غزہ جنگ بندی معاہدے پر ایرانی وزارت خارجہ کا بیان
اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT
غزہ میں جنگ بندے کے اعلان پر جاری ہونیوالے اپنے بیان میں اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ امید ہے کہ نئی پیشرفت کی روشنی اور بین الاقوامی برادری کی مدد و ذمہ دار بین الاقوامی فریقوں کے موثر کردار سے طے شدہ معاہدے پر مکمل عملدرآمد کا مشاہدہ کیا جائیگا، ایرانی وزارت خارجہ نے تاکید کی ہے کہ ہم اسرائیلی مجرموں کی فی الفور گرفتاری، ٹرائل اور سزا پر تاکید کرتے ہیں! اسلام ٹائمز۔ غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کے اعلان پر ایرانی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کا متن درج ذیل ہے:
بسم الله الرحمن الرحیم
فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ ۖ وَلَا يَسْتَخِفَّنَّكَ الَّذِينَ لَا يُوقِنُونَ
(پس (اے نبیؐ) آپ صبر کریں، یقینا اللہ کا وعدہ سچا ہے اور جو لوگ یقین نہیں رکھتے وہ آپ کو سبک نہ پائیں، الروم 60/30)
وزارت خارجہ اسلامی جمہوریہ ایران، غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے معاہدے کے حصول کہ جو تاریخ کی سب سے بڑی نسل کشی اور عظیم آبادی کی جبری نقل مکانی کے خلاف فلسطین و غزہ کے عظیم عوام کی بے مثال مزاحمت، جرأت، بہادری اور برداشت نیز غزہ کے تمام لوگوں کی اپنی شاندار مزاحمت کے ساتھ ہمدردی و یکجہتی کا نتیجہ ہے؛ پر فلسطینی عوام کی اس عظیم تاریخی فتح کی مناسبت سے فلسطینی عوام و مزاحمتی محاذ کے ساتھ ساتھ خطے سمیت دنیا بھر میں موجود مزاحمت کے تمام حامیوں کو مبارکباد پیش کرتی ہے۔
نسل کشی کی مرتکب قابض رژیم 15 ماہ سے زائد کے عرصے کے دوران؛ تمام بنیادی بین الاقوامی اصولوں اور قواعد و ضوابط سمیت انسانی حقوق و انسانی ہمدردی کے قواعد کی سنگین، منظم و وسیع خلاف ورزیاں کرتے ہوئے فلسطینی عوام کے خلاف اپنے اس "نوآبادیاتی قتل عام" کے منصوبے پر عمل پیرا ہے کہ جو 8 دہائیاں قبل سے استعماری طاقتوں کی گھناؤنی حمایت یا پراسرار خاموشی کے ساتھ جاری ہے، جس کے دوران اس جعلی رژیم نے بے مثال سفاکیت کے ذریعے تمام قانونی و اخلاقی سرخ لکیروں کو عبور کرتے ہوئے، تاریخ میں بربریت کے نئے ریکارڈ قائم کئے ہیں۔ عام لوگوں بالخصوص خواتین و بچوں کا بے دریغ قتل عام، گھروں سمیت اہم انفراسٹرکچر کی مکمل تباہی، ہسپتالوں و اسکولوں پر وحشیانہ بمباری، پناہ گزینوں کے کیمپوں اور خیموں تک پر وحشیانہ حملے نیز صحافیوں، ڈاکٹروں اور طبی عملے کو نشانہ بنانا؛ گذشتہ 15 مہینوں کے دوران انجام پانے والے وسیع جنگی جرائم کا ایک مختصر نمونہ ہیں جن کا فلسطینیوں کو مٹا ڈالنے اور ان کے اندر مزاحمت کے جذبے کو توڑ ڈالنے کی گھناؤنے کی نیت سے انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ ارتکاب کیا گیا۔
ان 15 مہینوں میں جس چیز نے فلسطینیوں کی نسل کشی کے منصوبے کو آگے بڑھانے میں غاصب صیہونی رژیم کی حوصلہ افزائی کی اور اسے مزید شہہ دی؛ امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور کئی ایک دیگر مغربی ممالک کی براہ راست فوجی، مالی و سیاسی حمایت تھی کہ جن کے سربراہان نے اس جعلی صیہونی رژیم کے مجرم لیڈروں کے لئے سزا سے استثنی کو یقینی بناتے ہوئے نہ صرف، قابض رژیم کے جرائم کو روکنے کے لئے اقوام متحدہ کی جانب سے اٹھائے جانے والے کسی بھی موثر اقدام میں رکاوٹ ڈالی بلکہ بین الاقوامی عدالت انصاف (ICJ) اور بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کی جانب سے اسرائیلی مجرموں کے خلاف مقدمات چلائے جانے اور انہیں سزا دیئے جانے پر مبنی بین الاقوامی عمل میں بھی خلل ڈالا ہے۔ ایسے ممالک کو بلاشبہ غاصب صیہونی رژیم کے گھناؤنے جنگی جرائم میں برابر کے شریک کی حیثیت سے جوابدہ ہونا چاہیئے!
