مصنوعی ذہانت پر زیادہ انحصار سے انسانی ذہانت متاثر ہونے کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT
مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلیجنس یا اے آئی)ٹیکنالوجی پر ضرورت سے زیادہ انحصار کرنا انسانی ذہانت اور تعمیری سوچ کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ انکشاف سوئٹزر لینڈ کے ایس بی ایس سوئس بزنس اسکول کی نئی تحقیق میں کیا گیا ہے۔
تحقیق کاروں کے مطابق اے آئی کے زیادہ استعمال سے لوگ گہرائی میں جاکر سوچنے اور مسائل کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت کھو سکتے ہیں۔ اسی طرح تعمیری یا تنقیدی سوچ، جو تجزیے اور تفصیلات کو پرکھنے میں مدد دیتی ہے، اے آئی کے ضرورت سے زیادہ استعمال کے نتیجے میں سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہے۔
666 افراد پر کیے گئے جائزوں کے نتائج سے پتا چلا ہے کہ جوان افراد (46 سال سے کم) اے آئی پر زیادہ انحصار کرتے ہیں، جب کہ درمیانی عمر کے افراد تنقیدی یا تعمیری سوچ میں بہتر اسکور حاصل کرتے ہیں ان کے مقابلے میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی تنقیدی یا تعمیری سوچ پر اے آئی کا منفی اثر کم ہوتا ہے۔
تحقیق میں انکشاف ہوا کہ اے آئی ٹولز کے استعمال سے بنیادی معلومات حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے، لیکن اعلیٰ ذہنی افعال جیسے تخلیقی صلاحیتیں اور مسائل حل کرنے کی مہارت متاثر ہوتی ہیں۔
محققین نے خبردار کیا کہ اے آئی ٹیکنالوجی کے استعمال میں توازن ضروری ہے۔ تربیت اور تعلیم کے ذریعے ان منفی اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔تحقیق میں تسلیم کیا گیا کہ اس کے نتائج مزید تجربات کے ذریعے تصدیق کے متقاضی ہیں، لیکن یہ عندیہ ملا ہے کہ تنقیدی سوچ کی حفاظت ممکن ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اے آئی
پڑھیں:
ایک اور کشتی ڈوب گئی!
ایک اور سانحہ رونما ہوا، ایک اور کشتی سمندر میں غرق ہو گئی۔ افریقی ملک موریطانیہ کے راستے غیر قانونی طور پر اسپین جانے والوں کی یہ کشتی مراکش کے سمندر میں الٹ جانے سے پچاس تارکین وطن ڈوب گئے۔ ان میں غالب اکثریت یعنی 44 افراد پاکستانی تھے۔ ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے مطابق کشتی پر 86 تارکین وطن سوار تھے جو 2 جنوری کو موریطانیہ سے روانہ ہوئی تھی۔ کشتی میں کل 66 پاکستانی سوار تھے جب کہ 36 افراد کو بچا لیا گیا اور 50 جاں بحق ہو گئے۔ کشتی حادثے میں جاں بحق 44 پاکستانیوں میں سے 12 نوجوان گجرات کے رہائشی تھے، اس کے علاوہ سیالکوٹ اور منڈی بہا الدین کے افراد بھی کشتی میں موجود تھے۔ واقعہ میں بچ جانے والے ایک پاکستانی نے فون پر اپنے اہل خانہ کو بتایا کہ جب کشتی سمندر میں کھڑی تھی تو شدید سردی کے باعث کچھ لوگ بیمار ہو گئے تھے اور کشتی میں راشن بھی کم تھا، ایسے میں انسانی اسمگلروں نے بیمار افراد کو زبردستی سمندر میں پھینک دیا اور کچھ لوگوں کو تشدد کر کے قتل بھی کیا۔ اہل خانہ کا کہنا ہے کہ تارکین وطن کی کشتی 2 جنوری کو اسپین کے لیے روانہ ہوئی تھی، انسانی اسمگلروں نے مزید پیسوں کا مطالبہ کیا تھا اور انسانی اسمگلروں نے 8 روز تک کشتی سمندر میں ہی کھڑی رکھی۔ کشتی میں گجرات کے گائوں جوڑا کرنانہ کے 5 افراد بھی سوار تھے۔ اہل خانہ کے مطابق ان 5 میں سے 4 افراد جاں بحق ہوئے، ایک زندہ بچ گیا۔ زندہ بچ جانے والے زاہد بٹ کا گھر والوں سے رابطہ ہوا ہے۔ اہل خانہ کے مطابق زاہد بٹ نے ٹیلی فون پر اہل خانہ کو حادثے سے متعلق آگاہ کیا، کہ کشتی روک کر انسانی اسمگلر پیسوں کا تقاضا کرتے رہے، پاکستانیوں پر تشدد بھی کیا گیا۔ انسانی اسمگلرز نے ان افراد کو ایک سیف ہائوس میں رکھا تھا۔انسانی اسمگلنگ کے گھنائونے کاروبار میں ملوث افراد کے ہاتھوں پاکستانی شہریوں کے جانی نقصان کا یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ طویل سلسلے کی ایک کڑی ہے، اللہ کرے کہ یہ اس نوعیت کا آخری واقعہ ہو مگر جس قدر وسیع پیمانے پر یہ مکروہ دھندہ پاکستان اور بہت سے دوسرے ملکوں میں جاری ہے، اس کے پیش نظر اس طرح کے مزید واقعات اور قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ دھندہ سال ہا سال سے جاری ہے اور حکومت کی بار بار کی کوششوں، اقدامات اور اعلانات کے باوجود اسے روکا نہیں جا سکا۔ پنجاب اور آزاد کشمیر کے کئی علاقوں سے انسانی اسمگلنگ کی یہ کارروائیاں تسلسل سے جاری ہیں، ملک کے مختلف ہوائی اڈوں کے ذریعے ہزاروں لوگوں کو یونان وغیرہ کے راستے بیرون ملک بھجوایا جا چکا ہے اور واقفان حال کے مطابق اب بھی لیبیا میں پانچ ہزار کے قریب پاکستانی انسانی اسمگلنگ میں ملوث کارندوں کے رحم و کرم پر ہیں۔ یہ پاکستانی باقاعدہ ویزا لے کر لیبیا گئے ہیں اور اب وہاں سے خفیہ راستوں اور کشتیوں کے ذریعے یورپ جانے کے لیے کوشاں ہیں۔ انسانی اسمگلروں کا یہ گروہ پاکستان تک محدود نہیں بلکہ عالمی سطح پر دنیا کے بہت سے پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں اس کا نیٹ ورک پھیلا ہوا ہے اور اس کے مکروہ دھندے میں تیزی سے توسیع کا عمل بھی جاری ہے، مثال کے طور پر صرف 2024ء کے دوران 2023ء کے مقابلے میں انسانی اسمگلروں کے ہاتھوں بہتر مستقبل کے سہانے خواب دیکھ کر اپنا وطن چھوڑنے والوں کی ہلاکتوں میں 58 فی صد اضافہ ہوا۔ مجموعی طور پر 2024ء میں خوشحال زندگی کی تلاش میں اسپین جانے کی کوشش میں دس ہزار سے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ تارکین وطن کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ہسپانوی گروپ نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں بتایا ہے کہ گزشتہ سال کشتیوں سے اسپین پہنچنے کی کوشش میں ہر روز 30 افراد ہلاک ہوئے۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں ہلاکتوں میں 58 فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ ہسپانوی گروپ کا کہنا ہے کہ پر خطر راستوں کے علاوہ ہلکی ساخت کی کشتیوں کا استعمال اور ریسکیو کے کام میں وسائل کی کمی بھی ہلاکتوں کا باعث ہیں۔ ہلاکتوں کی بڑی تعداد ریسکیو اور حفاظتی نظاموں کی ناکامی کو ظاہر کرتی ہے۔ ایک سال میں اتنی زیادہ ہلاکتیں ایک ناقابل قبول المیہ ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں اکثر کا تعلق افریقی ممالک سے ہے، جب کہ دیگر پاکستان سمیت دنیا کے 28 ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں پاکستان سے ہزاروں نوجوان بہتر مستقل کی تلاش میں یورپ کا رخ کرتے رہے ہیں اور بہت سے واقعات میں کئی سو افراد کی ہلاکتیں بھی ہوئیں ہیں۔ مغربی افریقا سے اس سال ہزاروں تارکین وطن نے جزائر کینری کا رخ کیا جو افریقی ساحل کے پاس واقع اسپین کا ایک جزیرہ نما ہے۔ اس جزیرہ نما کو براعظم تک رسائی کے لیے ایک اہم راستے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 10 ہزار 457 ہلاکتیں 15 دسمبر تک ریکارڈ کی گئی تھیں جن میں زیادہ تر اس جزیرہ نما کے راستے میں واقع ہوئیں۔ بحراوقیانوس کے اس راستے کو دنیا کے پر خطر ترین راستوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ہسپانوی گروپ ہلاکتوں کے اعداد وشمار کو مرتب کرتے ہوئے لاپتا افراد کے خاندانوں اور زندہ بچائے جانے والوں سے متعلق سرکاری اعداد وشمار پر انحصار کرتا ہے۔ گروپ کے اعداد وشمار کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں ایک ہزار 538 بچے اور 421 خواتین بھی شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اپریل اور مئی تارکین وطن کی اموات کے حوالے سے مہلک ترین رہے۔ 2024ء میں موریطانیہ سے آنے والے لوگوں میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ فروری میں اسپین نے موریطانیہ کے لیے 21 کروڑ یورو کی امداد کا اعلان کیا تھا تاکہ انسانی اسمگلروں کے خلاف کارروائی کر سکے۔ مگر اس کے باوجود انسانی اسمگلنگ کی روک تھام میں خاطر خواہ کمی نہیں ہو سکی! جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، یہاں بھی انسانی اسمگلنگ کے کاروبار کی جڑیں بہت گہری ہیں اور بار بار کے حادثات میں پاکستانی تارکین وطن کے بھاری جانی نقصان کے باوجود اور حکومتی ذمے داران کی جانب سے ہر بار سخت تادیبی کارروائیوں اور عبرتناک سزائوں کے اعلانات قطعی بے اثر ثابت ہو رہے ہیں جون 2023ء میں کشتی ڈوبنے کے واقعہ میں سات سو سے زائد لوگوں کی جانیں گئیں جن میں نصف سے زائد تعداد یعنی 360 افراد پاکستانی تارکین وطن تھے، پھر دسمبر 2024ء کے وسط میں اسی طرح کے ایک سانحہ میں کشتی میں سوار چار درجن کے قریب پاکستانی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، چار جنوری کو بھی اس طرح کے واقعہ میں کئی پاکستانیوں کی جانیں گئیں اور اب پھر چوالیس پاکستانی سمندر کی لہروں کی نذر ہو گئے۔ حالیہ سانحہ میں انسانی اسمگلروں کے جس قسم کے غیر انسانی سلوک کی داستانیں سننے میں آئی ہیں اسے سفاکیت کی انتہا ہی قرار دیا جائے گا۔ ان پے در پے واقعات کے بعد ہونا تو یہ چاہیے کہ غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک جانے کے خواہش مند افراد کی آنکھیں کھل جاتیں اور وہ اپنی زندگیوں سے کھیلنے سے باز آ جاتے مگر بدقسمتی سے اس رجحان میں کمی نہیں آ سکی اور لوگ خون پسینے کی کمائی ان انسانی اسمگلروں کے حوالے کر کے موت خرید رہے ہیں۔