کرم شورش: بگن میں خوراک و ادویات کی رسد کاٹنے کے لیے امدادی قافلے پر راکٹ حملے و فائرنگ
اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT
خیبر پختونخوا کے شورش زدہ اور فرقہ وارانہ فسادات سے متاثرہ قبائلی ضلع کرم میں قیام امن کے لیے حکومتی کوششوں کو اس وقت بڑا دھچکا لگا جب کلیئرنس کے بعد پاڑاچنار جانے والے قافلے پر حملہ کیا گیا اور کئی گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی۔
کرم پولیس اور ڈپٹی کمشنر آفس کے مطابق فائرنگ کا واقعہ بگن نامی گاؤں میں پیش آیا جہاں مسلحہ افراد نے بھاری ہتھاریوں سے قافلے کو نشانہ بنایا۔ سرکاری حکام کے مطابق سخت سیکیورٹی میں اشیائے خورونوش لے جانے والی گاڑیوں پر راکٹ داغے گئے اور اندھا دھند فائرنگ گئی۔
ایک اہلکار جاں بحق 3 افراد زخمیسرکاری حکام کے مطابق قافلے میں 35 سے زائد گاڑیاں تھی جو اشیائے خورونوش، ادویات اور دیگر سامان لے کر پاڑاچنار کر رہی تھیں۔
حملے کے بعد مسلح افراد نے گاڑیوں کو اگ لگا دی جس سے امدادی سامان سے لدی کئی گاڑیوں کو نقصان پہنچا۔ حکام نے بتایا کہ حملے 4 افراد زخمی ہوئے جن میں ایک سیکیورٹی اہلکار زخمیوں کی تاب نہ لاکر جاں ہو گیا جبکہ باقی اسپتال میں زیر علاج ہیں۔
پولیس 35 میں سے 21 گاڑیاں بچا سکیحملے کے فوراً بعد رابطہ کرنے پر متعلقہ حکام نے بتایا کہ پولیس نے جوابی کارروائی شروع کر دی اور 21 گاڑیوں کو بحفاظت واپس ٹل روانہ کر دیا گیا۔
واقعے کے بعد علاقے میں حالات پھر کشیدہ ہو گئے جبکہ علاقے جوابی کارروائی کے دوران 5 حملہ آوروں کے ہلاک ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔ تاہم آزادانہ اور مقتلقہ حکام سے اس کی تصدیق نہ ہو سکی۔
حملے کے بعد حالات کشیدہ، بنکرز مسمار کرنے کا عمل معطلبگن میں قافلے پر حملے کے بعد فرقہ وارانہ فسادات سے متاثرہ کرم میں حالات ایک بار پھر کشیدہ ہو گئے ہیں۔ قبل ازیں حکومت اور جرگے کی کوششوں سے معاملات بہتری کی طرح بڑھ رہے تھے۔ ذرائع کے مطابق جرگے کی کوششوں سے مقامی قبائلی عمائدین بنکرز گرانے پر راضی ہوگئے تھے اور چند روز قبل نجی بنکرز کو مسمار کرنے کا عمل شروع ہوا تھا تاہم بگن کے مقام پر ایک بار پھر حملے کے بعد بنکرز مسمار کرنے کا عمل بھی تعطل کا شکار ہوگیا۔
ذرائع کا بتانا ہے کہ حملے کے بعد مخالف قبائل ایک بار پھر مورچہ زن ہو گئے ہیں اور فسادات کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
پاڑاچنار ہنوز محصور، اشیائے خورونوش و ادویات کی قلت اور حکومت کی رٹ
سرکاری حکام کے مطابق کرم میں شاملات کی زمین پر شروع ہونے والے لڑائی فرقہ فسادات کی شکل اختیار کر چکی ہے جس میں اب تک سینکڑوں افراد زندگی کی بازی ہار ہو چکے ہیں۔
حالیہ فسادات بھی ٹل پاڑاچنار روڈ پر پاڑاچنار جانے والے مسافروں پر حملے کے بعد شروع ہوئے جس کی وجہ سے علاقے کا ملک کے دیگر حصوں سے رابطہ 100 سے بھی زیادہ دنوں سے منقطع ہے۔
اس صورتحال کے باعث پاڑاچنار اور ملحقہ علاقوں میں اشیائے خورونوش، ادویات اور دیگر ضروریات اشیا کی شدید قلت ہے۔ صوبائی حکومت نے ہنگامی بنیادوں پر ہیلی کاپٹر کے ذریعے ادویات اور دیگر ضروریات کی سپلائی بھی کر رہی ہے جبکہ مریضوں کو ہیلی سے پشاور منتقل کر رہی ہے۔
مقامی افراد اور حکام کے مطابق پاڑاچنار روڈ بندش بچے اور بیمار زیادہ متاثر ہوئے ہیں اور علاج کی سہولت بروقت نہ ملے سے 50 سے زیادہ بچے جاں بحق ہوچکے ہیں۔
مقامی افراد حکومت کو ذمے دار قرار دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق صوبائی حکومت معاملے کو سنجیدہ نہیں لے رہی اور اپنی رٹ قائم کرنے کے بجائے جرگے کا سہارا لے رہی ہے جس کی وجہ سے صورت حال مزید ابتر ہورہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کرم میں قبائل کے پاس ہر قسم کے ہتھیار ہیں اور فرقہ وارانہ فسادات میں بھاری ہتھاریوں سے ایک دوسرے کو نشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ نجی بنکرز میں ہر وقت مسلح افراد موجود ہوتے ہیں جن کے خلاف حکومت کوئی کارروائی نہیں کر رہی۔
علاقے میں اسلحے کی دوڑکرم میں لوگ اب تعلیم، صحت اور بچوں پر خرچ کرنے کے بجائے قبائل اسلحہ خریدتے ہیں۔