امید ہے کہ نئی پیشرفت کی روشنی میں اور بین الاقوامی برادری کی مدد و ذمہ دار بین الاقوامی فریقوں کے موثر کردار کے ساتھ، ہم متفقہ انتظامات پر مکمل عملدرآمد کا مشاہدہ کریں گے جن میں غزہ میں نسل کشی و قتل عام کا مکمل خاتمہ، قابض فورسز کا مکمل انخلاء، غزہ کی پٹی کو فوری و جامع امداد رسانی، اس خطے کی تعمیر نو کے عمل کا آغاز اور غزہ کے صابر و مزاحمت پیشہ عوام کی تکالیف و آلام کی دوری شامل ہے۔
غزہ میں نسل کشی کے خاتمے کے ساتھ ساتھ، بین الاقوامی برادری کو، انتہائی توجہ و حساسیت کے ساتھ، مغربی کنارے میں جاری بین الاقوامی قانون و انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سمیت قابض صیہونی رژیم کی جانب سے مسجد اقصی پر مسلسل حملوں کا نوٹس بھی لینا چاہیئے اور پورے مقبوضہ فلسطین میں غاصب صیہونی رژیم کی انتہا پسندی کا سنجیدگی اور مؤثر طریقے سے مقابلہ کرتے ہوئے، بین الاقوامی عدالت انصاف کے بیان کردہ سنگین ترین جرائم کے ارتکاب پر اسرائیلی رژیم کے مجرم حکام کی گرفتاری، ٹرائل اور سزا کے لئے ٹھوس بنیاد بھی فراہم کرنی چاہیئے۔
ہم ظلم، انتہا پسندی، ناجائز قبضے اور نسل کشی پر مبنی غاصب صیہونی رژیم کی انسانیت سوز جنگ کے خلاف مزاحمتی جدوجہد کے قابل فخر شہداء کو بالخصوص اسمعیل ھنیہ، یحیی السنوار، سید حسن نصر اللہ، سید ہاشم صفی الدین اور فلسطینی آزادی کے مقدس مقصد کے لئے جدوجہد کرنے والے ہزاروں فلسطینی، لبنانی، عراقی، یمنی و ایرانی مجاہدین کہ جنہوں نے مقدس فلسطینی ارمانوں کو بر لانے اور خطے بھر کو غاصب صیہونی رژیم کی توسیع پسندی، لاقانونیت و گھناؤنے جرائم سے بچانے کے لئے اپنی جانیں قربان کیں نیز مزاحمتی محاذ کے "عظیم خاندان" کو بھی سلام پیش کرتے اور ان کے قانونی و حق پر مبنی راستے کے تسلسل پر زور دیتے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: بین الاقوامی کی جانب سے رژیم کے کے خلاف کے ساتھ کے لئے
پڑھیں:
غاصب صیہونی رژیم کو درپیش نئے اسٹریٹجک چیلنجز
اسلام ٹائمز: طوفان الاقصی آپریشن کی ایک اہم کامیابی یہ تھی کہ اس نے غاصب صیہونی رژیم کو گوشہ نشین اور نفرت انگیز رژیم میں بدل کر رکھا دیا اور بین الاقوامی عدالتوں نے اسے ایک مجرم اور باغی رژیم قرار دے دیا۔ اسی سلسلے میں عالمی عدالت انصاف نے صیہونی حکمرانوں پر غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کا جرم ثابت کر دیا اور صیہونی وزیراعظم اور سابق وزیر جنگ کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دیے۔ مزید برآں، خطے اور دنیا کی اکثر اقوام اور حکومتیں جو غزہ جنگ سے پہلے اسرائیل کو جمہوری اقدار کا گہوارہ سمجھتی تھیں اور اس کے ساتھ مختلف شعبوں میں تعاون کر رہی تھیں، غزہ جنگ کے بعد اسے ایک مجرم اور قاتل رژیم قرار دینے لگیں۔ ان واقعات نے صیہونی کاز پر انتہائی کاری ضرب لگائی ہے اور گذشتہ 76 برس سے تعیین شدہ اسٹریٹجک اہداف اور منصوبوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ تحریر: علی احمدی
