WE News:
2025-01-18@10:57:03 GMT

خیبرپختونخوا میں 90فیصد سے زائد خواتین وراثتی حصے سے محروم

اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT

خیبرپختونخوا میں 90فیصد سے زائد خواتین وراثتی حصے سے محروم

ہمارے معاشرے میں خواتین کو کمزور سمجھا جاتا ہے، جبکہ جائیداد میں خواتین کا کسی حق کا تصور ہی نہیں کیا جاتا، یہ الفاظ ضلع باجوڑ کی 55سالہ شبانہ بی بی (فرضی نام) کے ہیں۔ وراثت میں 1 کنال اراضی کے حصول کے لیے شبانہ نے 2021 میں پشاور میں عدالت سے رجوع کیا، لیکن بھائیوں کی جانب سے رکاوٹوں کی وجہ سے کوئی حتمی فیصلہ نہ ہوسکا۔

زیبا بی بی نے وی نیوز کو بتایا کے اگر جائیداد میں حصہ مانگ لیا تو مجھے ماردیں گے۔ یہ کہانی پشاور کے علاقہ پبی سے تعلق رکھنے والی 52 سالہ زیبا بی بی (فرضی نام) کی ہے۔ زیبا بی بی کے والدین وفات پا چکے ہیں اور اس کے 4 بھائی اور 2 بہنیں ہیں، مگر اب تک زیبا بی بی اور اس کی بہنوں کو جائیداد میں کوئی حصہ نہیں ملا۔

پشاور کی رہائشی 60 سالہ کلثوم گل بھی وراثت میں حصہ ملنے سے محروم ہیں۔ کلثوم گل کے والد جب انتقال کرگئے تو 2021 میں وراثت میں حصے کے لیے صوبائی محتسب سے رجوع کرنے پر کلثوم کے حق میں فیصلہ کیا گیا، تاہم 3سال سے زائد کا عرصہ ہونے کے بعد بھی فیصلے پر ابھی تک عملدرآمد نہ ہوسکا۔

سینئر قانون دان سیف اللہ کاکاخیل نے بتایا کہ یہ مسئلہ صرف شبانہ، زیبا یا کلثوم کا نہیں، بلکہ خیبرپختونخوا میں 90 فیصد سے زائد خواتین وراثت میں حصہ سے محروم ہیں۔

قبائلی ضلع کرم سے تعلق رکھنے والی عالیہ نے وی نیوز کو بتایا کہ میرے لیے کرائے کے مکان میں رہنا واقعی مشکل ہے، اس لیے میں اپنی زمین حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہوں، حالانکہ اسلام مجھے اپنے والدین سے جائیداد لینے کا اتنا ہی حق دیتا ہے۔ لیکن جب بھی اس پھر بات کرتی ہوں تو خاندان کے لوگ کہتے ہیں کہ بیٹیوں کو زمین میں ان کا حق نہیں لینا چاہیے۔

اب تک خواتین کی جانب سے وراثت میں حصے کے لیے مقدمات

خیبرپختونخوا میں معلومات تک رسائی کے قانون رائٹ ٹو انفارمیشن (آر ٹی آئی) کے ذریعے صوبائی محتسب برائے خواتین کے وراثت میں حقوق کے تحفظ سے حاصل کردہ دستاویز کے مطابق وراثت میں حصہ لینے کے لیے اب تک لگ بگ 1700 خواتین نے شکایات دائر کی ہیں، جس میں 975 کیسز تاحال زیر سماعت ہیں۔

دستاویز کے مطابق خواتین نے وراثت کے لیے سال 2020 میں 98، 2021 میں 282، 2022 میں 620 اور 2024 میں 434 شکایات جمع کروائی ہیں۔ دستاویز کے مطابق 95 کیسز کو متعلقہ عدالت بھیج دیا گیا ہے، 41 خواتین نے اپنے کیسز واپس لیے، 17 کیسز عدم پیروی کے باعث بند کئے گئے جبکہ 24 کیسز کو ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔

جائیداد سے محروم خواتین کا تناسب اور وجوہات

خیبر پختونخوا میں جب اس حوالے سے سروے کیا گیا تو وراثت سے جو خواتین محروم تھی ان کی تعداد 70 فیصد تھی اور انہوں نے یہ جواب دیا کہ ان کو وراثت میں اپنے حصے کے بارے میں کوئی علم ہی نہیں ہوتا ہے۔

