بی جے پی حکومت برقرار رکھنے کیلیے مسلم دشمنی کے ہتھکنڈے استعما ل کرتی ہے
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
کراچی(رپورٹ:حماد حسین) بی جے پی اپنی حکومت کو برقرار رکھنے اور اپنے سیاسی عزائم کو ممکن بنانے کے لیے مسلمانوں کے ساتھ اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرنا تاکہ ہندو قوم پرستوں کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کرکے اپنی سیاست اور حکومت کو استحکام دے سکے۔ان خیالات کا اظہار وفاقی اردو یونیورسٹی کراچی کے شعبہ بین القوامی تعلقات کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر رضوانہ جبیں اورسندھ ہائی کورٹ کی ممتاز وکیل ڈاکٹر عنبر مہرایڈووکیٹ نے جسارت کے سوال’’ بھارت میں بڑھتی ہو ئی مسلم دشمنی کے محرکات کیا ہیں‘‘؟میں کیا۔پروفیسر ڈاکٹر رضوانہ جبیں کا کہنا تھا کہ بھارت میں اکثر اوقات فسادات اور جھڑپیں تشویش کا باعث ہیں‘ اس کی بنیادی وجہ حکمران جماعت بی جے پی اور ہندو قوم پرست ہیں‘ پچھلے دنوں ریاست ہریانہ میں قوم پرست ہندوؤں کے ایک گروپ نے مسلم اکثریتی ضلع نوح میں مذہبی جلوس کے دوران فسادات کو بھڑکایا ‘اس تازہ واقعے میں نوح کے علاقے کا تشدد دیگر مختلف علاقوں تک پھیل گیا تھا، جہاں ایک ہندو ہجوم نے مسجد کو آگ لگا دی تھی اورامام مسجد کو شہید کر دیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ جبکہ دوسری طرف حکومت کا یہ دعویٰ تھا کہ جن املاک کو نقصان پہنچا ہے وہ غیر قانونی طور پر بنائے گئے مکانات تھے جن کا انہدام کیا گیاہے۔ عام طور پر بی جے پی حکومت میں اس طرح کا اقدام فسادات کے بعد
کیا جاتا ہے تاکہ مسلمانوں کو معاشی طور پر نقصان پہنچایا جاسکے۔ انہدام کی جانے والی عمارتوں کی تعداد تقریباً 750 سے زائد ہو گئی تھی جس کے بعد ریاست کے ہائی کورٹ نے کارروائی روکنے کا حکم دیا۔ سخت گیر ہندو تنظیموں کی جانب سے بار بار ایسے واقعات دہرانے کا مطلب مسلمانوں کو اکسانا اور انہیں دہشت زدہ کرنا ہے۔ خاص طور پر جلوسوں میں ایسے نعروں کا استعمال کیا جاتا ہے جس میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔بی جے پی بھارت کو ایک ایسی ریاست بنانا چاہتی ہے جس میں ہندوؤں کو تمام حقوق حاصل ہوں اور اقلیت ان کے ماتحت ہو۔ ہیومن رائٹس واچ نے اپنی 2023 کی رپورٹ میں کہا ہے کہ بی جے پی حکومت نے دیگر اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ منظم امتیازی سلوک جاری رکھا ہوا ہے۔ سندھ ہائی کورٹ کی ممتاز وکیل ڈاکٹر عنبر مہرایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ اگر زمانہ ماضی کی طرف نظر ڈالیں تو ”مغل بادشاہوں کی حکومت کو ہندو قوم پرست حلقے ”غاصبانہ” تصور کرتے ہیں”۔1947 میں برصغیر کی تقسیم کے دوران ہندو ؤں اور مسلمانوں کے درمیان جونفرت کا ایسابیج، بویا گیاو جو آج بھی بھارت میں بعض جگہوں پر برقرار ہے۔