Jasarat News:
2025-01-18@10:56:31 GMT

قال اللہ تعالیٰ وقال رسول اللہﷺ

اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT

قال اللہ تعالیٰ وقال رسول اللہﷺ

وہ آسمان سے زمین تک دنیا کے معاملات کی تدبیر کرتا ہے اور اس تدبیر کی روداد اْوپر اْس کے حضور جاتی ہے ایک ایسے دن میں جس کی مقدار تمہارے شمار سے ایک ہزار سال ہے۔ وہی ہے ہر پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا، زبردست، اور رحیم ۔جو چیز بھی اس نے بنائی خوب ہی بنائی اْ س نے انسان کی تخلیق کی ابتدا گارے سے کی۔ پھر اْس کی نسل ایک ایسے ست سے چلائی جو حقیر پانی کی طرح کا ہے۔ پھر اس کو نِک سْک سے درست کیا اور اس کے اندر اپنی روح پھونک دی، اور تم کو کان دیے، آنکھیں دیں اور دِل دیے تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو۔(سورۃ السجدۃ:5تا9)

علی، حرمی بن عمارہ، شعبہ، ابوبکر بن منکدر، عمرو بن سلیم انصاری نے کہا کہ میں ابوسعید خدری پر گواہی دیتا ہوں کہ انہوں نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر گواہی دیتا ہوں کہ آپؐ نے فرمایا کہ: ’’جمعہ کے دن ہر بالغ پر غسل کرنا واجب ہے اور یہ کہ مسواک کرے، اور میسر ہونے پر خوشبو لگائے، عمرو بن سلیم نے بیان کیا کہ غسل کے متعلق میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ واجب ہے، لیکن مسواک کرنا اور خوشبو لگانا، تو اس کے متعلق اللہ تعالیٰ زیادہ جانتا ہے کہ واجب ہے یا نہیں، مگر حدیث میں اسی طرح ہے۔ (بخاری)

.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

حیا کا جامع تصور

نبی اکرمؐ نے حیا کو ایک اخلاقی قدر کے طور پر متعارف کرایا، یہاں تک کہ اسے ایمان کا ایک لازمی جز قرار دیا۔ آپؐ نے فرمایا: ’’حیا ایمان کا ثمرہ ہے اور ایمان کا مقام جنت ہے، اور بے حیائی و بے شرمی بدکاری میں سے ہے اور بدکاری دوزخ میں لے جانے والی ہے‘‘۔ (ترمذی، مسند احمد، ابن ماجہ) ایک اور حدیث میں جس میں ایمان اور حیا کا باہمی تعلق واضح کیا گیا ہے، آپؐ نے فرمایا: ’’حیا اور ایمان دونوں ہمیشہ ساتھ اور اکٹھے ہی رہتے ہیں۔ جب ان دونوں میں سے کوئی ایک اٹھا لیا جائے تو دوسرا بھی اْٹھا لیا جاتا ہے‘‘۔ (مستدرک للحاکم، صحیح الجامع للالبانی)

درحقیقت حیا کا تصور بہت زیادہ وسعت اور جامعیت رکھتا ہے جس میں نہ صرف فواحش و منکرات سے اجتناب بلکہ اللہ تعالیٰ کی مرضی و منشا کے خلاف ہر بات اور ہر کام سے رْک جانا مقصود ہے۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ ایک دن نبی کریمؐ نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا: ’’اللہ سے حیا کرو، جیسا کہ حیا کا حق ہے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے نبیؐ! الحمدللہ! ہم اللہ سے حیا کرتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: حیا سے یہ مراد نہیں جو تم کہتے ہو‘ بلکہ جو شخص اللہ سے حیا کا حق ادا کرے تو اسے چاہیے کہ سر اور جو کچھ سر کے ساتھ ہے، اس کی حفاظت کرے، پیٹ اور جو کچھ پیٹ کے ساتھ ہے، اس کی حفاظت کرے اور اسے چاہیے کہ موت کو اور ہڈیوں کے بوسیدہ ہونے کو یاد رکھے، اور جو شخص آخرت کی بھلائی کا ارادہ کرتا ہے وہ دنیا کی زینت وآرائش کو چھوڑ دیتا ہے، پس جس شخص نے ایسا کیا تو اس نے اللہ سے حیا کی، جس طرح حیا کا حق ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ المصابیح)

اسلام میں عفت و عصمت کے وسیع تصور کو راسخ کرنے کے لیے حیا کے ہمہ گیر پہلوؤں کی مختلف احادیث کے ذریعے سے وضاحت کی گئی۔ سیدنا ابو مسعود عقبہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمؐ ے فرمایا: ’’لوگوں کے پاس کلامِ نبوت سے جو بات پہنچی ہے ان میں یہ بھی ہے: جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کر‘‘۔ (بخاری)
سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ نے فرمایا: ’’ایمان کی ستّر سے زائد شاخیں ہیں، (یا ساٹھ سے زائد، راوی کو شک ہے)، ان میں سب سے افضل لا الٰہ الا اللہ کہنا ہے، اور سب سے ادنیٰ راستے میں پڑی ہوئی تکلیف دہ چیز کو ہٹا دینا ہے۔ اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے‘‘۔ (بخاری، مسلم)
سیدنا انسؓ سے مرفوعاً روایت ہے کہ رسولؐ نے فرمایا: ’’فحش جس چیز میں بھی ہو اسے بدنما بنا دیتا ہے، اور حیا جس چیز میں ہو اسے زینت عطا کرتی ہے‘‘۔ (ابن ماجہ، ترمذی و احمد)
آپؐ نے فرمایا: ’’حیا تو بس خیر ہی لاتی ہے‘‘۔ ( بخاری، مسلم)
نیز فرمایا: ’’ہر دین کا ایک خاص وصف ہے اور اسلام کا وصف حیا ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ)

متعلقہ مضامین

  • اڈیالہ جیل میں شیخ رشید اورعمران خان بغل گیر ،بوسہ لیا
  • ولایت تکوینی
  • قرآن کریم کے حقوق
  • ریا کاری (دکھلاوے ) کی مذمت
  • اِنَّ بَطشَ رَبِّکَ لَشَدِید
  • حیا کا جامع تصور
  • رسول کریمؐ کی عائلی زندگی کے راہ نما اصول 
  • لاس اینجلس کی آگ! کیا واقعی اللہ کا عذاب ہے؟
  • امریکا انسداد دہشت گردی جیسے شعبوں میں پاکستان کو ایک پارٹنر کے طور پر اہمیت دیتا ہے:جان کربی