کرم کے مقامی افراد بتاتے ہیں لڑائی ایک طویل عرصے سے جاری ہے جس کے باعث ان کی زندگی شدید متاثر ہو کر رہ گئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ نوجوان کام کاج کرنے کی بجائے بجائے اسلحہ اٹھا کر لڑنے میں مشغول ہیں جبکہ یہاں کے کچھ افراد بیرونی ممالک میں مزدوری کرکے لڑائی کے لیے اسلحہ خریدتے ہیں۔
مقامی افراد نے بتایا کہ ہم تعلیم، صحت، خوراک یا دیگر ضروریات پر کم اور اسلحے پر زیادہ خرچ کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ بھاری رقم اسلحہ کی خریداری کے لیے آپس میں چندہ بھی کرتے ہیں۔
فسادات کا پس منظرقبائلی ضلع کرم میں 2 قبائل کے مابین تنازع ایک عرصے سے جاری ہے اور باقاعدہ مورچہ زن ہوکر ایک دوسرے کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ تنازع شمالاتی زمین پر شروع ہوا تھا جو اب فرقہ وارانہ فساد کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
حالیہ تنازع چند ماہ پہلے پاڑاچنار جانے والی گاڑیوں کے قافلے پر حملے سے شروع ہوا تھا جس میں 40 سے زیادہ لوگ زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔ اس کے جواب میں اگلے روز مسلح افراد مقامی گاؤں بگن پر حملہ آور ہوگئے تھے اور گھروں اور بازاروں کو اگ لگادی تھی جس کے بعد حالات مزید کشیدہ ہو گئے۔
تب سے پاڑاچنار پشاور روڈ بدستور بند ہے جس کے باعث علاقے میں اشیائے خورونوش اور ادویات و دیگر ضروری اشیا کی شدید قلت ہے۔ مزید برآں پاڑاچنار اور ملحقہ علاقوں کے مکین محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امدادی قافلے پر حملہ بگن سے حملہ کرم کرم امن کوششیں کرم شورش.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امدادی قافلے پر حملہ بگن سے حملہ کرم امن کوششیں اشیائے خورونوش حکام کے مطابق فرقہ وارانہ مقامی افراد حملے کے بعد گاڑیوں کو قافلے پر کے لیے ہو گئے رہی ہے کر رہی
پڑھیں:
لوئر کرم میں ممکنہ آپریشن، متاثرین کے لیے ٹی ڈی پیز کیمپ قائم کرنے کا اعلان
لوئر کرم میں ممکنہ آپریشن، متاثرین کے لیے ٹی ڈی پیز کیمپ قائم کرنے کا اعلان WhatsAppFacebookTwitter 0 18 January, 2025 سب نیوز
پشاور:خیبرپختونخوا کے ضلع کُرم میں عسکریت پسندوں کے خلاف ممکنہ آپریشن کے پیش نظر عارضی طور پر بےگھر افراد کے لیے ٹی ڈی پیز کیمپ قائم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ضلع کرم کے ڈپٹی کمشنر کے دفتر کی جانب سےجاری نوٹیفکیشن کے مطابق ’قانون نافذ کرنے والے ادارے لوئر کُرم کے مختلف علاقوں میں دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کے لیے آپریشن کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔‘
نوٹیفکیشن میں مزید کہا گیا ہے کہ ممکنہ آپریشن کے دوران متاثرہ آبادی کے تحفظ اور امداد کو یقینی بنانے کے لیے ٹی ڈی پیز کے لیے کیمپ قائم کیے جا رہے ہیں۔
ضلعی انتظامیہ کے مطابق ٹل کے علاقوں میں گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج، گورنمنٹ ٹیکنیکل کالج، ریسکیو 1122 کمپاؤنڈ اور جوڈیشل عمارت میں کیمپ قائم کیے جائیں گے۔
ٹی ڈی پیز کیمپوں کے قیام کا اعلان عسکریت پسندوں کی جانب سے امدادی قافلے پر حملے کے ایک دن بعد سامنے آیا ہے۔
ضلع کرم کے لیے امدادی سامان لے جانے والے قافلے پر فائرنگ کا واقعہ جمعرات کو پیش آیا، جب پاڑہ چنار جانے والے قافلے پر بگن کے مقام پر مسلح افراد نے فائرنگ کی۔
پولیس کے مطابق امدادی سامان لانے والے قافلے پر حملے میں 10 افراد ہلاک ہوئے جبکہ چھ ڈرائیوروں کے اغوا کی اطلاعات ہیں۔
ضلع کرم میں متحارب گروپوں کے درمیان یکم جنوری کو طے پانے والے امن معاہدے کے باوجود کشیدگی بدستور برقرار ہے۔ امن معاہدے کے تحت فریقین نے بنکروں کو مسمار کرنے اور دو ہفتوں کے اندر بھاری ہتھیار حکام کے حوالے کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
گزشتہ ماہ کے اواخر سے صوبائی حکام امدادی سامان فراہم کر رہے ہیں اور بیماروں اور زخمیوں کو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے کرم سے پشاور منتقل کیا جا رہا ہے۔