مسلمانوں کی یہ ذہنیت بن گئی ہے یا بنا دی گئی ہے کہ انڈیا ایک سیکولر ملک ہے۔ چونکہ بٹوارہ مذہب کی بنیاد پر ہوا تھا اس لیے جو مسلمان انڈیا میں رہ گئے ان میں یہ احساس اچھی طرح سے تھا کہ انھیں ہندوؤں کی مختلف سیاسی پارٹیوں کے ساتھ رہنا ہے۔اور اگر مسلمان اپنی آبادی کے گمان پر ایک اور مسلم پارٹی بناتے ہیں تو اس کا حشر پھر سے ایک اور پاکستان ہو سکتا۔اسی لیے مسلمانوں کے سرکردہ رہنما اور مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسدالدین اویسی کو بھی ملک بھر کے مسلمانوں کی جانب سے حمایت حاصل نہیںہے۔ بھارتی مسلم نے بھارت کی ترقی وتعمیر اوربھلائی کے لیے مختلف پارٹیوں”جنتادل ”،لالو پرشاد کی پارٹی،کانگریس پارٹی،مودی کی بھارتی جنتا پارٹی کا ساتھ دیالیکن وہ اپنی ذات برادری کے لیے سیاست کرتے رہے اور مسلم پر مذہب کی چھاپ گہری ہوتی گئی،اور آج مودی جیسا لیڈر ہی ان کا مخالف ہے۔ کیونکہ بڑی وجہ ہندو قوم پرستی پر مبینہ نظریہ، جس کی قیادت آر ایس ایس اور نریندر مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP) کرتی ہیں،وہ بھارت کو ایک ”ہندو ریاست” بنانے پر زور دیتی ہے۔ اس نظریے کے تحت مسلمانوں کو ”غیرمکی” یا ”دوسرے درجے کے شہری” کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اور انڈیا کے 20 کروڑ مسلمانوں کا جینا دشوار ہے۔خاص طور پر دیہاتی پسماندہ علاقوں میں حالات بہت کشیدہ ہیں۔بھارت کے مسلمان تعلیمی اور اقتصادی طور پر پسماندہ ہیں، جس سے امتیاز اور تعصب میں اضافہ ہوتا ہے اور ان کے خلاف منفی تصورات کو بڑھایا دیا جاتا ہے۔ تین طلاق، حجاب، اور دیگر مسائل کو اکثر سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تاکہ مسلم کمیونٹی کو بدنام کیا جاسکے۔ مسلم کی علیحدہ ثقافتی اور مذہبی شناخت کو ایک خطرے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، نفسیاتی طور پر ہندوؤں کو ڈرانا کہ مسلمانوں کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے وہ مستقبل میں”ہندو اکثری” کو اقلیت میں بدل دیں گے۔ جس سے ان میں قوم پرستی کے جذبات بھڑکتے ہیں۔ مسلمانوں کو ”ریڈیکل اسلام” کے نمائندہ کے طور پر پیش کرکے خوف کی فضا پیدا کی جاتی ہے۔ بھارتی میڈیا چینلز میں مسلمانوں کے خلاف منفی پروپیگنڈا پھیلانے میں، دہشت گردی، غداری، یا ملکی سلامتی کے لیے خطرہ کے طور پر پیش کرنا عام ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی نفرت انگیز مواد کی بھرمار ہے، جو مسلم دشمنی کو ہوا دیتا ہیں یہاں تک کہ ان کے تعلیمی نظام میں تاریخ کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں کو ”غاصب” اور”ظالم” کے بتایا جاتا ہے جس سے بچپن ہی سے ہندوؤں کے دل ودماغ میں مسلمانوں کے لیے نفرت جیسا جذبہ فروغ پاتا چلا جاتا ہے۔ اور بچے اپنے ہم جماعت مسلمان کو ”نالی کا کیڑا” یاگائے کے گوشت کو کاروبار کے حوالے سے تاجر حضرات کو تشددکا نشانہ بنانا، بابری مسجدکی جگہ مندر ہونے کا دعوی دائر کرنا، مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر سے منسوب سنبھل کی جامع مسجدکے نیچے مندر، بنارس کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی عید گاہ کے ساتھ ساتھ اجمیر کی درگاہ پر بھی مندر ہونے کا دعوی کرنا، اور تو اور ریاست اتر پردیش کے شہر مراد آباد میں مسلمان ڈاکٹر میاں بیوی کا ہندو ہمسائیوں کے احتجاج کے باعث اپنا مکان بیچنا، مسلمانوں کو قتل کرتے وقت وڈیو بنانا اور وائرل کرنا بھارتیوں کی مسلمانوں سے شدید نفرت کی واضح مثالیں ہیں۔ فرقہ ورانہ فسادات میں بھارتی پولیس اکثرمسلم مخالف رویہ اختیار کرتی ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کا اثر بھارتی مسلمانوں پر بھی پڑتا ہے، اور انہیں اکثر ”پاکستانی” یا ”غدار” کے طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔بھارت میں بڑھتی ہوئی مسلم دشمنی ایک پیچیدہ مسئلہ ہے، جس کے حل کے لیے مربوط اقدامات اور تمام سماجی، سیاسی، اور تعلیمی سطحوں پر تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اگر عوامی شعور، قانون کی حکمرانی، اور بین المذاہب ہم آہنگی پر کام کیا جائے تو اس مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کے طور پر پیش مسلمانوں کو مسلمانوں کے بھارت میں بی جے پی کے خلاف کے ساتھ کے لیے اور ان تھا کہ
پڑھیں:
لاس اینجلس کی آگ! کیا واقعی اللہ کا عذاب ہے؟
صاحبو! لب کتنے ہی آزاد ہوں کہنے اور بولنے میں احتیاط کرنی چاہیے۔ کتنی احتیاط؟ اتنی کہ بقول جون ایلیا ’’جو کہنا چاہیں تو کپکپانے لگیں اور بولنا چاہیں تو بولا جائیں‘‘۔ اچھا بھلا ’’لاس‘‘ اینجلز Los Angeles تھا جسے ’’لوس‘‘ اینجلز Loss Angeles کر دیا گیا۔ ممکن ہے یہ بھی سبب ہوکہ آج لوس اینجلز میں ہر طرف خسارہ ہی خسارہ، گھاٹا ہی گھاٹا، آگ ہی آگ ہے۔ ’’جنگل کی آگ‘‘ یا ’’جنگل میں آگ‘‘ نئی بات نہیں۔ جنگلوں میں آگ لگتی ہی رہتی ہے۔ جس کے باعث ہونے والی تبدیلیاں نئی زرخیزیوں کو جنم دیتی ہیں۔ یہ آگ بے قابو بھی ہوجاتی ہے لیکن لاس اینجلز جیسی بے قابو!! اللہ کی پناہ۔
ایک ہفتے سے زیادہ ہوجانے 84 ہوائی جہازوں، ہیلی کاپٹروں، 15 ہزار رضاکاروں، ایک ہزار سے زائد قیدیوں، ایک ہزار تین سو سے زائد فائر انجنوں سے مدد لینے اور دیگر کوششوں کے باوجود آگ قابو میں نہیں آرہی۔ جس کا سبب 50 سے 110 کلومیٹر کی رفتار سے چلنے والی ہوائیں ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں یہ خشک ہوائیں پیر سے بدھ تک مزید تیز اور خطرناک ہوتی جا رہی ہیں۔ اندازہ نہیں لگا یاجاسکتا کہ ہوائیں اب کیا رخ اختیار کریں گی۔ ان تیز ہوائوں نے آگ بجھانے والے جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کی اڑان کو انتہائی مشکل بنادیا ہے اور اس امریکی ٹیکنالوجی کو بھی بے اثر کردیا ہے جس میں جہازوں اور ہیلی کاپٹروں سے ایسا کیمیکل چھڑکا جاتا ہے جو متاثرہ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار زیادہ اور آکسیجن کی مقدار کم کردیتا ہے جس سے آگ بجھانے میں مدد ملتی ہے۔ آگ کے سبب اموات کی تعداد 24 ہوچکی ہے جن میں اضافے کا امکان ہے۔
