کھانے کےرنگ ’ریڈتھری‘ سے کینسر ہو سکتا ہے، امریکہ میں پابندی عائد
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
ویب ڈیسک —
بعض کھانوں، خاص طور پر مٹھائیوں اور بیکری کی چیزوں کو خوش نما بنانے کے لیے مختلف رنگ استعمال کیے جاتے ہیں جن میں سرفہرست ایک مخصوص قسم کا سرخ رنگ ریڈ تھری ہے۔ انسانی استعمال کے لیے محفوظ سمجھے جانے والے ریڈ تھری کے متعلق طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے کینسر ہو سکتا ہے۔
امریکہ میں خوراک اور ادویات کے نگران ادارے ایف ڈی اے نے کھانوں میں استعمال کیے جانے والے سرخ رنگ، ریڈ تھری کے خوراک میں استعمال پرپابندی لگا دی ہے۔
اس سے پہلے، لگ بھگ 35 سال قبل ریڈ تھری کا کاسمیٹکس میں استعمال، یہ کہتے ہوئے روک دیا گیا تھایہ کینسر کا سبب بن سکتا ہے۔
فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) کے حکام نے خوراک کے تحفظ اور صحت کے دو درجن گروپوں کی جانب سے 2022 میں دائر کی گئی درخواست منظور کر لی جس میں ایف ڈی اے پرزور دیا گیا تھا کہ ریڈ تھری کی خوراک میں استعمال کی اجازت کو منسوخ کر دیا جائے۔
بچوں کے لیے میٹھی گولیاں (کینڈی) جنہں ریڈ تھری رنگ دیا گیا ہے۔فائل فوٹو
ریڈ تھری کا زیادہ تر استعمال کینڈی( میٹھی گولیوں)، بیکری کی اشیاء، اور کھانے پینے کی کئی دوسری چیزوں کو خوشنما بنانے کے لیے کیا جاتا ہے۔
ایف ڈی اے نے پابندی عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ طبی سائنس کی کچھ تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ لیبارٹری میں چوہوں پر اس رنگ کے استعمال سے انہیں کینسر ہو جاتا ہے۔ ایک قانون کے تحت ایف ڈی اے کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ انسانوں اور جانوروں میں کینسر کا سبب بننے والی کسی بھی چیز پر پابندی عائد کر سکتا ہے۔
ریڈ تھری نامی سرخ رنگ صرف کھانے پینے کی چیزوں میں ہی نہیں بلکہ کئی ادویات میں بھی استعمال کیا جاتا ہے، جس کی مثال کھانسی کے شربت اور کچھ وٹامنز وغیرہ شامل ہیں۔پابندی لگنے کے بعد اب رنگ کا ادویات میں استعمال بھی رک جائے گا۔
تقریباً 35 سال قبل ایف ڈی اے چوہوں پر سرخ رنگ کے استعمال سے ان میں کینسر کی علامات ظاہر ہونے کی بنیاد پر ریڈتھری کا کاسمیکٹس میں استعمال کی ممانعت کر دی تھی۔
ایف ڈی اے میں انسانی خوراک کے شعبے کے ڈپٹی کمشنر جم جانز نے کہا ہے کہ ایف ڈی اے خوراک اور کھائی جانے والی ادویات میں ریڈتھری کے استعمال کی اجازت ختم کر رہا ہے۔
تاہم اس پابندی کے نتائج فوری طور پر ظاہر نہیں ہوں گے، کیونکہ کھانے پینے کی مصنوعات تیار کرنے والی کمپنیوں کے پاس ریڈ تھری کا استعمال ترک کرنے کے لیے جنوری 2027 تک کا وقت ہو گا۔ جب کہ ادویات بنانے والوں کو جنوری 2028 تک کی چھوٹ دی گئی ہے۔
صارفین کی نمائندگی کرنے والے گروپ نے، جس کی قیادت سینٹر فار سائنس ان دی پبلک کے ڈائریکٹر ڈاکٹر پیٹر لوری کر رہے تھے، اس فیصلے کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ طویل التوا کے بعد ایف ڈی اے کی جانب سے اس اقدام کا اعلان خوش آئند ہے۔
یہ واضح نہیں ہے کہ آیا اپنی منصوعات میں ریڈ تھری استعمال کرنے والی کمپنیاں اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کریں گی، کیونکہ اس پابندی کے ساتھ ایسے شواہد پیش نہیں کیے گئے کہ اس سے انسانوں کو کینسر ہو سکتا ہے۔
ایف ڈی اے کے کمشنر ڈاکٹر رابرٹ کیلف کہتے ہیں جب کسی چیز پر پابندی لگتی ہے تو معاملہ عدالت میں جاتا ہے۔
انہوں نے 5 دسمبر کو کانگریس کے ارکان کو بتایا تھا کہ اگر ہم سائنسی شواہد پیش نہ کر سکے تو عدالت میں ہار جائیں گے۔
