Express News:
2025-04-13@15:12:56 GMT

کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالبؔ

اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT

بہت پرانی بات ہوگئی کہ مملکت خداداد پاکستان کو رشوت کے سرطان کا عارضہ لاحق ہو چکا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہ بیماری اب اپنے آخری اسٹیج پر ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ سرطان کا علاج مکمل طور پر آج تک دریافت نہیں ہوا۔ رشوت کی کارفرمائیاں آپ کو پاکستانی معاشرے کے ہر شعبے میں نظر آئیں گی، کوئی خوش نصیب محکمہ ایسا نہیں جہاں اس نے پنجے نہ گاڑے ہوں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ عارضہ صرف سرکاری اداروں کو لاحق ہے۔

کراچی کو عروس البلاد، میٹروپولیٹن سٹی اور میگاسٹی جیسے خطابات سے نوازا گیا ہے لیکن کوئی اس کی طویل و عریض سڑکوں کی شکستہ حالی، پامالی اور درماندگی کو دیکھے۔ صرف ایک شاہراہ فیصل کو چھوڑ کر کہ اس پر سربراہان مملکت کا گزر ہوتا ہے اور ہمارے صدر و وزیر اعظم کی جلوہ گری بھی اسی سڑک تک محدود ہے۔ بقیہ سڑکوں کی حالت زار دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ جیسے ہلاکو خاں کا لشکر ابھی ابھی یہاں سے گزرا ہے۔

ہر سڑک ٹوٹی پھوٹی، گڑھوں سے مزین، گٹر بہتے ہوئے، موئن جو ڈارو بھی اس سے بہتر حالت میں ہوگا۔ طویل عرصے سے سندھ پر پی پی کی حکومت ہے لیکن یوں لگتا ہے جیسے کسی سے بدلہ لینے کے لیے، اس شہر کو جان بوجھ کر کھنڈر بنا دیا گیا ہو۔ ان سڑکوں پہ چل کر صرف رکشہ اور ٹیکسی کے ہی انجر پنجر ڈھیلے نہیں ہوتے بلکہ انسان کا اندرونی نظام بھی تباہ ہو جاتا ہے۔ لاہور کو شہباز شریف نے ایسا صاف ستھرا کر دیا ہے کہ اس کی سڑکیں پاکستان کی نہیں لگتیں۔ جب ان سے درخواست کی جاتی ہے کہ کچھ نظر کرم کراچی پر بھی کر دیجیے تو جواب ملتا ہے ’’کراچی میں ہماری حکومت نہیں۔‘‘ اس موقع پر ایک شعر یاد آتا ہے:

ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ

ایک وہ ہیں جنھیں تصویر بنا آتی ہے

اس صورت حال کی ذمے دار ہے، رشوت۔۔۔۔ اور صرف رشوت۔ جہاں ٹینڈر کھلنے سے لے کر سڑک کے افتتاح تک میں سب میں رشوت کا عمل دخل۔ ٹھیکیدار متعلقہ ایگزیکٹیو انجینئر کو نوٹوں کی گڈیاں پیش کرے ریتی اور بجری میں سیمنٹ ’’ بقدر اشک بلبل‘‘ ڈال کر سڑک کو مکمل کر دیتا ہے۔ آج کل صرف دو دن میں ’’ پکی سڑک‘‘ بن جاتی ہے۔

پہلے کئی کئی دن لگتے تھے، پتھر توڑ کر بچھایا جاتا تھا پھر پتھریلے چھوٹے چھوٹے پتھر ڈلتے تھے جنھیں ٹریکٹر کے ذریعے دبایا جاتا تھا اور بعد میں ریتی بجری میں تارکول ملا کر بچھایا جاتا تھا، بعض سڑکوں پہ سیمنٹ بھی ڈالا جاتا ہے لیکن اب سب ناپید ہے۔ کوئی سڑک ایک بارش کی مار نہیں سہہ سکتی۔ پہلی ہی بارش میں تمام اندرونی غلاظت باہر نکل آتی ہے۔ آپ کتنا بھی چلائیے، کالم لکھیے، ٹی وی ٹاک شوز میں توجہ دلائیے، نتیجہ صفر،صفر،صفر۔

