Islam Times:
2025-04-13@19:51:54 GMT

غزہ میں جنگ بندی سے صیہونیوں کی حتمی شکست

اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT

غزہ میں جنگ بندی سے صیہونیوں کی حتمی شکست

اسلام ٹائمز: دوسری طرف اسرائیل کی جانب سے حماس کے ساتھ جنگ بندی معاہدے پر دستخط کر دینا بذات خود اس کی بہت بڑی شکست ہے کیونکہ غزہ جنگ کا سب سے اہم اور بنیادی مقصد ہی حماس کو نابود کر دینا تھا۔ لیکن اب حماس سے جنگ بندی معاہدہ طے پانا اس بات کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ حماس کا وجود نہ صرف باقی ہے بلکہ وہ اس پوزیشن میں بھی ہے کہ جنگ بندی معاہدے کے لیے امریکہ اور اسرائیل سے اپنی شرطیں منوا سکے۔ ڈونلڈ ٹرمپ ایک تاجر ہے اور وہ محسوس کر رہا ہے کہ غزہ جنگ جاری رہنے کی صورت میں امریکہ کو بھاری تاوان ادا کرنا پڑے گا۔ دوسری طرف ریاست کیلی فورنیا میں جنگل کی آگ نے بھی امریکہ کی اندرونی صورتحال انتہائی کشیدہ اور بحرانی کر دی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نیتن یاہو کی جانب سے جنگ بندی قبول کرنے میں اس بحران کا بھی گہرا اثر ہے۔ تحریر: رسول سنائی
 
غزہ میں حماس اور غاصب صیہونی رژیم کے درمیان جنگ بندی کی خبریں شائع ہو رہی ہیں۔ سی بی ایس نیوز چینل نے رپورٹ دی ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے لیے کچھ بنیادی اصولوں پر اتفاق رائے ہو چکا ہے اور اگر سب کچھ ٹھیک سے آگے بڑھے تو اسی ہفتے جنگ بندی کا اعلان بھی کر دیا جائے گا۔ اسی طرح ایسی خبریں بھی شائع ہوئی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی حکومت جنگ بندی کے بعد غزہ کے انتظامی امور چلانے کے لیے ایک منصوبہ بھی تیار کر رہی ہے جسے البتہ ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت عملی جامہ پہنائے گی۔ مزید برآں، میدان جنگ کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ صیہونی فوج غزہ کی پٹی سے پیچھے ہٹ رہی ہے اور غزہ کے شمالی حصے کو جنوبی حصے سے جدا کرنے والے نیتساریم بفر زون میں بھی اپنی فوجی تنصیبات ختم کرنے میں مصروف ہے۔
 
غزہ میں موجودہ جنگ بندی کو مذاکرات میں "عظیم کامیابی" قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ جنگ بندی صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی جانب سے حماس کی دو بنیادی شرطیں یعنی جنگ بند کرنا اور غزہ سے فوجی انخلاء، قبول کرنے کے بعد امکان پذیر ہوئی ہے۔ یہ بذات خود حماس کی فتح اور غاصب صیہونی رژیم کی شکست ہے۔ البتہ غاصب صیہونی رژیم اور اس کے حامیوں نے اصل حقائق پر پردہ ڈالنے کے لیے نفسیاتی جنگ کا آغاز کر دیا ہے اور میدان جنگ میں ہونے والی شکست کا ازالہ سوشل میڈیا اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے رائے عامہ میں اپنی مرضی کا تاثر دے کر کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف امریکی حکمران غزہ میں جنگ بندی کو اپنا کارنامہ ظاہر کر رہے ہیں اور اسے جو بائیڈن کے کامیاب منصوبے کے طور پر پیش کرنے میں مصروف ہیں۔
 
لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کو جنگ بندی پر مجبور کرنے والے اصل اسباب اسلامی مزاحمتی گروہوں کی عظیم استقامت اور مزاحمت کی جانب پلٹتے ہیں۔ وہ اسباب جنہوں نے بے رحم اور قاتل صیہونی حکمرانوں کو غزہ میں نسل کشی روک دینے پر مجبور کیا ہے درج ذیل ہیں:
1۔ غاصب صیہونی رژیم کو پہنچنے والا عظیم نقصان جو صیہونی فوج اور صیہونی معاشرے کی برداشت سے باہر تھا۔ اس نقصان کے نتیجے میں صیہونی فوج افرادی قوت کی قلت کا شکار ہو گئی لہذا وہ جنگ مزید جاری رکھنے سے عاجز آ چکی تھی۔
2۔ صیہونی فوجی تمام تر فوجی اور ٹیکنالوجی برتری ہونے کے باوجود غزہ کی پٹی جانے اور وہاں رہنے سے شدید خوفزدہ تھے کیونکہ حماس مسلسل گھات لگا کر حملے کرتی اور انہیں جانی نقصان پہنچا رہی تھی۔ حالیہ کچھ ہفتوں میں حماس کے مجاہدین اسرائیل کے ناکارہ بموں اور میزائلوں سے ہی دھماکہ خیز مواد جمع کر کے صیہونی فوجیوں کے خلاف کاروائیاں کرنے میں مصروف تھے۔
 
3۔ غزہ میں فلسطینی مجاہدین کے بے مثال استقامت اور مزاحمت نے مقبوضہ فلسطین کے دیگر حصوں میں رہنے والے فلسطینیوں کو بھی متاثر کیا تھا اور مغربی کنارے میں بھی اسلامی مزاحمت کی شدید لہر معرض وجود میں آ چکی تھی۔ مزید برآں، آئے دن مقبوضہ بیت المقدس اور دیگر مرکزی حصوں میں بھی انفرادی طور پر فلسطینی شہری غاصب صیہونیوں کے خلاف مزاحمتی کاروائیاں انجام دینے میں مصروف تھے۔
4۔ عالمی سطح پر غزہ میں اسرائیل کی وحشیانہ بربریت اور معصوم بچوں اور خواتین کے قتل عام کا نتیجہ عالمی رائے عامہ میں اسرائیل سے نفرت میں شدید اضافے کی صورت میں ظاہر ہو رہا تھا۔ دوسری طرف عالمی قانونی اداروں کی جانب سے صیہونی حکمرانوں پر نسل کشی کا جرم ثابت ہو جانے کے بعد دنیا کے اکثر ممالک میں صیہونیوں کی آمدورفت خطرے میں پڑ چکی تھی۔
 
ایسی صورتحال میں غاصب صیہونی رژیم نے خود کو جنگ بندی معاہدہ قبول کرنے پر مجبور محسوس کیا ہے اور بے بسی کے عالم میں جنگ بندی قبول کی ہے۔ البتہ امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے بنجمن نیتن یاہو پر جنگ بندی کے لیے دباو نے بھی اثر دکھایا ہے۔ لیکن صیہونی وزیراعظم کی کابینہ میں شامل انتہاپسند وزیر اب بھی مستعفی ہو جانے کی دھمکیاں دے رہے ہیں جن کے باعث نیتن یاہو حکومت متزلزل ہو چکی ہے۔ نیتن یاہو کے انتہاپسند وزیروں کا مطالبہ ہے کہ غزہ سے فوجی انخلاء نہ کیا جائے، نیتساریم بفر زون برقرار رکھا جائے اور مصر اور غزہ کی سرحد پر فیلاڈیلفیا پٹی پر بھی فوجی قبضہ برقرار رکھا جائے۔ لہذا اب جنگ بندی کے بعد صیہونی کابینہ میں ایک نیا طوفان برپا ہونے والا ہے۔
 
دوسری طرف اسرائیل کی جانب سے حماس کے ساتھ جنگ بندی معاہدے پر دستخط کر دینا بذات خود اس کی بہت بڑی شکست ہے کیونکہ غزہ جنگ کا سب سے اہم اور بنیادی مقصد ہی حماس کو نابود کر دینا تھا۔ لیکن اب حماس سے جنگ بندی معاہدہ طے پانا اس بات کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ حماس کا وجود نہ صرف باقی ہے بلکہ وہ اس پوزیشن میں بھی ہے کہ جنگ بندی معاہدے کے لیے امریکہ اور اسرائیل سے اپنی شرطیں منوا سکے۔ ڈونلڈ ٹرمپ ایک تاجر ہے اور وہ محسوس کر رہا ہے کہ غزہ جنگ جاری رہنے کی صورت میں امریکہ کو بھاری تاوان ادا کرنا پڑے گا۔ دوسری طرف ریاست کیلی فورنیا میں جنگل کی آگ نے بھی امریکہ کی اندرونی صورتحال انتہائی کشیدہ اور بحرانی کر دی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نیتن یاہو کی جانب سے جنگ بندی قبول کرنے میں اس بحران کا بھی گہرا اثر ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: غاصب صیہونی رژیم جنگ بندی معاہدے ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کہ غزہ جنگ نیتن یاہو قبول کرنے میں مصروف کا سب سے حماس کے میں بھی کے بعد جنگ کا ہے اور کے لیے اور اس