قبائلی خواتین اس بارے میں کیا کہتی ہیں؟

قبائل خواتین سے ملاقات کے دوران ہمیں یہ معلوم ہوا کہ بہت سی خواتین جائیداد میں حصہ لینے سے محروم ہیں، کیونکہ ان میں سے زیادہ تر خواتین اَن پڑھ تھیں یا ان کے خاندان کے مردوں نے وراثت میں ان کا جائز حصہ چھیننے کے لئے لالچ میں لاعلم رکھا ہوا تھا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ سابقہ فاٹا کے حالات بدل چکے ہیں۔

مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ بہت ساری خواتین اپنے حقوق کو تسلیم کر رہی ہیں اور اپنے مقدمات لڑ رہی ہیں۔ چند سال پہلے تک یہ ممکن نہ تھا۔

قبائلی خواتین کو اب جائیداد میں اپنا حق حاصل کرنا ان کی اولین ترجیح ہے اور انہوں نے اپنے شکایات کے لیے عدالتوں سے رجوع کرنا شروع کر دیا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر خواتین کا یہ خیال تھا کہ قبائلی معاشرہ اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک خواتین کے حقوق کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔

قبائلی اضلاع میں جائیداد سے متعلق آگاہی ناگزیر

قبائلی ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والی سابق رکن صوبائی اسمبلی بصیرت بی بی نے خواتین کو وراثت کے حق سے محروم رکھنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوۓ کہا کہ آخر کب تک ہمارے قبائلی اضلاع اس طرح پسماندگی  کا شکار رہیں گے۔

بصیرت بی بی نے کہا میرا نہیں خیال کہ قبائلی اضلاع میں سو میں سے 3فیصد خواتین کو بھی جائیداد میں حصہ دیا جاتا ہوگا۔ اس معاملے کے حل کے لیے مذہبی جماعتوں، سیاستدانوں، میڈیا، جرگہ و حجرہ مشران سمیت خاندانی سربراہ اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ سب سے پہلے مردوں کو تربیت دی جائے تب ہی خواتین کو جائیداد میں آسانی سے حصے دیے جائیں گے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ بہنوں اور بیٹیوں کو جائیداد میں حصہ مانگنے کا حق عورت کو اسلام اور قانون نے دے رکھا ہے۔

خواتین کی وراثت اور اسلام کا حکم

مذہبی اسکالر محمد اسرار مدنی نے وی نیوز کو بتایا کہ والدین کی میراث میں بیٹوں کی طرح بیٹیوں کا بھی شرعی حق اور حصہ ہوتا ہے، لیکن والدین کے انتقال کے بعد بیٹے جائیداد پر قبضہ کر لیتے ہیں اور بہنوں کو ان کا حق نہیں دیتے۔ لیکن یہ اسلام میں ناجائز اور یہ گناہ ِ کبیرہ ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ بہنوں کو جائیداد میں حصہ دنیا میں دیں ورنہ پھر آخرت میں حساب دینا آسان نہیں ہوگا۔ احادیث میں بھی جائیداد کے حق تلفی کے حوالے سے سخت وعیدیں آئی ہے۔ لہذا جائیداد میں خواتین کا حصہ دینا لازم ہے۔

خواتین کے وراثتی حقوق کے تحفظ اور اس کے لیے قوانین

آئین پاکستان کے ارٹیکل 23 کے مطابق ہر وہ شہری جو پاکستانی ہیں وہ پاکستان کے کسی بھی حصے میں جائیداد کا حصہ حاصل کرنے کا حق رکھتا ہے۔

مجموعہ تعزیرات پاکستان کے سیکشن 498 اے کے مطابق جو کوئی بھی غیر قانونی طریقے سے کسی بھی عورت کو منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد کی وراثت سے محروم کرتا ہے، اسے 10 سالہ قید کی سزا دی جائے گی، اور یہ سزا 5 سال سے کم نہیں ہو گی، یا 10 لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔

خیبرپختونخوا اسمبلی ویب سائٹ سے حاصل کردہ معلومات 

 خیبرپختونخوا انفورسمنٹ آف ویمن اونر شپ رائٹس ایکٹ 2012 کے سیکشن 3 کے مطابق کوئی شخص کسی عورت کی ملکیت کے حق میں رکاوٹ نہیں ڈالے گا۔ اور جو شخص سیکشن 3 کی خلاف ورزی کرے گا اسے 5 سال تک قید یا 50 ہزار روپے تک جرمانہ دینا ہوگا۔

ایکٹ سیکشن 4 کی ذیلی دفعہ 3 کے مطابق جب بھی کوئی عورت مقدمہ دائر کرے گی تو عدالت  6ماہ میں مقدمہ کا فیصلہ کرے گی اور حکم نامے کو مقامی پولیس کے ذریعہ 1 ماہ کے اندر نافذ کیا جائے گا۔

اگر کوئی بھی خاتون وراثت میں حصے سے محروم ہو جائے تو وہ سول کورٹ کے بجائے محتسب کو شکایت درج کر سکتی ہے۔

عدالتوں میں مقدمات تاخیر کا شکار کیوں ہیں؟ 

پشاور ہائیکورٹ کی وکیل مہوش محب کاکاخیل نے وی نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ٹی وی چینلز، ریڈیو اور اخبارات پر پراپرٹی ایکٹ 2021 کے نئے قانون سے متعلق ٹی وی اور ریڈیو پر پروگرامات نشر ہونے اور رپورٹیں آنے کی وجہ سے لوگوں میں جائیداد کے حوالے سے آگاہی پیدا ہو رہی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ انکے پاس جائیداد بالخصوص وراثت کی بہت کیسزرجسٹرڈ ہو رہے ہیں اب زیادہ تر خواتین اپنے حق کے لیے لڑ رہی ہیں اور عدالت سے رجوع کر رہی ہیں۔

مہوش محب کا کاخیل کا کہنا تھا کہ قبائلی اضلاع میں خواتین کو جائیداد سے محروم کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے شناختی کارڈ نہیں بنوائے جاتے اور یا ان کو شادی دور دراز علاقوں میں کروا دی جاتی ہے، اور وہ واپس نہیں آسکتی جس کے باعث انہیں جائیداد میں حصہ نہیں دیا جاتا۔

اسی طرح قبائلی اضلاع میں زمینوں کا لین دین زبانی یا سٹامپ پیپرزکے ذریعے ہوتا ہے۔ لینڈ ریونیو ریکارڈ کا نہ ہونا بھی خواتین کے لیۓ جائیداد میں رکاوٹ ہے۔

جائیداد میں حصے کے حصول میں مسائل کا حل

پشاور ہائیکورٹ کے وکیل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ اب خواتین کی وراثتی حقوق کے حوالے قانون سازی ہوئی ہے، لیکن اس موضوع پر اگر عمل درآمد کے ساتھ ساتھ خواتین کو ایسے حقوق کی اگاہی انتہائی ضروری ہے، کیونکہ زیادہ تر خواتین کو اپنا حق حاصل کرنے کے متعلق کچھ علم نہیں ہوتا ہے۔

صوبائی محتسب کو درپیش مسائل

خیبر پختونخوا کے خاتون صوبائی محتسب رخشندہ ناز نے وی نیوز کو بتایا کہ صوبائی محتسب کا دفتر قیام سال 2019 میں ہوا تھا اور اب یہاں زیادہ تر خواتین اپنے حق مہر، ہراسمنٹ، زرعی اراضی اور وراثتی جائیداد کے حوالے سے اپنی شکایتیں جمع کرآتی ہیں۔

اس وقت بندوبستی اضلاع  سمیت قبائلی اضلاع میں شامل ضلع کرم، خیبر، مہمند، وزیرستان، اورکزئی اور درہ آدم خیل جائیداد کے حوالے سے شکایات میں کرائی گئی ہے اور اب شکایت موصول ہونے پر انکوائریز کی جان رہی ہیں۔

اس وقت ہمارے پاس جائیداد میں حقوق مانگنے کے حوالے سے 1700 سے زائد کیسز جمع ہوئے ہیں۔ جن میں سے 500 سے زائد کیسز نمٹا دئیے گئے ہیں، جبکہ 2 سے زائد کیسوں میں شکایت کنندگان کو پراپرٹی مل چکی ہیں۔