اب آئیے بجلی کی طرف۔ بجلی کی چوری اورکنڈا سسٹم اس کی اصل وجوہات ہیں جن سے ہر ذی شعور واقف ہے۔ کے الیکٹرک کے افسران اتنے سادہ ہیں کہ انھیں پتا ہی نہیں کہ کنڈا سسٹم کون چلا رہا ہے۔ تمام کچی بستیوں میں کے الیکٹرک کے کارندے خود کنڈا دیتے ہیں اور مہینے پر آ کر اپنی ’’روزی روٹی‘‘ لے جاتے ہیں۔ بڑی بڑی مارکیٹوں میں بھی کنڈا سسٹم زور شور سے جاری ہے۔

عوام قطار میں لگ کر بجلی کا بل ادا کرتے ہیں اور بدلے میں کئی کئی گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ ملتی ہے۔ کے الیکٹرک کے افسران کی ملی بھگت سے دو کمروں کے گھر میں رہنے والے کا بل آ رہا ہے آٹھ سے دس ہزار کا۔ اور چار چار اے سی چلانے والوں کا بل چار ہزار کا۔ بجلی کے میٹروں میں کاری گری بجلی کمپنی کے کارندے ہی دکھاتے ہیں ۔ سنا ہے میٹروں میں ایکسرے کی شیٹ لگا دی جاتی ہے جس سے میٹر سست ہو جاتا ہے۔ اس کو کہتے ہیں ’’ ہاتھ کی صفائی، کنڈا سسٹم کی کمائی۔‘‘ افسران کی میز پر ’’کارندے‘‘ بڑی ایمانداری سے پہنچا دیتے ہیں۔

اب آتے ہیں گاڑیوں کے ڈرائیونگ لائسنس کی طرف۔ یہاں بھی رشوت نے پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ من پسند افراد کو یا انھیں جو رشوت دے کر لائسنس حاصل کرتے ہیں گھر پر بغیر ٹیسٹ کے لائسنس مل جاتا ہے اور جو جائز طریقے سے لائسنس حاصل کرنا چاہیں انھیں ’’8‘‘ کا ہندسہ بنانے میں فیل کر دیا جاتا ہے۔ ڈرائیونگ اسکول والے بہت آسانی سے لائسنس بنوا دیتے ہیں، کیونکہ ان کی سلام دعا ڈرائیونگ لائسنس والوں سے بہت اچھی ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ کراچی کی سڑکوں پہ دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں دن رات دندناتی پھرتی ہیں۔ پریشر ہارن اور چنگھاڑتی ہوئی ریکارڈنگ سے کان پھٹے جاتے ہیں، لیکن پولیس ان کا چالان نہیں کرتی، کیونکہ ہر رکشہ اور ویگن سے وہ اپنا روزانہ کا بھتہ وصول کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ اسی لیے آئے دن ٹریفک کے حادثات ہوتے رہتے ہیں، کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب ایکسیڈنٹ نہ ہوں۔ روزانہ صبح اور شام پانچ بجے سے آٹھ بجے تک مسلسل ٹریفک جام رہنا معمول کی بات ہے۔ ٹریفک پولیس اپنی ’’پیداگیری‘‘ میں مصروف رہتی ہے۔

رشوت کے سرطان کے ایک اور مریض سے ملیے۔ آپ میں سے بہت سوں کا واسطہ پڑ چکا ہوگا اس سے۔ زمین، جائیداد، فلیٹ اور مکان خریدنا ہر شہری کا حق ہے۔ اس کے لیے باقاعدہ دستاویز اور کاغذات تیار کیے جاتے ہیں جس کے بعد خریدار اور فروخت کنندہ دونوں کو سب رجسٹرار کے سامنے پیش ہونا پڑتا ہے، جس کے لیے کسی وکیل کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں جس کی قانونی فیس تو اپنی جگہ ہے لیکن سب رجسٹرار کے پیش کار کو الگ سے نذرانہ بھی دینا پڑتا ہے جو وہ اپنا قانونی حق سمجھ کر وصول کرتا ہے۔

اگر آپ پیش کار اور سب رجسٹرار کو ’’نذرانہ‘‘ دینے کے قائل نہیں تو سمجھ لیجیے آپ کی خریدی ہوئی جائیداد کی قانونی رجسٹری اس وقت تک مکمل نہیں ہوگی جب تک آپ نذرانے کی طے شدہ رقم اپنے وکیل یا پیش کار کے ذریعے سب رجسٹرار تک نہیں پہنچاتے۔ اچھا ہی ہوا کہ ابھی تک پاکستان کے قبرستانوں میں قبروں کی رجسٹری کا قانون لاگو نہیں ہے، ورنہ یہ ستم ظریف ان سے بھی نذرانہ وصول کر لیتے۔