مقامی حکام اندیشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ آگ اور پھیل سکتی ہے، گنجان آبادی والے علاقوں کو مزید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ کیلی فورنیا کے گورنر گیون نیوسم نے کہا ہے کہ لاس اینجلس میں لگنے والی آگ سے نقصانات کے تخمینے اور متاثر ہونے والے رقبے کے سبب یہ امریکا کی بدترین قدرتی آفت میں سے ایک ہو سکتی ہے۔ اب تک لگائے جانے والے اندازوں کے مطابق 135 ارب ڈالر سے 150 ارب ڈالر کے نقصانات ہو چکے ہیں۔ حکام نے آگ سے انتہائی پر تعیش اور مہنگے گھروں سمیت لگ بھگ 12 ہزار املاک کے نذرِ آتش ہونے کی تصدیق کی ہے۔ ڈیڑھ لاکھ افراد علاقہ چھوڑ کر جاچکے ہیں جب کہ مزید ایک لاکھ ساٹھ ہزار افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے احکامات جاری کیے جا چکے ہیں۔ نو مقامات پر بے گھر افراد کے لیے پناہ گاہیں بھی قائم کی گئی ہیں۔ کیلی فورنیا فائر ڈیپارٹمنٹ کے نائب سربراہ نے کہا ہے کہ ’’ہمیں قدرت کی جانب سے رحم کی ضرورت ہے‘‘۔
لاس اینجلس سے نقل مکانی کرنے والوں کا کہنا کہ ’’ایسا لگتا ہے جیسے لاس اینجلس پر ایٹمی حملہ ہوا ہے‘‘۔ ایک کائونٹی کے شیرف کا کہنا ہے کہ ’’ایسا لگتا ہے کہ دنیا کا سب سے خوف ناک بم لاس اینجلس میں چلا ہے‘‘۔ وجہ اس کی یہ بیان کی جارہی ہے کہ لاس اینجلس کی آگ بھی ہیروشیما اور ناگاساکی پر 1945 کے امریکی ایٹم بموں کے حملے سے بھڑکنے والی آگ جیسی ہے کہ جتنا اسے بجھانے کی کوشش کی جارہی ہے اس میں تیزی آنے لگتی ہے۔ ایک صحافی خاتون کا کہنا ہے کہ آگ لگنے کے کچھ دن بعد جب میں دوبارہ اپنے محلے میں گئی تو پوری گلی جس میں بیس مکان تھے جل کر کوئلہ بن چکی تھی۔ کوئی چیز سلامت نہیں تھی۔ مجھے پہلی مرتبہ اس کرب کا احساس ہوا جو گھر جلنے سے ہوتا ہے۔ گھر، جس کے بنانے میں عمر بیت جاتی ہے۔
لاس اینجلس کی آگ سے پورے امریکا میں خوف کا عالم ہے۔ آگ کو ردعمل قراردیا جارہا ہے اس عمل کا جو دنیا بھر میں امریکی بمباری اور حملوں کی وجہ سے جان ومال اور املاک کی بربادی کی صورت میں نکلتا ہے۔ عالم اسلام میں مکمل طور پر تو نہیں لیکن اکثر اسے غزہ اور مسلم ممالک کی بربادی میں کردار کی وجہ سے امریکا پر اللہ کا عذاب اور اللہ کی طاقت کا مظہر قرار دیا جارہا ہے۔ یہ موقف کس قدر درست ہے؟ مکافات عمل کو یقینا سب ہی تسلیم کرتے ہیں۔ ہمارا بھی یہ عقیدہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ مظلوم کا بدلہ دنیا میں بھی لیتے ہیں۔ جہاں مظلوم سراپا بے بسی کی تصویر ہوں وہاں ایسے بدلے کے امکانات زیادہ ہوجاتے ہیں۔ یہ آگ اسی وجہ سے ہے یا کسی اور وجہ سے، یقینا اس کا حتمی جواب پھر بھی نہیں دیا جاسکتا سوائے اس کے ایک بیانیہ کے درجے میں اس کی گنجائش ہو لیکن بہرحال یہ اللہ سبحانہ ٗ وتعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں۔ یہ اللہ کا معاملہ ہے۔
