی عوام کے مفادات کے تحفظ سے بھی لا تعلق ہوتے چلے گئے۔ بھارت نے اپنے نام نہاد احسانات کا منھ مانگا معاوضہ وصول کیا جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش کے عوام کا معاشی استحصال ہونے لگا۔ شیخ مجیب الرحمٰن کے بعد حسینہ واجد کے جابرانہ عہد میں بھی یہی روش برقرار رہی۔ بھارت نے نہ صرف بنگلہ دیش کے عوام کا اقتصادی اور کاروباری استحصال کیا بلکہ وہ اس کی سالمیت کے بھی درپے ہو گیا۔ پانی کے ذخائر پر قبضہ جمانے کی کوشش کی اور بنگلہ دیش کے ساتھ سرحدی تنازعات کو ہوا دی۔ عوام اس ضمن میں حسینہ واجد کی بے حمیتی کب تک برداشت کرتے بالآخر انہوں نے اسے اکھاڑ پھینکا اور آج بنگلہ دیش کے چیف آف اسٹاف پاکستان میں آ کر دفاع کے ضمن میں باہمی شراکت داری میں کسی تیسرے فریق کی مداخلت کے خلاف مزاحمت کا عزم ظاہر کر رہے ہیں۔ گویا تاریخ کا دھارا واپس اپنی جگہ پر آ رہا ہے۔

پاکستان اور بنگلہ دیش دیش 2 بچھڑے ہوئے بھائی اور فطری حلیف تو ہیں ہی، اس خطے کے مفادات کے تحفظ کو بھی یقینی بناتے ہیں۔ خطے کے تعلق سے یہ ایسا موضوع ہے جس سے ان عوامل پر روشنی پڑتی ہے جن کے پیش نظر سارک کے نام سے ایک علاقائی اتحاد وجود میں آیا۔

مزید پڑھیں: رچرڈ گرینل پریشان کیوں ہیں؟

پاکستان کے دولخت ہو جانے کے بعد بھارت کے حوصلے بڑھ چکے تھے اور وہ خطے میں ایک ایسی طاقت کے طور پر ابھرا جس سے جنوبی کی مختلف اقوام اور ممالک کو خطرہ لاحق ہو گیا۔ یہ محض اتفاق نہیں تھا کہ اس خطرے کو پاکستان اور بنگلہ دیش نے ہی محسوس کیا اور اس سے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کیے۔ سارک کا قیام اسی لیے عمل میں آیا تا کہ بھارت طاقت کے نشے میں چور ہو کر علاقائی سلامتی کے لیے خطرہ نہ بن جائے۔ تاریخ نے اس علاقائی تنظیم کے قیام کا کریڈٹ بنگلہ دیش کے جنرل ضیا الرحمٰن اور پاکستان کے جنرل ضیا الحق کو دیا۔

سارک کے قیام کے بعد تنظیم کے تمام ممالک نے سکھ کا سانس لیا اور پاکستان و بنگلہ دیش کی قیادت کو کھلے دل سے تسلیم کیا۔ یہ تنظیم ضرور ترقی کرتی اور اس سے علاقائی خوش حالی کی امید بھی پوری ہوتی لیکن بدقسمتی سے بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کو اقتدار مل گیا اور اسی عرصے میں افغانستان کو اس تنظیم کا رکن بنا لیا گیا۔ ان 2 تبدیلیوں نے اس تنظیم کا مستقبل تاریک کر دیا کیوں کہ بنگلہ دیش کی حسینہ واجد اور افغانستان کے اشرف غنی نے اپنی آزادانہ حیثیت پر بھارت کی کاسہ لیسی کو ترجیح دی۔ یوں سارک کی تنظیم مکمل طور پر غیر فعال ہو گئی۔ یہ  بڑی بدقسمتی تھی۔

بھارت اور اس کے کاسہ لیسوں کی ریشہ دوانیوں سے کیسے نجات حاصل کی جائے؟ اس سوال کا جواب آسان نہیں تھا لیکن بنگلہ دیش کے غیرت مند عوام نے حسینہ واجد کی جابرانہ حکومت کا خاتمہ کر کے اس سوال کا جواب فراہم کیا۔ بنگلہ دیش میں آنے والی تبدیلی صرف بنگلہ دیش کے عوام کے لیے ہی سود مند ثابت نہیں ہوئی بلکہ اس نے  خطے کے اتحاد اور تعاون کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کی راہ بھی ہموار کر دی ہے۔

یہ بھی پڑھیے: صدیق الفاروق: جسے ہو غرور آئے کرے شکار مجھے

پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان رشتوں کی بحالی کا ایک فائدہ تو یہ ہے دوسرا فائدہ چین کے روڈ اینڈ بیلٹ انیشی ایٹو کے خلاف منصوبوں کی ناکامی کی صورت میں نکلے گا۔ اس کے علاوہ روہنگیا کے مظلوم مسلمانوں کی مشکلات میں بھی یقیناً کمی واقع ہوگی۔ غرض یہ کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے ٹوٹے ہوئے رشتوں کی بحالی میں خیر ہی خیر ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ڈاکٹر فاروق عادل

