Jasarat News:
2025-01-18@10:13:12 GMT

چین نہیں امریکا کو دنیا کی قیادت کرنی ہے‘ جوبائیڈن

اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT

واشنگٹن (مانیٹرنگ ڈیسک) امریکی صدر جوبائیڈن نے قوم سے الوداعی خطاب میں کہا ہے کہ ان کے دور حکومت میں امریکا نے بڑے چیلنجز کا سامنا کیا، چین نہیں امریکا کو دنیا کی قیادت کرنی ہے۔ وائٹ ہاؤس سے قوم سے الوداعی خطاب میں جو بائیڈن نے کہا کہ نائب صدر کمالا ہیرس اور ٹیم کے ساتھ کی وجہ سے حکومت نے میرے دور میں مشکلات عبور کیں، ہمیں
امریکا میں جمہوریت کو محفوظ بنانا ہے، چند امیر لوگوں کے ہاتھوں میں طاقت آنے پر فکر مند ہوں۔ جوبائیڈن نے کہا موجودہ دور میں سوشل میڈیا پر مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کا دور ہے جس سے ہمیں اپنی نئی نسل کو بچانا ہے، مصنوعی ذہانت کو حفاظتی انتظامات کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ جو بائیڈن نے غزہ جنگ بندی معاہدے کا بھی خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ امریکا نے بہترین سفارتکاری کی، اگلے مرحلے میں امریکی یرغمالیوں کی رہائی شامل ہوگی، غزہ جنگ بندی کیلیے میری ٹیم اور ڈونلڈٹرمپ نے مل کر کام کیا۔ لبنان میں جنگ بندی اور ایران کے کمزور ہونے کے بعد حماس پر دباؤ تھا، بدلتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر حماس کو جنگ بندی کیلیے مجبور کیا۔

.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

ڈونلڈ ٹرمپ بڑے ملک کا چھوٹا انسان یا بڑا تاجر

ڈونلڈ ٹرمپ نے دوسری بار صدارت کا حلف اٹھانے سے پہلے ہی دنیا بھر میں اک طوفان سا اٹھا دیا ہے اک طرف اپنے ہمسائے کینیڈا کو اپنی اکیاون ویں ریا ست بنانے کا بیان دے رہے ہیں دوسری طرف میکسیکو کو دھماکا رہے ہیں، اک جانب اپنے ناٹو اتحادی کو چھوڑ نے کے بیانات دے رہی ہیں دوسری جانب گرین لینڈ کو ہتھیانے کا اعلان کررہے ہیں۔ آگے بڑھ کر پاناما کو بھی دھمکانے کے ساتھ غزہ کے مجاہدین کو بھی دھمکانے سے بعض نہیں آرہے ہیں۔

بیان کیا جاتا ہے کہ ایک مغرور بادشاہ نیک صفت افراد کو حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا۔ ایک عالم نے قرائن سے یہ بات جان لی اور وقت کے بادشاہ کو مخاطب کرکے کہا ’’اے دنیا کے بادشاہ، لاؤ لشکر اور دنیاوی ساز و سامان میں ہے شک تو ہم سے بہت زیادہ ہے، لیکن سکون اطمینان میں ہم بہت بہتر ہیں۔ مگر موت سب کو برابر کر دے گی۔ ان شاء اللہ قیامت یا روز آخرت ہمارے جیسے لوگوں کا حال تجھ سے بہت بہتر ہوگا۔ اے پادشا نیک صفت لوگوں کا حال بظاہر خراب و خستہ لگتا ہے لیکن ان کا دل روشن اور گناہوں کی طرف آمادہ کرنے والا حس مردہ ہے۔ ہم جیسے بزرگوں کا طریقہ ذکر خدا کرنا، شکر ادا کرنا، ایثار و قناعت 1 خدا کی ذات میں کسی اور کو شریک نہ کرتا ہے، اس کے ساتھ توکل و حلم کا جذبہ ہے، اگر کسی میں یہ صفات نہ ہو تو وہ نیک صفت انسان نہیں ہو سکتا اور جو دین کے بتائے ہوئے طریقوں سے روگردانی کرے، عیش و عشرت کا خواہش مند ہو، آوارہ صفت ہو، جو سامنے آئے ہڑپ کر جائے اور جو منہ میں آئے کہہ گزرنے والا ہو۔ چاہے اس نے درویشوں کی صورت اختیار کی ہوئی ہو۔ یہ حکمران دنیا کے کسی بھی خطے میں یا کسی قوم کے ہوں، ان کی خصوصیات اگر ایک جیسی ہوں جن کا بیان اوپر کیا گیا ہے ان کا حشر بھی بیان کر دیا گیا۔ دنیا کے مختلف خطوں میں حکمرانوں کو منتخب کرنے کے مختلف طریقہ رائج ہیں۔ سب اپنے اپنے علاقوں کی نفسیات روایات اور اقدار کے ساتھ رجحانات کے مطابق حکمرانوں کو اقتدار میں لاتے ہیں۔ کہیں پر حکمران خود سے اقتدار حاصل کر لیتے ہیں۔ چھوٹے ملکوں میں اکثر ایسا ہوتا ہے، کہیں پر مصنوعی جمہوریت کے ذریعہ کہیں پر حقیقی طریقے سے حکمرانوں کو منتخب کر کے اقتدار میں لایا جاتا ہے۔