لاس اینجلز کی آگ پر خوش ہونے اور غزہ سے لنک کرنے کے بجائے مسلمانوں کو یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ پچھلے سوا سال سے جو کچھ غزہ میں ہورہا ہے اس پر مسلمانوں پر بحیثیت امت جو ذمے داری عائد ہوتی ہے کیا مسلمانوں نے وہ ذمے داری ادا کی ہے؟ جب دنیا میں کہیں بھی مسلمان مشکل میں ہوں، ان پر ظلم ہو رہا ہو، انہیں شہید اور زخمی کیا جارہا ہو، عزتوں کو پامال اور املاک کو برباد کیا جارہا ہو، زمینوں پر قبضہ کیا جارہا ہو تو مسلمانوں پر ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ ظلم سے نجات دلانے کے لیے وہ مسلم افواج میں موجود اپنے بھائیوں، بیٹوں، عزیزوں اور دوستوںسے ملتے ہیں، انہیں ذمے داری کا احساس دلاتے ہیں اور مسلم افواج کو متحرک کرتے ہیں۔ یہ ایک شرعی ذمے داری اور اللہ کا حکم ہے۔ اگر مسلمان اس حکم سے روگردانی کرتے ہیں تو وہ اللہ کے عذاب اور غضب کے مستحق ٹھیرتے ہیں۔
لاس اینجلز میں آگ کے اسباب کا ہمیں نہیں معلوم لیکن ایک بات معلوم ہے کہ اللہ سبحانہ ٗ وتعالیٰ نے جو فرض ہم پرعائد کیا ہے اس کا لازمی حساب ہم سے لے گا، دنیا میں نہیں تو آخرت میں تو یقینی ہے۔ آگ کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف منسوب کرنے سے ایسا لگتا ہے جیسے ہم جہاد کے لیے متحرک نہ ہونے کی اپنی غفلت پر پردہ ڈال رہے ہیں کہ دیکھو ہم نے تو بدلہ نہیں لیا لیکن اللہ نے بدلہ لے لیا۔ ایسے میں یہ نہیں سوچا جارہا ہے کہ ہماری بے عملی سے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی نظر میں ہماری کیا وقعت رہ گئی ہوگی۔ ہم کس بات پر خوش ہورہے ہیں جب کہ ہماری ذمے داری ابھی بھی ادا ہونا باقی ہے۔
غزہ کے حوالے سے اگر عذاب آتا تو شاید سب سے پہلے مسلم حکمرانوں کے محلات پر آتاجو طاقت رکھنے کے باوجود جہاد فی سبیل اللہ کے لیے مسلم افواج کو متحرک نہیں کررہے ہیں بلکہ مسلمانوں کو مروانے میں الٹا یہودی ریاست کی مددکررہے ہیں۔ صدیوں کی مسلسل شکست وریخت (جس کی وجہ مسلمانوں کی بے عملی، ان کے حکمرانوں کی کوتاہ نظری اپنے اقتدار کی بقا کے لیے مغرب کی غلامی اور جہاد سے فرار ہے) نے مسلمانوں کی مایوسی اور بددلی کو یہ رنگ دے دیا ہے کہ عالم کفر پر آنے والی کسی بھی آفت کو اللہ کا غضب قراردے کر، خود فریبی کا شکار ہوکر خوش ہوجاتے ہیں۔ ہمیں فکر کرنی چاہیے کہ کہیں اللہ کا غضب ہم پر نازل نہ ہوجائے جو اللہ کے دین کو فراموش کیے بیٹھے ہیں۔ مسلمانوں پر صرف غزہ اور اس امت کے حوالے سے ہی نہیں مغرب اور عالم کفرکے حوالے سے بھی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ یہ امت تمام انسانیت کی فلاح کے لیے ہے۔