اور اب ملیے ایک اور سرطان کے کیس سے۔ سرکاری دفاتر میں آپ کا کوئی کام بغیر رشوت دیے نہیں ہو سکتا۔ آپ ہزار بار دھکے کھائیں لیکن جب تک مطلوبہ رقم محکمے کے کلرک یا افسران کو نہیں ملتی آپ بے نیل و مرام دھکے کھاتے پھریں گے۔ نہ اپائنمنٹ بغیر رشوت دیے ہو سکتا ہے اور نہ ریٹائرمنٹ کے بعد گریجویٹی اور دیگر فنڈز آپ کو ملیں گے اور نہ ہی پنشن جاری ہوگی۔

اسی لیے اب لوگ ریٹائرمنٹ سے ایک دو ماہ قبل ہی ایسے لوگوں سے رابطہ کرکے رقم طے کر لیتے ہیں جو ’’مڈل مین‘‘ کہلاتا ہے۔ اس کا اپنا بھی حصہ ہوتا ہے۔ جامعہ ملیہ ڈگری کالج ملیر کے سابق پروفیسر جاکھرانی صاحب اے جی سندھ کے چکر لگاتے لگاتے تھک گئے، مگر انھوں نے ’’نذرانہ‘‘ دینے سے منع کر دیا، نتیجہ یہ ہوا کہ ایک دن اپنے گھر میں مردہ پائے گئے۔

بڑے بڑے دعوے کیے جاتے ہیں کہ رشوت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے، یہ کریں گے، وہ کر دیں گے لیکن: ’’وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے‘‘ والا معاملہ ہے ۔

یہ ملک بنا ہی رشوت خوروں کے لیے ہے۔ پہلے اگر کسی افسر کے خلاف اخبار میں کوئی خبر لگ جاتی تھی تو اس کے چودہ طبق روشن ہو جاتے تھے، لوگ چھپ چھپا کر رشوت لیا کرتے تھے، رشوت اور بدعنوانی سے کمائے ہوئے پیسے سے بنائے ہوئے گھر کی پیشانی پر ’’ہٰذا من فضل ربی‘‘ لکھوا لیا کرتے تھے، لیکن اب ان تکلفات کی کوئی ضرورت نہیں رہی۔ سب سے زیادہ کرپٹ سیاستدان ہیں، جو منہ مانگی رقم کے عوض برسوں سے رکے کام کروا دیتے ہیں۔ اب وزیروں کے گھروں سے ڈالر بوریوں میں بھرے نکلتے ہیں، لیکن ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا اور بعد میں انھیں دوبارہ وزیر بنا دیا جاتا ہے۔

کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ کیا ان لوگوں کو آخرت کی کوئی فکر نہیں؟ یہ چور، اسمگلر، رشوت خور اور بدعنوان افسران، وزیر اور سیاستدان کس منہ سے خدا کا سامنا کریں گے؟ شاید انھیں وہاں بھی کسی رشوت کا انتظار ہوگا۔ کعبے کس منہ سے جائیں گے؟

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کنڈا سسٹم جاتے ہیں دیتے ہیں جاتا ہے ہے لیکن نہیں ہو ہیں کہ کے لیے

پڑھیں:

قدم زمین پر ، ہاتھ آسمان پر

وہی راستہ، وہی راستے میںمقام قیام و طعام… لاہور کا سفر درپیش تھا۔ وہی مخصوص چائے کے دو کپ اور ساتھ سبزی کے پکوڑے جن کا بل چند ماہ پہلے سات سو آیا تھا اور اس روز تیرہ سو پچاس روپے، ٹال ٹیکس بھی کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے، اور تواور مانگنے والوں کا ریٹ بھی بڑھ گیا ہے۔

