’’ساؤتھ چائنا سی‘‘ سے متصل ممالک کی کواڈ میں عدم شرکت کی وجوہات
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
فلپائن نے حال ہی میں چین پر الزام لگایا ہے کہ وہ جنوبی چین کے سمندر میں واقع متنازع جزیروں پر فلپائنی ماہی گیروں کو ہراساں کر رہا ہے۔ چین نے اس تناؤ کے دوران اپنے سب سے بڑے کوسٹ گارڈ جہاز کو فلپائن کے سمندری علاقے میں بھیجا ہے، جسے فلپائنی حکام نے ’’مانسٹر شپ‘‘ قرار دیا ہے۔ اس اقدام نے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ کیا ہے۔ فلپائن کے لیے، جو امریکا کا اہم اتحادی ہے، اب یہ کشیدگی ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے، خصوصاً اس وقت جب چینی جہاز فلپائن کے خصوصی اقتصادی زون (EEZ) میں داخل ہو چکے ہیں۔ فلپائن نے چین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے جہاز کو واپس بلائے، کیونکہ یہ جہاز فلپائنی ماہی گیروں کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ تاہم، چین نے اپنے اقدامات کو قانونی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ علاقہ چینی حدود میں واقع ہے۔ واضح رہے کہ چین کا ساؤتھ چائنا سی کے 900 کلومیٹر پر مشتمل حدود پر یہ دعویٰ ہے کہ وہ چینی حدود میں آتی ہیں اور اسے سفارتی زبان میں نائن ڈیش لائن کہا جاتا ہے۔ اس منظر نامے میں جاپان کا کردار انتہائی اہم ہے کیونکہ جاپان بھی جنوبی چین کے سمندر کے تنازعات میں گہری دلچسپی رکھتا ہے۔ جاپان کے لیے، جو چین کے ساتھ علاقائی اور عالمی سطح پر تجارتی تعلقات رکھتا ہے، جنوبی چین کے سمندر میں کشیدگی کا بڑھنا تشویش کا باعث ہے۔
جاپان نے نہ صرف اپنے اتحادیوں کے ساتھ اس خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ کے خلاف کھل کر اپنی مخالفت کی ہے، بلکہ کواڈ (QUAD) کے پلیٹ فارم کے ذریعے چین کے اثر رسوخ کو محدود کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ کواڈ میں جاپان، امریکا، بھارت اور آسٹریلیا شامل ہیں، اور یہ گروپ خطے میں چین کی بڑھتی ہوئی عسکری اور اقتصادی سرگرمیوں کیخلاف ایک تزویراتی حکمت عملی اختیار کرتا ہے۔ اس معاملے کا ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس سمندری علاقے سے متصل دیگر ممالک جن میں فلپائن بھی شامل ہے نے جنوبی چین کے سمندر پر چین کے ساتھ تنازعات رکھنے کے باوجود کواڈ (QUAD) اتحاد کا حصہ بننے سے گریز کیا ہے، حالانکہ فلپائن امریکا کا اہم اتحادی ہے اور جنوبی چین کے سمندر میں چین کے ساتھ تنازعے میں براہِ راست ملوث ہونے کے باوجود فلپائن نے اپنی خارجہ پالیسی میں متوازن رویہ اختیار کرتے ہوئے چین کے ساتھ تنازعات کو سفارتی ذرائع سے حل کرنے کی کوشش کی ہے اور کسی بھی ایسے اتحاد میں شمولیت سے گریز کیا ہے جسے چین مخالف سمجھا جائے۔ تاہم، فلپائن امریکا کے ساتھ دفاعی معاہدے (Mutual Defense Treaty) میں شامل ہے۔ فلپائن کے علاوہ دیگر ممالک ویتنام، ملیشیا، برونائی، اور انڈونیشیا بھی کواڈ میں شامل ہونے سے گریزاں ہیں کیونکہ وہ چین کے ساتھ اپنے تجارتی اور سفارتی تعلقات کو متاثر کرنا نہیں چاہتے۔ ان کی ترجیح یہ ہے کہ ان تنازعات کو سفارتی ذرائع سے حل کیا جائے اور کسی بھی بڑی طاقت کے ساتھ مکمل وابستگی سے بچا جائے۔
