سندھ کابینہ اجلاس، اساتذہ کی بھرتی، کراچی میں مزید الیکٹرک بسیں چلانے کی منظوری
اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT
سندھ بورڈز آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن بل 2024ء اور سندھ بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن آرڈیننس 1972ء کے تحت بورڈ کے قوانین میں ترامیم کی گئیں۔ ان ترامیم کے تحت بورڈ میں سول سوسائٹی کے ممبران، ہیڈ ماسٹر/پرنسپل اور دیگر نمائندوں کو شامل کیا گیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی زیرصدارت سندھ کابینہ کے ساڑھے چار گھنٹے طویل اجلاس میں کئی اہم فیصلے کئے گئے، جن میں 195 اساتذہ کی بھرتی، مزید 700 اساتذہ کی اسامیوں کی تخلیق، تعلیمی بورڈ کے قوانین میں ترامیم، کراچی میں 100 الیکٹرک بسیں کرائے پر خریداری ماڈل کے تحت چلانے کی بھی منظوری دے دی گئی۔ صوبائی کابینہ کو بتایا گیا کہ تعلیمی معیار میں اضافے کے لیے 2023ء میں تدریسی لائسنس پالیسی کی منظوری دی گئی تھی، جس کے تحت مارچ 2024ء میں آئی بی اے سکھر کے ذریعے ٹیسٹ لیا گیا جس میں نئے اور پہلے سے موجود اساتذہ نے شرکت کی۔ ٹیسٹ میں شرکت کرنے والے 4 ہزار امیدواروں میں سے صرف 646 امیدواروں جس میں 195 نئے امیدوار اور 451 پرانے اساتذہ نے امتحان پاس کیا۔
کابینہ کو بتایا گیا کہ ای ایس ٹی (بی پی ایس 16) کی 700 نئی اسامیاں خاص طور ٹیچنگ لائسنس رکھنے والے پرانے اور نئے اساتذہ کے لیے مختص کی گئی تھیں لیکن محکمہ مالیات نے 700 منظور شدہ اسامیوں میں سے صرف 352 اسامیوں کا بجٹ کی کتاب میں ذکر کیا ہے باقی 348 اسامیوں کا ذکر باقی ہے۔ سخت ٹیچنگ لائسنس ٹیسٹ پاس کرنے والے 195 نئے ٹیچنگ لائسنس یافتگان کے بارے میں سندھ حکومت نے تحریری ٹیسٹ کےلیے مدت کا استثنیٰ دیتے ہوئے انہیں سندھ پبلک سروس کمیشن کو انٹرویو کےلیے بھیج دیا۔ سندھ کابینہ نے انہیں ای ایس ٹی (بی پی ایس 16) میں بھرتی کرنے کی منظوری دے دی۔
سندھ بورڈز آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن بل 2024ء اور سندھ بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن آرڈیننس 1972ء کے تحت بورڈ کے قوانین میں ترامیم کی گئیں۔ ان ترامیم کے تحت بورڈ میں سول سوسائٹی کے ممبران، ہیڈ ماسٹر/پرنسپل اور دیگر نمائندوں کو شامل کیا گیا ہے۔ ترمیم کے مطابق حکومت کو بورڈ کے کسی بھی ممبر کو ہٹانے کا اختیار ہوگا۔ بورڈ کسی بھی فرد کو فائدہ، الاؤنس یا سہولت فراہم نہیں کرے گا۔ چئیرمین تین سال کے لیے تعینات ہوگا اور مدت مکمل ہونے کے بعد دوبارہ تقرری کا اہل ہوگا۔ چئیرمین کو کنٹرولنگ اتھارٹی کے ذریعے براہ راست تقرری یا گریڈ 19/20 کے افسران میں سے منتخب کیا جائے گا۔
