نکاح ایک سماجی معاہدہ (contract social) ہے، جس میں عبادت کا پہلو بھی شامل ہے۔ نکاح کے ذریعے اجنبی مرد اور عورت باہم عہد کرتے ہیں کہ وہ آئندہ ساتھ رہ کر زندگی گزاریں گے اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں گے۔ اسلام میں نکاح کو بہت آسان رکھا گیا ہے اور زوجین کے حقوق اور فرائض صراحت سے بیان کردیے گئے ہیں اور ان پر عمل کی تاکید کی گئی ہے۔ لیکن افسوس کہ مسلم سماج میں نکاح کو بہت مشکل بنا دیا گیا ہے، مْسرفانہ رسوم پر بہت سختی سے عمل کیا جاتا ہے اور حقوق و فرائض پر عمل کے معاملے میں بہت کوتاہی پائی جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ خاندان کے تانے بانے بکھر رہے ہیں، افرادِ خاندان کے درمیان بے اعتمادی فروغ پا رہی ہے اور طلاق اور خلع کے واقعات بہ کثرت پیش آنے لگے ہیں۔
جس طرح ایک معاہدہ دو فریقوں کی رضا مندی سے انجام پاتا ہے اسی طرح رضا مندی باقی نہ رہنے کی صورت میں وہ ختم بھی ہو سکتا ہے۔ اگر بیوی شوہر کے ساتھ رہنا چاہتی ہے، لیکن شوہر کسی وجہ سے اس سے علیٰحدگی حاصل کرنا چاہتا ہے، تو اسے اختیار ہے کہ وہ طلاق دے دے۔ اور اگر شوہر بیوی کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتا ہے، لیکن بیوی کسی وجہ سے اس سے قطعِ تعلق پر مصر ہے تو اسے خلع لینے کا حق حاصل ہے۔ خلع کا طریقہ یہ ہے کہ بیوی شوہر سے کہے کہ میں تمہارے ساتھ اب نہیں رہ سکتی۔ اس کے مطالبے پر شوہر اسے طلاق دے دے، البتہ خلع کی صورت میں شوہر کے مطالبے پر بیوی کو مہر واپس کرنا ہوگا۔
عہدِ نبوی میں خلع کا ایک مشہور واقعہ پیش آیا تھا، جو حدیث کی کتابوں میں مذکور ہے۔ سیدنا ثابت بن قیسؓ کی بیوی اللہ کے رسولؐ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا: ’’میں اپنے شوہر کے دین و اخلاق پر کوئی الزام نہیں لگاتی، البتہ میں ان کے ساتھ نہیں رہ سکتی‘‘۔ آپؐ نے دریافت کیا: ’’تمھیں مہر کے طور پر جو باغ ملا ہے، کیا تم اسے واپس کردو گی؟‘‘ انھوں نے رضا مندی ظاہر کی۔ آپؐ نے ثابتؓ کو بلا فرمایا: ’’اپنا باغ واپس لے لو اور اپنی بیوی کو ایک طلاق دے دو‘‘۔ (بخاری)
اگر بیوی کے مطالبے اور اصرار کے باوجود شوہر طلاق نہ دے تو عورت کو اپنا معاملہ دار القضا میں لے جانا چاہیے۔ عورت کی شکایت پر قاضی شوہر کو نوٹس بھیجے گا، اسے بلاکر شکایات کی تحقیق کرے گا اور تنازع کو حل کرنے اور اختلافات کو رفع دفع کرنے کی کوشش کرے گا، لیکن اگر وہ محسوس کرے گا کہ عورت کی شکایات بجا ہیں اور وہ کسی بھی صورت میں اب شوہر کے ساتھ رہنے پر آمادہ نہیں ہے تو وہ نکاح کو فسخ کردے گا۔ واضح رہے کہ بیوی کو تعذیب سے دوچار کرنا ایسا سبب ہے جس کی بنا پر قاضی نکاح کو فسخ کرسکتا ہے۔
یہ صورت کہ لڑکی کا ولی اپنے علاقے کے چند سر برآوردہ افراد کو جمع کرکے ان کی موجودگی میں ان کی تائید حاصل کرکے نکاح کے فسخ کر دیے جانے کا اعلان کردے، درست نہیں ہے۔ البتہ سماج کے سربرآوردہ افراد اس معاہدۂ نکاح کو ختم کروانے میں اپنا تعاون پیش کرسکتے ہیں کہ وہ دونوں فریقوں کو ایک جگہ جمع کریں اور شوہر کی طرف سے ظلم و زیادتی ثابت ہونے اور بیوی کی جانب سے آئندہ شوہر کے ساتھ رہنے سے قطعی انکار کی صورت میں شوہر پر دباؤ ڈال کر اس سے طلاق دلوا دیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: نکاح کو شوہر کے کے ساتھ بیوی کو
پڑھیں:
برتھ، ڈیتھ سرٹیفکیٹس اور نکاح نامے کے حوالے سے نادرا کی اہم وضاحت جاری
(ویب ڈیسک)خبردار ہو جائیں،نادرا نے برتھ، ڈیتھ سرٹیفکیٹس اور نکاح نامے کے حوالے سے اہم وضاحت جاری کردی۔
نادراکے مطابق پیدائش، وفات اور ازدواجی حیثیت میں تبدیلی کا اندراج صوبائی قوانین کے تحت متعلقہ یونین کونسل میں ہوتا ہے، جس کی بنیاد پر وفاقی قانون کے تحت نادرا شناختی دستاویزات جاری کرتا ہے،سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک ویڈیو پر نادرا کی جانب سے وضاحت جاری کی گئی ہے کہ ویڈیو میں جو شخص نادرا آفس میں خود کو فوت شدہ ظاہر کرنے پر تعجب کا اظہار کر رہے ہیں، ان کی وفات کا اندراج متعلقہ یونین کونسل میں ان کے قریبی رشتہ دار نے کروا رکھا تھا۔
موسم کے حوالے سے خبر آگئی
نادرا کے مطابق پیدائش، وفات اور ازدواجی حیثیت میں تبدیلی کا اندراج متعلقہ یونین کونسل کی ذمہ داری ہے، جس کی روشنی میں نادرا شہریوں کو شناختی دستاویزات کا اجرا کرتا ہے، ملک بھر میں 70 لاکھ سے زائد افراد کی وفات کا اندراج متعلقہ یونین کونسلوں میں ہو چکا ہے لیکن ان فوت شدہ افراد کے قریبی رشتہ داروں نے اس ریکارڈ کو نادرا میں اپ ڈیٹ نہیں کرایا، اور ان کے شناختی کارڈ منسوخ نہیں کرائے۔
ناردا کا کہنا ہے کہ ایسے تمام لوگوں کے موبائل فون پر اور ان کے قریبی رشتہ داروں کے موبائل فون پر پیغامات ارسال کئے گئے ہیں تاکہ اگر وہ واقعی فوت شدہ ہیں تو ان کے قریبی خون کے رشتہ دار قریبی نادرا دفتر میں آ کر ان کا شناختی کارڈ منسوخ کروائیں اور اگر وفات کا اندراج غلط ہوا ہے تو متعلقہ یونین کونسل میں ریکارڈ کی تصحیح کروائیں۔
جماعت اسلامی نے حماس کے ساتھ یکجہتی کے لئے ملک گیر ہڑتال کروانے کا اعلان کر دیا