انسانی صحت کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے گروپ ایک عرصے سے ایف ڈی اے سے ریڈتھری پر پابندی لگانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ 2022 کو بھیجی جانے والی ایک پٹیشن کے علاوہ نومبر میں کانگریس کے تقریباً دو درجن ارکان نے بھی پابندی عائد کرنے کے لیے بچوں کی صحت کے تحفظ سے متعلق قانون کی ایک شق کا حوالہ دیا تھا، کیونکہ بچے بڑوں کے مقابلے ایسی چیزیں زیادہ کھاتے ہیں جنہیں خوشنما رنگ دیے گئے ہوتے ہیں۔
اے پی اور این او آرسی کے ایک نئے سروے سے ظاہر ہوا ہے کہ تقریباً دو تہائی امریکی، فیکٹریوں میں تیار کی جانے والی خوارک میں چینی کی مقدار میں کمی اور اسے خوشنما بنانے کے لیے رنگوں کے رنگوں کا استعمال ختم یا محدود کرنے کے حامی ہیں۔
سروے سے معلوم ہوا کہ کالج کے ڈگری یافتہ ہر 10 میں سے 8 افراد فیکٹریوں کی تیار کردہ خوراک کو محدود کرنے کے حامی تھے جب کہ کالج کی ڈگری نہ رکھنے والوں میں ہر 10 میں 6 بالغ افراد نے پراسیس شدہ خوراک کے خلاف رائے دی۔
ریڈ تھری کے استعمال کے حوالے سے ایک اور فریق بین الاقوامی ایسوسی ایشن آف کلر مینوفیکچررز ہے۔ وہ ریڈ تھری کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انسانی خوراک میں استعمال کی جانے والی ریڈ تھری کی مقدار محفوظ سطح کے اندر رکھی جاتی ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے زیر انتظام سائنسی کمیٹیوں کی ایک تحقیق سمیت 2018 کے ایک جائزے کا حوالہ دیا جس سے انسانی خوراک میں ریڈ تھری کی مقدار حفاظتی سطح کے اندر ہونے کی تصدیق ہوتی ہے۔
کچھ فوڈ کمپنیوں نے سرخ رنگ کی اپنی مصنوعات میں ریڈ تھری کی بجائے اب چقندر کے رس کو رنگ کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔
(اس رپورٹ کی معلومات اے پی سے لی گئیں ہیں)
.ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان کھیل میں استعمال کی پابندی عائد کے استعمال خوراک میں جانے والی ایف ڈی اے کینسر ہو میں ریڈ سکتا ہے جاتا ہے تھری کے کرنے کے کے لیے
پڑھیں:
کرم شورش: بگن میں خوراک و ادویات کی رسد کاٹنے کے لیے امدادی قافلے پر راکٹ حملے و فائرنگ
خیبر پختونخوا کے شورش زدہ اور فرقہ وارانہ فسادات سے متاثرہ قبائلی ضلع کرم میں قیام امن کے لیے حکومتی کوششوں کو اس وقت بڑا دھچکا لگا جب کلیئرنس کے بعد پاڑاچنار جانے والے قافلے پر حملہ کیا گیا اور کئی گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی۔
کرم پولیس اور ڈپٹی کمشنر آفس کے مطابق فائرنگ کا واقعہ بگن نامی گاؤں میں پیش آیا جہاں مسلحہ افراد نے بھاری ہتھاریوں سے قافلے کو نشانہ بنایا۔ سرکاری حکام کے مطابق سخت سیکیورٹی میں اشیائے خورونوش لے جانے والی گاڑیوں پر راکٹ داغے گئے اور اندھا دھند فائرنگ گئی۔
ایک اہلکار جاں بحق 3 افراد زخمیسرکاری حکام کے مطابق قافلے میں 35 سے زائد گاڑیاں تھی جو اشیائے خورونوش، ادویات اور دیگر سامان لے کر پاڑاچنار کر رہی تھیں۔
حملے کے بعد مسلح افراد نے گاڑیوں کو اگ لگا دی جس سے امدادی سامان سے لدی کئی گاڑیوں کو نقصان پہنچا۔ حکام نے بتایا کہ حملے 4 افراد زخمی ہوئے جن میں ایک سیکیورٹی اہلکار زخمیوں کی تاب نہ لاکر جاں ہو گیا جبکہ باقی اسپتال میں زیر علاج ہیں۔
پولیس 35 میں سے 21 گاڑیاں بچا سکیحملے کے فوراً بعد رابطہ کرنے پر متعلقہ حکام نے بتایا کہ پولیس نے جوابی کارروائی شروع کر دی اور 21 گاڑیوں کو بحفاظت واپس ٹل روانہ کر دیا گیا۔
واقعے کے بعد علاقے میں حالات پھر کشیدہ ہو گئے جبکہ علاقے جوابی کارروائی کے دوران 5 حملہ آوروں کے ہلاک ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔ تاہم آزادانہ اور مقتلقہ حکام سے اس کی تصدیق نہ ہو سکی۔
حملے کے بعد حالات کشیدہ، بنکرز مسمار کرنے کا عمل معطلبگن میں قافلے پر حملے کے بعد فرقہ وارانہ فسادات سے متاثرہ کرم میں حالات ایک بار پھر کشیدہ ہو گئے ہیں۔ قبل ازیں حکومت اور جرگے کی کوششوں سے معاملات بہتری کی طرح بڑھ رہے تھے۔ ذرائع کے مطابق جرگے کی کوششوں سے مقامی قبائلی عمائدین بنکرز گرانے پر راضی ہوگئے تھے اور چند روز قبل نجی بنکرز کو مسمار کرنے کا عمل شروع ہوا تھا تاہم بگن کے مقام پر ایک بار پھر حملے کے بعد بنکرز مسمار کرنے کا عمل بھی تعطل کا شکار ہوگیا۔