کابینہ کو بتایا گیا کہ نیشنل انرجی اینڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن نے کل 8 ہزار الیکٹرک بسیں چلانے کا ہدف مقرر کرنے کی تجویز دی ہے جو مرحلہ وار چلائی جائیں گی۔ پہلے مرحلے میں پہلے سال 500 بسیں (50 بسیں مکمل تیار ہیں) اگلے سال دوسرے مرحلے میں 1,500 بسیں چلائی جائیں گی جبکہ تیسرے مرحلے میں آئندہ چار سالوں کے دوران 4000 سے 6000 بسیں چلائی جائیں گی ۔ تیسرے مرحلے کی تکمیل کے ساتھ چارجنگ انفرااسٹرکچر، بس اسٹیشنز کی تعمیر اور ایک گیگاواٹ کے سولر پلانٹ کی تنصیب بھی شامل ہے۔
حکومت 30 مئی 2024 کو این ای ٹی سی کے پروپوزل کے تحت کرایہ پر خریداری ماڈل کے تحت 50 الیکٹرک بسوں (12 میٹرز) کے پائلٹ پروجیکٹ کی منظوری دے چکی ہے۔ کرایہ پر خریداری ماڈل کے تحت این ای ٹی سی 50 الیکٹرک بسیں خرید کر حوالے کی ہیں جو 220 روپے فی کلومیٹر کی سہولت کے ساتھ سالانہ 75 ہزار کلومیٹر کے کرائے کے تحت دستیاب ہیں۔ اس ماڈل کے تحت ڈیمانڈ رسک کا ذمہ دار آپریٹر ہوگا۔ یہ بسیں اس وقت کراچی کے چار اہم روٹس پر رواں دواں ہیں۔ منصوبے کی تکنیکی، مالیاتی اور قانونی پہلوؤں کی نگرانی کےلیے آزاد ماہرین کا تقرر کیا گیا ہے۔
کابینہ نے ایس ایم ٹی اے اور این ای ٹی سی کے درمیان جی ٹو جی بنیادوں پر کرایہ پر خریداری منصوبے کےلیے 100 بسوں کی فراہمی، تعمیر، آپریشن اور مینٹیننس کے معاہدے کی منظوری دے دی۔ کابینہ نے آخری سہ ماہی (اپریل تا جون 2025) کےلیے 412.
سندھ کابینہ نے وفاقی حکومت پر زور دیا ہے کہ سیلاب سے تحفظ کے چوتھے قومی منصوبہ کے لیے پچاس پچاس فیصد کے تناسب سے مالی تعاون فراہم کرے۔ کابینہ کو بتایا گیا کہ وفاقی وزارت آبی وسائل نے سندھ حکومت سے کہا ہے کہ وہ وفاقی منصوبوں پر وفاقی معاونت کم کرنے کے مسئلے پر اپنی رائے دے۔ وفاق کی تجویز ہے کہ وہ صرف 77.533 ارب روپے فراہم کرے جو کل تخمینہ 824.533 ارب روپے کا 9.4 فیصد بنتا ہے جبکہ باقی 746.967 ارب روپے صوبائی حکومتوں اور آزاد کشمیر و گلگت بلتستان کو ادا کرنا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: الیکٹرک بسیں کی منظوری دے سندھ کابینہ کے تحت بورڈ ماڈل کے تحت کابینہ نے ارب روپے بورڈ کے کے لیے
پڑھیں:
انٹر بورڈ کمیٹی 2دن میں ختم کر کے نئی نہ بنائی گئی تو احتجاج کا دائرہ مزید وسیع ہوگا، منعم ظفر
کراچی:امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان نے کہا ہے کہ انٹرمیڈیٹ بورڈ کی کمیٹی 2 دن میں ختم کرکے نئی کمیٹی تشکیل نہ دی گئی تو احتجاج کا دائرہ مزید وسیع کردیں گے۔
انٹر سال اول کے حالیہ متنازع نتائج اور بے ضابطگیوں کے خلاف متاثرہ طلبہ و طالبات اور والدین کی جانب سے انٹر بورڈ آفس پر کیے گئے احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان نےمتنبہ کیا ہے کہ انٹر بورڈ کی بنائی گئی کرپٹ عناصر پر مشتمل کمیٹی 48گھنٹوں میں ختم کر کے سینئر اساتذہ، شہر کے اسٹیک ہولڈرز،کراچی چیمبر آف کامرس اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کی نئی کمیٹی تشکیل نہ دی گئی تو اپنا آئندہ کا لائحہ عمل کا اعلان کریں گے اور احتجاج کا دائرہ وسیع کریں گے۔
پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت کے ہاتھوں انٹر ومیٹرک بورڈ ز،ثانوی تعلیمی ادارے اور جامعات تک محفوظ نہیں ہیں۔ کراچی کے طلبہ کی تعلیمی نسل کشی کی جارہی ہے۔جامعات کی خود مختاری پر حملہ کیا جارہا ہے،جماعت اسلامی کراچی کے طلبہ کے حق کے لیے ہر محاذ پر ان کا مقدمہ لڑے گی،اگر ضرورت پڑی تو وزیر اعلیٰ ہاؤس اور گورنر ہاؤس پر بھی احتجاج اور گھیراؤ کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ بتایا جائے گزشتہ سال این ای ڈی یونیورسٹی کے پروفیسر کی نگرانی میں بنائی گئی کمیٹی کی رپورٹ کا کیا ہوا اور طلبہ و طالبات کے مستقبل سے جس طرح کھیلاگیاتھا اس کے ذمے داران کے خلاف کیا کاروائی ہوئی؟ خاتون ڈپٹی کنٹرولر ایگزامینیشن جو کمیٹی کے طلب کرنے پر پیش نہیں ہوئیں اور مفرور رہیں ان کو اس سال کنٹرولر ایگزامینیشن کیوں بنادیا گیا؟
امیر جماعت نے کہا کہ 12رکنی کمیٹی تو انٹر بورڈ کے ملازمین پر مشتمل ہے اس سے کس طرح کراچی کے طلبہ و طالبات کو انصاف مل سکتا ہے۔وزیر اعلیٰ سندھ جامعات پر حکومتی کنڑول کے لیے اسمبلی سے بل منظور کروانا چاہتے ہیں اور یہ بل اسٹینڈنگ کمیٹی کے سپرد کردیا گیا ہے وہ چاہتے ہیں کہ کوئی بھی 21گریڈ کا افسر،4 سال کا تجربہ رکھنے والا بیوروکریٹ خواہ وہ پی ایچ ڈی بھی نہ ہوصرف ماسٹر ہو وہ میڈیکل یونیورسٹی کا سربراہ بن سکتا ہے، تعلیم کا مذاق اور کھلواڑ بنایا ہوا ہے۔
منعم ظفر خان کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت کو تعلیم کا بیڑا غرق نہیں کرنے دے گی۔تعلیم، تعلیمی اداروں اور جامعات کے تحفظ کے لیے جدوجہد جاری رکھے گی۔
انہوں نے کہا کہ کراچی کے طلبہ و طالبات او ر والدین کا واضح اور دوٹوک مطالبہ اور مؤقف ہے کہ موجودہ کمیٹی ختم کر کے نئی کمیٹی بنائی جائے،5ہزار اسکروٹنی فارم جمع کرائے جاچکے ہیں،امتحانی کاپیوں کی ری چیکنگ طالب علموں کی موجودگی میں کی جائے۔ جماعت اسلامی نے ادارہ نورحق سمیت تمام اضلاع میں طلبہ ڈیسک قائم کردی ہیں،بڑی تعداد میں متاثرہ طلبہ و طالبات ہمارے پاس آرہے ہیں، ہم ان کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔
مظاہرے سے ڈپٹی سیکرٹری کراچی و تعلیمی کمیٹی کے چیئرمین ابن الحسن ہاشمی،نارتھ ناظم آباد ٹاؤن کے چیئرمین عاطف علی،جماعت اسلامی پبلک ایڈ کمیٹی کے نائب صدر عمران شاہد، اسلامی جمعیت طلبہ کراچی کے ناظم آبش صدیقی،سیکرٹری کراچی جمعیت عمار بن یاسر،متاثرہ طلبہ و طالبات اور والدین نے بھی خطاب کیا۔