Express News:
2025-04-15@07:58:07 GMT

چند اہم انٹرنیشنل ڈویلپمنٹس

اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT

امریکی ریاست کیلی فورنیا کے مشہور فیشن ایبل علاقے لاس اینجلز میں لگی آگ پر ابھی تک قابو نہیں پایا جا سکا۔ یہ پھیلتی آگ مشہور Getty Museum کے قریب پہنچ چکی ہے۔ اس آگ نے اب تک 24 جانیں لے لی ہیں۔13افراد مسنگ ہیں،12ہزار عمارتیں جل کر خاکستر ہو گئی ہیں۔لاس اینجلز آگ سے کئی بلین ڈالرز کا نقصان، دو لاکھ لوگوں کی نقل مکانی اور چالیس ہزار ایکڑ زمین برباد ہوجانے کا اندازہ ہے۔

اس آگ سے ایک بات کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ قدرت کے آگے انسان بہت بے بس ہے چاہے وہ امریکا جیسے بہت ترقی یافتہ معاشرے کا ہی فرد کیوں نہ ہو۔گزشتہ دنوں سابق امریکی صدر جناب جمی کارٹر کی آخری رسومات ادا کی گئیں۔ان رسومات میں امریکی صدر جو بائیڈن کے علاوہ چار سابق امریکی صدور کلنٹن،جارج بش جونیئر، باراک اوباما اور ڈونلڈ ٹرمپ بھی شریک ہوئے۔اس پس منظر میں نئے منتخب صدر جناب ڈونلڈ ٹرمپ 20 جنوری 2025 کو اپنی دوسری مدتِ صدارت کا حلف اُٹھائیں گے۔

حلف برداری کی اس تقریب میں 8ممالک کے سربراہوں کے علاوہ ایک بڑی تعداد میں مہمانوں کو مدعو کیا گیا ہے۔2016میں جب ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلی بار صدارت کا حلف اُٹھایا تھا تو پنڈال میں بہت سی کرسیاں خالی پڑی تھیں لیکن اس بار تو جناب ٹرمپ کی الیکشن کمپیئن میں بہت بڑی رقم خرچ کرنے والوں کو بھی سیٹ نہیں مل پا رہی اور شرکت کی خواہش رکھنے والے بہت سے افراد سے معذرت کر لی گئی ہے۔ایک امریکی عدالت نے ہش منی کیس میں نو منتخب صدر کو سزا سنا دی ہے لیکن اس سزا پر عمل درآمد نہیں ہوگا،ٹرمپ نہ تو جیل جائیں گے اور نہ ہی پروبیشن پر ہوں گے۔اس طرح ان کے لیے صدارت کا حلف اُٹھانے اور وائٹ ہاؤس میں واپس پہنچنے کا راستہ صاف ہو گیا ہے۔

جناب ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کا دعوت نامہ سب سے پہلے چین کے صدر جناب شی کو دیا گیا ہے۔لگتا ہے کہ جناب شی اس میں شرکت کا ارادہ نہیں رکھتے۔شاید امریکیوں کو اس کی بھنک بھی پڑ گئی ہے۔بیجنگ نے ابھی تک اس کا اعلان نہیں کیا کہ کون جناب شی کی جگہ شرکت کرے گا لیکن خیال کیا جا رہا ہے کہ صدر کی جگہ تین افراد میں سے کسی ایک کو یہ ذمے داری دی جائے گی۔جو نام گردش کر رہے ہیں۔

ان میں سے سب سے پہلا نام نائب صدر Han Zengکا ہے۔دوسرا نام وزیرِ خارجہ کا لیا جا رہا ہے البتہ امریکیوں کو چونکہ اس کا اندازہ ہے کہ صدر شی نہیں آ رہے اس لیے ان کی ترجیح ہے کہ جناب کائی چی تقریب میں شریک ہوں۔جناب کائی چی چین کی کمیونسٹ پارٹی کے بہت اہم عہدیدار ہیں۔وہ صدر شی کے چیف آف اسٹاف رہ چکے ہیں اور صدر کے اکثر بیرونی دوروں میں ان کے ساتھ ہوتے ہیں۔ان کے اثر و رسوخ کو دیکھتے ہوئے صدر ٹرمپ کی ٹیم کی خواہش ہے کہ کائی چی تقریب میں شریک ہوں۔پبلک کے سامنے تو نو منتخب صدر ٹرمپ چین کے خلاف زور شور سے بولتے ہیں لیکن در پردہ وہ اس کوشش میں ہیں کہ چین کو Engage کریں۔