تزویراتی ماہرین کی رائے میں ان ممالک کی کواڈ میں عدم شرکت کی مخصوص وجوہات میں ان ممالک کا چین پر اقتصادی انحصار بھی ہے، ان ممالک کی معیشتیں بڑی حد تک چین کے ساتھ تجارتی تعلقات پر انحصار کرتی ہیں۔ مثلاً ویتنام چین کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ اس کے علاوہ ملیشیا چین میں بڑے سرمایہ کاروں میں شامل ہے۔ مزید برآں برونائی کی معیشت کا زیادہ تر انحصار چین سے تیل و گیس کی خریداری پر ہے اور انڈونیشیا بھی چین کے ساتھ تجارتی تعلقات کو بڑھانے کی کوشش میں ہے۔ چنانچہ کواڈ میں شمولیت سے چین کے ساتھ ان کے تجارتی تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ انڈونیشیا علاقائی قیادت کا دعویٰ کرتا ہے اور کسی اتحاد کے بجائے آزادانہ پالیسی اختیار کرتا ہے۔
یہ ممالک عموماً غیر جانبدارانہ خارجہ پالیسی اپنانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ کسی بھی بڑی طاقت کے ساتھ کھلے تنازعے سے بچا جا سکے۔ آسیان ممالک کی رکنیت انہیں اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ وہ تمام بڑی طاقتوں کے ساتھ متوازن تعلقات رکھیں۔ دوسری جانب ان ممالک کو یہ خدشہ بھی ہے کہ کواڈ میں شامل ہونے سے خطے میں مزید کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے اور چین کی جانب سے جوابی کارروائی کی صورت میں معاشی پابندیاں یا فوجی دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق کواڈ میں عدم شرکت کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ یہ ممالک اپنے داخلی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں، جیسے کہ ویتنام کمیونسٹ حکومت کے استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے اندرونی ترقی پر زور دیتا ہے۔ دوسری جانب ملیشیا کی توجہ اپنی معاشی اصلاحات کی جانب مبذول ہے، اور برونائی اپنی توانائی کی صنعت کو مستحکم کرنے میں مصروف ہے۔ان ممالک کی کواڈ میں عدم شرکت کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ یہ کواڈ کی طویل المدتی حکمت عملی پر بھی شکوک و شبہات رکھتے ہیں، انہیں یہ خدشہ ہے کہ کواڈ امریکا کی قیادت میں کام کر رہا ہے اور اس کا مقصد خطے میں چین کو دبانا ہے، جو ان ممالک کے لیے غیر مستحکم ثابت ہو سکتا ہے۔ خطے میں امن اور استحکام کے لیے ضروری ہے کہ چین اور ان ممالک کے درمیان بات چیت جاری رہے، اور کواڈ اپنی حکمت عملی کو مزید جامع اور خطے کی ضروریات کے مطابق بنائے۔ کواڈ میں شامل نہ ہونے کی وجوہات ایک طرف ان ممالک کی اقتصادی وابستگی اور غیر جانبدارانہ خارجہ پالیسی کی ترجیح ہیں، تو دوسری طرف یہ ممالک اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ خطے میں امن و استحکام برقرار رہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جنوبی چین کے سمندر تجارتی تعلقات چین کے ساتھ ان ممالک کی ہے کہ وہ کی کوشش میں چین کیا ہے ہے اور
پڑھیں:
آزاد منڈی اور ٹیرف
میں نے اس سے پہلے بھی آزاد منڈی پہ لکھا ہے، آج دوبارہ اس موضوع پہ لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ 2 اپریل کو صدر ٹرمپ نے ٹیرف کے بارے میں تقریر کی ہے۔ میں یہ سمجھتی ہوں کہ عالمی سیاست کے منظرنامے پہ اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔
دنیا کئی بار دیکھ چکی ہے کہ جب سرمایہ داری کا پہیہ تیزی سے گھوم رہا ہو، منڈی کی دیوی اپنی چمکدار روشنیوں سے دنیا کو خیرہ کر رہی ہو اور منافع کی بھٹی میں سونا پگھل رہا ہو تب ہمیں آزاد منڈی کے ترانے سنائے جاتے ہیں۔ ریاست کی مداخلت کو معیشت کے لیے زہر قرار دیا جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ مقابلے کی فضا میں ہی ترقی پنپتی ہے اور مارکیٹ سب سے بہتر فیصلے کرتی ہے اور حکومت کا کام بس نگرانی کرنا ہے اسے کاروبار میں ہاتھ نہیں ڈالنا چاہیے، لیکن تاریخ کی اپنی بے رحم منطق ہوتی ہے۔ کچھ سال بھی نہیں گزرتے کہ وہی آزاد منڈی کے علمبردار اچانک ٹیرف کے نعرے لگانے لگتے ہیں۔ جو ہاتھ کبھی ریاست کی مداخلت سے کانپتے تھے وہی پھر تحفظ (protectionism) کے لیے اٹھنے لگتے ہیں۔ وہی لوگ جو عالمی تجارتی تنظیموں میں بیٹھ کر ترقی پذیر ممالک کو ڈانٹ رہے تھے کہ ٹیرف اور سبسڈی معیشت کی تباہی ہے، اب انھی اصولوں کو قومی مفاد کا نام دے کر اپنا رہے ہیں۔
دو اپریل کو صدر ٹرمپ نے روز گارڈن سے کھڑے ہوکر ایک نیا معاشی جہاد چھیڑ دیا۔ انھوں نے اس دن کو لبریشن ڈے قرار دیا مگر یہ آزادی کسی غلام قوم کے لیے نہیں تھی بلکہ عالمی تجارت کی زنجیروں کو مزید سخت کرنے کے لیے تھی۔
چین پر اضافی 34 فیصد ٹیکس یورپ پر 20 فیصد اور باقی دنیا پر 10 فیصد۔ آزاد منڈی کے ان مجاہدوں کو یکایک ریاستی تحفظ کی ضرورت کیوں پیش آگئی۔یہ تضاد صرف امریکا تک محدود نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادی خاصیت ہے۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں جب کسی طاقتور ملک نے اپنی صنعتوں کو بچانے کے لیے ٹیرف کا سہارا لیا ہو۔ 1930 کی دہائی میں جب امریکا شدید کساد بازاری (Great Depression) کا شکار تھا اس نے اسموٹ ہالی ٹیرف ایکٹ نافذ کیا جس کے تحت غیر ملکی مصنوعات پر بھاری ٹیکس لگا دیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دوسرے ممالک نے جوابی اقدامات کیے اور عالمی تجارت مزید سکڑ گئی جس نے بحران کو اور گہرا کردیا۔
یہی کچھ 1980 کی دہائی میں جاپانی گاڑیوں کے ساتھ ہوا جب امریکی حکومت نے جاپان کی کار انڈسٹری پر قدغن لگانے کے لیے مختلف تجارتی پابندیاں عائد کیں۔ وہی امریکا جو آج چائنا پر ٹیرف لگا رہا ہے کل جاپان کے خلاف ایسا کر رہا تھا اور اس سے پہلے یورپ کے خلاف۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ منڈی کا کھیل تب تک جاری رہتا ہے جب تک طاقتور کو فائدہ ہو۔ جب طاقتور کو نقصان ہونے لگے تو اصول بدل دیے جاتے ہیں۔
آزاد منڈی دراصل صرف ایک نعرہ ہے، ایک ایسا خواب جسے ترقی پذیر ممالک کے لیے پالیسی کے طور پر نافذ کیا جاتا ہے مگر خود ترقی یافتہ ممالک اس پر مکمل عمل نہیں کرتے۔
عالمی مالیاتی ادارے (IMF اور World Bank) تیسری دنیا کے ممالک کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنی معیشت کو اصلاحات کے نام پر کھول دیں، ریاستی اداروں کی نجکاری کریں، زرعی سبسڈی ختم کریں اور مقامی صنعتوں کو بیرونی سرمایہ کے لیے آسان ہدف بنا دیں۔
مگر جب یہی اصول امریکا، یورپ یا جاپان پر لاگو ہوتے ہیں تو وہ اچانک قومی سلامتی یا معاشی تحفظ کی بات کرنے لگتے ہیں۔ جب پاکستانی یا بنگلہ دیشی حکومتیں اپنے ٹیکسٹائل مزدوروں کو سبسڈی دیتی ہیں تو انھیں مارکیٹ کی خلاف ورزی کہا جاتا ہے لیکن جب امریکا اپنے زرعی کسانوں کو اربوں ڈالر کی سبسڈی دیتا ہے تو وہ معاشی استحکام کہلاتا ہے۔