پہلے وہ دس اور بیس کے نوٹ قبول نہیں کرتے تھے اور اب وہ پچاس روپے بھی نہیں لیتے۔ جتنی دیر میں اس چھوٹے سے ریستوران سے نماز پڑھ کر اور چائے پی کر نکلے تو باہر حسب معمول بالٹی اور برش لیے ایک نحیف سا آدمی گاڑی کے پاس کھڑا تھا، ایسا لگے کہ اس نے ہماری گاڑی کے شیشے صاف کیے ہوں، اس کا مدعا اس کے منہ پر لکھا تھا۔ اسے سو روپے دیے تو اس کے چہرے کے تاثرات سے علم ہوا کہ اس کا عوضانہ بھی بڑھ چکا تھا، ایک اور لال نوٹ لے کر وہ گاڑی کے وائپر سیدھے کرنے لگا۔

چند مہینوں بلکہ ہفتوں میں ہی لگنے لگا ہے کہ ہم شاید بیچ کے کچھ ماہ سوئے رہے تھے کہ اب جاگے ہیں تو قیمتوں نے کئی اونچی چھلانگیں لگا کر آسمان کو چھو لیا ہے ۔ صاف علم ہوتا ہے کہ ملک میں چیک اینڈ بیلنس کا کوئی نظام سرے سے ہے ہی نہیں اور اگر ہے تو اسے چیک کرنے والوں کو اصل حقائق سے خاص دلچسپی نہیں ہے۔

ہم بھی کوئی ایسے نواب نہیں مگر ارد گرد دیکھ کر سمجھ میں نہیں آتا کہ عام لوگ کیسے گزارا کرتے ہیں۔ اگر کسی کی ماہانہ آمدنی، حکومت کے مقرر کردہ کم سے کم نر خوں کے مطابق بھی ہواور اس گھر میں چھ افراد رہتے ہوں، ظاہر ہے کہ اتنے لوگ تو کم ازکم ہوتے ہیں ان کے گھروں میں۔ ان سب کا پیٹ بھرنا، تن ڈھانکنا، بیماری اور تکلیف میںخرچ کرنا ، عیداور دیگر تقریبات، بچوں کی تعلیم کے اخراجات وغیرہ۔ کہاں سے یہ سب پورا ہوتا ہو گا؟؟ پورا مہینہ گھر میں پکتا کیا ہوگا؟؟ کوئی دال دیکھ لیں، سبزی اور گوشت لینا تو دور کی بات ہے۔

چند دن قبل میری ایک دوست نے بتایا کہ اس کے ہاں صفائی کا کام کرنے والی لڑکی پہلے ان کے باورچی خانے کے کوڑا دان میں سے چن کر سبزیوں اور پھلوں کے چھلکے لے جاتی تھی اور اس کے پوچھنے پر بتایا کہ وہ سبزیو ں کے چھلکے دھو کر پکا لیتی تھی اور پھلوں کے چھلکے بچوں کو کھلا لیتی تھی۔ اسے دکھ ہوا کہ ان کے ہاں کا کوڑا بھی کسی غریب کا پیٹ بھرتا تھا۔

اس کے بعد وہ جب کبھی اپنے لیے سبزی لاتی ہے تو ساتھ کچھ زیادہ سبزی لے لیتی ہے کہ اس کی ملازمہ لے جائے مگر اس سبزی کے باوجود بھی وہ اس کے گھر کی سبزیوں اور پھلوں کے چھلکے لے جاتی ہے جو کہ اب اسے کوڑ ا دان میں سے نکالنا نہیں پڑتے ہیں کیونکہ اب میری دوست اس سے ہی سبزی کٹواتی ہے اور اسے کچھ فالتو رقم بھی دے دیتی ہے ۔ ہم سب اس کی تقلید کرسکتے ہیں کہ کام کرنے والیوں کو معمول میں کچھ فالتو سامان یا رقم دے دیا کریں مگر کام کرنے والیاں ملک کی آبادی کا کتنے فیصد ہیں؟

عید سے قبل مرغی کا نرخ سو روپے کلو کے حساب سے روزانہ بڑھ رہا تھا ۔ ہر روز سوچتی کہ عید کے دن کے لیے مرغی خریدوں اور ہر روز کا نرخ سن کر سوچتی کہ کل لے لوں گی۔ عید سے عین دو روز پہلے جب نرخ ساڑھے نو سو روپے کلو سنا تو سر پکڑ لیا اور اپنے گوشت کی دکان والے سے سوال کیا، ’’ یہ مرغی کا نرخ آپ ہر روز سو روپے کے حساب سے کیوں بڑھا رہے ہیں؟‘‘ اس نے جواب میں ہنس کر کہا، ’’ آج تو ماشااللہ ڈیڑھ سو روپے بڑھا ہے باجی!!‘‘ اس نے تو ہنسنا ہی تھا مگر میں نہیں چاہتی تھی کہ ایک دن اور انتظار کروں اور کل رونا پڑ جائے۔ سوچا تھا کہ عید کے بعد تو نرخ لازمی کم ہوں گے کیونکہ قیمتیں یقینا عید کی وجہ سے بڑھ کر آخری حدوں کو چھو رہی ہیں۔

