مسلم کھلاڑی پر گوتم گمبھیر کا الزام، ہربھجن سنگھ میدان میں آگئے
اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT
جنوری کے پہلے ہفتے میں آسٹریلیا اور بھارت کے درمیان مکمل ہونے والی بارڈر گواسکر ٹرافی کے دوران بھارتی ڈریسنگ روم سے خبریں لیک ہونے کے متعلق متعدد رپورٹس اور افواہیں گردش کر رہی تھیں۔
بھارتی ذرائع ابلاغ کی جانب سے ایک ویڈیو رپورٹ میں بتایا گیا کہ ہیڈ کوچ گوتم گمبھیر نے خبریں لیک کرنے کا الزام سرفراز خان پر عائد کیا ہے۔ جس پر بات کرتے ہوئے بھارت کے اسپن لیجنڈ ہربھجن سنگھ نے گوتم گمبھیر کے لیے پیغام جاری کیا ہے۔
سابق آف اسپنر نے اپنے یوٹیوب چینل پر کہا کہ گزشتہ دنوں جو کچھ بھی ہوا چاہے آسٹریلیا میں ہو یا اس کے بعد، ہر روز ڈریسنگ روم سے باہر کوئی خبر نہیں آنی چاہیئے۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ کوچ صاحب (گوتم گمبھیر) نے کہا ہے کہ سرفراز خان ڈریسنگ روم کی خبریں میڈیا کو لیک کرتے ہیں۔ اگر کوچ نے ایسا کہا ہے تو ان کو ایسا نہیں کہنا چاہیئے تھا۔
انہوں نے کہا کہ اگر سرفراز خان نے ایسا کیا تھا تو آپ کوچ تھے، آپ اس سے بات کر سکتے تھے۔ وہ ایک کھلاڑی ہے، آپ اس کو سمجھا سکتے تھے۔ وہ نوجوان کھلاڑی ہے اس کو مستقبل میں بھارت کے لیے کھیلنا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بطور سینئر کھلاڑی یہ ہماری ذمہ داری ہوتی ہے کہ نوجوانوں کو سمجھائیں۔ اگر انہوں نے (گمبھیر) نے یہ کہا ہے کہ سرفراز نے خبریں لیک کیں اور اگر کھلاڑی نے ایسا کیا ہے تو یہ غلط ہے۔ ڈریسنگ روم کی گفتگو باہر نہیں آنی چاہیئے۔
واضح رہے گوتم گمبھیر نے بی سی سی آئی کے ساتھ ایک میٹنگ میں میلبرن ٹیسٹ میں شکست کے بعد ڈریسنگ روم میں ان کے رویے کے متعلق معلومات لیک کرنے کا ذمہ دار سرفراز خان کو ٹھہرایا تھا۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
بی جے پی کی مسلمان دشمنی کھل کر سامنے آ گئی؟ مغربی بنگال میدانِ جنگ بن گیا
بھارت میں مسلم مخالف وقف بل کے پاس ہونے کے بعد مغربی بنگال سمیت کئی ریاستیں شدید احتجاج کی لپیٹ میں ہیں۔ مرشد آباد میں وقف بل کے خلاف مظاہرے پرتشدد شکل اختیار کر گئے، جہاں جھڑپوں کے دوران تین افراد ہلاک جبکہ 150 سے زائد مظاہرین کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق صورتحال بدستور کشیدہ ہے، اور احتجاجی سرگرمیوں کو دبانے کے لیے انٹرنیٹ سروس تاحال معطل ہے جبکہ سیکیورٹی فورسز کی جانب سے مزید گرفتاریاں بھی جاری ہیں۔
بی جے پی حکومت پر الزام ہے کہ وہ مسلمانوں کی آواز دبانے کے لیے ریاستی طاقت کا بے دریغ استعمال کر رہی ہے۔ مظاہرین اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھارتی حکومت کے ان اقدامات کو جمہوری آزادیوں پر حملہ قرار دیا ہے۔
اسی دوران بی جے پی رکن پارلیمنٹ جیوتیرمے سنگھ مہتو نے وزیر داخلہ امیت شاہ کو خط لکھ کر مغربی بنگال میں آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ (AFSPA) نافذ کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔
یہ قانون، جسے "کالا قانون" بھی کہا جاتا ہے، سیکیورٹی فورسز کو غیر معمولی اختیارات فراہم کرتا ہے، جن میں بغیر وارنٹ گرفتاری، تلاشی اور طاقت کا بے لگام استعمال شامل ہے۔ ناقدین کے مطابق اس قانون کے ذریعے ریاستی ظلم کو قانونی تحفظ مل جاتا ہے، اور جبری گمشدگیوں، غیرقانونی حراستوں اور ماورائے عدالت قتل جیسے اقدامات کی راہ ہموار ہوتی ہے۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بی جے پی کا مقصد AFSPA کے ذریعے مسلمانوں کو ریاستی جبر کا شکار بنا کر ان کی سیاسی، سماجی اور مذہبی شناخت کو دبانا ہے۔
یہ سوال اب شدت سے اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا مغربی بنگال کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کیا جا رہا ہے؟ اور کیا بھارت میں مذہبی شناخت جرم بن چکی ہے؟