پچھلے ہفتے ٹرمپ نے کہا کہ چین اور امریکا مل کر دنیا کے تمام مسائل حل کر سکتے ہیں۔ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ وہ امید رکھتے ہیں کہ وہ اور صدر شی کا اچھا ساتھ رہے گا۔یہ بھی کہا کہ وہ چینی انتظامیہ کے ساتھ مسلسل رابطے میںہیں۔چین کی وزارتِ خارجہ نے بھی اس رابطے کی تصدیق کی ہے۔صدر شی کے علاوہ ارجنٹائن کے صدر،اٹلی کی وزیرِ اعظم،ہنگری کے سربراہ،یوکرین کے صدر، اور ایل سلواڈور کے سربراہ کو بھی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کے لیے مدعو کیا گیا ہے۔

صدر ٹرمپ نے ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ روس کے صدر جناب پیوتن ان سے ملنے کے مشتاق ہیں۔نومبر میں جناب ٹرمپ کے دوبارہ انتخاب کے بعد دونوں صدور کی ٹیلی فون پر بات چیت ہوئی ۔جناب ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ ان کی حلف برداری کے بعد ملاقات کے انعقاد کے لیے دونوں صدور کی ٹیمیں کام کر رہی ہیں۔جناب ٹرمپ نے مزید کہا کہ وہ روس کی پوزیشن اور مجبوری کو سمجھتے ہیں کہ روس اپنی سرحدوں پر نیٹو افواج کی موجودگی نہیں دیکھنا چاہتا لیکن بائیڈن نے روس کی اس پوزیشن کو نہیں سمجھا اور جنگ کا بازار گرم کر دیا۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس جنگ میں لاکھوں لوگ مر رہے ہیں جو کہ قابلَ افسوس ہے۔

جناب ٹرمپ نے الیکشن کمپین میں کہا تھا کہ وہ ایک دن میں اس جنگ کو روک دیںگے۔جنگ کو روکنے کے لیے اُن کو جناب پیوتن کا تعاون درکار ہو گا۔امید ہے دونوں کے درمیان کسی نیوٹرل مقام پر ملاقات ہوگی جیسا کہ ماضی میں دونوں فن لینڈ میں مل چکے ہیں۔ دونوں کے درمیان اچھے تعلقات ہیں اور دونوں کی کیمسٹری ملتی ہے۔صدر ٹرمپ نے اس جنگ کے خاتمے کے لیے مسٹر Keithکو خصوصی انوائے مقرر کیا ہے۔کیتھ نے ایک بیان میں کہا کہ یوکرین کے صدر کو صرف اس صورت میں امریکی امداد ملنی چاہیے اگر وہ مذاکرات میں بامعنی شریک ہوں۔باب وڈورڈ نے اپنی حالیہ کتاب میں انکشاف کیا ہے کہ ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس چھوڑنے کے بعد سے اب تک ٹرمپ اور پیوتن کم از کم سات مرتبہ پرائیویٹ کال پر بات چیت کر چکے ہیں۔

ان حالات کو دیکھتے ہوئے یورپی رہنماؤں نے بھی روس کے بارے میں اپنی اپنی پوزیشن میں نرمی پیدا کر لی ہے۔جرمن چانسلر نے پیوتن سے ٹیلیفون پر بات کی ہے اور فرانس کے صدر نے کہا کہ ذیلنسکی کو Realistبننا ہو گا۔صدر ٹرمپ کی طرف سے یہ تجویز دی گئی ہے کہ یوکرین کی نیٹو ممبرشپ کو اگلے 20سال کے لیے موخر کر دیا جائے اور یورپی افواج یوکرین میں مجوزہ جنگ بندی کی نگرانی کریں۔صدر پیوتن چاہتے ہیں کہ یوکرین نیٹو ممبرشپ کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دے اور یوکرین کے جن علاقوں پر روس نے جنگ میں قبضہ کیا ہے وہ روس کے پاس ہی رہیں۔صدر زیلنسکی چاہتے ہیں کہ نیٹو کی ممبر شپ ملے،علاقے واپس ہوں اور یورپی ممالک و امریکا یوکرین کے دفاع کے ضامن بنیں۔یوکرین اور روس دونوں ان دنوں زیادہ سے زیادہ علاقے ہتھیانے کے چکر میں ہیں تاکہ مذاکرات میں پلہ بھاری ہو۔