پڑھیں:

ہم فرانسیسی صدر کے بیانات کا خیرمقدم کرتے ہیں، حماس

اے ایف پی کے مطابق حماس کا کہنا ہے کہ فرانس سلامتی کونسل کے مستقل رکن کے طور پر یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ منصفانہ حل کے راستے پر اثر انداز ہو، اسرائیلی تسلط کو ختم کرنے اور فلسطینی عوام کی امنگوں کو پورا کر سکے۔ اسلام ٹائمز۔ اسلامی تحریک مزاحمت حماس نے فرانس کے صدر عمانویل میکروں کے آئندہ جون تک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے منصوبے کے اعلان کا خیرمقدم کیاہے، اور اسے ایک "اہم قدم” قرار دیا ہے۔ اس حوالے سے حماس رہنما محمود مرداوی نے اے ایف پی کو بتایا کہ فرانس ایک سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے ملک اور سلامتی کونسل کے مستقل رکن کے طور پر یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ منصفانہ حل کے راستے پر اثر انداز ہو، اسرائیلی تسلط کو ختم کرنے اور فلسطینی عوام کی امنگوں کو پورا کر سکے۔

چینل فرانس 5 پر نشر ہونے والے ایک انٹرویو میں میکروں نے اعلان کیا کہ پیرس فلسطینی ریاست کو جون میں ایک کانفرنس کے دوران تسلیم کر سکتا ہے۔ اس کانفرنس میں فرانس کی مشترکہ طور پر اقوام متحدہ اور سعودی عرب کے ساتھ صدارت کریں گے۔ میکروں نے کہا کہ ہمیں پہچان کی طرف بڑھنا چاہیے۔ ہم آنے والے مہینوں میں ایسا کریں گے، ہمارا مقصد سعودی عرب کے ساتھ جون میں ہونے والی اس کانفرنس کی مشترکہ صدارت کرنا ہے، جہاں ہم متعدد فریقوں کے ساتھ (ریاست فلسطین) کو تسلیم کرنے کا مرحلہ مکمل کر سکتے ہیں۔

فرانسیسی صدر کے مطابق کانفرنس کا مقصد ایک فلسطینی ریاست کا قیام اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے فلسطین کا دفاع کرنے والے تمام فریقین کے ذریعے تسلیم کرنا ہے۔ مرداوی نے کہا کہ ہم فرانسیسی صدر کے بیانات کا خیرمقدم کرتے ہیں، ہم اسے ایک اہم قدم سمجھتے ہیں، جس پر عمل درآمد ہونے کی صورت میں ہمارے فلسطینی عوام کے جائز قومی حقوق کی جانب بین الاقوامی پوزیشن میں مثبت تبدیلی کی نمائندگی سمجھا جائیگا۔ واضح رہے فلسطینی ریاست کو تقریباً 150 ممالک تسلیم کر چکے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ریٹائرمنٹ کی منصوبہ بندی
  • ہم یمن کی قابل فخر استقامت کو نہیں بھولیں گے، ابو عبیدہ
  • اسرائیل حماس سے شکست کھا چکا، مسلم حکمران غیرت کا مظاہرہ کرکے خاموشی توڑیں، حافظ نعیم الرحمان
  • اسرائیلی فوج کا موراگ کوریڈور پر قبضہ، رفح اور خان یونس تقسیم، لاکھوں فلسطینی انخلا پر مجبور
  • حماس کی جانب سے صہیونی قیدیوں کی رہائی کے لیے شرائط
  • غزہ کے بچے اور قیدی نیتن یاہو کےگھناؤنے عزائم کا شکار ہوئے ہیں، حماس
  • ہم فرانسیسی صدر کے بیانات کا خیرمقدم کرتے ہیں، حماس
  • فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرنے کی کوئی بھی تجویز قابل قبول نہیں،سعودی عرب
  • نیتن یاہو سے جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والے اسرائیلی پائلٹس نوکری سے برطرف
  • یرغمالیوں کی رہائی؛ حماس اور امریکا مذاکرات اسرائیل نے ناکام بنادیئے