Jasarat News:
2025-04-21@12:16:28 GMT

سب بنو قابل

اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT

سب بنو قابل

علم اور ٹیکنا لوجی وہ واحد نسخہ ہے جس کے ذریعے نسل نو کامیابی اور کامرانی کی راہ پرگامزن ہوسکتی ہے لیکن ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور غربت کی وجہ سے پاکستان کے غریب اور متوسط طبقہ اس جدید تعلیم سے محروم ہے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان کی دور رس سوچ کو داد دینی چاہیے جنہوں نے کراچی شہر کے نوجوانوں کے لیے سب سے پہلے بنوقابل منصوبے کا آغاز کیا اور اب تک تقریباً چالیس ہزار سے زائد نوجوان اس پروگرام سے مستفید ہوکر ماہانہ بنیادوں پر اوسطا پچاس ہزار روپے سے لیکر تین لاکھ روپے ماہانہ گھر بیٹھے کما رہے ہیں۔ بلاشبہ بنو قابل پروگرام ایک انقلابی پروگرام ہے جس نے نوجوانوںکے لیے ترقی کی کئی راہیں کھول دی ہیں۔ تعلیم پاکستان میں تجارت بن گئی ہے اور بنو قابل کے کورسز نجی طور پر ایک سیمسٹرکی فیس چالیس ہزار روپے تک لی جاتی اور یہ مکمل کورس ڈیڑھ لاکھ روپے کی لاگت پر ہورہا ہے لیکن جماعت اسلامی اور الخدمت کے تحت یہ کورس بالکل مفت کرایا جارہا ہے۔ کراچی میں آزامائشی بنیادوں اور کامیاب تجربے کے بعد یہ مفت آئی ٹی کورسز اب پورے ملک میں کرائے جارہے ہیں۔ یہ کورسز میٹرک سے فراغت کے بعد وقت کا بہترین استعمال ہے۔ پروفیشنل فری آئی ٹی اور تعلیم کے ساتھ ساتھ روزگار کا حصول بھی ممکن ہوگیا ہے۔ آئی ٹی ٹیکنالوجی ایک ایسا ہنر ہے جو آنے والے چیلنجوں سے نبردآزما ہونے کے لیے درکارعلم، ہنر اور جدید ٹیکنا لوجی سے آراستہ کرتا ہے۔ سیکھنے، پڑھنے اور آگے بڑھنے کے سفر کی تیاری کے لیے بنو قابل پروگرام لامحدود مواقع فراہم کررہا ہے۔ اپنی دنیا آپ پیدا کرکے مصداق ہزاروں نوجوان جماعت اسلامی اور الخدمت

کے بنو قابل پروگرام سے اور آئی ٹی ہنر سے وابستہ ہورہے ہیں۔

پورے ملک میں اس وقت الخدمت بنو قابل پروگرام کی دھوم مچی ہوئی ہے۔ جس مقام پر بھی یہ پروگرام شروع ہوتا ہے بلاشبہ ہزاروں نوجوان طلبہ وطالبات رابطہ کرتے ہیں اور انٹری ٹیسٹ بھی دیتے ہیں۔ الخدمت کے تحت تمام تر انتظامات کم پڑجاتے ہیں۔ نوجوانوں نے الخدمت اور جماعت اسلامی سے بڑی امیدیں وابستہ کر لی ہیں۔ دس دس ہزار بچے انٹری ٹیسٹ میں بیٹھ رہے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں انٹری ٹیسٹ میں بیٹھنا الخدمت کے لیے بھی ایک بڑا چیلینج ہے۔ گزشتہ دنوں ضلع کورنگی کے تحت راشد لطیف اکیڈمی اور نسیم حمید اکیڈمی میں کورنگی لانڈھی کے طلبہ وطالبات کے انٹری ٹیسٹ لیے گئے یہاں بھی ہزاروں کی تعداد میں طلبہ وطالبات انٹری ٹیسٹ کے لیے پہنچ گئے بلاشبہ یہ کراچی کا سب سے بڑا انٹری ٹیسٹ تھا تمام تر انتظامات ناکافی ہوگئے طلبہ نے زمین پر بیٹھ کر ٹیسٹ دیے۔ امیر کراچی منعم ظفر، الخدمت کے چیف ایگزیکٹو نوید علی بیگ، لانڈھی ٹائون کے چیئرمین عبدالجمیل خان اور امیر ضلع مرزا فرحان بیگ نوجوانوں کے اتنے بڑے رابطے پر خوش بھی تھے اور فکر مند بھی کہ کس طرح سے ان بچوں کی امیدوں پر پورا اترا جائے گا۔ بنو قابل پروجیکیٹ اب چند کمروں تک محدود نہیں رہ سکتا اس کے لیے اب باقاعدہ یونی ورسٹی قائم کرنا ہوگی۔ پاکستان کا نوجوان مستقبل کا معمار ہے اور ان کو ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔

موجودہ اور سابقہ حکمرانوں نے ہمیشہ تعلیم کے شعبے کے ساتھ ظلم کیا ہے اور تعلیم کو ایک تجارت، مال کمانے کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ خاص طور پر پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے تو کراچی کے طلبہ کو دیوار سے لگا دیا ہے۔ پاکستان میں اس وقت 2 کروڑ 62 لاکھ اور سندھ میں 73 لاکھ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ تعلیم سے ملک کا مستقبل وابستہ ہے لیکن مہنگی تعلیم نے مستقبل کے معماروں کا مستقبل ہی تاریک کردیا ہے۔ ایسے میں الخدمت کے تحت بنوقابل پروگرام نسل نو کے لیے ایک امید کی کرن ہے۔ کراچی تین کروڑ سے زائد نفوس کی آبادی ہے اور ساٹھ فی صد سے زائد نوجوانوں کی تعداد ہے۔ نوجوانوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا حکمرانوں کی ذمے داری ہے لیکن شومئی قسمت ہمیں اب تک ایسے حکمراں میسر نہیں آسکے جو مستقبل کے معماروں کی دلجوئی کرتے۔ پاکستان کا نوجوان اس وقت مایوسی کا شکار ہے۔ ہزاروں نوجوان ڈگری لیکر دفتروں کے چکر کاٹ رہے ہیں ان پر روزگار کے دروازے مکمل طور پر بند ہوچکے ہیں۔ پڑھا لکھا نوجوان چنگ چی رکشے چلا رہا ہے یا پھر فوڈ پانڈا کی سپلائی کر رہا ہے ایسے حالات میں روزآنہ کی بنیاد پر ہزاروں نوجوان روزگار اور اپنے بہتر مستقبل کے لیے بیرون ممالک جانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ تعلیم صحت کی فراہمی حکومت کی ذمے داری ہوتی ہے لیکن ان ظالموں نے لوٹ مار اور کرپشن کے سوا کوئی کام نہیں کیا اور پاکستان کو قرضے کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ پاکستا ن میں اس وقت 70 ہزار 362 ارب روپے کا قرضہ ہے جو ملکی تاریخ کا سب سے بڑا قرضہ ہے اور آبادی کے لحاظ سے تقریباً ہر شہری دو لاکھ 87 ہزار کا مقروض ہے۔ ایسے میں ایک غریب آدمی کیسے اپنے بچوں کو بہتر تعلیم اور علاج معالجہ کا انتظام کرسکتا ہے۔ بے شک جماعت اسلامی اور الخدمت کے زیراہتمام بنو قابل پروجیکٹ ایک بے مثال اور قابل فخر کارنامہ ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں آپ سے امیدیں وابستہ کرنے والوں کی امیدوں پر پورا اترا جائے اور آئی ٹی انٹری ٹیسٹ میں پاس ہونے والے تمام طلبہ وطالبات کو آئی ٹی کلاسز میں داخلہ دیا جائے اور امیرجماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان کی جانب سے آئی ٹی یونی ورسٹی کے قیام کے اعلان کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے اور کراچی کے 25000 طلبہ وطالبات کے لیے فوری طور پر آئی ٹی یونی ورسٹی قائم کی جائے ہر سال جب 25000 طلبہ یہاں سے علم وہنر سے آراستہ ہوکر عملی میدان میں آئے گا تو دنیا بھر کی تمام کامیابی اس کے قدم چومے گی اور پاکستان کوترقی کرنے سے بڑی سے بڑی طاقت نہیں روک سکے گی۔ اللہ تعالیٰ کا خصوصی کرم اور احسان ہے کہ آج کراچی کے نوجوان جماعت اسلامی کی جانب دیکھ رہے ہیں لوگ کروڑوں روپے خرچ کرنے کے باوجود اس طرح کے پروگرامات نہیں کرسکتے یہ اللہ کا ہی کرم ہے کہ اس نے ایک بار پھر کراچی کو جماعت اسلامی کا شہر بنا دیا ہے اور لاکھوں نوجوان اور خاندانوں نے اپنی ساری امیدیں جماعت اسلامی سے وابستہ کرلی ہیں۔ ہمیں اس پر پورا اترنے کے لیے تندہی اور لگن ومحنت کے ساتھ کام کرنا ہے اور بنو قابل پروجیکٹ کے ذریعے سب کو قابل بنانا ہے اور مستقبل ان شاء اللہ آپ کا ہی ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: بنو قابل پروگرام ہزاروں نوجوان طلبہ وطالبات جماعت اسلامی انٹری ٹیسٹ الخدمت کے رہے ہیں ہے لیکن ا ئی ٹی دیا ہے کے تحت ہے اور