اطلاعات ہیں کہ پاکستانی افواج بنگلہ دیشی افواج کی ٹریننگ کریں گی۔ بھارت میں اس خبر سے شدید تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ایک پاکستانی تجارتی وفد بنگلہ دیش روانہ ہو گیا ہے۔

ایک اور خبر کے مطابق بنگلہ دیشی چیف آف آرمی اسٹاف نے اپنی حکومت پر واضح کیا ہے کہ بنگلہ دیش اپنی جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے بھارت کے مفادات کو نظر انداز نہیںکر سکتا۔انڈیا نے بنگلہ دیش کے ساتھ اپنے بہت لمبے بارڈر پر باڑ لگانی شروع کر دی ہے۔تین چوتھائی باڑ مکمل ہو گئی ہے لیکن اب بنگلہ دیشیوں نے انڈین بارڈر سیکیورٹی فورس کے ساتھ جھگڑا شروع کر دیا ہے۔اس سلسلے میں انڈین ہائی کمشنر کو وزارتِ خارجہ طلب کیا گیا جس پر انڈیا نے بھی بنگلہ دیشی ہائی کمشنر کوطلب کر کے احتجاج کیا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: حلف برداری ڈونلڈ ٹرمپ یوکرین کے ٹرمپ کی کے ساتھ کیا ہے گیا ہے ہیں کہ کے صدر کے لیے گئی ہے

پڑھیں:

ٹرمپ کے خلاف مقدمہ

اسلام ٹائمز: امریکہ میں صیہونی لابیوں کے اثر و رسوخ اور وائٹ ہاؤس اور امریکی کانگریس کی صیہونی حکومت کیساتھ ملی بھگت کے پیش نظر فلسطین کے مظلوموں اور غزہ کے باشندوں کی حمایت کو ناقابل معافی جرم سمجھا جاتا ہے اور اسکے خلاف سخت کارروائی کی جاتی ہے۔ ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد امریکہ میں فلسطینی حامیوں کیخلاف مظالم میں دوگنا اضافہ ہوا ہے اور ٹرمپ انتظامیہ کے ایجنڈے میں طلباء کی گرفتاریوں اور انخلاء کیساتھ ساتھ ان یونیورسٹیوں کو فنڈز کی بندش بھی شامل ہے، جہاں صیہونی مخالف احتجاج ہوئے ہیں۔ اسکے باوجود امریکہ میں فلسطینیوں، خاص طور پر غزہ کے باشندوں کی حمایت اور اسرائیل کے جرائم کی مذمت کیلئے مظاہرے جاری ہیں، جسکی تازہ ترین مثال گذشتہ ہفتہ امریکہ کے کئی شہروں میں ہونیوالے عوامی مظاہرے ہیں۔ تحریر: سید رضا میر طاہر

ہارورڈ یونیورسٹی کے اساتذہ نے ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف اس ادارے کے اخراجات کی بندش کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا ہے۔ یونیورسٹی کی اکیڈمیک کونسل نے وفاقی حکومت کے اس اعتراض کو مسترد کر دیا ہے کہ یونیورسٹی، طلبہ کو یہود دشمنی سے بچانے میں ناکام رہی ہے۔ خیال رہے کہ ٹرمپ نے 30 جنوری کو صدر کے حکم نامے پر دستخط کیے، جس میں فلسطینیوں کی حمایت میں ہونے والے مظاہروں میں شرکت کرنے والے طلبہ کو ملک بدر کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔ یہ شکایت سیاسی معاملات پر تعلیمی اداروں اور ٹرمپ انتظامیہ کے مابین کشیدگی میں اضافے کی عکاسی کرتی ہے۔ صدر ٹرمپ نے فلسطین کی حمایت اور یہود دشمنی کے الزامات عائد کرکے تعلیمی اداروں پر مختلف پابندیاں عائد کی ہیں۔ ٹرمپ کے اس فیصلے سے یونیورسٹیوں کے وفاقی فنڈز اور امریکی تعلیمی ماحول میں اظہار رائے کی آزادی پر وسیع اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