جب افریقہ یا لاطینی امریکا کی حکومتیں اپنی منڈیوں پر کنٹرول رکھنے کی کوشش کرتی ہیں تو انھیں رجعت پسند کہا جاتا ہے مگر جب یورپی یونین اپنی مصنوعات کو تحفظ دیتی ہے تو وہ معاشی دانشمندی بن جاتی ہے۔
ٹرمپ کے ان ٹیرف سے کیا واقعی امریکی مزدور کو فائدہ ہوگا؟ شاید کچھ صنعتوں کو عارضی طور پر سہارا ملے مگر عالمی تجارت کی سطح پر اس کے اثرات کچھ اور ہوں گے۔ چین اور یورپ جیسے بڑے تجارتی شراکت دار جوابی اقدامات کریں گے۔
امریکی مصنوعات کے لیے عالمی منڈیاں سکڑ جائیں گی۔ عالمی سطح پر مہنگائی بڑھے گی، اشیائے ضرورت کی قیمتیں اوپر جائیں گی اور نتیجتاً عام امریکی مزدور مزید مشکلات کا شکار ہوگا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ٹیرف سے مقامی صنعتوں کو وقتی سہارا ملے لیکن اگر درآمدی اشیاء مہنگی ہوئیں تو صنعتی پیداوار پر بھی اثر پڑے گا۔
وہ کمپنیاں جو دوسرے ممالک سے سستا خام مال لاتی تھیں وہ مہنگے داموں خریدنے پر مجبور ہوں گی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ یا تو وہ نقصان برداشت کریں گی یا مزدوروں کی تنخواہوں میں کٹوتی کریں گی یا نوکریاں ختم کریں گی۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر سرمایہ دارانہ آزاد منڈی کا یہ حال ہے تو کیا اس کا کوئی متبادل ہے؟ سوشلسٹ ماڈل کو دنیا میں کئی بار آزمایا جا چکا ہے لیکن اس کے بھی اپنے مسائل رہے ہیں۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ موجودہ نظام بے عیب ہے۔
چین ویتنام اور کیوبا جیسے ممالک نے کچھ حد تک ریاستی کنٹرول اور آزاد منڈی کے امتزاج سے ترقی حاصل کی ہے۔ یورپ میں بھی اسکینڈے نیوین ماڈل ایسا ہے جہاں ریاست فلاحی اقدامات کرتی ہے، مزدوروں کے حقوق کا تحفظ کرتی ہے اور ساتھ ہی سرمایہ داری کو بھی کنٹرول میں رکھتی ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ دنیا میں معاشی طاقتور ممالک ایک ایسا نظام چاہتے ہیں جہاں وہ کمزور ممالک سے وسائل سستی لیبر اور منڈی تو حاصل کریں مگر جب ان ممالک کی صنعت ترقی کرنے لگے تو انھیں مختلف تجارتی پابندیوں میں جکڑ دیا جائے۔
یہ فیصلہ وقت کرے گا کہ کون سا نظام انسانیت کے لیے نجات دہندہ ثابت ہوتا ہے مگر تاریخ کی ایک بنیادی حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ تضادات بالآخر خود ہی اپنا پردہ چاک کر دیتے ہیں۔
آزاد منڈی کا جادو ہمیشہ کے لیے قائم نہیں رہ سکتا کیونکہ جب بھی یہ اپنے ہی اصولوں کے تحت چلتی ہے اس کا سامنا ایسے سوالات سے ہوتا ہے جن کا جواب اس کے پاس نہیں ہوتا۔ ٹرمپ کے ٹیرف وقتی سیاست کا حصہ ہیں جن کا مقصد امریکی عوام کو یہ تاثر دینا ہے کہ حکومت ان کے لیے کچھ کر رہی ہے۔
لیکن اصل فائدہ ہمیشہ کی طرح بڑے سرمایہ داروں کو ہوگا۔ مزدور چاہے وہ امریکا کا ہو، چین کا ہو یا کسی اور ملک کا ہمیشہ ان پالیسیوں کی قیمت ادا کرتا ہے۔ شاید وقت آ گیا ہے کہ دنیا ایک ایسے معاشی نظام پر بحث کرے جو نہ صرف منڈی کے اصولوں کو تسلیم کرے بلکہ مزدوروں اور عوام کے حقوق کو بھی مقدم رکھے۔ کیا ایسا کوئی نظام ممکن ہے؟ یہ سوال آج بھی دنیا کے ذہین ترین معیشت دانوں کے لیے کھلا چیلنج ہے۔