2025ء کا سال شروع ہوتے ہی اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم اندرونی، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر وسیع چیلنجز سے روبرو ہونے پر مجبور ہے۔ اگرچہ صیہونی رژیم کی معیشت بہت مضبوط ہے اور اس کے پاس جدید ٹیکنالوجیز بھی ہیں لیکن وہ سیکورٹی شعبے میں بہت سی مشکلات کا شکار ہے۔ 7 اکتوبر 2023ء کے دن طوفان الاقصی آپریشن انجام پانے کے بعد اس کی سیکورٹی مشکلات مزید پیچیدہ ہو گئی ہیں۔ طوفان الاقصی آپریشن نے اسرائیل کو ایسی شکست سے روبرو کیا جس کی مثال نہیں ملتی اور تل ابیب جارحانہ پالیسیاں چھوڑ کر دفاعی پالیسیاں اختیار کرنے پر مجبور ہو گیا۔ صیہونی رژیم کے سیاسی اور اسٹریٹجک ماہرین نے طوفان الاقصی آپریشن سے پہلے سیکورٹی شعبے میں مختلف قسم کے اہداف کا تعین کر رکھا تھا لیکن اس آپریشن کے بعد ان کے تمام منصوبے ناکام ہو گئے اور وہ اپنے اہداف پر نظرثانی پر مجبور ہو گئے۔
نیا سال شروع ہونے کے بعد غاصب صیہونی رژیم ایسے نئے چیلنجز سے روبرو ہے جو ماضی کے چیلنجز سے بالکل مختلف ہیں جبکہ پہلے والے چیلنجز بھی بدستور موجود ہیں۔ گذشتہ سال غاصب صیہونی رژیم اور ایران کے درمیان چند بار براہ راست فوجی ٹکراو انجام پایا ہے اور یہ خطرہ اب بھی صیہونی رژیم کے سر پر منڈلا رہا ہے جبکہ شمالی محاذ پر حزب اللہ لبنان کی تلوار بھی اس کے سر پر لٹک رہی ہے کیونکہ صیہونی فوج حالیہ جنگ میں حزب اللہ لبنان کی فوجی طاقت ختم نہیں کر پائی ہے۔ اس خطرے کی سب سے اہم علامت یہ ہے کہ مقبوضہ فلسطین کے شمال میں واقع یہودی بستیوں سے نقل مکانی کرنے والے آبادکار اب بھی اپنے گھر واپس نہیں لوٹ پائے ہیں۔ دوسری طرف مغربی کنارے سمیت پورے مقبوضہ فلسطین میں مزاحمتی کاروائیاں جاری ہیں۔ ان سب سے ہٹ کر اس سال صیہونی رژیم کو جن نئے اسٹریٹجک چیلنجز کا سامنا ہے وہ درج ذیل ہیں:
1)۔ بین الاقوامی حیثیت کا زوال
طوفان الاقصی آپریشن کی ایک اہم کامیابی یہ تھی کہ اس نے غاصب صیہونی رژیم کو گوشہ نشین اور نفرت انگیز رژیم میں بدل کر رکھا دیا اور بین الاقوامی عدالتوں نے اسے ایک مجرم اور باغی رژیم قرار دے دیا۔ اسی سلسلے میں عالمی عدالت انصاف نے صیہونی حکمرانوں پر غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کا جرم ثابت کر دیا اور صیہونی وزیراعظم اور سابق وزیر جنگ کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دیے۔ مزید برآں، خطے اور دنیا کی اکثر اقوام اور حکومتیں جو غزہ جنگ سے پہلے اسرائیل کو جمہوری اقدار کا گہوارہ سمجھتی تھیں اور اس کے ساتھ مختلف شعبوں میں تعاون کر رہی تھیں، غزہ جنگ کے بعد اسے ایک مجرم اور قاتل رژیم قرار دینے لگیں۔ ان واقعات نے صیہونی کاز پر انتہائی کاری ضرب لگائی ہے اور گذشتہ 76 برس سے تعیین شدہ اسٹریٹجک اہداف اور منصوبوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