رخشندہ ناز نے وسائل کی کمی کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ پورے صوبے کہ کسی ایک ضلع میں بھی کوئی ریجنل دفتر موجود نہیں۔ ان کا ایک محتسب پورا صوبہ سنبھال رہی ہے، جس کا عملہ 20 ملازمین پر مشتمل ہے جو کہ انتہائی کم ہے۔

ان مشکلات کے باوجود ہم نے پشاور میں مختلف ڈونرز کی مدد سے ایک لیگل ڈسک قائم کیا ہے، جہاں پر موجود خواتین وکلا شکایت کنندگان کی شکایات کو سنتی ہیں، اور اس کے علاوہ ٹیلیفون، ای میل اور سوشل میڈیا کے ذریعے ان کو مخاطب کیا جاتا ہے۔

ایسی خواتین جو اَن پڑھ ہوں ان کی سہولت کے لیے ان کی طرف سے شکایتی درخواست بھی لکھی جاتی ہے، جبکہ مفت وکلا کو قانونی سہولیات فراہم کرنے کے لیے بھی محتسب کی جانب سے بار ایسوسی ایشن درخواست دی جاتی ہے۔

رخشندہ ناز مزید بتاتی ہے کہ وراثتی جائیداد میں خواتین کے حوالے سے ڈپٹی کمشنر کے دفتروں میں آگاهی بینرز اویزاں کیے ہیں۔ اس کے علاوہ ریونیو عملہ کی باقاعدگی سے ٹریننگ کرائی گئی ہے، جبکہ ہراسمنٹ کے حوالے سے بھی آگاهی سیشنز کیے ہیں۔

رخشندہ ناز نے مزید بتایا کہ ہم قبائلی اضلاع میں خواتین کی وراثتی جائیداد میں حقوق کے حوالے سے مہم چلائیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ میڈیا اور بی آر ٹی پر بھی اگاہی مہم  شروع کی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سعیدہ سالارزئی

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: قبائلی اضلاع میں زیادہ تر خواتین کو جائیداد میں کے حوالے سے میں خواتین جائیداد کے خواتین کا خواتین کی خواتین کے خواتین کو اور اس کے انہوں نے خواتین ا کی وراثت کے مطابق ہوتا ہے ہیں اور رہی ہیں نہیں ہو حقوق کے کہا کہ حصے کے کے لیے

پڑھیں:

لاہور کا 100 سال سے زائد قدیم تاریخی ریلوے اسٹیشن کھنڈر میں تبدیل

لاہور کا 100 سال سے زائد پرانا ہربنس پورہ ریلوے اسٹیشن جو اپنی تاریخی اہمیت کی وجہ سے بہت مشہور تھا آج ریلوے کی روایتی نااہلی کے باعث کھنڈرات میں تبدل ہو چکا ہے.

ریلوے اسٹیشن کی عمارت بوسیدہ ہو چکی ہے اور جو تھوڑے بہت آثار بچے ہیں وہ کسی بھی وقت گر سکتے ہیں، ایسا لگتا ہے جیسے یہاں پر کوئی ریلوے اسٹیشن کبھی تھا ہی نہیں، پاکستان ریلوے نے اس اسٹیشن کو حادثات کا شکار ریلوے بوگیوں کا قبرستان بنا دیا ہے۔

تقسیم ہند کے وقت بھارت سے مہاجرین کا پہلا قافلہ اسی ریلوے اسٹیشن پہنچا تھا، اس کے بعد ہزاروں کی تعداد میں بھارت سے آنے والے مہاجرین یہیں آس پاس کے دیہاتوں اور شہروں میں آباد ہوتے رہے۔

ہربنس پورہ ریلوے اسٹیشن کی تاریخ 100 سال سے بھی پرانی ہے، قابض برطانوی فوج کی نقل و حمل بھی اسی ریلوے اسٹیشن سے ہوتی تھی، یہاں سے لائل پور، سیالکوٹ، دینہ، گجرات اور گجرانوالہ ٹرینیں چلا کرتی تھی، لاہور ریلوے اسٹیشن سے بھارت جانے والی ٹرین بھی اسی ریلوے ٹریک سے گزرا کرتی تھی۔

