مزاحمتی تنظیم حماس :جنگ بندی معاہدے کے باوجود جاری اسرائیلی جارحیت یرغمالیوں کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے
اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT
فلسطین : فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے خبردار کیا ہے کہ جنگ بندی معاہدے کے باوجود جاری اسرائیلی جارحیت یرغمالیوں کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔
زرائع کے مطابق حماس اور اسرائیل کے درمیان طے پاجانے والے جنگ بندی معاہدے کے باوجود غزہ پر اسرائیلی فضائی حملے جاری ہیں جس کے نتیجے میں آج کم از کم 80 فلسطینی باشندے شہید اور سیکڑوں زخمی ہوئے ہیں۔
اسرائیلی جارحیت کے جواب میں حماس نے خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیل کے حملے جاری رہے تو یہ ان درجنوں اسرائیلی شہریوں کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں جو 7 اکتوبر 2023 کو شروع ہونےو الی جنگ کے بعد سے حماس کے پاس یرغمال ہیں۔
حماس کے عسکری ونگ عزالدین القسام بریگیڈ نے ٹیلی گرام پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ اس مرحلے پر دشمن کی جانب سے کوئی بھی جارحیت اور بمباری ایک قیدی کی آزادی کو ساںحے میں بدل سکتی ہے۔
القسام بریگیڈ کے ترجمان ابوعبیدہ کا کہنا ہے کہ جنگ بندی معاہدے کے بعد اسرائیل نے اس مقام پر بمباری کی جہاں جنگ بندی معاہدے کے تحت پہلے مرحلے میں رہا کی جانے والی یرغمالی خواتین میں سے کچھ موجود تھیں۔
.
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: جنگ بندی معاہدے کے
پڑھیں:
صیہونی قیدیوں کی ایک مرحلے میں رہائی کیلئے حماس کی شرائط
الجزیرہ سے اپنی ایک گفتگو میں سامی ابو زھری کا کہنا تھا کہ نتین یاہو ناقابل عمل شرائط پیش کر رہا ہے تاکہ جنگبندی کے معاہدے کو سبوتاژ کر سکے۔ اسلام ٹائمز۔حماس کے فلسطین سے باہر پولیٹیکل سربراہ "سامی ابو زھری" نے کہا کہ ہماری تحریک ہر اُس تجویز کا خیر مقدم کرے گی جس سے ہماری عوام کی مشکلات میں کمی آئے۔ لیکن صیہونی وزیراعظم "نتین یاہو" ہم سے ہماری شکست کے ہروانے پر دستخط کروانا چاہتا ہے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار الجزیرہ سے گفتگو میں کیا۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ نتین یاہو ناقابل عمل شرائط پیش کر رہا ہے تاکہ جنگ بندی کے معاہدے کو سبوتاژ کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ مقاومت کو غیر مسلح کرنے کی شرط پر بات نہیں ہو سکتی اور نہ ہی یہ شرط پوری کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ہتھیاروں کا تعلق صیہونیوں کے قبضے سے جڑا ہوا ہے۔ یہ ہتھیار ہمارے لوگوں اور اُن کے قومی مفاد کے تحفظ کے لئے ہیں۔ دوسری جانب المیادین نے خبر دی کہ اسرائیل نے اپنی تجاویز، جنگ بندی کے معاہدے میں موجود ثالثین کے حوالے کر دی ہے۔ ان تجاویز کے مطابق، جنگ بندی کے پہلے روز، مقاومتی فورسز، امریکی نژاد "الیگزینڈر ایڈن" کو رہا کریں گی۔ لیکن اس میں اہم بات یہ ہے کہ اس تجویز میں غزہ کی پٹی میں مقاومت کو غیر مسلح کرنے کا مطالبہ شامل ہے۔ جس پر فلسطین کے مقاومتی گروہوں نے کہا کہ ہم ایسے مطالبات کو بارہا مسترد کر چکے ہیں۔
واضح رہے کہ 45 روزہ عارضی جنگ بندی کے فریم ورک کے تحت عسکری کارروائیاں بند کی جائیں گی، انسانی امداد غزہ پہنچ سکے گی اور قیدیوں کا تبادلہ ہو گا۔ اسرائیل کی تجویز کے مطابق، جنگ بندی کے دوسرے روز حماس، مقاومت سے تعلق رکھنے والے عمر قید کے 66 اور غزہ کے 611 قیدیوں کی رہائی کے بدلے 5 زندہ اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرے گی۔ تاہم صیہونیوں کا کہنا ہے کہ قیدیوں کے تبادلے کا یہ عمل کسی تقریب کی صورت میں نہ ہو۔ 5 صیہونیوں کی رہائی کے بعد غزہ کی پٹی میں بے گھر افراد کے لئے ضروریات زندگی سے تعلق رکھنے والے امدادی سامان کو داخلے کی اجازت ہو گی جب کہ اسرائیلی فوج، رفح اور شمالی غزہ کی پٹی میں اپنی دوبارہ تعیناتی شروع کر دے گی۔ جنگ بندی کی ان تجاویز پر ردعمل دیتے ہوئے سامی ابو زھری نے کہا کہ اسرائیل نے ان تجاویز میں کہیں بھی جنگ کے مکمل خاتمے کا ذکر نہیں کیا۔ اسرائیل صرف اپنے قیدیوں کی رہائی چاہتا ہے۔ بہرحال ہم بھی یک مرحلہ تبادلے کے لئے تیار ہیں۔جس کے بدلے میں جنگ کا خاتمہ ہو اور اسرائیلی فوج غزہ کی پٹی سے باہر نکلے۔ حماس کے ان رہنماء نے کہا کہ اسرائیل کے ان تمام جرائم میں امریکہ برابر شریک ہے۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ ہم اس وقت امریکی حکومت سے مستقیماََ کسی رابطے میں نہیں ہیں۔