ٹرمپ انتظامیہ نے حال ہی میں یہود دشمنی کے الزامات کا حوالہ دیتے ہوئے کولمبیا اور ہارورڈ سمیت متعدد یونیورسٹیوں کی مالی امداد میں کمی یا امداد کی فراہمی پر مختلف شرائط عائد کر دی ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے ہارورڈ یونیورسٹی کے 9 ارب ڈالر کے بجٹ پر سوال اٹھایا ہے، کیونکہ بقول ان کے یونیورسٹی انتظامیہ یہودیت کے خلاف ہونے والے احتجاج کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔ امریکی محکمہ تعلیم نے 60 یونیورسٹیوں کو خبردار کیا ہے کہ اگر وہ "یہودی طلبہ کے تحفظ" کے لیے مزید اقدامات نہیں کرتی ہیں تو ان پر تحقیقات کی جائیں گی۔ ٹرمپ انتظامیہ ابھی تک مختلف بہانوں سے ہارورڈ یونیورسٹی کے بارہ طلباء اور گریجویٹس کے ویزے منسوخ کرچکی ہے۔

ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسروں نے اپنی شکایت میں دعویٰ کیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے سیاسی دباؤ کے تحت یونیورسٹی کے مختلف پروگراموں کو ختم کرنے اور سکیورٹی اداروں کے تعلیمی اداروں میں اختیارات بڑھانے جیسے اقدامات کئے ہیں۔ یہ کارروائی فلسطینیوں کی حمایت میں ہونے والے مظاہروں میں شرکت کرنے والے غیر ملکی طلباء کو ملک بدر کرنے کے حوالے سے کی گئی ہے۔ گذشتہ ایک ماہ میں ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف ہارورڈ کے پروفیسروں کی دوسری شکایت ہے۔ اس سے قبل فلسطینی کے حامی طلباء کو اسکول سے نکالنے کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی میں اظہار رائے کی آزادی کی خلاف ورزی کی گئی تھی۔ ادھر ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف ہارورڈ کے طلباء اور اساتذہ نے مظاہرہ کیا اور متعدد طلباء کے ویزے منسوخ کرنے کی اطلاعات ہیں۔

امریکہ میں صیہونی لابیوں کے اثر و رسوخ اور وائٹ ہاؤس اور امریکی کانگریس کی صیہونی حکومت کے ساتھ ملی بھگت کے پیش نظر فلسطین کے مظلوموں اور غزہ کے باشندوں کی حمایت کو ناقابل معافی جرم سمجھا جاتا ہے اور اس کے خلاف سخت کارروائی کی جاتی ہے۔ ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد امریکہ میں فلسطینی حامیوں کے خلاف مظالم میں دوگنا اضافہ ہوا ہے اور ٹرمپ انتظامیہ کے ایجنڈے میں طلباء کی گرفتاریوں اور انخلاء کے ساتھ ساتھ ان یونیورسٹیوں کو فنڈز کی بندش بھی شامل ہے، جہاں صیہونی مخالف احتجاج ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود امریکہ میں فلسطینیوں، خاص طور پر غزہ کے باشندوں کی حمایت اور اسرائیل کے جرائم کی مذمت کے لیے مظاہرے جاری ہیں، جس کی تازہ ترین مثال گذشتہ ہفتہ امریکہ کے کئی شہروں میں ہونے والے عوامی مظاہرے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن کے وفد کی وزیر خزانہ سے ملاقات، سرمایہ کاری میں دلچسپی 
  • پی ٹی آئی کو توقع چھوڑ کر کورٹ میں فائٹس کرنا چاہیے
  • ٹرمپ کے خلاف مقدمہ
  • ٹرمپ ٹیرف مضمرات
  • کیا ڈونلڈ ٹرمپ ذہنی طور پر صحت مند ہیں؟ رپورٹ جاری
  • ایران امریکہ مذاکرات
  • ایران کے ساتھ بات چیت مثبت پیش رفت ہے، ڈونالڈ ٹرمپ
  • دنیا پر ٹرمپ کا قہر
  • تجارتی جنگ اور ہم
  • صدر ٹرمپ نے ہزاروں افغانوں کا ’تحفظاتی اسٹیٹس‘ ختم کر دیا