ذرائع کا بتانا ہے کہ حملے کے بعد مخالف قبائل ایک بار پھر مورچہ زن ہو گئے ہیں اور فسادات کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
پاڑاچنار ہنوز محصور، اشیائے خورونوش و ادویات کی قلت اور حکومت کی رٹ
سرکاری حکام کے مطابق کرم میں شاملات کی زمین پر شروع ہونے والے لڑائی فرقہ فسادات کی شکل اختیار کر چکی ہے جس میں اب تک سینکڑوں افراد زندگی کی بازی ہار ہو چکے ہیں۔
حالیہ فسادات بھی ٹل پاڑاچنار روڈ پر پاڑاچنار جانے والے مسافروں پر حملے کے بعد شروع ہوئے جس کی وجہ سے علاقے کا ملک کے دیگر حصوں سے رابطہ 100 سے بھی زیادہ دنوں سے منقطع ہے۔
اس صورتحال کے باعث پاڑاچنار اور ملحقہ علاقوں میں اشیائے خورونوش، ادویات اور دیگر ضروریات اشیا کی شدید قلت ہے۔ صوبائی حکومت نے ہنگامی بنیادوں پر ہیلی کاپٹر کے ذریعے ادویات اور دیگر ضروریات کی سپلائی بھی کر رہی ہے جبکہ مریضوں کو ہیلی سے پشاور منتقل کر رہی ہے۔
مقامی افراد اور حکام کے مطابق پاڑاچنار روڈ بندش بچے اور بیمار زیادہ متاثر ہوئے ہیں اور علاج کی سہولت بروقت نہ ملے سے 50 سے زیادہ بچے جاں بحق ہوچکے ہیں۔
مقامی افراد حکومت کو ذمے دار قرار دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق صوبائی حکومت معاملے کو سنجیدہ نہیں لے رہی اور اپنی رٹ قائم کرنے کے بجائے جرگے کا سہارا لے رہی ہے جس کی وجہ سے صورت حال مزید ابتر ہورہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کرم میں قبائل کے پاس ہر قسم کے ہتھیار ہیں اور فرقہ وارانہ فسادات میں بھاری ہتھاریوں سے ایک دوسرے کو نشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ نجی بنکرز میں ہر وقت مسلح افراد موجود ہوتے ہیں جن کے خلاف حکومت کوئی کارروائی نہیں کر رہی۔
علاقے میں اسلحے کی دوڑکرم میں لوگ اب تعلیم، صحت اور بچوں پر خرچ کرنے کے بجائے قبائل اسلحہ خریدتے ہیں۔
کرم کے مقامی افراد بتاتے ہیں لڑائی ایک طویل عرصے سے جاری ہے جس کے باعث ان کی زندگی شدید متاثر ہو کر رہ گئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ نوجوان کام کاج کرنے کی بجائے بجائے اسلحہ اٹھا کر لڑنے میں مشغول ہیں جبکہ یہاں کے کچھ افراد بیرونی ممالک میں مزدوری کرکے لڑائی کے لیے اسلحہ خریدتے ہیں۔
مقامی افراد نے بتایا کہ ہم تعلیم، صحت، خوراک یا دیگر ضروریات پر کم اور اسلحے پر زیادہ خرچ کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ بھاری رقم اسلحہ کی خریداری کے لیے آپس میں چندہ بھی کرتے ہیں۔
فسادات کا پس منظرقبائلی ضلع کرم میں 2 قبائل کے مابین تنازع ایک عرصے سے جاری ہے اور باقاعدہ مورچہ زن ہوکر ایک دوسرے کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ تنازع شمالاتی زمین پر شروع ہوا تھا جو اب فرقہ وارانہ فساد کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
حالیہ تنازع چند ماہ پہلے پاڑاچنار جانے والی گاڑیوں کے قافلے پر حملے سے شروع ہوا تھا جس میں 40 سے زیادہ لوگ زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔ اس کے جواب میں اگلے روز مسلح افراد مقامی گاؤں بگن پر حملہ آور ہوگئے تھے اور گھروں اور بازاروں کو اگ لگادی تھی جس کے بعد حالات مزید کشیدہ ہو گئے۔
تب سے پاڑاچنار پشاور روڈ بدستور بند ہے جس کے باعث علاقے میں اشیائے خورونوش اور ادویات و دیگر ضروری اشیا کی شدید قلت ہے۔ مزید برآں پاڑاچنار اور ملحقہ علاقوں کے مکین محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امدادی قافلے پر حملہ بگن سے حملہ کرم کرم امن کوششیں کرم شورش