اب اس اسٹیشن کا کوئی پرسان حال نہیں، اس کے سامنے جو پٹڑیاں ہیں اس پر ریلوے نے اپنی جلی ہوئی اور حادثات کا شکار بوگیاں کھڑی کردی ہیں، بہت سی جگہوں پر لوگوں نے قبضہ کر کے مختلف کاروبار اور رہائش شروع کردی، اسی تاریخی ریلوے اسٹیشن کے ساتھ ایک الفلاح سینما بھی ہوتا تھا جہاں دن میں دو شو ہوتے تھے۔

یہاں کے رہائشی نصیر کے مطابق ان کی پیدائش یہیں پر ہوئی اور انہوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے بہت کچھ دیکھا، ریلوے اسٹیشن کے آس پاس 1947 میں 14 کے قریب دیہات آباد تھے، یہاں سے آنے جانے والے اسی ریلوے اسٹیشن کو استعمال کرتے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ اخری ٹرین 13 مارچ 1991 کو یہاں پر آئی اس کے بعد سے ٹرینوں کی آمد و رفت کا سلسلہ بند ہوگیا، ریلوے اسٹیشن کے حالات کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شاید اب یہاں سے کبھی ٹرین سروس کا اغاز نہ ہو سکے، یہاں سے روزانہ 48 کے قریب ٹرینیں روانہ ہوتی تھیں، تقسیم ہند کے وقت یہاں پر ایک چھوٹا سا شہر آباد تھا اس پاس 40 سے 50 دکانیں تھیں یہاں پر ٹرین رکتی اور ایک مجمع سا لگ جاتا تھا۔

ایک اور شہری عمران نے بتایا کہ ریلوے انتظامیہ نے اس تاریخی ریلوے اسٹیشن کو کھنڈرات کا ڈھیر بنا دیا ہے، ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے اس کی کھڑکیاں تک ختم ہو چکی ہیں، چھت اور جو باقی ماندہ عمارت ہے وہ کسی وقت بھی زمین بوس ہو سکتی ہے، یہ عمارت جو کبھی ایک شاندار ریلوے اسٹیشن ہوتا تھا مگر لاہور کے تاریخی ریلوے اسٹیشن کو نہیں بچایا جا سکا یہی وجہ ہے کہ آج اس کے اس پاس رہنے والوں کو بھی شاید معلوم نہیں کہ یہ ریلوے اسٹیشن کتنا تاریخی ہے، جب پاکستان بنا تو کتنے قافلے یہاں پر ٹھہرے اور پھر مختلف شہروں کو یہیں سے روانہ ہوئے۔

ریلوے انتظامیہ سے جب اس سلسلے میں رابطہ کیا گیا تو انہوں نے مکمل خاموشی اختیار کرتے ہوئے کوئی بات نہیں کی۔

متعلقہ مضامین

  • ادارہ ترقیات سہون کے 300 سے زائد ملازمین 9 ماہ کی تنخواہ سے محروم
  • علی امین کی عمران خان سے ڈیڑھ گھنٹے سے زائد کی ملاقات
  • وکی کوشل کی نئی فلم چھاوا کا پوسٹر جاری، فلم کب ریلیز ہوگی؟
  • ت سے تختی، ت سے تعلیم… محروم معاشرہ
  • ترکیہ میں وراثت کے جھگڑے پر بدبخت بھائیوں نے مسجد بھی تقسیم کردی
  • جائیداد تنازع کیس، سندھ ہائیکورٹ کا تلخ کلامی پر وکیل کو گرفتار کرکے جیل بھیجنے کا حکم 
  • خواتین ججز کے لیے ہمیں الگ پالیسی میرٹ بنانا ہوگا ، جسٹس محسن اختر کیانی
  • لاہور کا 100 سال سے زائد قدیم تاریخی ریلوے اسٹیشن کھنڈر میں تبدیل
  • کیا وجہ ہے کہ خواتین کو جوڈیشل کمیشن میں برابری کی نمائندگی نہیں دی گئی، جسٹس محسن اختر کیانی