مجھے ایک ایسے مقدمے میں سزا دینے جا رہے ہیں جس سے مجھے ایک ٹکے کا فائدہ نہیں ہوا
اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT
راولپنڈی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 16 جنوری 2025ء) عمران خان کا کہنا ہے کہ مجھے ایک ایسے مقدمے میں سزا دینے جا رہے ہیں جس سے مجھے ایک ٹکے کا فائدہ نہیں ہوا، القادر ٹرسٹ کے بھونڈے کیس میں میرے خلاف فیصلہ دے کر پوری دنیا میں اپنا مذاق بنوائیں گے اور اپنا منہ مزید کالا کریں گے۔ تفصیلات کے مطابق سابق وزیر اعظم اور تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے جمعرات کے روز اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے کی گئی غیر رسمی گفتگو کے دوران کہا کہ القادر ٹرسٹ کے بھونڈے کیس میں میرے خلاف فیصلہ دے کر پوری دنیا میں اپنا مذاق بنوائیں گے اور اپنا منہ مزید کالا کریں گے۔
مجھے ایک ایسے مقدمے میں سزا دینے جا رہے ہیں جس سے مجھے ایک ٹکے کا فائدہ نہیں ہوا نہ ہی حکومت کو ایک ٹکے کا کوئی نقصان ہوا۔(جاری ہے)
اس مقدمے میں اصل سزا تو نواز شریف کی بنتی ہے جس نے 9 ارب روپے رشوت کی مد میں حاصل کیے۔ نواز شریف اور زرادری پر مے فئیر اپارٹمنٹس کی طرز کے بے شمار مقدمات ہیں، یہ وہ افراد ہیں جنہوں نے توشہ خانے سے مہنگی ترین گاڑیاں خلاف قانون حاصل کیں ، ان پر موجود تمام مقدمات اوپن اینڈ شٹ ہیں لیکن ان کو معاف کر کے مقدمات کو صرف اس لیے ختم کر دیا گیا کیونکہ انہوں نے ڈیل قبول کر لی۔
اس کیس میں بھی نواز شریف سے 9 ارب روپے کا حساب مانگنا بنتا ہے ۔ بشریٰ بی بی القادر ٹرسٹ کیس میں بالکل بے قصور ہیں اُن کو کیس میں شامل کرنے کا واحد مقصد مجھ پر دباؤ بڑھانا تھا۔ اِس سے پہلے بھی بشریٰ بی بی کو 9 مہینے بے گناہ جیل میں رکھا گیا ہے۔ دنیا میں کبھی کوئی شخص جسے معلوم ہو کہ وہ بد دیانتی کر رہا ہے نیوٹرل امپائر نہیں لگاتا ۔ میں نے کرکٹ میں نیوٹرل امپائر کا رواج قائم کیا تھا اور اب بھی کہتا ہوں کہ نو مئی اور 26 نومبر کے واقعات پر ایک جوڈیشل کمیشن کا قیام کیا جائے جو بالکل نیوٹرل ہو اور شفافیت پر مبنی فیصلہ دے۔ حکومت اس مطالبے سے اسی لیے راہ فرار اختیار کر رہی ہے کیونکہ وہ بد دیانت ہے۔ ہم جسٹس امین الدین ( آئینی بینچ کے سربراہ) کو بھی خط تحریر کریں گے کہ ہمارے خلاف ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی پیٹیشن سنیں۔ ہمارے جو بے قصور لوگ ملٹری تحویل میں ہیں ان کو بدترین ذہنی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ہمارے مقدمات کو ترجیحی بنیادوں پر سنا جائے ۔ ہم نے انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور اقوم متحدہ کو بھی اس سلسلے میں خط لکھنے کی تیاری مکمل کر لی ہے۔ کیونکہ پاکستان کی کسی بھی عدالت سے ہمیں انصاف نہیں مل رہا۔ قاضی فائز عیسی اور عامر فاروق تو اسٹیبلشمنٹ کے ہی اوپننگ بیٹسمن کا کردار ادا کرتے آئے ہیں۔ اب جو آئینی بینچ بنا ہے وہ بھی ان کی ہی ایکسٹینشن ہے۔ پوری دنیا میں انسانی حقوق کی پامالی کی کوئی معافی نہیں ملتی۔ جنرل پنوشے مغرب کا طاقتور جنرل تھا لیکن انسانی حقوق کی پامالی اور تشدد کرنے پہ اسکو کڑی سزا دی گئی۔ ہمارے سیاسی ورکروں کو اغوا کر کے تشدد کیا گیا۔ نو مئی میں جس نے تحریکِ انصاف کو خیر آباد کہا اسکو تمام الزامات سے بری الزمہ کر دیا گیا۔ آٹھ فروری کو پاکستانیوں کے حق پر بے شرمی سے ڈاکہ مار کر انتخابات کو چوری کیا گیا اور پوری دنیا میں اپنا مذاق بنوایا گیا۔ کھلی مینڈیٹ چوری کے بعد پاکستان میں ہر جانب عدم استحکام کے سائے ہیں۔ آٹھ فروری کو پوری قوم یوم سیاہ منائے گی۔ اس دن فارم 47 کی جعلی حکومت قائم کر کے پاکستان میں جمہوریت اور جمہور کا گلا گھونٹ دیا گیا تھا جسکے بعد ملک میں نہ تو سیاسی استحکام آ سکا ہے نہ ہی معاشی استحکام- ہم نے مذاکرات ذاتی مفاد کے لئے نہیں بلکہ ملک کے وسیع تر مفاد میں کرنے ہیں- پاکستان کو درپیش سیاسی و معاشی بحرانوں کے خاتمے، دہشت گردی کے مسئلے پہ قابو پانے اور ملک کو درپیش دوسرے سنجیدہ مسائل کے حل کے لئے سیاسی بحران کا خاتمہ ضروری ہے-.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے انسانی حقوق کی پوری دنیا میں مجھے ایک کیس میں
پڑھیں:
زرمبادلہ کے ذخائر میں ریکارڈ اضافہ: وجہ کیا ہے اور پاکستانی معیشت کو کیا فائدہ ہوگا؟
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ ہفتے کے دوران زر مبادلہ کے سرکاری ذخائر 40 لاکھ ڈالر اضافہ کے ساتھ 8 ارب 2 کروڑ 19 لاکھ ڈالر کی سطح پر آ گئے ہیں۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق 22 مارچ کو زرمبادلہ کے مجموعی ذخائر کی مالیت 13 ارب 42 کروڑ 76 لاکھ ڈالر ریکارڈ کی گئی جس میں سے کمرشل بینکوں کے پاس 5 ارب 40 کروڑ 57 لاکھ ڈالر کے ذخائر موجود ہیں۔
زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافے کی وجہ کیا ہے؟ اور اس سے پاکستانی معیشت کو کیا فائدہ ہوگا؟
اس حوالے سے معاشی ماہرین کا کہنا تھا کہ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کی مختلف وجوہات ہیں جن میں حکومتی پالیسیاں بھی شامل ہیں۔
ماہر معاشیات عابد سلہری کے مطابق زرمبادلہ میں اضافے کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہم نے جو اقدامات فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے کئے تھے، ان سے کافی مدد ملی۔ کیونکہ زرمبادلہ ہنڈی حوالہ کے ذریعے بھی آ رہا تھا۔ اب وہ تمام راستے بند ہو گئے ہیں۔ اور زرمبادلہ ایک باقاعدہ چینل کے ذریعے آ رہا ہے جو زرمبادلہ میں اضافے کی وجہ بن رہا ہے۔
دوسری وجہ ڈالر کے ریٹ کا گزشتہ 2 برس سے مستحکم رہنا ہے۔ تیسری بڑی وجہ رئیل اسٹیٹ پر ٹیکسز ہیں۔ بیرون ممالک مقیم پاکستانی جو پہلے ملک میں رئیل اسٹیٹ کے بزنس میں سرمایہ کاری کر رہے تھے، اب ٹیکسز کی وجہ سے وہ اپنی سیونگز ڈالر اکاؤنٹس یا روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس میں رکھ رہے ہیں۔
اس کے علاوہ ایک مزید ضروری پہلو یہ ہے کہ جن خلیجی ممالک میں معاشی سرگرمیاں بہتر ہوئیں، وہاں سے بھی کافی زرمبادلہ آ رہا ہے۔ ان تمام چیزوں کا مثبت اثر زرمبادلہ کی صورت میں ملا ہے۔
عابد سلہری کے مطابق وہ رواں مالی سال ریکارڈ زرمبادلہ کی توقع کر رہے ہیں۔ کیونکہ رواں مالی سال میں کافی عرصے کے بعد 2 عیدیں آئیں گی۔ عیدین کے مواقع ایسے ہوتے ہیں کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنے پیاروں کو پیسے بھیج رہے ہوتے ہیں۔ خاص طور پر رمضان میں زکوۃ اور عیدالاضحیٰ پر قربانی کے لیے ڈالرز، پاؤنڈز یا درہموں میں رقم بھیج رہے ہوتے ہیں جو زرمبادلہ میں اضافے کی نمایاں وجہ بنتے ہیں۔