پڑھیں:

سندھ کے تعلیمی اداروں میں کیا ہورہا ہے؟

سندھ کے تعلیمی اداروں میں اس وقت ابتر صورت حال ہے، محکمہ تعلیم کی اعلیٰ بیوروکریسی تعلیمی ترقی کے لیے منصوبہ بندی اختیارکرنے میں ناکام نظر آتی ہے، اگرچہ محکمہ تعلیم کے پاس وافر بجٹ ہے اور بین الاقوامی اداروں سے بھی سندھ کے محکمہ تعلیم کو امداد ملتی رہی ہے، لیکن حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ سندھ کے حکومت کی نگرانی میں چلنے والے تعلیمی اداروں میں نظم وضبط کا فقدان ہے۔

اساتذہ اپنی ذمے داریاں ادا نہیں کر رہے ہیں اور طلبہ بھی تعلیم کے بجائے زیادہ تر غیرنصابی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ ایک تشویش ناک صورتحال ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، سندھ کے دیہی علاقوں میں فقط سرکاری فائلوں پر تعلیمی ادارے موجود ہیں لیکن عملاً ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔ اس طرح زیادہ تر تعلیمی بجٹ خرد برد کیا جاتا ہے اور قومی خزانے کو لوٹا جاتا ہے۔

خود حکومت کے ذرائع تسلیم کرتے ہیں کہ محکمہ تعلیم میں ہر سطح پر بدعنوانیاں موجود ہیں لیکن ان بدعنوانیوں کے خاتمے کے لیے موثر اقدامات نہیں کیے جا رہے ہیں۔ سندھ ایک ایسا صوبہ ہے جس کی یونیورسٹیوں میں بھی اعلیٰ تعلیم میں تحقیق کے پہلو کو نظر اندازکیا جا رہا ہے اور تعلیمی معیار پر توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔

1973ء کے آئین کے آرٹیکل 25 اے کے تحت ملک میں 5 سے 16 سال کی عمرکے بچوں کو مفت لازمی تعلیم دینے کی حکومت پابند ہے۔ نومبر 2011میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کابینہ سیکریٹریٹ نے میٹرک تک مفت اور لازمی تعلیم کے بل کی اتفاق رائے سے منظوری دی، اس بل کے تحت بچوں کو نہ پڑھانے والے والدین کو پانچ ہزار روپے اور اسکول میں داخل نہ کرنے کی بنیاد پر پانچ سو روپے روزانہ کی بنیاد پر جرمانہ عائد کیا جائے گا۔

کینیڈا کے ایک ادارے اور پاکستان کی ایک یونیورسٹی کے ٹیچر ایجوکیشن کے شعبے کے اشتراک عمل سے جو تحقیقی رپورٹ سندھ کے تعلیمی اداروں کی ابتر صورتحال کے متعلق منظر عام پر آئی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ صوبے میں تعلیمی معیار زوال پذیر ہے اور اساتذہ بھی اپنی ذمے داریاں پوری نہیں کررہے ہیں۔

اس تحقیقی رپورٹ کے مطابق سندھ کے 70 فیصد پرائمری اسکولوں میں صرف 15 منٹ پڑھایا جاتا ہے۔ 20 فیصد اساتذہ 20 منٹ سے زائد اور 10 فیصد 5 منٹ سے بھی کم وقت تک پڑھاتے ہیں۔ اس تحقیق کے لیے سندھ کے بہت سے اضلاع کا انتخاب کیا گیا تھا۔