امریکا کے انتخابات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں پر ادارے کس قدر مضبوط ہیں۔ پچھلے دنوں امریکا میں انتخابات میں غیر متوقع طور پر ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے صدر منتخب ہو کر دنیا بھر کے روایتی حلقوں کو حیران و پریشان کر گئے۔ امریکا کی حیثیت اس وقت دنیا کی سب سے بڑی قوت والے ملک کی ہے۔ اس کا حکمران دنیا بھر کا حکمران تصور کیا جاتا ہے۔ اس لیے ٹرمپ کی صورت میں دنیا کو ایک ایسا حکمران میسر ہو گیا۔ جس کے بارے میں کوئی بھی مکمل اندازہ نہیں لگا سکتا مگر یہ حقیقت ہے کہ ٹرمپ کی صورت دنیا کو ایک ایسا حکمران مل گیا جس کی موجودہ دور میں شدت سے ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ ٹرمپ ایک پیشہ ور سیاستدان نہیں تھا، نہ ہی اس نے اپنی انتخابی مہم میں ایسے طریقے استعمال کیے جیسے کہ اس کے مخالف سیاستدانوں نے اختیار کیے جس کی وجہ سے وہ شکست سے دوچار ہوئے اور ٹرمپ کو فتح حاصل ہوئی۔ ٹرمپ نے ایک بزنس مین کی سوچ رکھتے ہوئے یہ نعرہ لگایا کہ امریکا امریکن کے لیے ہے۔ اور امریکا کو بنانے میں بھی باہر سے آنے والے افراد شامل ہیں جن کی اپنی روایات، اقدار، ہے، ظاہر ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں سے ملک کی تعمیر و ترقی میں بڑھ چڑھ کر شامل ہو رہے ہیں، ان کے اپنے طرز زندگی کے بھی اثرات امریکا جیسے بڑے ملک میں پڑ رہے ہیں ایک طرف امریکن عوام ان باہر سے آنے والوں کو اپنے ملک کی تعمیر و ترقی میں ناگزیر سمجھتے ہیں دوسری طرف وہ ان کے طرز زندگی نے سے خوف زدہ ہو کر ٹرمپ کے منصوبوں میں آلہ کار بن گئے۔ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم جس طریقہ سے چلائی اور اس کو کامیاب سے ہمکنار کیا۔ یہ اس کی ذہانت ہے جس کا مظاہرہ کر کے اس نے بزنس میں والی کامیابیاں حاصل کیں۔ ایک بزنس مین یہ دیکھتا ہے کہ اس کی کسی پروڈکٹ کو عوام کے کسی طبقے میں کتنی پذیرائی حاصل ہو رہی ہے۔ وہ یقینا اپنی اس پروڈکٹ کو سیل کرکے منافع تو خوب حاصل کرے گا مگر کبھی یہ نہیں چاہے گا کہ اس کی اس پروڈکٹ کی وجہ سے ’’اس کی ساکھ خراب ہو‘‘ جس کی وجہ سے اس ’’کا پورا بزنس ہی تباہ ہو جائے۔

اب صورت یہ تھی کہ ٹرمپ دوبارہ کامیاب ہونے کے بعد پورے امریکا کے صدر ثابت ہونے کے ساتھ تمام انسانیت کی فلاح و بہبود کا باعث ہوگا جیسا کہ امریکا کے سب سے بڑے بزنس بل گیٹ نے اپنی تمام دولت کو انسانیت کے لیے وقف کر کے ثابت کیا کہ وہ ایک بڑے بزنس مین سے بڑھ کر انسانیت کا خادم بن کر پوری دنیا میں وہ عزت و نیک نامی حاصل کرلے گا جو کہ ایک بزنس مین یا سیاستدان بن کر حاصل نہیں ہو سکتی تھی۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ کو دوبارہ صدر بن کر اپنی اس بات پر سختی سے عمل کرنا ہو گا کہ وہ پورے امریکا کے صدر ہیں۔ ان کو سپر پاور کے صدر کی حیثیت سے فیصلہ کرنے ہوں گے نہ کہ ایک محدود اور مخصوص طبقے کی خواہشات کی تکمیل کے لیے یقینا ان کو اپنے فیصلے علاقائی فکر وسوچ سے بالاتر ہو کر نہ صرف سپر پاور امریکا بلکہ پورے مغرب کے ساتھ تمام دنیا کے امن استحکام مد نظر رکھنا ہوگا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو صدر کے عہدے پر پہنچتے ہی یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ ایک کامیاب بزنس مین کی طرح امریکا اور پوری دنیا کی فلاح و بہبود کو اپنے لیے مشعل راہ بنائیں گے یا ایسے محدود فکر کے انسان کی حیثیت بدستور قائم و دائم رہیں گے جو صرف علاقائی طبقاتی فکر و سوچ رکھنے والا انسان ہو یا وہ ایک مدبر بن کر عالم انسانیت لیے امن آشتی کا ماحول قائم کریں گے۔ اب ان کے اوپر منحصر ہے کہ وہ روایتی بادشاہ ثابت ہوتے ہیں یا انسانیت کا امین۔ اپنے آپ کو ایک بہت بڑا مدبر اور رہنما کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کریں جیسے کے نیوزی لینڈ کی سابق خاتون وزیراعظم جسینڈا رائس، جس کے بعد دنیا بھر میں اس خاتون کو بہت بڑے اور اعلیٰ مقام پر اہمیت دی جاتی رہی ہے۔ اس کے مقابلے پر سپر پاور امریکا کا صدر اس مرتبہ تک نہیں پہنچ پا رہا ہے حالانکہ وہ اقتدار میں ان لوگوں کی مدد سے آیا تھا جو کہ اپنے آپ کو دوسرے انسانوں سے بڑا اور بہتر سمجھتے ہیں۔