معاشی ماہر ڈاکٹر خاقان نجیب نے وی نیوز کو بتایا کہ پاکستان میں مارچ میں زرمبادلہ کے بڑھنے کی 4 وجوہات دکھائی دیتی ہیں۔ ایک عید اور رمضان کا اثر، دوسرا روپے اور ڈالر کے برابر ہونے میں انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں کوئی فرق نہیں رہا، تیسری بڑی وجہ بیرون ممالک پاکستانی ورک فورس کی ضرورت اور بڑی تعداد میں ورک فورس کا ان ممالک میں جانا زرمبادلہ میں اضافے کی وجہ بنا۔
چوتھی بڑی وجہ جب پاکستان میں اشیائے خورونوش سمیت تقریباً ہر چیز کی قیمت میں اضافے کی شرح رہی ہے تو لوگوں کے ہاں پیسے کی ضرورت بڑھی، تو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے اپنے خاندانوں کے لیے زیادہ رقم بھیجنا شروع کی۔ اس سے زرمبادلہ میں اضافہ ہوا ہے۔
ڈاکٹر خاقان نجیب کہتے ہیں کہ مستقبل کا ڈیٹا اب بہت ضروری ہو گیا ہے۔ تاکہ ہم تعین کر سکیں کہ اس میں عید کا اثر کتنا تھا۔ اور باقی فیکٹرز کا کتنا اثر ہوا۔
معاشی ماہر راجہ کامران نے بھی بتایا کہ زرمبادلہ میں اضافے کی مختلف وجوہات ہوتی ہیں۔ جس کی ایک وجہ بیرون ملک مقیم پاکستانی زیادہ سے زیادہ اپنا سرمایہ ملک میں بھیج رہے ہیں۔ اور یہ زرمبادلہ بھی بینکاری ذرائع سے آ رہا ہے۔ حکومت اور اسٹیٹ بینک نے جو پالیسز اپنائی ہیں، اس سے اب انہیں فائدہ ہو رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں زرمبادلہ کا آنا پاکستانی معیشت کے لیے ایک مثبت پہلو ہے۔ اس وقت کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت 200 ڈالر ہونا چاہیے مگر حکومت نے اس کو 280 روپے کے لگ بھگ رکھا ہوا ہے۔ اگر اضافی ڈالر کا ریٹ ہوتا تو اسٹیٹ بینک مداخلت کرکے ڈالر اٹھا لیتا ہے۔ جس سے اسٹیٹ بینک میں زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوتا ہے۔ ان پالسیوں سے مارکیٹ میں استحکام کا عنصر قائم ہے۔ روپے کی قدر کے مستحکم ہونے سے ڈالر کے ذخائر میں اضافہ ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔
زرمبادلہ کے ذخائر بڑھنے سے پاکستان کو بہت فائدہ ہوگا۔ بالخصوص قرضوں کی ادائیگی میں بہت آسانی ہو جائیں گی۔ راجہ کامران کہتے ہیں کہ قرضے لے کر جو ادائیگیاں کی جاتی تھیں۔ اس سے ہٹ کر اپنے ترسیلات زر سے ادائیگیاں کرنا مثبت علامت ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کی درآمدات بڑھ رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ترسیلات زر پاکستان کو ایکسپورٹ میں بھی مدد دیں گی۔
’ ایک بہت احسن پہلو یہ بھی ہے کہ ہم سالانہ 4 ارب ڈالر کے بینچ مارک پر پہنچ گئے ہیں۔ ایسا تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے۔ اور یہ مثبت اس لیے ہےکہ پاکستان پر ایک عرصہ معاشی بحران رہا ہے۔ اس کی وجہ ڈالرز نہ ہونا تھے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ بہت سے ممالک میں ورک فورس کی کمی ہے، انہیں نوجوانوں کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان ان ممالک میں اپنی ورک فورس بڑھائے تاکہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں مزید اضافہ ہو۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاکستان ترسیلات زر