ہمیں تو کیاکسی کو بھی قیمتوں کی آخری حد کا کیا علم۔ عید کے بعد وہی مرغی تھی ، وہی دکان اور مرغی کانرخ تھا… ایک ہزار روپے فی کلو گرام۔ اب توسبھی سوچتے ہیں کہ ہم کیا کھائیں، بکرے کا گوشت کھانا تو اب خواب سا ہو گیا ہے۔ غریب تو سال میں ایک بار بڑی عید پر ہی کھا سکتا ہے اور بسا اوقات وہ بھی نہیں۔ پھل منڈیوں ، دکانوں اور ریڑھیوں میں پڑا سڑ جائے گا مگر اس کے نرخ کوئی کم نہیں کر تا کہ کوئی غریب بھی فیض یاب ہو جائے۔ منڈیوں میں غریب اس پھل کو خرید کر کھاتا ہے جو کہ دکان دار رد کر کے چلے جاتے ہیں اور وہ کوڑے کے ڈھیروں کی شکل میں منڈیوں میں رل رہا ہوتا ہے۔

کس کس چیز کی بابت بات کریں، ہر چیز کے قدم زمین پر ہیں کہ اسے زمین پر ہی فروخت ہونا ہے اورہاتھ آسمان کو چھونے کی کوشش میں ہیں۔ جوتے، بستر، کپڑے، برتن، گھر بنانے کا سامان، آلات برقی، گھی، تیل، چینی، آٹا، دالیں اور مسالہ جات۔ کپڑے و برتن دھونے کا سامان، ڈاکٹروں کی فیسیں، اسپتالوں میں داخلے کیے اخراجات اوردوائیں۔ بچوں کی اسکولوں کی فیسیں، یونیفارم، کتابیں اور سٹیشنری کا سامان… اسکولوں کی وین اور رکشوں کے کرائے۔ لگتا ہے کہ سانس لینا بھی دشوار ہے۔

پہلے پہل غریب اور سفید پوش بھی اپنی تنخواہ میں سے کچھ بچت کر کے مہینے میں ایک بار اپنے بچوں کو کوئی سستی سی تفریح کروا دیتے تھے۔ اب وہ بھی کسی کے لیے ممکن نہیں رہا۔ ویسے بھی اب بچے اسکولوں سے اور سوشل میڈیا کے کھلے استعمال سے سیکھ گئے ہیں کہ کسی پارک میں چلے جانا کوئی تفریح نہیں اور سستی جگہ سے کچھ کھا لینا کوئی عیاشی نہیں۔ یہی وہ آگاہی ہے جس نے کم سن نوجوانوں کے ہاتھوں جرائم کی شرح میں خطر ناک اضافہ کر دیا ہے۔

مال اوردولت کو شرافت اور نجابت کا پیمانہ قرار دیا جاتا ہے اور یہ دولت کہاں سے اور کن ذرایع سے آتی ہے، اس سے کسی کو غرض نہیں ہے۔ اب ، ’’ ہمیں کسی سے کیا لینا دینا !!‘‘ کا دور ہے، آپا دھاپی کی دنیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • احتساب کو مئوثر بنانے کے تقاضے
  • وقت گزر جاتا ہے
  • اس کا حل کیا ہے؟
  • ایک رنگ جو ہمیں دکھتا تو ہے، لیکن حقیقت میں موجود نہیں
  • مونی رائے کے ماتھے نے مداحوں کو شک میں مبتلا کردیا
  • آپکی کپتانی کافی سیکھ لیا کیا ملتان سلطانز ون کی طرف جائیگی؟
  • قدم زمین پر ، ہاتھ آسمان پر
  • ٹریجیڈی اور کامیڈی
  • تنہائی کا المیہ
  • کسانوں کی گندم کا نرخ طے نہ کرنے پر حکومت کو وارننگ