سروے کے نتائج مرتب کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ان اضلاع کے طالب علموں کو تعلیم دینے پر اساتذہ کی توجہ نہیں ہے اور طلبہ بھی پڑھائی میں دلچسپی نہیں لے رہے ہیں۔ اساتذہ تنخواہیں اور مراعات وصول کرتے ہیں مگر وہ تدریسی ذمے داریاں ادا کرنے سے گریزکرتے ہیں۔ اس تحقیقی رپورٹ کے مطابق سندھ کے ان اضلاع میں بچوں کو عام طور پر تعلیمی اداروں میں نہیں بھیجا جاتا۔

اس طرح ان تعلیمی اداروں میں 46 فیصد طالب علم عموماً غیر حاضر رہتے ہیں اور تعلیم پر توجہ نہیں دیتے ہیں۔ رپورٹ مرتب کرنے والوں کی یہ بھی رائے ہے کہ اساتذہ کی تربیت کے لیے اصلاحات میں تسلسل نظر نہیں آرہا ہے۔ اس تحقیقی رپورٹ سے سندھ حکومت کے محکمہ تعلیم کی ناقص کارکردگی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے اور اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ صوبے میں نہ صرف تعلیمی معیار بہتر ہوسکے بلکہ اساتذہ بھی اپنی تدریسی ذمے داریاں یکسوئی اور سنجیدگی سے ادا کریں۔

آج کے پاکستانی معاشرے میں تعلیم کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور مستقبل میں بھی تعلیم کا فروغ اقتصادی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ حکومت کے تعلیم سے متعلق پالیسی ساز ادارے بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں۔ تعلیمی معیارکو بڑھانے کے لیے اقدامات کے اعلان کیے جاتے ہیں۔

خوشنما الفاظ پر مشتمل تقاریرکی جاتی ہیں مگر عملاً سندھ میں تعلیمی معیارکی ترقی پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے اور طالب علموں میں بھی تعلیم کے حصول کا جذبہ موجود نہیں ہے۔ جب اساتذہ کو اپنی تدریسی ذمے داریاں کا احساس نہیں ہے اور طالب علموں کو وہ مقررہ وقت تک پڑھانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محکمہ تعلیم کا بجٹ منظورکرنے والے حکام خواب خرگوش میں کیوں مبتلا ہیں؟ اور کس لیے وہ نااہل اساتذہ کے خلاف کارروائی سے گریزکر رہے ہیں؟ حکومت اور اقوام متحدہ کے یونیسف ادارے کی طرف سے کرائے گئے مشترکہ سروے کے مطابق سندھ میں بچوں کو غیر انسانی حالات کا سامنا ہے، جوکہ بین الاقوامی معیار سے بہت کم ہے، اس غذائی قلت کی وجہ سے بچے مختلف ذہنی و جسمانی امراض میں پہلے ہی مبتلا ہیں۔ سندھ کے تعلیمی اداروں میں بچوں کے تعلیمی حقوق و مفادات کے تحفظ کے لیے جامع حکمت عملی طے کرنا بھی محکمہ تعلیم سندھ کی ذمے داری ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کراچی، مختلف ٹریفک حادثات میں 3 افراد جاں بحق، ایک زخمی
  • آسمانی بجلی گرنے سے نوجوان جان بحق 
  • مسیحی برادری کا پاکستان کی تعمیر و ترقی میں قابل تحسین کردار ہے: سرفراز بگٹی
  • آٹزم کیا ہے؟
  • سندھ کے تعلیمی اداروں میں کیا ہورہا ہے؟
  • کراچی میں اناڑی سکیورٹی گارڈ نے گولی چلادی، نوجوان زخمی؛ ویڈیو سامنے آ گئی
  • 90 فیصد غزہ کو ختم کر دیا گیا اور اقوامِ متحدہ خاموش ہے: منعم ظفر
  • تبسم تنویر کی انسانیت کے لیے خدمات قابل تحسین،مقررین ،sosویلیج میں تقریب، سوانح عمری کی رونمائی
  • پاکستان یورپی یونین کیساتھ قابل اعتماد دوستی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے‘ مریم نواز
  • پاکستان کو اللہ تعالی نے زرخیز زمین، قابل زرعی ماہرین، محنتی کسانوں سے نوازا ہے: شہباز شریف