فاروق عادل ادیب کا دل لے کر پیدا ہوئے، صحافت نے روزگار فراہم کیا۔ ان کی گفتگو اور تجزیہ دونوں روایت سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔

افغانستان بنگلہ دیش بھارت پاک بنگلہ دیش ری یونین پاک بنگلہ دیش ملاپ پاکستان حسینہ واجد.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: افغانستان بنگلہ دیش بھارت پاک بنگلہ دیش ری یونین پاکستان حسینہ واجد پاکستان اور بنگلہ دیش بنگلہ دیش کے حسینہ واجد کے ساتھ کے بعد اور اس کے لیے

پڑھیں:

بھارتی آرمی چیف کا بیان بدترین مفافقت ہے ،پاک فوج

آئی ایس پی آر نے کہا ہے کہ بھارتی آرمی چیف کا پاکستان کو دہشت گردی کا مرکز قرار دینے کا بیان منافقت کی کلاسیکل مثال ہے، ایک سینئر بھارتی فوجی افسر پاکستان میں دہشت گردی کرتے ہوئے پکڑا گیا بھارتی جنرل نے اس بات کو مکمل نظر انداز کردیا۔اپنے بیان میں کہا ہے کہ آئی ایس پی آر نے کہا ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی کا مرکز قرار دینے کا بھارتی آرمی چیف کا بیان نہ صرف حقائق کے منافی ہے بلکہ بھارت کی روایتی پالیسی کے تحت پاکستان پر بلاجواز الزام تراشی کرنے کی ایک اور ناکام کوشش ہے، یہ منافقت کی ایک کلاسیکل مثال ہے، یہ بیان دنیا کی توجہ بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں جاری مظالم، اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک، اور بھارت کی سرحد پار جبر کی پالیسیوں سے ہٹانے کی کوشش ہے۔آئی ایس پی آر کے مطابق بھارتی جنرل نے ماضی میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں تعیناتی کے دوران کشمیریوں پر بدترین مظالم کی نگرانی کی تھی، یہ سیاسی مقاصد کے تحت دیے گئے گمراہ کن بیانات بھارتی فوج کی سیاست زدہ ہونے کی عکاسی کرتے ہیں، دنیا بھارتی نفرت انگیز تقاریراور مسلمانوں کے خلاف نسل کشی کو بھڑکانے والے بیانات سے بخوبی آگاہ ہے۔آئی ایس پی آر نے کہا ہے کہ عالمی برادری بھارت کی سرحد پار قتل و غارت گری اور معصوم کشمیریوں پر بھارتی سیکیورٹی فورسز کے مظالم و انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو نظر انداز نہیں کرسکتی یہ مظالم کشمیریوں کے حق خودارادیت کے عزم کو مزید مضبوط کرتے ہیں جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں میں تسلیم شدہ ہے۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے کسی غیر موجودہ ڈھانچے کا پروپیگنڈا کرنے کے بجائے حقیقت کو تسلیم کرنا بھارتی قیادت کے لیے بہتر ہوگا، یہ حقیقت کہ ایک سینئر بھارتی فوجی افسر پاکستان کی تحویل میں ہے، پاکستان میں معصوم شہریوں کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا، بھارتی جنرل نے اس بات کو مکمل طور پر نظر انداز کردیا۔آئی ایس پی آر نے مزید کہا ہے کہ پاکستان اس قسم کے بے بنیاد اور جھوٹے بیانات کو سختی سے مسترد کرتا ہے، بھارتی فوج کی قیادت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ سیاسی ضرورتوں کے بجائے شائستگی، پیشہ ورانہ طرز عمل اور ریاستی تعلقات کے اصولوں کو مدنظر رکھے۔

متعلقہ مضامین

  • بھارتی آرمی چیف کا درد
  • پاکستان بنگلہ دیش ، میجر ڈیلم کا انٹرویو
  • ترجمان پاک فوج کا بھارتی آرمی چیف کے بیان پر سخت ردعمل
  • بھارتی آرمی چیف کا بیان دوغلے پن کی بدترین مثال: آئی ایس پی آر
  • بھارتی آرمی چیف کا بیان بدترین مفافقت ہے ،پاک فوج
  • پاکستان اور بنگلہ دیش
  • پاک بنگلہ دیش بڑھتے تعلقات خطے میں امن کے لیے کتنے اہم ہیں؟
  • بھارتی آرمی چیف کے بیان پر ترجمان پاک فوج کا منہ توڑ جواب
  • کنگنا کی فلم ‘ایمرجنسی’ کو بنگلہ دیش میں پابندی کا سامنا