2)۔ فوج کی ٹوٹ پھوٹ
غاصب صیہونی رژیم اپنے ڈھانچے میں صرف ایک ادارے کو مقدس قرار دیتی ہے اور وہ فوج ہے۔ صیہونی رژیم کا عقیدہ تھا کہ فوج پر کسی قیمت میں کوئی آنچ نہیں آنی چاہیے لیکن گذشتہ چند سالوں میں اس عقیدے میں بہت حد تک تبدیلی آئی ہے اور صیہونی معاشرے میں فوج ایک متنازعہ ادارہ بن گیا ہے۔ اسی طرح اس پر طرح طرح کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں جن میں کچھ سیاسی گروہوں کو کچلنے کا الزام بھی شامل ہے۔ گذشتہ چند سالوں میں صیہونی فوج کو کئی میدانوں میں واضح شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے جس کی وجہ سے اس کی طاقت اور صلاحیتوں میں شدید کمی واقع ہوئی ہے۔ دوسری طرف ان ناکامیوں کے باعث صیہونی فوج کے حوصلے بھی پست ہو گئے ہیں اور وہ شدید ٹوٹ پھوٹ اور زوال کا شکار ہے۔
ان تمام وجوہات کی بنا پر صیہونی فوج کی حیثیت کو شدید صدمہ پہنچا ہے اور اندرونی سطح پر اس پر صیہونی معاشرے کا اعتماد بھی کم ہوا ہے۔ مستقبل میں خاص طور پر غزہ جنگ ختم ہو جانے کے بعد غاصب صیہونی رژیم کے سیکورٹی اور فوجی ادارے کئی چیلنجز سے روبرو ہوں گے جن میں فوج کی رفتہ عزت و وقار کی بحالی اور یہودی آبادکاروں کا اعتماد بحال کرنا بھی شامل ہیں۔ ان چیلنجز سے نمٹنا کوئی آسان کام نہیں ہے کیونکہ گذشتہ چند برس میں فوجی اہداف کے حصول میں صیہونی فوج کی مسلسل ناکامیوں نے اس کی چہرہ بری طرح مسخ کر دیا ہے۔ اگرچہ اس دوران صیہونی فوج کو محدود پیمانے پر کچھ کامیابیاں بھی حاصل ہوئی ہیں لیکن ناکامیوں کی مقدار اور شدت اس قدر زیادہ ہے کہ ان کے اثرات غالب ہیں جن کے باعث فوج زوال پذیر ہو رہی ہے۔
3)۔ اندرونی سطح پر خلیج میں اضافہ
جب غاصب صیہونی رژیم کا ناجائز وجود قائم ہوا ہے اس کی حکمت عملی "سیکورٹی اور ترقی کی حامل جمہوری یہودی حکومت" کے قیام پر استوار رہی ہے تاکہ یوں اندرونی سطح پر اپنی بقا یقینی بنا سکے۔ دوسری طرف جب سے موجودہ وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور اس کے انتہاپسند اتحادیوں کی جانب سے عدلیہ میں اصلاحات کا منصوبہ شروع ہوا ہے صیہونی معاشرے میں عظیم بھونچال رونما ہونے لگے ہیں۔ صیہونی معاشرہ اس وقت دو دھڑوں میں تقسیم ہو چکا ہے؛ ایک نیتن یاہو کی اصلاحات کا حامی اور دوسرا مخالف اور روز بروز ان دونوں دھڑوں کے درمیان خلیج اور دراڑ بڑھتی جا رہی ہے۔ اسی طرح طوفان الاقصی آپریشن کے بعد حماس کی جانب سے بڑی تعداد میں اسرائیلی یرغمالی بنا لیے گئے اور ان یرغمالیوں کی آزادی کے مسئلے نے بھی صیہونی معاشرے کو دو لخت کر دیا ہے۔