امریکی صدر کے بہت سے اقدامات ان قوتوں کو قوت فراہم کر رہے ہیں جو اس طرح کی محدود طرز فکر رکھتے ہیں جب کہ نیوزی لینڈ کی سابق وزیر اعظم کا موقف ان سے بالکل مختلف سمت میں رہا ہے اس کی سوچ بین الاقوامی یا انسانیت کے لیے رہی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا انداز محدود طرزِ عمل کا حامل ہے جو کہ بڑے ملک کی سربراہ کے شایان شان نہیں ہے ان کا نعرہ ہے کہ امریکا امریکن کے لیے پہلے ہے جو کہ امریکا جیسے سپر پاور کے لیے ایک چھوٹی بات ہے۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے تو اپنے قول وفعل سے ثابت کر دیا کہ وہ انسانیت کی امین ہے اس نے دنیا کے چھوٹے بڑے ملکوں کے سربراہوں کے سامنے ایک ایسی اعلیٰ مثال قائم کر دی کہ جس کو اپنا کر ڈونلڈ ٹرمپ، نریندر مودی اور نیتن یاہو جیسے حکمران انسانیت کی فلاح کے لیے بڑے بڑے کام انجام دے کر اس دنیا کو امن کا گہوارہ بنوانے میں بہت بڑا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ نریندر مودی اور نیتن یاہو کے مقابلے میں ڈونلڈ ٹرمپ سے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ جسینڈا کی پیروی کرتے ہوئے فلاح انسانیت کے لیے اقدامات اٹھا کر انسانیت جو کو نقصانات پہنچانے والوں سے دنیا کو محفوظ کر سکتے ہیں جیسا کہ انہوں نے کوریا کے صدر کو راہ ر است پر لانے کا رادہ کیا ہوا ہے یا داعش کے خاتمے کا یقین دلایا ہے۔ اس کے برعکس نیوزی لینڈ امریکا کے مقابلے میں ایک بہت ہی چھوٹا سا ملک ہے مگر اس ملک کی وزیر اعظم مدبرین کی صف میں مقام کی حامل ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ اک بڑے ملک کے چھوٹے سربراہ بنتے ہیں یا ایک اعلیٰ مدبر؟؟

متعلقہ مضامین

  • اہل غزہ سرخرو ہوگئے، جنگ بندی معاہدہ اسرائیل کی نہیں امریکا کی بھی شکست ہے: حافظ نعیم الرحمان 
  • ’کیا یہ مذاق تھا؟‘، ڈونلڈ ٹرمپ سے متعلق سوال پر جوبائیڈن نے یہ جواب کیوں دیا؟
  • چین نہیں، امریکا کو دنیا کی قیادت کرنی ہے، امریکی صدر بائیڈن کا قوم سے الوداعی خطاب
  • کرسٹیانو رونالڈو جلد ایک منٹ کے 300 پاؤنڈ کمائیں گے
  • ڈونلڈ ٹرمپ بڑے ملک کا چھوٹا انسان یا بڑا تاجر
  • اہل غزہ سرخرو ہوگئے، جنگ بندی معاہدہ اسرائیل کی ہی نہیں امریکا کی بھی شکست ہے، حافظ نعیم
  • خدائی طاقت کے سامنے بے بس سپر طاقت
  • جوبائیڈن نے غزہ جنگ بندی معاہدہ کو بہترین امریکی سفارتکاری کا نتیجہ قرار دیا
  • جوبائیڈن کا حماس اور اسرائیل کے درمیان فائر بندی معاہدہ ہونے کا اعلان